Tag: برسی

  • مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ہم سے جدا ہوئے 52 سال ہوگئے

    مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ہم سے جدا ہوئے 52 سال ہوگئے

    مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی 52 ویں برسی آج ملک بھر میں انتہائی عقیدت واحترام اور قومی جذبے کے ساتھ منائی جارہی ہے۔

    جناح پونجا وہ خوش نصیب باپ ہیں کہ جہان اُن کے بیٹے محمد علی جناح برصغیر کے عظیم مسیحا کے طور پر سامنے آئے وہیں اُن کی بیٹی فاطمہ جناح عملی طور اپنے بھائی کے مشن پر اُن کے ساتھ شامل رہیں۔

    فاطمہ جناح 31 جولائی 1893ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں وہ قائد اعظم محمد علی جناح سے 17 سال چھوٹی تھیں لیکن قائد کی دیکھ بھال اور اُن کے سیاسی مشن کو پورا کرنے کے لیے قدم قدم پر قائد کے ساتھ ہمراہ رہیں۔

    یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح، قائداعظم محمد علی جناح کی بہن ہی نہیں بلکہ ان کی فکری وراثت کی بھی امین تھیں، محترمہ کی زندگی کا بیش ترحصہ اپنے عظیم بھائی کی رفاقت میں بسر ہوا،وہ تحریک پاکستان میں مشغول اپنے بھائی کی دیکھ بھال کے لیے ہر وقت اُن کے ساتھ رہتیں۔

    وہ صرف اپنے بڑے بھائی کی ضروریات کا خیال ہی نہیں رکھتی تھیں بلکہ اُن کے سیاسی مشن کی تکمیل میں معاون ومددگار بھی ثابت ہوئیں،محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے مسلم لیگ کے خواتین ونگ کو منظم کیا اور مسلم لیگ کا پیغام خواتین کے ذریعے گھر گھر پہنچایا۔

    قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی کے آخری انیس برس تو ایسے تھے جب محترمہ فاطمہ جناح ، لمحہ بہ لمحہ اپنے بھائی کے ساتھ رہتی تھیں،یہ وہ وقت تھا جب تحریک پاکستان اپنے منطقی انجام کی جانب رواں دواں تھی۔

    قائد اعظم کے ساتھ طویل رفاقت کے باعث محترمہ کے مزاج اور برتاؤ میں قائد اعظم سے کافی مماثلت پائی جاتی تھی، وہی جذبہ خدمت عوام، وہی جرات و بے باکی اور وہی یقین محکم جو بھائی کی خصوصیات تھیں، قدرت نے بہن کو بھی ودیعت کردی تھیں۔

    خاتون پاکستان نے برصغیر کا شہر بہ شہر دورہ کرکے مسلمان عورتوں میں ایک نئی زندگی پیدا کردی اور یہ محترمہ کی مساعی کا ہی نتیجہ تھا کہ حصول پاکستان کی جدوجہد میں مسلمان عورتوں نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ قابل تعریف خدمات انجام دیں۔

    محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کے دوش بدوش 1936ء میں ہی خدمت قوم و وطن کا بیڑا اٹھا لیا تھا تاہم قائد اعظم کی اہلیہ سے علیحدگی کے بعد سے محترمہ فاطمہ ہر آن قائد کے ہمراہ رہتیں اور ان کی صحت کا خیال رکھتیں، اندرون ملک دوروں کے دوران بھی وہ قائد کے ہمراہ ہوتیں۔

    تقسیم ہند کے بعد ایک نئی مملکت کا قیام جس میں وسائل نہایت قلیل جبکہ مسائل پہاڑ کی مانند تھے اور پھر قائد اعظم کی تیزی سے بگڑتی صحت نے قوم وملت کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا اس دوران محترمہ فاطمہ جناح ہی تھیں جنہوں نے نہ صرف قائد کی تیمارداری اور دیکھ بھال میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی بلکہ قوم و ملت کے حوصلوں کو بھی بلند رکھا۔

    قیام پاکستان کے محض ایک سال بعد ہی قائد اعظم کی وفات نے قوم کے حوصلے پست کر دیے تھے اور دشمنوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ علیحدہ اسلامی ریاست کا خواب ایک سال بعد بھی چکنا چور ہوتا نظر آرہا ہے ایسے موقع پر ایک بار پھر محترمہ نے قوم کے جذبوں کو اپنی تقاریر سے جِلا بخشی۔ قوم کو دوبارہ سے قائد کے پیغام پر یکجا کیا اور اُن میں نئی روح پھونکی۔

    اس حوالے سے محترمہ فاطمہ جناح نے مسلسل جدوجہد کی اور وہ مختلف مواقع پر قوم سے مخاطب بھی ہوتی رہیں۔ انہوں نے پاکستان کے مختلف قومی دنوں اور تہواروں کے مواقع پر ریڈیو پاکستان سے بھی عوام سے خطاب کیا۔ اس سلسلے کا آغاز قائداعظم کی زندگی میں ہی ہوچکا تھا۔

    ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ اور محترمہ کی تقاریر کے ایک نایاب مجموعے گلبانگ حیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ریڈیو پاکستان سے محترمہ فاطمہ جناح کی پہلی تقریر 5 نومبر 1947ء کو نشر ہوئی تھی۔ قائداعظم کی زندگی ہی میں محترمہ فاطمہ جناح کی دوسری تقریر 28 مارچ 1948ء کو ریڈیو پاکستان ڈھاکا سے نشر ہوئی تاہم محترمہ فاطمہ جناح نے قائداعظم کی رحلت کے بعد ریڈیو پاکستان سے جو پہلی تقریر نشر کی اس کی تاریخ نشریہ27 ستمبر 1948ءتھی۔

    ریڈیو پاکستان سے محترمہ فاطمہ جناح کی تقاریر کا یہ سلسلہ جاری رہا اور یوم آزادی، یوم وفات قائداعظم اور عیدالفطر کے مواقع پر محترمہ فاطمہ جناح اپنی نشری تقریروں کے ذریعے قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی رہیں، ان تمام تقاریر اور بیانات کے مسودے محترمہ کی تقاریر کے پہلے مجموعے گلبانگ حیات میں محفوظ ہیں۔

    صرف اتنا ہی نہیں جب خاتون پاکستان کو لگا کہ پاکستان میں جمہوری عمل کو خطرہ لا حق ہے تو وہ دوبارہ میدان عمل میں نکلیں اور انہوں نے ملک بھر میں جلسے کرکے ڈکٹیٹرز کو للکارا، پوری قوم ایک بار پھر محترمہ کی آواز پر لبیک کرتے ہوئے جوق در جوق اُن کے قافلے میں شامل ہونے لگے۔

    سازشی عناصر نے محترمہ کو الیکشن میں تو کامیاب نہ ہونے دیا لیکن عوام کے دل سے محترمہ کو محبت کو نکال سکے، یہی وجہ ہے کہ 9 جولائی 1967ء کو جیسے ہی محترمہ کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی تیزی سے پھیلی عوام دھاڑے مارتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے، ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر دل غمزدہ۔

    عوام کی والہانہ عقیدت کے مدنظر حکومت نے محترمہ کی وصیت پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا اور محترمہ کی تدفین اُن کے بھائی قائد اعظم کے پہلو میں کی، عوامی سطح پر خاتون پاکستان کہلانے والی محترمہ فاطمہ جناح کو سرکاری سطح پر مادر ملت کے لقب سے نوازا گیا۔

    یوں قائد اعظم محمد علی جناح کی نظریاتی ساتھی و رفیقہ زندگی میں بھی قائد کی ہمراہ رہیں اور مرنے کے بعد بھی اپنے بھائی کے پہلو میں دفن ہوئیں جہاں ان کی قبر مبارک سیاسی جدو جہد کرنے والے کارکنوں اور تحریک پاکستان کے مقاصد کی روشنی میں ملک کو تعمیر کرنے والوں کے لیے مرجع خلائق ہے۔

  • کشمیریوں کی جدوجہد بھارتی مظالم کے باوجود جاری ہے: دفتر خارجہ

    اسلام آباد: ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کشمیری مجاہد برہان وانی کی تیسری برسی پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد بھارتی مظالم میں شدت کے باوجود جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے کشمیری نوجوان برہان وانی کے تیسرے یوم شہادت پر ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ چلے گئے لیکن بھولے نہیں۔

    ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ برہان وانی کے یوم شہادت پر مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال ہے، کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد بھارتی مظالم میں شدت کے باوجود جاری ہے۔

    خیال رہے کہ شہید برہان وانی جنہوں نے صرف 15 سال کی عمر میں بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد آزادی کا آغاز کیا جنہیں 8 جولائی 2016 کو کرناگ قصبے کے بم ڈورہ گاؤں میں شہید کردیا گیا تھا۔

    22 سال کی عمر میں جام شہادت نوش کرنے والا برہان وانی کشمیر میں جاری تحریک کی نئی شمع روشن کر گیا، وانی کے جنازے پر شروع ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

    برہان مظفر وانی اور دیگر 126 شہدا سمیت تمام شہدائے کشمیر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آج سوموار کو مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال کی جارہی ہے۔

  • مائیکل جیکسن کو مداحوں سے بچھڑے 10 برس بیت گئے

    مائیکل جیکسن کو مداحوں سے بچھڑے 10 برس بیت گئے

    عالمی شہرت یافتہ، کنگ آف پاپ امریکی آنجہانی گلوکار مائیکل جیکسن کو مداحوں سے بچھڑے 10 برس بیت گئے، مائیکل جیکسن کو تاریخ کے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے موسیقار کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    مائیکل جیکسن کو بیسویں صدی کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے، جیکسن کا فن 40 سالوں تک مرکز نگاہ رہا اور اس کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ایک نہیں کئی حوالوں سے درج ہے۔

    مائیکل جوزف جیکسن 29 اگست سنہ 1958 کو امریکی ریاست انڈیانا میں پیدا ہوئے۔ 6 سال کی عمر میں موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا اور پھر مائیکل جیکسن نے جو گایا کمال گایا۔ اپنے پہلے ہی البم آئی وانٹ یو بیک سے مائیکل جیکسن کی شہرت کا سفر شروع ہوگیا۔

    سنہ 1982 میں مائیکل جیکسن کا البم ’تھرلر‘ ریلیز ہوا اور دنیائے میوزک میں تہلکہ مچا دیا، اس البم کو آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والی میوزک البم کا اعزاز حاصل ہے اور اب تک اس کی ساڑھے 6 کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔

    تھرلر کو 8 گریمی ایوارڈز ملے جو ایک ریکارڈ ہے۔

    مائیکل جیکسن نے تھرلر البم کے گیت ’بلی جین‘ پر رقص میں ایک نئی حرکت متعارف کروائی جسے دیکھ کر لوگ ششدر رہ گئے۔ اس حرکت کو بعد ازاں ’مون واک‘ کا نام دیا گیا۔

    تھرلر کے بعد مائیکل جیکسن کا البم ’بیڈ‘ سامنے آیا جس کی 20 ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔ بیڈ کے بعد جیکسن کا ایک اور البم ڈینجرس بھی کامیاب ترین البم ثابت ہوا۔

    مائیکل کی زندگی زندگی دکھوں اور تنازعات سے بھرپور رہی۔ مائیکل نے اپنا بچپن والد کے ہاتھوں تشدد برداشت کرتے اور غربت سہتے ہوئے گزارا تھا۔ یہ کٹھن وقت مائیکل کو ہمیشہ کے لیے ذہنی عارضوں اور نفسیاتی پییدگیوں کا تحفہ دے گیا۔

    وہ اپنے گانوں میں سیاہ فاموں سے کیے جانے والے سلوک کے خلاف آواز تو اٹھاتا رہا تاہم اس احساس کمتری سے نجات نہ پا سکا جو اس کمتر اور ذلت آمیز سلوک کی وجہ سے اس کے اندر پیدا ہوا جو مغرب میں تمام سیاہ فاموں کی زندگی کا حصہ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ دولت اور شہرت حاصل کرنے کے بعد مائیکل نے پلاسٹک سرجری کا سہارا لیا اور اپنی سیاہ جلد کو سفید سے بدل ڈالا۔

    جیکسن ساری زندگی طبی مسائل اور مختلف بیماریوں کا بھی شکار رہا جس کی وجہ سے اکثر وہ اپنا منہ ڈھانپ کر باہر نکلتا تھا۔ اس پر بچوں سے بدسلوکی کے الزامات بھی لگے اور ان کی وجہ سے اسے عدالتوں میں بھی پیش ہونا پڑا۔

    اس نے اپنی دولت کا بڑا حصہ فلاحی کاموں پر خرچ کیا، گنیز بک میں اس کا نام ’سب سے زیادہ فلاحی منصوبوں کی معاونت کرنے والے اسٹار‘ کے طور پر بھی درج ہے۔

    مائیکل نے سنہ 1994 میں آنجہانی امریکی گلوکار ایلوس پریسلے کی بیٹی لیزا میری پریسلے سے شادی کی، جو صرف 19 ماہ چل سکی۔ بعد ازاں اس نے ایک نرس ڈیبی رو سے بھی شادی کی جو 3 سال بعد اختتام پذیر ہوگئی۔

    وہ 3 بچوں کا والد بھی بنا جن میں سے سب سے بڑی بیٹی پیرس جیکسن اس وقت ماڈلنگ کی دنیا میں اپنا نام بنا رہی ہے۔

    10 برس قبل سنہ 2009 میں مائیکل جیکسن 25 اور 26 جون کی درمیانی شب حرکت قلب بند ہونے سے اس دنیا کو چھوڑ گیا۔ ہر مشہور شخصیت کی طرح اس کی موت پر بھی طرح طرح کی قیاس آرئیاں کی گئی۔ اس کی موت کو قتل قرار دیا گیا۔

    یہ بھی کہا گیا کہ وہ معاشی مشکلات کا شکار ہوگیا تھا لہٰذا اس نے خودکشی کی، تاہم اس کے ڈاکٹر کے بیان کے مطابق جیکسن نے مرنے سے قبل دوائیوں کی بھاری مقدار لی تھی جس کی وجہ اسے ہونے والی مختلف تکالیف تھیں۔

    مائیکل جیکسن کی موت کی خبر منظر عام پر آتے ہی کروڑوں افراد نے گوگل کا رخ کیا اور گوگل کا سرچ انجن بیٹھ گیا، دنیا بھر کی بڑی نیوز ویب سائٹس بھی بھاری ٹریفک کی وجہ سے سست روی کا شکار ہوگئیں۔

    7 جولائی کو ادا کی جانے والی مائیکل جیکسن کی آخری رسومات کو 1 ارب افراد نے ٹی وی پر براہ راست دیکھا۔

    موت کے بعد آنجہانی گلوگار کے البمز ایک بار پھر دھڑا دھڑ فروخت ہونے لگے۔ مائیکل جیکسن کی موت سے قبل ریکارڈ کیا گیا گانا دس از اٹ ان کی موت کے بعد ریلیز کیا گیا جس نے مائیکل کی ساری زندگی کمائی گئی دولت کا ریکارڈ توڑ دیا۔

    مرنے کے بعد بھی مائیکل جیکسن کا نام سب سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے والے گلوکاروں میں سرفہرست ہے۔ ان کے مداحوں کی تعداد ان کی موت کے بعد بھی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔

  • معروف مزاحیہ اداکار ببو برال کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 8 برس بیت گئے

    معروف مزاحیہ اداکار ببو برال کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 8 برس بیت گئے

    لاہور: معروف مزاحیہ اداکار ببو برال کی آج 8 ویں برسی ہے، اسٹیج کے ور اسٹائل کامیڈین ایوب اختر المعروف ببو برال نے اپنا فنی سفر 1982 میں گوجرانوالہ سے شروع کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق تیس سال تک سینکڑوں اسٹیج ڈراموں اور متعدد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے لیجنڈ ببو برال کو بچھڑے آج آٹھ سال بیت گئے ہیں۔

    1982 میں گوجرانوالہ سے فنی سفر شروع کرنے والے ببو برال نے بہت جلد شائقین کے دلوں میں جگہ بنا لی اورجلد ہی لاہور منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے اسٹیج کی دنیا کا 30 سالہ ہنستا مسکراتا سفرشروع کیا۔

    انھیں مداحوں میں بے پناہ مقبولیت لاہور لے آئی تھی، ببو برال نے بہ طور گلو کار البم بھی ریکارڈ کرایا، ان کے اسٹیج شو شرطیہ مٹھے نے بہت شہرت حاصل کی۔

    اپنی فنی زندگی میں ببو برال نے اداکاری کے علاوہ اسٹیج ڈرامے بھی لکھے اور ہدایات کاری بھی کی، ان کی آخری فلم 2010 میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم چناں سچی مچی تھی۔

    گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے اسٹیج کے یہ عظیم فن کار اپنے منفرد اسٹائل کے باعث شہرت کی بلندیوں تک پہنچے، ببو برال اسکرپٹ رائٹر اور ہدایت کار بھی تھے۔

    ببو برال نے ٹوپی ڈراما، شرطیہ مٹھے اور عاشقوں غم نہ کرنا جیسے بے شمار ہٹ ڈراموں میں فن کے جوہر دکھائے، ببو برال نے پچاس کے قریب فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔

    انھوں نے انڈسٹری کو مجھے چاند چاہیے، نو پیسا نو پرابلم، کڑیوں کو ڈالے دانا، نکی جئی ہاں سمیت کئی ہٹ فلمیں دیں۔

  • معروف قوال غلام فرید صابری کو بچھڑے 25 برس بیت گئے

    معروف قوال غلام فرید صابری کو بچھڑے 25 برس بیت گئے

    کراچی: قوالی کو نئی جہت دینے والے معروف قوال غلام فرید صابری کو بچھڑے پچیس برس بیت گئے۔

    پاکستان میں قوالی کے فن کوبام عروج تک پہنچانے والے استاد غلام فرید صابری کو ہم سے بچھڑے 25 برس بيت چکے ہيں مگر ان کا مسحور کن کلام آج بھی دل ميں اتر جاتا ہے۔

    قوالی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ اورعہد ساز شخصیت غلام فرید صابری کی آج 25 برسی منائی جارہی ہے، ان کا گایا ہوا کلام آج بھی سننے والوں پر وجد طاری کردیتا ہے۔

    غلام فرید صابری 1930 میں بھارتی صوبے مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے،انھیں بچپن سے ہی قوالی گانے کا شوق تھا، انہوں نے قوالی کی باقاعدہ تربیت اپنے والد عنایت صابری سے حاصل کی۔ 70 اور 80 کی دہائی ان کے عروج کا سنہری دور تھا، انھوں نے “بھر دو جھولی میری یا محمد” جیسی قوالی گا کر دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منویا۔

    قوالی کے فن ميں يکتا حاجی غلام فريد صابری نے 1946ميں پہلی دفعہ مبارک شاہ کے عرس پر ہزاروں لوگوں کے سامنے قوالی گائی، جہاں ان کے انداز کوبے پناہ سراہا گيا۔

    قوالی کے فن میں استاد کا درجہ رکھنے والے غلام فريد صابری نعتیہ قوالی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، جب آپ محفل سماع سجاتے تو سننے والوں پر سحر طاری ہوجاتا۔70 اور 80 کی دہائی میں غلام فرید صابری اور ان کے بھائی مقبول صابری کی جوڑی کا کوئی ہم پلہ نہ تھا۔

    دنيا بھر ميں ان کے مداح محفل سماع کے منتظر رہتے، ان کی قوالياں پاکستانی اور بھارتی فلموں کا بھی حصہ بنيں۔غلام فرید صابری 5 اپریل 1994ء کو دل کا دورے ميں خالق حقيقی سے جاملے لیکن ان کا فن شائقین موسیقی کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔

    غلام فرید صابری کی قوالیوں میں تاجدارِحرم، بھردو جھولی،سرِلامکاں سے طلب ہوئی، ملتا ہے کیا نماز میں مشہورِ زمانہ کلام رہے۔

  • ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے، جب ہم نہیں ہوں گے

    ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے، جب ہم نہیں ہوں گے

    لازوال گیتوں کے شاعر سرور بارہ بنکوی کی انتالیسویں برسی آج منائی جارہی ہے، ان کے سدابہار نغمات آج بھی کانوں میں رس گھول رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق 30 جنوری 1919 کو بارہ بنکی، اتر پردیش میں پیدا ہونے والے باکمال شاعر نے پاکستانی انڈسٹری کو خوب صورت گیتوں‌ سے نوازا۔

    ان کا شمار اردو کے ممتاز شعرا اور مستند فلم سازوں میں‌ ہوتا تھا، انھوں نے مشہور پاکستانی فلم "آخری اسٹیشن” بنائی۔

    سروربارہ بنکوی نے شائقین فن کو تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے، ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے، کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں جیسے لازوال گیت تخلیق کیے۔

    اس منفرد شاعر کے ہاں جذبات کا اظہار اپنے اوج پر دکھائی دیتا، الفاظ موتیوں کی طرح پروے جاتے، خیالات نغمگی کے حامل ہوتے اور یوں ان  کے مصرعے دلوں میں گھر کر جاتے۔

    ان کا اصل نام سعید الرحمن تھا، انھوں نےعملی زندگی کا آغاز فلموں کے مکالمے لکھ کر کیا، بعد ازاں فلم ساز ی اور ہدایت کار ی کے میدان میں بھی فن کے جوہر دکھائے۔ 3 اپریل 1980 کو ان کا ڈھاکا، بنگلا دیش میں انتقال ہوا۔

  • لیجنڈ اداکار محمد علی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے تیرہ برس بیت گئے

    لیجنڈ اداکار محمد علی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے تیرہ برس بیت گئے

    لاہور: مفرد انداز اور مخصوص لب ولہجے کے مالک اداکار محمد علی کی 13ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔

    محمد علی نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے کیا، محمدعلی کو فلمساز فضل احمد کریم فضلی نے اپنی فلم چراغ جلتا رہا میں بطور ہیرو کاسٹ کیا، اس زمانہ میں لالہ سدھیر، سنتوش کمار، درپن اور رحمٰن کے ستارے عروج پر تھے۔

    فلم بینوں کی اکثریت نے محمدعلی کو پہلی ہی فلم میں بطور ہیرومقبولیت کی سند بخشی، محمدعلی کے ساتھ زیبا بطورہیروئن آئیں تو یہ جوڑی نہ صرف فلمی برانڈبن گئی بلکہ فلم کی کامیابی کی ضمانت بھی بنی۔

    اداکارمحمد علی 10 نومبر 1938ء کو ہندوستان کے شہر رامپور کے مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ محمد علی نے اپنے کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدر آباد سے کیا اور 1962ء میں ان کی پہلی فلم ‘چراغ جلتارہا’ ریلیز کی گئی جبکہ محمد علی کی اور مقبول فلم ‘شرارت’ 1964ء میں ریلیز ہوئی۔

    انہوں نے چار دہائیوں تک سلوراسکرین پر حکمرانی کرکے کروڑوں فلم بینوں کے دلوں پر راج کیا، محمد علی نے 300 سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں پنجابی فلمیں بھی شامل ہیں۔ منفرد انداز، آواز کے اتار چڑھاؤ پر مکمل دسترس اور حقیقت سے قریب تر اداکاری نے محمد علی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

    محمد علی کی مشہور فلموں میں جاگ اٹھا انسان‘خاموش رہو‘ ٹیپو سلطان‘ جیسے جانتے نہیں‘آ گ‘ گھرانہ‘ میرا گھر میری جنت‘ بہاریں پھر بھی آئیں گی‘ محبت‘ تم ملے پیار ملا اور دیگر بہت سی فلمیں شامل ہیں۔

    محمد علی نے جس اداکارہ کے ساتھ بھی کام کیا ان کی جوڑی خوب سجی، محمد علی کا شمار ورسٹائل اداکاروں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے کئی کریکٹر رول اور منفی رول بھی بڑی کامیابی سے پرفارم کئے۔

    انیس مارچ سنہ دوہزارچھ کو محمدعلی لاہور میں وفات پاگئے، محمدعلی نے پاکستان کی فلم انڈسٹری پر اپنی اداکاری کے گہرے نقوش چھوڑے۔

  • مرزا اسد اللہ غالب کی آج 150ویں برسی منائی جا رہی ہے

    مرزا اسد اللہ غالب کی آج 150ویں برسی منائی جا رہی ہے

    اردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی 150ویں برسی آج منائی جا رہی ہے، گیارہ سال کی عمر میں پہلا شعر کہنے والے اسد اللہ کو شاید خود بھی علم نہ تھا کہ ان کی شاعری اردو زبان کو رہتی دنیا تک روشن کرتی رہے گی۔

    مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ اور والد کا نام عبداللہ بیگ تھا۔ آپ 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہوگئے تھے، ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہوگئے۔

    آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک
    کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک

    نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810ء میں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراءبیگم سے ہو گئی شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

    رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
    ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

    شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے۔ اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اورقرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے شاہی قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ء میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50 روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔

    آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
    صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

    مرزا غالب اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ شروع میں وہ فارسی اور مشکل اردو زبان میں شاعری کرتے تھے اور اس زمانے میں اسد ان کا تخلص تھا تاہم معاصرین کے طعنوں کے بعد انہوں نے اپنی شاعری کا رخ بدلا اور اسے ایسی آسان زبان، تخیل اور فلسفیانہ انداز میں ڈھالا کہ کوئی اور شاعر ان کے مدمقابل نظر نہیں آتا۔

    آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
    صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

    ان کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اوراشعار میں زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کی گہرائی نے غالب کو عظیم بنایا۔

    شاعری میں روز مرہ محاوروں سے دل میں اتر جانے والی سادگی کے کمال نے غالب کو زمانے میں یکتا کر دیا، وہ بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔

    غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔

    کثرت شراب نوشی کے باعث ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی انتقال سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔

    غم ہستی کو اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
    شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

  • فاطمہ ثریا بجیا کوہم سے بچھڑے 3 برس بیت گئے

    فاطمہ ثریا بجیا کوہم سے بچھڑے 3 برس بیت گئے

    کراچی: پاکستان ٹیلی ویژن کے شمع اور افشاں جیسے مشہور ڈراموں کی خالق فاطمہ ثریا بجیا کو ہم سے بچھڑے دو برس بیت گئے، فاطمہ ثریا بجیا ایک عہد ایک تہذیب اور ایک ادارے کی حیثیت رکھتی ہیں۔

    فاطمہ ثریا بجیا طویل عرصے تک اردو ادب کے دامن میں اپنے نایاب فن پارے ٹانکنے کے بعد تین برس قبل 85 سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں تھیں۔

    ایک ایسی شخصیت جن کی تحریر کے ساتھ لوگوں کے دل دھڑکتے تھے، وہ سراپا سادگی کا نمونہ تھیں اورادبی دنیا کی معروف شخصیت فاطمہ ثریا بجیا نے اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرے کی تربیت کی۔

    فاطمہ ثریا بجیا یکم ستمبرانیس سو تیس کوحیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں، قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی آکر آباد ہوا، فاطمہ ثریا بجیا نے انیس سوساٹھ میں پی ٹی وی سے ناطہ جوڑا، انہوں نے آگہی شمع، افشاں سمیت کئی مشہور ڈرامے لکھے جنہوں نے مقبولیت اور پسندیدگی کے ریکارڈ قائم کئے۔

    ان کے لکھے گئے ڈراموں کو نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں بھی کافی مقبولیت حاصل رہی ہے۔

    فاطمہ ثریا بجیا کو ان کی ادبی خدمات پر حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ حسن کارکردگی اور ہلال امتیاز سمیت کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا جس میں جاپان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ بھی شامل ہے۔

    واضح رہے کہ محترمہ فاطمہ ثریّا بجیا کا خاندان بھی ادبی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے جیسا کہ بھائیوں میں احمد مقصود اور انور مقصود جبکہ بہنوں میں سارہ نقوی، زہرہ نگاہ اور زبیدہ طارق المعروف زبیدہ آپا ہیں۔

  • افضل گرو کی برسی پر مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال

    افضل گرو کی برسی پر مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال

    سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں کشمیری رہنما افضل گرو کی برسی پر میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک اور دیگرحریت رہنماؤں نے ہڑتال کی کال دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کے جرم میں بھارت کے ہاتھوں شہادت پانے والے افضل گروکی برسی کے موقع پرآج مقبوضہ وادی میں مکمل ہڑتال ہے، کاروباری مراکز، تعلیمی ادارے، ٹرانسپورٹ مکمل طور پر بند ہے۔

    افضل گرو کی برسی منانے سے روکنے کے لیے کٹھ پتلی انتظامیہ نے سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور یاسین ملک سمیت دیگر حریت رہنماؤں کو نظر بند کردیا ہے۔

    کٹھ پتلی انتظامیہ نے افضل گرو کی برسی پر بھارت کے خلاف مظاہروں کو روکنے کے لیے سری نگر اور دیگر علاقوں میں غیر اعلانیہ کرفیو لگا دیا ہے۔ موبائل، انٹرنیٹ سروس اور ٹرین سروس بھی معطل کردی گئی ہے۔

    مشعال ملک کا پیغام

    دوسری جانب کشمیری رہنما اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ شہید محمد افضل گرو کو بھارتیوں کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کا مفروضہ باندھ کر تختہ دار پر لٹکایا گیا اور انہوں نے مسکراتے ہوئے تختہ دار کو چوم لیا لیکن باطل و ظالم کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کیا۔

    یاد رہے کہ کشمیری رہنما افضل گرو کو نئی دہلی کی تہار جیل میں 2013 میں پھانسی دے دی گئی تھی اور ان کی تدفین جیل کے احاطے میں ہی کردی گئی تھی۔

    افضل گرو پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے بھارتی پارلیمنٹ پرحملہ کیا تھا جس کے بعد انہیں بھارتی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تھی۔