Tag: برسی

  • مایہ ناز پلے بیک سنگر مہناز بیگم کی پہلی برسی آج منائی جا رہی ہے

    مایہ ناز پلے بیک سنگر مہناز بیگم کی پہلی برسی آج منائی جا رہی ہے

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے سنہرے دور کی مشہور گلوکارہ مہناز بیگم کو ہم سے بچھڑے ایک سال بیت گیا۔ لیکن اُن کے سُریلے گیت آج بھی سننے والوں کے کانوں میں رس گھول رہے ہیں۔ 1958ء کوپیدا ہونے والی مہناز نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنی والدہ کجن بیگم سے حاصل کی۔ 70ء کی دہائی میں انھوں نے پلے بیک سنگرکی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور ان کی سریلی آواز کا جادو چل گیا۔

    انھیں سروں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ موسیقاروں میں بھی وہ بے حد مقبول تھیں۔
        آخری دنوں میں ان کی علالت کی وجہ سے امریکہ لے جایا جا رہا تھا مگر دوران پرواز ہی ان کی طبیعت بگڑنے کی وجہ سے جہاز کو بحرین میں اتارنا پڑا اور ہسپتال لے جانے کے باوجود وہ بچ نہ سکیں ۔ مہناز کا انتقال 19جنوری 2013 کو ہوااورانھیں کراچی کے مقامی قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔

  • ما یہ ناز افسانہ نگار وادیب سعادت حسن منٹو کو ہم سے جدا ہو ئے 49 برس بیت گئے

    ما یہ ناز افسانہ نگار وادیب سعادت حسن منٹو کو ہم سے جدا ہو ئے 49 برس بیت گئے

    اردو کے منفرد و ما یہ ناز افسانہ نگار وادیب سعادت حسن منٹو کو ہم سے جدا ہو ئے اننچاس برس بیت گئے۔

    اردو افسانے میں یہ ایک بہت بڑی موضوعاتی تبدیلی ،نئی طرز کی افسانہ نگاری میں پہلی اینٹ رکھنے والے سعادت حسن منٹو , منٹو کے افسانے،ڈرامے مضامین اور خاکے اردو ادب میں لازوال حیثیت کے حامل ہیں۔ منٹو پر فحش نگا ری کا الزام لگا نے والو ں کو جواب خود منٹو نے دیا۔

    اگر آپ میرے افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے۔ منٹو نے صرف جنسی نفسیات پر مبنی افسانے نہیں لکھے ، بلکہ غربت ، افلاس، استحصال، مزدور کی حا لت زار ، غریبی اور امیری کے درمیان کی خلیج ، سیاسی بازیگری ، ٹوٹتے بکھرتے انسانی رشتے ، فلمی دنیا کی مصنوعی چمک دمک جیسے اہم موضوعات پر بھی اچھو تے انداز سے قلم اٹھا یا ، منٹو نے لکھا کہ سعادت حسن فانی ہے لیکن منٹو رہتی دنیا تک زندہ رہے گا اور بلاشبہ ان کی تحریریں آج بھی انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
        
       

  • سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی آج پہلی برسی ہے

    سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی آج پہلی برسی ہے

    جماعت اسلامی کے سابق امیر اور اتحاد امت کے داعی قاضی حسین احمد کو دنیا سے گذرے آج ایک سال بیت گیا۔

    انیس سو اڑتیس میں ضلع نوشہرہ کے زیارت کاکا خیل میں آنکھیں کھولنے والے قاضی حسین احمد مہد سے لحد تک اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر بنے پاکستانی سیاست کے خارزار میں اہل وطن کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے، اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن اور پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کرنے کے بعد تین برس تک تدریسی فرائض انجام دیتے رہے، دوران طالبعلمی اسلامی جمعیت طلباء کے پلیٹ فارم سے طلبا حقوق کے لیے جدو جہد میں مصروف رہے۔

    انیس سو ستر میں عملی سیاست کا آغاز جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے کیا، انیس سو اٹھتر میں جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل اور انیس سو ستاسی میں امیر جماعت اسلامی پاکستان کی ذمہ داری سنبھالی، چار مرتبہ اس عہدے پر فائز رہے، سیاسی کیرئر کے دوران دو مرتبہ سینیٹ کے رکن اور دو ہزار دو کے عام انتخابات میں رکن قومی اسمبلی بنے، کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کی۔

    ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی، مسلکی اختلافات کو ختم کرنے اور پوری قوم کو ایک لڑی میں پرونے کے لیے انکی خدمات ناقابل فراموش ہیں، قاضی حسین احمد عالم اسلام کی تمام اسلامی تحریکوں کے لیے قائد اور رہنما کا درجہ رکھتےتھے، انھوں نے پیرانہ سالی کے باوجود نوجوانوں کی مانند ملی، سیاسی اور دینی خدمات سر انجام دیں، گذشتہ سال چھ جنوری کو وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
        

       

  • جما عت اسلا می کے رہنما پروفیسر غفور کو دنیا سے رخصت ہو ئے ایک برس بیت گیا

    جما عت اسلا می کے رہنما پروفیسر غفور کو دنیا سے رخصت ہو ئے ایک برس بیت گیا

    سیاست شرافت و دیانت کا نمونہ ، پا نچ کتا بو ں کے مصنف، سابق رکن قومی اسمبلی،سینیٹر اور جما عت اسلا می کے رہنما پروفیسر غفور کو دنیا سے رخصت ہو ئے ایک برس بیت گیا

    شرافت کا پیکر،دلائل کے اسلحے سے لیس ،بامروت، وضعدار،پا نچ کتا بو ں کے مصنف اور پا کستان کی سیا سی تاریخ کے اہم کردار پروفیسر غفور احمد انیس سو ستا ئیس میں با نس بریلی میں پیدا ہو نے والے غفور احمد نے لکھنؤ یونیورسٹی سے کامرس میں ماسٹرز کیا۔

    انیس سو پچاس میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے اور تادم آخر اسی کا دامن تھامے رکھا، اس دوران انیس سو اٹھا ون میں کو نسلر،ستر اور ستتر میں رکن قو می اسمبلی نو ے کی دہا ئی میں سینیٹر منتخب ہو ئے۔

    سیاست ان کا پیشہ نہیں اوڑھنا بچھونا تھا۔ پروفیسر غفور نےتہتر کے آئین کی تیاری میں اہم کردار اداکیا،قومی اتحاد اور آئی جے آئی کے جنرل سیکریٹری رہے لیکن ان کی ذات پر کبھی کو ئی معترض نہ رہا۔

    غفور صاحب ان گنے چنے سیاستدانوں کی صف کے معدودے چند افراد میں شامل تھے جن کی اصول پسندی، آگہی، اخلاص، سادگی ، عوامیت اور قابلیت شک و شبہے سے بالا تھی پروفیسر غفور احمد محض اپنی جماعت کا ہی نہیں بلکہ ملک وقوم کا ایک قیمتی سرمایہ اور اثاثہ تھے۔

  • منفرداسلوب اور تشبیہات واستعارات شاعر منیر نیازی کو ہم سے بچھڑے 7 برس بیت گئے

    منفرداسلوب اور تشبیہات واستعارات شاعر منیر نیازی کو ہم سے بچھڑے 7 برس بیت گئے

    منیر نیازی 9 اپریل 1923ءکو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے تھے۔

    انہوں نے اردو کے 13 اور پنجابی کے 3 شعری مجموعے یادگار چھوڑے جن میں اس بے وفا کا شہر‘ تیز ہوا اور تنہا پھول‘ جنگل میں دھنک‘ دشمنوں کے درمیان شام‘ سفید دن کی ہوا‘آغاز زمستاں میں دوبارہ، سیاہ شب کا سمندر‘ ماہ منیر‘ چھ رنگین دروازے‘ ساعت سیار، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی اور ایک تسلسل کے نام شامل ہیں جبکہ ان کی پنجابی شاعری کے مجموعے چار چپ چیزاں‘ رستہ دسن والے تارے اور سفردی رات کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔انہوں متعدد فلموں کے نغمات بھی تحریر کئے جو بے حد مقبول ہوئے۔

    منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔26 دسمبر 2006ءکواردو اور پنجابی کے صف اوّل کے شاعر منیر نیازی لاہور میں وفات پاگئے ۔ وہ لاہور میں قبرستان ماڈل ٹاﺅن،کے بلاک میں آسودہ خاک ہیں۔

  • خوشبوکی شاعرہ پروین شاکرکی آج 19ویں برسی ہے

    خوشبوکی شاعرہ پروین شاکرکی آج 19ویں برسی ہے

    خوشبو، رنگ اور محبت کی شاعرہ پروین شاکر کی آج 19ویں برسی ہے، انیس برس پہلے آج کے دن ان کا ایک حادثے میں انتقال ہوا تھا۔

    پروین شاکر نے کراچی میں جنم لیا، یہیں سے تعلیم اور ملازمت پائی، شاعری اسی شہر میں پروان چڑھی، خوشبو ان کے کلام کی پہلی کتاب جس نے شاید نوجوانوں میں پھرسے کتابوں کے تحفوں کا رواج ڈالا، لڑکی کی زبان سے جرات مند لہجے میں جذبات کا اظہار ان کی غزلوں اور نظموں کا خاصہ بنا۔

    پذیرائی اور جدائی اس کی دومثالیں ہیں، جن میں تصویر حقیقت کا روپ دھارتی محسوس ہوتی ہے، بے باک اندازمیں اس طرح دلوں کی باتیں کہہ دینا آسان نہیں ہوتا لیکن پروین نے یہ کر دکھایا، ایسی بہت سی مثالیں ان کے کلام میں جا بجا ملتی ہیں۔

    اندھیرے میں بھی مجھے جگمگا ہے کوئی بس ایک نگاہ سے رنگ بدن بدلنے لگا، بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگولیے ناممکن تھا کہ ان کے کلام پر گلوکار طبع آزمائی نہ کرتے، سو مہدی حسن، ٹینا ثانی، تصورخانم جیسے فنکاروں نے ان کا کلام اپنی گائیکی کی زینت بنایا۔

    خوشبوکے بعد انکار، خودکلامی، صد برگ ان کی مشہور کتابیں رہیں، ان کا کلام ماہ تمام کے نام سے بھی شائع ہوچکا ہے، جس میں سوائے’’کف آئینہ‘‘ جو ان کے انتقال کے بعد شائع ہوئی تمام کلام شامل ہے، عکس خوشبو سے شروع ہونے والا کلام آج ایک دنیا کو اپنی مہک سے محظوظ کررہا ہے اور تادیر اس کا آہنگ اپنا رنگ جماتا رہے گا۔
     

  • عوامی نیشنل پارٹی کے رہنمابشیربلور کی پہلی برسی آج منائی جارہی ہے

    عوامی نیشنل پارٹی کے رہنمابشیربلور کی پہلی برسی آج منائی جارہی ہے

    عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما بشیر بلور کی آج پہلی برسی منائی جارہی ہے پشاور میں اے این پی کی جانب سے تعزیتی جلسہ منعقد کیا گیا، اسفندیار ولی نے کہا کہ بشیر بلور کا خلا پر نہیں ہو سکتا۔

    عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما بشیر احمد بلور کی پہلی برسی آج منائی جا رہی ہے، برسی کے موقع پر خیبر پختون خوا کے مختلف شہروں میں تعزیتی اجتماع منعقد کئے گئے پشاور میں ہونے والے تعزیتی جلسے میں عوامی نیشنل پارٹی کی مرکزی قیادت نے شرکت کی اور اپنے لیڈر کی خدمات کو یاد کیا ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی نے کہا کہ بشیر بلو ر کا خلا پر نہیں کیا جا سکتا ۔

    انھوں نے کہا کہ اےاین پی نےمشکل وقت میں مخالف قوتوں کاڈٹ کرمقابلہ کیا، جلسے سے غلام احمد بلور اور افتخار حسین نے بھی خطاب کیا،  لیڈر بشیربلور بائیس دسمبر دو ہزار بارہ کی رات ڈھکی نعل بندی میں خودکش حملے کا نشانہ بنے اور اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔ انیس سو ستر میں انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی سے اپنے سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔

    دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد چوتھی بار خیبر پختونخوا کے وزیر بھی بنے۔عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء بشیر احمد بلور کی شہادت کوایک سال گزرگیا، لیکن آج بھی انہیں یاد کیا جاتا ہے۔