شاعر مشرق، حکیم الامت، مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کی 80 ویں برسی آج ملک بھرمیں عقیدت واحترام سے منائی جا رہی ہے۔
تفصیلات کےمطابق علامہ اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے، والدین نے آپ کا نام محمد اقبال رکھا۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور مشن ہائی اسکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔
علامہ اقبال ایف اے کرنےکے بعد آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کیے۔
شاعر مشرق 1905 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے اور قانون کی ڈگری حاصل کی، یہاں سے آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
علامہ اقبال شعروشاعری کے ساتھ ساتھ وکالت بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا جبکہ 1922 میں برطانوی حکومت کی طرف سے ان کوسَر کا خطاب ملا۔
شاعرمشرق آزادی وطن کے علمبردار تھے اور باقاعدہ سیاسی تحریکوں میں حصہ لیتے تھے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔
علامہ اقبال کا سنہ 1930 کا الہٰ آباد کا مشہور صدارتی خطبہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے،اس خطبے میں آپ نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔آپ کی تعلیمات اور قائد اعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہوگیا اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔
پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی 21 اپریل 1938 کو علامہ انتقال کر گئے تھے تاہم ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔
علامہ اقبال کی اردو، انگریزی اور فارسی زبان میں تصانیف میسرہیں۔
نثر
علم الاقتصاد
فارسی شاعری
اسرار خودی
رموز بے خودی
پیام مشرق
زبور عجم
جاوید نامہ
پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرقأ
ارمغان حجاز
اردو شاعری
بانگ درا
بال جبریل
ضرب کلیم
انگریزی تصانیف
فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء
اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔
بیسویں صدی کے چند ہی ادیب و شاعر ایسے ہیں جن کے اشعار اور جملے زبان زد عام ہوں۔ ان ہی میں سے ایک معروف ادیب، شاعر، مترجم و سفارت کار ابن انشا بھی شامل ہیں۔ اردو ادب کے ہر فن مولا ابن انشا کی آج 40 ویں برسی منائی جارہی ہے۔
بھارتی شہر جالندھر کے ایک گاؤں میں 15 جون 1927 کو پیدا ہونے والے ابن انشا کا اصل نام شیر محمد تھا۔ ریڈیو پاکستان سمیت کئی سرکاری اداروں سے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے کچھ عرصہ اقوام متحدہ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی اور اس دوران کئی یورپی و ایشیائی ممالک کے دورے کیے۔
بیسویں صدی میں اردو شاعری میں ایک منفرد تازگی، کمال جاذبیت، دلکشی اور حسن و رعنائی پیش کرنے والے ادیب و شاعر ابن انشا نہ صرف ایک مکمل شاعر تھے بلکہ ان کے اندر اردو زبان کو ادبی ستاروں سے مزین کرنے والی تمام خوبیاں و اصناف موجود تھیں۔
انشا جی نے اردو نظم ، غزل، کہانیوں، ناول، افسانوں، سفر ناموں، کالم نگاری، تراجم ،بچوں کے عالمی ادب، مکتوبات اور دیگر ادبی اصناف پر کام کیا۔ ان کے کلام کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ ان کے اشعار گیت و غزل انسانی جذبات کے قریب تر ہوکر دل کے تاروں کو چھولیتے۔
مشتاق احمد یوسفی نے ابن انشا کے مزاحیہ اسلوب کے حوالے سے لکھا تھا، ’بچھو کا کاٹا روتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے۔ انشا جی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے‘۔
ابن انشا کی تصنیفات میں چاند نگر، دل وحشی، اس بستی کے اک کوچے میں، آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابن بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہیں تو چین کو چلیے، نگری نگری پھرا مسافر، خمار گندم ، اردو کی آخری کتاب اور خط انشا جی کے شامل ہیں۔
استاد امانت علی کی گائی ہوئی معروف غزل ’انشا جی اٹھو اب کوچ کرو‘ کے خالق بھی ابن انشا تھے۔
ابھی ادب و فن کے متلاشی ان کی صلاحیتوں سے پوری طرح استفادہ بھی نہ کرسکے تھے کہ 11 جنوری 1978 کو انشا جی دنیا سے کو چ کر گئے۔ اردو ادب کا یہ عظیم ستارہ کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں آسودہ خاک ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
لاڑکانہ : چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ شہید محترمہ بینظیربھٹو نے مظلوم عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کی۔
تفصیلات کے مطابق پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹوزرداری نے شہید بینظیربھٹوکوخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج 27 دسمبرشہید بی بی کوخراج عقیدت پیش کرنےکا دن ہے۔
بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ شہید بی بی کے قاتلوں نے پوری قوم کے قتل کی سازش کی تھی، آصف زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرا لگا کر ملک بچایا۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ شہید محترمہ نے مظلوم عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کی، بی بی نے جان کی قربانی دی،مقصد سے دستبردار نہ ہوئیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ شہید محترمہ کےمقصد کے حصول کی جدوجہد جاری رہےگی، پاکستان کومساوات پر مبنی، جمہوری، پرامن، ترقی پسند بنائیں گے۔
واضح رہے کہ سابق وزیراعظم شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی دسویں برسی آج منائی جارہی ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
اسلام آباد : سینیٹر سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ سانحہ اےپی ایس ملکی تاریخ کا افسوس ترین واقعہ ہے،شہدائے اےپی ایس پاکستان کے ہیرو ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے اے پی ایس شہداء کی تیسری برسی کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ سانحہ اےپی ایس ملکی تاریخ کا افسوس ترین واقعہ ہے قوم شہدائے اے پی ایس کونہیں بھول سکتی، شہدائے اے پی ایس پاکستان کے ہیرو ہیں۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف بھاری نقصان اٹھایا، دہشتگردی کےخاتمے کیلئے کوششیں جاری رکھنا ہونگی۔
پی پی رہنما کا مزید کہنا تھا کہ کسی جماعت کودہشتگردوں کیلئےنرم گوشہ نہیں رکھناچاہئے، جماعتوں کودہشتگردوں کےنظریات کا محافظ نہیں بننا چاہئے۔
انھوں نے کہا کہ دہشتگردی کےخاتمےکیلئےعسکری وسول قیادت کیساتھ ہیں، قوم کو اتحادو اتفاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کی صبح جب پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں خون کی ہولی کھیلی گئی اور خود کو بہادر سمجھنے والے بزدل دہشتگردوں نے بچوں پر حملہ کیاسانحےمیں132طلبہ سمیت141افرادشہید ہوئے جبکہ اس بزدلانہ حملے میں متعدد طلبا زخمی ہوئے، واقعے نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
کراچی: خوشیاں اور مسکراہٹیں بکھیرنے والے معروف پاکستانی کامیڈین اور اسٹیج کے نامور اداکار سکندر صنم کو ہم سے بچھڑے پانچ برس بیت گئے۔
غریب گھرانے میں آنکھ کھولنے والے سکندر صنم نے گھریلو حالات کے باعث بہت کم عمری میں ایک فیکٹری میں مزدوری شروع کی تاہم بعد ازاں انہیں اپنے اندر چھپی صلاحیتیں دکھیں اور انہوں نے شوبز کا انتخاب کیا۔
کراچی کے علاقے کھارادر میں 1960ء میں پیدا ہونے والے سکندر صنم نے 1981ء میں اسٹیج کی دنیا میں قدم رکھا اور پھر آخری ایام تک اُسی سے وابستہ رہے، آپ نے کیرئیر کا آغاز بطور گلوکارکیا تاہم عمرشریف سے دوستی ہونے کے بعد دونوں فنکاروں نے مختلف تقریبات میں اسٹیج کامیڈی کا آغاز کیا۔
دومسخروں کی اس جوڑی سے لوگ اتنا محظوظ ہوئے کہ اگر کسی ڈرامے میں کوئی ایک فرد کم ہوتا توعوام کی دلچسپی اُس میں کم ہی ہوتی۔ سکندر صنم نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنے فن کی وجہ سے پہچانے جانے لگے۔
سکندر صنم کو اُس وقت زیادہ پذیرائی ملی جب انہوں نے بھارتی فلموں کی پیروڈی کو مزاحیہ انداز میں تیار کیا جن میں کھل نائیک، تیرے نام 2، گجنی 2، منا بھائی وغیرہ جیسی فلمیں بنائیں اور لوگوں کو ہنسنے کا موقع فراہم کیا۔
دنیا بھر میں غموں کو دور اور اُن میں مسکراہٹیں بانٹنے والا یہ فنکار جگر کے کینسر میں مبتلا ہوا اور 5 نومبر 2012 کو مداحوں کی آنکھوں میں آنسو چھوڑ گیا۔
اسٹیج ڈراموں میں آج بھی سکندر صنم کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
اسلام آباد: پاکستان کے نامور بیورو کریٹ اور ادیب قدرت اللہ شہاب کا آج اکتیسواں یوم وفات ہے۔ قدرت اللہ شہاب 24 جولائی 1986 کو انتقال کر گئے تھے۔
قدرت اللہ شہاب 26 فروری1917 کو متحدہ ہندوستان کے علاقے گلگت میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے ریاست جموں و کشمیر اور موضع چمکور صاحب ضلع انبالہ میں حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش کیا اور 1941 میں انڈین سول سروس میں شامل ہوئے۔
ابتدا میں قدرت اللہ شہاب نے بہار اور اڑیسہ میں خدمات سر انجام دیں۔ سنہ 1943 میں بنگال میں متعین ہوگئے۔
قیام پاکستان کے بعد حکومت آزاد کشمیر کے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے۔ بعد ازاں پہلے گورنر جنرل پاکستان غلام محمد، پھراسکندر مرزا اور بعد ازاں صدر ایوب خان کے سیکریٹری مقرر ہوئے۔
پاکستان میں جنرل یحییٰ خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے سول سروس سے استعفیٰ دے دیا اور اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے وابستہ ہوگئے۔
اس سے قبل پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل قدرت اللہ شہاب کی کاوشوں سے ہی عمل میں آئی۔ صدر یحییٰ خان کے دور میں وہ ابتلا کا شکار بھی ہوئے اور یہ عرصہ انہوں نے انگلستان کے نواحی علاقوں میں گزارا۔
شہاب نامہ
شہاب نامہ قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت سوانح حیات ہے۔ شہاب نامہ مسلمانان برصغیر کی تحریک آزادی کے پس منظر، مطالبہ پاکستان، قیام پاکستان اور تاریخ پاکستان کی چشم دید داستان ہے جو حقیقی کرداروں کی زبان سے بیان ہوئی ہے۔
اسے حقیقی طور پر پاکستان کے ابتدائی دنوں کی ایک تاریخ کہا جاسکتا ہے، تاہم اس کتاب کے آخری 2 ابواب نے قدرت اللہ کی شخصیت پر بے شمار سوالات کھڑے کردیے۔
مذکورہ ابواب میں قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ انہیں زندگی کے کئی برس تک ایک خفیہ شخصیت کی جانب سے ہدایات موصول ہوتی رہیں۔ اس شخصیت کو انہوں نے ’نائنٹی‘ کے نام سے پکارا ہے۔
ان کے مطابق ایوان صدر میں اہم فرائض کی انجام دہی کے دوران کوئی خفیہ روحانی قوت تھی جو ان سے ملک کے مفاد میں بہتر کام کرواتی، جبکہ ایسا کام جس سے ملک کے مفاد کو خطرہ ہوتا اور مستقبل میں اس کے بدترین اثرات رونما ہوسکتے تھے، وہ رکوانے کی ہدایت دیتی۔
اس باب میں انہوں نے مختلف روحانی شخصیات سے اپنے خصوصی تعلق اور رابطوں کو بھی بیان کیا ہے۔
بقول ممتاز مفتی، ’ساری کتاب ایک ذہین، عقل مند، متوازن شخص کی روئیداد تھی، جس نے آخری باب میں ایک دم درویش بن کر، مصلہ بچھا کر تسبیح ہاتھ میں پکڑ کر اللہ اللہ کرنا شروع کردیا اور خلق خدا کو اللہ اللہ کرنے کی تلقین شروع کردی‘۔
اس وقت مذکورہ ابواب کے بارے میں یہ بھی مشہور ہوگیا کہ یہ باب قدرت اللہ شہاب نے نہیں لکھا بلکہ ان کے حواریوں نے لکھ کر اس کتاب میں شامل کردیا ہے۔
بہرحال اس کے بعد ممتاز مفتی میدان میں آئے اور انہوں نے قدرت اللہ کی شخصیت کے اس پہلو کی وضاحت کرنے کے لیے الکھ نگری لکھ ڈالی۔ الکھ نگری ان کی خود نوشت سوانح حیات ’علی پور کا ایلی‘ کا دوسرا حصہ ہے تاہم یہ صرف قدرت اللہ شہاب کی شخصیت کے گرد گھومتا ہے۔
بقول خود ممتاز مفتی کے، اگر قدرت اللہ اپنی کتاب شہاب نامہ میں ’نائنٹی‘ کا باب شامل نہ کرتے تو وہ کبھی یہ کتاب نہ لکھتے۔
ممتاز مفتی کا کہنا ہے کہ شہاب نے اس کتاب میں اپنی شخصیت کا راز کھول دیا اور اس کے لیے بھی اسے یقیناً حکم دیا گیا ہوگا۔ اپنی کتاب الکھ نگری میں وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ قدرت اللہ سے ملے بھی نہیں تھے اس وقت سے وہ ان کی زندگی پر اثر انداز ہورہے تھے۔
اس کے بعد وہ قدرت اللہ کی شخصیت کے پراسرار اور روحانی پہلوؤں کو بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
بہرحال، شہاب نامہ ایک تاریخی دستاویز ہونے کے ساتھ اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ کسی بھی پاکستانی بیورو کریٹ کی یاداشتوں پر مبنی یہ مشہورترین تصنیف ہے۔
قدرت اللہ شہاب نے 24 جولائی 1986 کو اسلام آباد میں وفات پائی اوراسلام آباد کے سیکٹر ایچ 8 کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
انسانیت سے محبت کرنے والے عظیم سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کو آج دنیا سے رخصت ہوئے ایک برس بیت گیا۔ مذہب، رنگ، نسل اور فرقے کی تفریق کے بغیر بے سہارا لوگوں کی خدمت و مدد کرنے کا جو چراغ انہوں نے روشن کیا تھا وہ آج بھی انسانیت سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں زندہ ہے۔
ایدھی کی زندگی کا مقصد دکھ میں مبتلا افراد کی مدد کرنا تھا، انہیں اس پر فخر تھا اور وہ ساری زندگی یہ کام کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
ایک بار ان سے کسی نے پوچھا تھا، کہ آپ ہندؤوں اور عیسائیوں کی میتیں کیوں اٹھاتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا، ’کیونکہ میری ایمبولینس آپ سے زیادہ مسلمان ہے‘۔
وہ ساری زندگی اس عقیدے پر کاربند رہے کہ انسانیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں۔ ان کی ایمبولینس بغیر کسی تفریق کے ملک کے ہر کونے میں زخمیوں کو اٹھانے پہنچ جاتی تھی۔ چاہے زخمی کوئی ہندو ہو، کوئی عیسائی، کوئی شیعہ، کوئی سنی یا کسی اور مسلک کا پیروکار، ایدھی کی ایمبولینس کسی کو اٹھانے یا دفنانے سے پہلے اس کا مذہب نہیں پوچھتی تھی۔
ایدھی نے کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ وہ کہتے تھے، ’دنیا کے غم میرے استاد اور دانائی و حکمت کا ذریعہ ہیں‘۔
رسمی تعلیم ان کے لیے یوں بھی غیر اہم تھی کیونکہ وہ مانتے تھے کہ لوگ پڑھ کر تعلیم یافتہ تو بن گئے، لیکن ابھی تک انسان نہیں بن سکے۔
ایدھی کو مولانا کہلوانا سخت ناپسند تھا۔ البتہ وہ یہ ضرور چاہتے تھے کہ لوگ انہیں ڈاکٹر کہیں۔ ان کی یہ خواہش یوں پوری ہوئی کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن نے انہیں ڈاکٹری کی اعزازی سند دی۔
قائد اعظم نے ہمیں 69 سال پہلے کام، کام اور صرف کام کا درس دیا۔ اس سبق پر اگر کسی نے صحیح معنوں میں عمل کیا تو وہ ایدھی ہی تھے۔ وہ طویل عرصہ تک بغیر چھٹی کیے کام کرنے کے عالمی ریکارڈ کے حامل ہیں۔ ریکارڈ بننے کے بعد بھی وہ آخری وقت تک جب تک ان کی صحت نے اجازت دی، کام کرتے رہے۔
وہ کہتے تھے، ’میری زندگی کے 4 اصول ہیں، سادگی، وقت کی پابندی، محنت اور دانائی‘۔
ایدھی فاؤنڈیشن میں ایک بھارتی لڑکی گیتا نے بھی پرورش پائی۔ گیتا بچپن میں اپنے خاندان سے بچھڑ کر غلطی سے سرحد پار کرکے پاکستان آئی اور یہاں ایدھی کے وسیع دامن نے اسے پناہ دی۔
بولنے اور سننے سے معذور اس لڑکی کے لیے ایدھی فاؤنڈیشن کی عمارت میں خصوصی طور پر مندر بنایا گیا تھا۔ بلقیس ایدھی اسے اپنی بیٹی بلاتیں اور آنے جانے والوں کو مندر میں جوتوں سمیت جانے سے سختی سے منع کرتیں۔
ایدھی نے ایک بار کہا تھا، ’خدا نے جو بھی جاندار پیدا کیا ہمیں ان سب کا خیال رکھنا چاہیئے۔ میرا مقصد ہر اس شخص کی مدد کرنا ہے جو مشکل میں ہے‘۔
وہ اسی مذہب کے پیروکار تھے جس کی تبلیغ دنیا میں آنے والے ہر پیغمبر اور ہر ولی نے کی۔ وہ کہتے تھے، ’میرا مذہب انسانیت ہے اور یہ دنیا کے ہر مذہب کی بنیاد ہے‘۔
ایدھی کو نوبیل انعام دلوانے کی مہم کئی بار چلائی گئی۔ ان کے انتقال سے ایک برس قبل نوبیل انعام حاصل کرنے والی ملالہ یوسفزئی نے بھی انہیں نوبیل کے لیے تجویز کیا، لیکن ایدھی کو نوبیل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ’مجھے نوبیل نہیں چاہیئے، بس پوری دنیا میں انسانیت سے محبت چاہیئے‘۔
انہیں کئی بار تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان پر کئی بے بنیاد الزامات بھی لگے، لیکن ایدھی نے کسی کو جواب دینے کے بجائے خاموشی سے اپنا کام جاری رکھا، کیونکہ وہ سوچتے تھے، ’محبت الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی، میری انسانیت کی خدمت ہی میری ان سے محبت کا اظہار ہے اور تمہیں اسے قبول کرنا ہوگا‘۔
ایدھی خواتین کی خودمختاری کے بھی قائل تھے۔ وہ کہتے تھے، ’لڑکیوں کو گھر میں بند مت کرو، انہیں باہر جانے دو اور کسی قابل بننے دو تاکہ وہ کسی پر بوجھ نہ بنیں‘۔
ایدھی فاؤنڈیشن نے پاکستان کے علاوہ افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا میں بھی کام کیا۔ 2004 کے سونامی میں ایدھی نے انڈونیشیا کے جزیرہ سماٹرا میں بھی اپنی بے لوث خدمات فراہم کیں۔
وہ مانتے تھے کہ اچھے کام ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ ’لوگ آج بھی یاد رکھتے ہیں کہ 40 سال قبل میں نے ان کی والدہ کو دفنایا، یا ہڑتال اور کرفیو میں ان کے والد کی لاش کو غسل دے کر کفن پہنایا‘۔
کروڑوں روپے کی جائیداد رکھنے والے ایدھی اسے اپنانے سے انکاری تھے۔ وہ اسے عوام کی دولت مانتے تھے اور ساری زندگی انہوں نے دو جوڑوں میں گزاری۔ ان کے پاس ایک ہی جوتا تھا جسے وہ پچھلے 20 سال سے استعمال کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا، ’اگر دولت کو اپنے اوپر خرچ کیا جائے تو یہ انسان کو اس کے اپنوں سے بھی دور کردیتی ہے۔ تکبر، خود غرضی اور برتری دولت کے منفی اثرات ہیں‘۔
زندگی کے بارے میں بھی ایدھی ایک واضح نظریہ رکھتے تھے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ دنیا میں کچھ ناممکن نہیں۔ وہ کہتے تھے، ’اگر تم صحت مند ہو، تو ’کیوں‘ اور ’کیسے‘جیسے الفاظ کبھی تمہاری رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں‘۔
مرنے سے قبل ایدھی نے اپنی آنکھیں بھی عطیہ کردیں۔ جاتے جاتے وہ اپنے جسم کا ہر اعضا عطیہ کرنا چاہتے تھے لیکن ذیابیطس اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں تھا۔ مرنے سے قبل انہوں نے یہ بھی وصیت کردی تھی، کہ میرے جنازے سے عام آدمی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، نہ کسی کا راستہ بند ہو، نہ کسی کو اپنا کام چھوڑنا پڑے۔
انہوں نے ایک بار کہا تھا، ’لوگ مرجاتے ہیں تو صرف ایک ہی جگہ جاتے ہیں، آسمان میں۔ چاہے آپ کہیں بھی انہیں دفنا دیں وہ اسی جگہ جائیں گے، آسمان میں‘۔۔
آج ایدھی بھی آسمانوں کی طرف جا چکے ہیں، لیکن وہ دنیا میں لاوارث لڑکیوں اور ان بچوں کی مسکراہٹ میں زندہ ہیں جنہیں ایدھی ہوم نے پناہ دی، اس شخص کی آنکھوں کی روشنی میں زندہ ہیں جسے ان کی عطیہ کی گئی آنکھیں لگائی گئیں، اور اگر ہم بھی انسانیت کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں تو یقین مانیں کہ ایدھی زندہ ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
اردو ادب کے معروف شاعر اور مزاح نگار سید ضمیر جعفری کو اپنے مداحوں سے بچھڑے ہوئے 18 برس بیت گئے۔
ضمیر جعفری کی مزاحیہ شاعری نہایت مہذب اور پروقار ہے جس میں اپنے مزاج کے مطابق انہوں نے پھکڑ پن سے پرہیز کیا ہے۔ ان کا مزاح معاشرے کے مسائل کا عکاس ہے جس میں ان کا اندرونی کرب بھی جھلکتا ہے۔
اردو کے مشہور مصنف شورش کاشمیری نے ایک بار ان کے لیے کہا، ’طبعاً مسلمان ہیں۔ مسکراتے ہوئے الفاظ میں بھر پور طنز کرنے کا جو ڈھنگ اور رنگ انہیں آتا ہے اس سے سارے پاکستان میں شاید ہی کوئی شخص بہرہ مند ہو‘۔
مزاحیہ شاعری کی صنف میں انہیں اکبر الہٰ آبادی کے بعد دوسرا بڑا شاعر مانا جاتا ہے۔
ضمیر جعفری 50 سے زائد تصانیف کے مصنف ہیں۔ ان کی مشہور کتابوں میں مافی الضمیر، مسدس بدحالی، ولایتی زعفران، نشاط تماشا شامل ہیں۔
اپنی زندگی میں وہ اخبارات کے لیے کالم بھی لکھا کرتے تھے جس میں ہلکے پھلکے اور پر مزاح انداز میں زندگی کی تلخ حقیقتوں کی طرف توجہ مبذول کرواتے۔
ضمیر جعفری کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ہمایوں گولڈ میڈل اور تمغہ قائد اعظم سے نوازا گیا۔
ہر عام انسان کی طرح زندگی کی ستم ظریفیوں کا شکار، لیکن مزاج، الفاظ اور چہرے پر شگفتگی سجائے رکھنے والا یہ شاعر سنہ 1999 میں آج ہی کے دن ہم سے بچھڑ گیا۔
ان کی موت پر احمد ندیم قاسمی صاحب نے کہا کہ، ’ضمیر جعفری کو دیکھ کر کچھ اور زندہ رہنے کو جی چاہا کرتا تھا کہ زندگی کا حسن اور محبت کی گہما گہمی اور شگفتگی اس ایک شخص میں مجسم ہو کر رہ گئی تھی۔ ضمیر محبتوں کا کروڑ پتی بھی ہے اور تخلیقی صلاحیتوں کا جنریٹر بھی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ سیدھے جنت میں گئے ہوں گے‘۔
سید ضمیر جعفری کے چند مشہور اشعار ملاحظہ کریں۔
درد میں لذت بہت، اشکوں میں رعنائی بہت
اے غم ہستی ہمیں دنیا پسند آئی بہت
شوق سے لختِ جگر نورِ نظر پیدا کرو
ظالمو تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
بس یہی فرق ہے نالج اور فالج میں
جیسے مرد چوکیدار لڑکیوں کے کالج میں
محسوس کیا دستِ صبا کو نہیں دیکھا
دیکھا بھی خدا کو تو خدا کو نہیں دیکھا
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
یکم مئی 1993 کو قتل کیے گئے ایم کیوایم کے چیئرمین اور معتدل رہنما عظیم طارق کی آج 24 ویں برسی ہے تاہم اب تک اس قتل کی گتھی سلجھ نہ سکی اور نہ اصل ملزمان سامنے آسکے۔
عظیم طارق الطاف حسین کے حکم پر روپوش ہوئے
عظیم احمد طارق کراچی کی سیاست میں دھیمے مزاج اور شرافت کا عملی نمونہ تھے وہ زمانہ طالب علمی سے ہی بانی ایم کیو ایم کے ساتھ منسلک ہو گئے تھے اور انہی کے حکم پر 1992 میں فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد روپوش ہوگئے۔
روپوشی ختم کرتے ہوئے قائد متحدہ سے قیادت چھوڑنے کا مطالبہ
تاہم چند ماہ بعد ہی ایک دن اچانک منظرعام پر آکر بانی ایم کیو ایم سے قیادت چھوڑنے کا مطالبہ کردیا تھا۔
ایم کیو ایم میں تین دھڑے بن گئے
عظیم احمد طارق نے یہ پریس کانفرنس معروف صنعت کار اور ایم کیو ایم رکن اسمبلی حاجی شفیق الرحمن کے گھر پر کی تھی جہاں دو اور اراکین اسمبلی بھی موجود تھے اور یوں ایم کیوایم جو حقیقی کے وجود میں آنے کے بعد اب تک دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی تھی اب اس کی تیسری شاخ بھی کھل گئی تھی۔
الطاف حسین چھ ماہ تک پارٹی امور سے دور رہے
اِدھر ایم کیو ایم کے بانی پاکستان میں موجود سینیٹر اور بزرگ سیاست دان اشتیاق اظہر کے ذریعے تنظیمی معاملات چلا رہے تھے تاہم عظیم احمد طارق کی جانب سے روپوشی ختم کرنے اور قیادت سے سبک دوشی کے مطالبے کے بعد بانی ایم کیو ایم نے قیادت چھوڑ دی اورکوئی 6 ماہ تک پارٹی امور سے دور رہے۔
متعدد اراکین اسمبلی عظیم طارق سے جا ملے
اس دوران اراکین اسمبلی کی اچھی خاصی تعداد عظیم طارق سے جا ملی جب کہ تنظیمی سطح پر کئی ذمہ داران بھی ’’سیف ہاؤس‘‘ پہنچنا شروع ہو گئے تاہم جلد ہی معاملات عظیم احمد طارق کے ہاتھوں سے نکلنا شروع ہو گئے اور بانی ایم کیو ایم نے دوبارہ تنظیم کی باگ ڈور سنبھال لی۔
عظیم طارق اپنے مہمانوں کے ہاتھوں قتل
ادھر ایم کیو ایم حقیقی کا دعویٰ تھا کہ عظیم احمد طارق ان کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں اور جلد آفاق احمد کے ساتھ جا ملیں گے تاہم ایسا ہو نہ سکا اور عظیم احمد طارق اپنے گھر آئے مہمانوں کے ہاتھوں رات گئے قتل کر دیئے گئے اور ان کی لاش گھر کے ڈرائنگ روم سے برآمد ہوئی۔
عظیم احمد طارق کے قتل کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگوں کی بڑی تعداد ان کی رہائش گاہ پہنچ گئی جہاں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔
تجہیزو تکفین ایم کیو ایم حقیقی کے زیر نگرانی
نماز جنازہ میں ایم کیو ایم کی معطل مرکزی کمیٹی کے روپوش رہنماؤں ایس ایم طارق، طارق جاوید اور طارق محمود سمیت ہزاروں کی تعداد میں کارکنان نے شرکت کی تاہم نماز جنازہ اور تجہیز و تکفین ایم کیو ایم حقیقی کے زیرنگرانی تکمیل پائی۔
جائے وقوع سے شواہد جمع، تحقیقات شروع
پولیس نے جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرکے قتل کی تحقیقات کا آغاز کردیا اورغالب گمان یہی ظاہر کیا کہ اس قتل کے پیچھے بانی ایم کیو ایم کا ہاتھ ہو کیوں کہ وہ عظیم طارق کو اپنی شہرت اور سیاست کے لیے خطرہ محسوس کرتے تھے اور اپنا مستقبل تاریک دیکھ رہے تھے۔
عظیم طارق کے اہل خانہ بیرون ملک منتقل
قتل کے بعد عظیم احمد طارق کے اہل خانہ بیرون ملک منتقل ہوگئے اور قتل کی تحقیقات سرد خانے کی نذر ہو گئیں، سال 1992ء سے جاری فوجی آپریشن بھی ختم ہو گیا اور اس کے بعد ہونے والا پولیس آپریشن بھی ختم ہوگیا لیکن اس قتل کیس کی فائل سے گرد نہ جھڑی۔
حالیہ رینجرز آپریشن میں بھی عظیم طارق قتل کیس سرد خانے کی نذر
یہاں تک کہ سال 2013ء کے بعد کراچی میں شروع ہونے والے رینجرز آپریشن میں بھی اس قتل کیس میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی اور آج ان کے چاہنے والے اور عزیز و اقرباء 24 ویں برسی اسی امید کے ساتھ منا رہے ہیں کہ شاید اگلی برسی سے قبل اس خون ناحق کے ذمہ دار نقاب ہوسکیں اور شاید اہل خانہ کو انصاف میسر آسکے۔
اس قتل کے بہت سے راز میرے سینے میں دفن ہیں، فاروق ستار
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے اے آر وائی کے معروف ٹاک شو الیونتھ آور میں میزبان وسیم بادامی سے بات کرتے ہوئے اس قتل کے حوالے سے انکشاف کیا تھا کہ اس قتل کے حوالے سے بہت سے راز میرے سینے میں دفن ہیں جو شاید درست وقت آنے پر یا جب کوئی کتاب لکھ رہا ہوں گا تو ضرور ذکر کروں گا۔
مجھے اور عظیم بھائی کو کہا گیا رات گھر پر نہ سوئیں مگر وہ نہ مانے اور قتل ہوگئے
انہوں نے کہا تھا کہ عظیم احمد طارق کو بتادیا گیا تھا کہ انہیں قتل کیا جا سکتا ہے اس لیے گھر پر نہ سوئیں اور یہی پیغام میرے لیے بھی تھا اسی لیے میں اس رات گھر پر نہیں سویا لیکن عظیم بھائی اپنے گھر پر ہی سوئے اور قتل کر دیے گئے۔
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ یہاں میں سوال کرتا ہوں کہ جن لوگوں نے انہیں قتل کی سازش سے آگاہ کیا تھا وہ ان کی حفاظت کرنے سے کیوں قاصر تھے؟
قتل کی سازش میں مصطفیٰ کمال شریک تھے، آفاق احمد کا دعویٰ
دوسری جانب ایم کیو ایم کے چیئرمین آفاق احمد نے ایک نجی پروگرام میں دعویٰ کیا تھا کہ عظیم احمد طارق کے قتل کے موقع پر سابق ناظم کراچی اور چیئرمین پاک سرزمین پارٹی مصطفی کمال ان کے گھر پر موجود تھے اور انہوں نے قاتلوں کے لیے دروازے کی کنڈی کھولی تھی۔
عظیم بھائی کے گھر تو کیا اطراف میں بھی نہیں گیا، مصطفیٰ کمال
تاہم مصطفی کمال نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’’آف دی ریکارڈ‘‘ میں میزبان کاشف عباسی کے سوال کا جواب دیتے ان الزامات کی تردید کردی تھی اور کہا تھا کہ میں کبھی عظیم بھائی کے قریب نہیں رہا اور ان کے گھر اندر تو کیا اطراف میں بھی کبھی نہیں گیا لہذا یہ الزامات بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔
عظیم طارق کے اہل خانہ کو آج تک انصاف نہ ملا
سیاسی رفیقوں اور پرانے دوستوں کے دعوے اور انکشافات اپنی جگہ لیکن اب تک عظیم طارق کے اہل خانہ کو انصاف نہ ملنا جہاں ہمارے تفتیشی نظام میں جھول اور قانونی سقم کو ظاہر کرتا ہے وہیں معاشرے کی مجموعی بےحسی کے حوالے سے بھی سوال اٹھاتا ہے۔
سری نگر : مقبوضہ کشمیر میں حریت رہنما مقبول بٹ شہید کی برسی کے موقع پر وادی میں مکمل ہڑتال کی گئی جس کے باعث تعلیمی ادارے و کاروباری مراکز بند اور ٹرانسپورٹ معطل رہی۔
تفصیلات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال کی اپیل حریت رہنماؤں کی جانب سے کی گئی تھی جس پر کشمیری عوام نے لبیک کہتے ہوئے تمام قسم کی ٹرانسپورٹ اور تجارتی سرگرمیاں معطل رکھیں جب کہ شہید مقبول بٹ کی یاد میں تقاریب منعقد کی گئیں اور ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کا اہتمام کیا گیا۔
بزدل بھارتی انتظامیہ نے حریت پسند رہنماؤں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، یٰسین ملک اور سید شبیر شاہ سمیت تمام حریت لیڈروں کو مظاہروں کی قیادت سے روکنے کے لیے اُن کے گھروں اور تھانوں میں ہی نظر بند رکھا گیا اور احتجاج روکنے کےلئے فورسزکے اضافی دستے تعینات کئے گئے تھے۔
قابض بھارتی فوج اور کٹھ پتلی انتظامیہ کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کے باوجود نہتے کشمیری عوام نے مکمل ہڑتال کر کے عالمی سطح پر اپنا ریکاڑد جمع کرانے میں کامیاب رہے اور جگہ جگہ مظاہروں میں بھارتی مظالم کی مذمت اور تحریک آزادی کشمیر کی تجدید کی گئی۔
واضح رہے بھارت نے 1984 میں معروف حریت پسند رہنما مقبول بٹ کو تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی تھی جب سے ہر سال کشمیری اپنے رہنما کی برسی کے موقع پر ہڑتال کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں اور کشمیر بھر میں مظاہرے کیے جاتے ہیں۔