Tag: برصغیر

  • ’چاٹ مکس کی تو پلیٹ چھین لوں گا ‘

    ’چاٹ مکس کی تو پلیٹ چھین لوں گا ‘

    چنا چاٹ برصغیر میں رنگ، نسل، مذہب، ذات، اور سرحدوں کی قید سے آزاد ایک مقبول ترین چیز ہے، چاہے رمضان کی آمد ہو، چائے کا ٹائم ہو، رات کا کھانا ہو، چنا چاٹ ہر جگہ موجود ہوتی ہے۔

    چنا چاٹ کی منفرد بات یہ ہے کہ ہر ایک اسے مختلف انداز میں تیار اور پیش کرتے ہیں اور وہ اس میں اپنا کوئی ٹوئیسٹ ضرور دیتے ہیں۔ سجاوٹ ہمیشہ ہی مختلف ہوتی ہے، چٹنی اور مصالحے کا تڑکا یعنی ہری اور لال تیکھی چٹینوں سے لے کر میٹھی و کھٹی املی، آمچور اور لیموں کی چٹنی وغیرہ شامل کیا جاتا ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ARY News (@arynewstv)

    بنیادی طور پر چنا چاٹ ایک سادی سلاد ہے جو کاربوہائیڈریٹس اور ذائقوں سے بھری ہوتی ہے ان کی بنیاد چنوں، ابلے ہوئے آلو، تلی ہوئی پاپڑی، دہی بڑے، سموسہ، مرمرہ اور پھلیوں پر مشتمل ہوسکتی ہے جنہیں چٹنی، ساس، اور دہی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے اوپر کٹی ہوئی سبزیاں جیسے ٹماٹر، پیاز، سبز مرچ اور ابلے ہوئے آلو ہوتے ہیں جبکہ اس کو دھنیہ، پودینہ اور چاٹ مصالحے سے سجایا جاتا ہے۔

    تاہم کراچی کے علاقے گارڈن میں واقع 50 سال سے قائم ایک ایسی چارٹ کی دکان ہے جہاں مختلف قسم کی چاٹ تو ملتی ہیں مگر اس کی وجہ شہرت ایک ایسی شرط ہے جو انوکھی بھی ہے۔

    چاٹ والے کی شرط یہ ہے کہ اپ اس چارٹ کو مکس کر کے نہیں کھا سکتے، اگر آپ نے چاٹ مکس کرکے کھائئی تو چاٹ والے انکل آپ نے پلیٹ چھین لیں گے، اس چاٹ میں مختلف قسم کی چٹنیاں ڈالی جاتی ہیں جو اس کے ٹیسٹ کو مزید دوبالا کر دیتی ہیں۔

    کراچی کے مختلف علاقوں سے لوگ اس مزیدار چاٹ کو کھانے کے لیے آتے ہیں اور پیک کروا کر گھر والوں کے لیے بھی لے جاتے ہیں، شہریوں کا کہنا ہے کہ اس چاٹ کی خاص بات اسی میں ہے کہ اسے مکس کر کے نہ کھایا جائے۔

  • جلیاں والا باغ: تاریخی قتل عام کو 102 سال مکمل

    جلیاں والا باغ: تاریخی قتل عام کو 102 سال مکمل

    امرتسر: بھارتی پنجاب کے شہر امرتسر میں واقع تاریخی نوعیت کے جلیاں والا باغ میں برطانوی سپاہیوں کے ہاتھوں ہوئے قتل عام کو آج 102 سال مکمل ہو گئے۔

    جلیاں والا باغ سانحے کو اگرچہ آج ایک صدی سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے تاہم اس سانحے کے زخم تاحال مندمل نہیں ہو سکے ہیں، آج بھی اس دن کی سیاہ تصاویر لوگ بھلا نہیں پائے۔

    13 اپریل 1919 کو برطانوی افسر جنرل ڈائر نے اپنے سپاہیوں کو امرتسر کے جلیاں والا باغ میں پُر امن مظاہرین کی بھیڑ پر گولیاں چلانے کا حکم دیا تھا، جس میں سیکڑوں شہری مارے گئے تھے۔

    شہیدوں کی یادگار

    1951 میں بھارتی حکومت نے جلیاں والا باغ قتل عام میں جان گنوانے والے مجاہدین آزادی کے لیے ایک یادگار قائم کی تھی، یہ میموریل آج بھی اس ہول ناک سانحے کی یاد دلاتا رہتا ہے۔

    ہندوستان کی تاریخ میں 13 اپریل کا دن ایک سانحہ کے ساتھ درج ہے، وہ سال 1919 کا تھا، جب جلیاں والا باغ میں ایک پُر امن میٹنگ کے لیے جمع ہوئے ہزاروں شہریوں پر انگریز جنرل نے اندھا دھند گولیاں برسائی تھیں، جلیاں والا باغ نام کے اس باغیچے میں انگریزوں کی فائرنگ سے خوف زدہ ہو کر بہت سی خواتین اپنے بچوں کو لے کر جان بچانے کے لیے کنوئیں میں کود گئی تھیں۔ راستے محدود ہونے کی وجہ سے لوگ بھگدڑ میں بھی کچلے گئے۔

    10 مارچ 1919 کو برصغیر میں رولٹ ایکٹ پاس کیا گیا تھا، اس کے تحت سرکار کو بغیر کسی مقدمے کسی بھی شہری کو ملک مخالف کارروائیوں میں شامل ہونے کا الزام لگا کر جیل میں ڈالا جا سکتا تھا، اس ایکٹ کے خلاف ملک گیر سطح پر احتجاج شروع ہو گیا۔

    اپریل 1919 میں جب رولٹ ایکٹ کے خلاف ملک گیر ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا، تو پنجاب اس تحریک کا مرکز بن گیا۔ ان دنوں پنجاب کا گورنر سر مائیکل فرانسس او ڈائر تھا ‘جس نے پنجاب میں جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کر کے بریگیڈیئر جنرل ریگنالڈ ایڈورڈ ہیری ڈائر نامی ایک سخت گیر اور ظالم شخص کو بے پناہ اختیارات کے ساتھ ”نافرمان عوام“ کی سرکوبی کے لیے مامور کر دیا۔

    تاریخی کنواں جس سے سیکڑوں لاشیں نکالی گئی تھیں

    10 اپریل 1919 کو امرتسر کے ڈپٹی کمشنر نے رولٹ ایکٹ کے خلاف تحریک چلانے پر 2 سیاسی رہنماﺅں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو گرفتار کر لیا۔ 13 اپریل کو امرتسر کے عوام ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی اسیری کے خلاف جلیاں والا باغ میں جمع ہوئے، یہ باغ 19 ویں صدی میں مہا راجہ رنجیت سنگھ کے ایک درباری پنڈت نے بنوایا تھا اور اسی کے نام سے موسوم تھا۔ یہ باغ کوئی 200 گز لمبا اور سو گز چوڑا تھا۔ اس کے چاروں طرف دیوار تھی اور دیوار کے ساتھ ہی مکانات تھے، باغ سے باہر جانے کے چار پانچ راستے تھے مگر کوئی بھی چار پانچ فٹ سے زیادہ چوڑا نہ تھا۔

    جب اس جلسے کا علم جنرل ڈائر کو ہوا تو وہ مشین گنوں اور رائفلوں سے مسلح سپاہیوں کے ہمراہ جلسہ گاہ پہنچ گیا، ڈائر جلیاں والا باغ میں داخل ہوا اور اپنے فوجوں کو چاروں طرف تعینات کر دیا، اس کے بعد انھیں بغیر کسی وارننگ کے گولی چلانے کا حکم دے دیا۔ لوگ وہاں سے باہر نکلنے کے لیے بھاگے، لیکن ڈائر نے اپنے سپاہیوں کو باہر نکلنے والے جگھوں پر بھی تعینات کر دیا تھا جہاں سے فائرنگ شروع ہوگئی، اور جنرل ڈائر کے سپاہی 10 سے 15 منٹ تک لگاتار فائرنگ کرتے رہے۔

    انگریز مؤرخین کے مطابق اس سانحے میں 379 افراد ہلاک اور 1203 زخمی ہوئے، تاہم مدن موہن مالویہ کی صدارت والی ایک کمیٹی سمیت دیگر رپورٹس میں مرنے والوں کی تعداد 500 سے زیادہ بتائی گئی تھی۔ سنگ دلی کی انتہا یہ تھی کہ سانحے کے فوراً بعد کرفیو نافذ کر کے زخمیوں کو مرہم پٹی کا انتظام بھی نہ کرنے دیا گیا، اس طرح اس سانحے نے پورے پنجاب میں آگ لگا دی جس پر قابو پانے کے لیے 2 دن بعد پورے پنجاب میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔

    1997 میں برطانوی ملکہ الزبتھ دوئم نے بھارت کا دورہ کیا تو وہ جلیاں والا باغ بھی گئی تھیں، جہاں انھوں نے نصف منٹ کی خاموشی اختیار کی، اس موقع پر انھوں نے کہا کہ ہماری تاریخ میں کچھ افسوس ناک واقعات بھی ہیں تاہم تاریخ کو بدلا نہیں جا سکتا۔

    فروری 2013 کو ڈیوڈ کیمرون پہلے برطانوی وزیرِ اعظم تھے جنھوں نے اس جگہ کا دورہ کیا اور پھول چڑھائے اور امرتسر قتلِ عام کو برطانوی تاریخ کا انتہائی شرم ناک واقعہ قرار دیا، تاہم کیمرون نے بھی ملکہ الزبتھ دوم کی طرح سرکاری طور پر معافی نہیں مانگی۔ 2019 میں برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم بورسن جانسن نے جلیاں والا باغ قتل عام پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شرمناک تھا، لیکن انھوں نے بھی اس پر معافی نہیں مانگی۔

  • تحریکِ آزادی کے نام ور راہ نما چوہدری خلیق الزماں

    تحریکِ آزادی کے نام ور راہ نما چوہدری خلیق الزماں

    بیسویں صدی میں‌ ہندوستان کی ممتاز شخصیات جن میں قائداعظم محمد علی جناح، مولوی فضل الحق، لیاقت علی خان، محمد علی جوہر، شوکت علی، گاندھی، موتی لال نہرو، جواہر لال نہرو شامل ہیں، کے ساتھ چوہدری خلیق الزماں بھی تحریکِ آزادی اور اس زمانے میں اپنا سیاسی پرچم اٹھائے جدوجہد میں‌ نمایاں رہے۔

    چوہدری خلیق الزماں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے ایل ایل بی کرنے کے بعد وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ سیاست کی ابتدا انڈین نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم سے کی، مگر بعد میں آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ ہوگئے اور دمِ آخر تک وابستگی برقرار رہی۔

    تحریکِ آزادی کے اس نام ور راہ نما کا انتقال 18 مئی 1973 کو ہوا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ 15 اگست 1947 کو انھوں نے مسلمانانِ ہند کی نمائندگی کرتے ہوئے ہندوستانی پارلیمنٹ سے خطاب کیا اور پاکستان کی جانب سے ہندوستان کو آزادی کی مبارک باد دی۔ وہ مشرقی پاکستان کے گورنر بھی رہے اور مختلف ممالک میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

    جدوجہدِ آزادی کے موضوع پر ان کی ایک تصنیف بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔چوہدری خلیق الزماں کراچی میوہ شاہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • کس کے اشارے پر "سدھاکر” اورنگزیب عالمگیر کی طرف بڑھا تھا؟

    کس کے اشارے پر "سدھاکر” اورنگزیب عالمگیر کی طرف بڑھا تھا؟

    اورنگزیب عالمگیر کو مؤرخین نے برصغیر کا عظیم شہنشاہ لکھا ہے۔ مغلیہ سلطنت کا یہ چھٹا تاج وَر تین نومبر 1618 کو پیدا ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر پر ان کے دادا جہانگیر کا راج تھا اور کروڑوں انسانوں کی قسمت اُن کے جنبشِ ابرو سے بنتی اور بگڑتی تھی۔

    اورنگزیب کا نام محی الدین محمد رکھا گیا۔ وہ شہاب الدین محمد شاہ جہاں کی تیسری اولاد تھے۔

    اورنگزیب نے اس زمانے کے دستور کے مطابق جہاں ضروری اسلامی علوم اور طرزِ حیات سیکھا، وہیں شاہ زادے کو گھڑ سواری، تیر اندازی اور دیگر فنونِ سپاہ گری کی بھی تعلیم دی گئی۔ اورنگزیب نے ادب اور خطاطی میں دل چسپی لی اور اس فن میں کمال حاصل کیا۔ مشہور ہے کہ وہ ٹوپیاں سیتے اور قرآن کی کتابت کرتے جس کی آمدن ذاتی گزر بسر پر خرچ ہوتی تھی۔

    محی الدین محمد نے مغل تخت سنبھالا تو اورنگزیب ابوالمظفر محی الدین عالمگیر کا لقب اختیار کیا۔ مؤرخین کے مطابق 3 مارچ 1707 کو جب وہ نوّے برس کے ہوئے تو بیمار پڑے اور دارِ فانی سے کوچ کیا۔ انھیں وصیت کے مطابق خلد آباد میں دفن کیا گیا۔

    شاہجہاں کے چاروں بیٹوں کی شروع ہی سے تاج و تخت پر نظر تھی۔ اورنگزیب خود کو اس کا اصل حق دار سمجھتے تھے۔

    تخت اور اختیار کی خواہش میں بغاوت اور طرح طرح کی سازشوں کے ساتھ خونی رشتوں کے قتل سے بھی دریغ نہیں کیا گیا جس کی مغل تاریخ گواہ ہے۔ ایک ایسا ہی واقعہ شاہ جہاں کے درباری شاعر اور ایک شاہی مؤرخ نے بھی بیان کیا تھا۔

    یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے:

    اپنے بیٹے دارا شکوہ کی شادی کے بعد ایک روز تفریح کی غرض سے شاہ جہاں نے دو ہاتھی سدھاکر اور صورت سندر کے درمیان مقابلہ کی خواہش ظاہر کی۔

    مقابلہ شروع ہوا تو حاضرین نے دیکھا کہ اچانک سدھاکر، گھوڑے پر بیٹھے اورنگزیب کی طرف غصے سے بڑھا، اورنگزیب نے پُھرتی سے اس کی پیشانی پر نیزے سے وار کیا جس نے اسے مزید مشتعل کر دیا۔

    اس نے گھوڑے کو اتنے زور سے ٹکر ماری کہ اورنگزیب زمین پر آ گرا۔ قریب موجود اورنگزیب کے بھائی شجاع اور راجا جے سنگھ نے شاہ زادے کو بچانے کی کوشش کی، لیکن اسی دوران دوسرے ہاتھی شیام سندر نے سدھاکر کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی۔

    بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ مقابلے کے دوران دارا شکوہ پیچھے ہی موجود تھے، لیکن انھوں نے اورنگزیب کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

    شاہی خاندان اور بھائیوں میں اختلافات، اقتدار کی خاطر پروپیگنڈا، بغاوت اور مسلح‌ لڑائیوں‌ کے باوجود تخت اورنگزیب کا مقدر بنا اور انھوں نے 49 سال تک کروڑوں انسانوں پر راج کیا۔ مؤرخین کے مطابق ان کے دورِ حکومت میں مغل سلطنت وسیع ہوئی اور تقریباً پورا برصغیر مغلوں کے تابع رہا۔

  • برصغیر کے مشہور گلوکار کی درجن بھر ناکامیوں کی روداد!

    برصغیر کے مشہور گلوکار کی درجن بھر ناکامیوں کی روداد!

    فلم انڈسٹری میں درجن سے زائد فلموں میں اداکاری کا موقع دیے جانے کے باوجود طلعت محمود شائقین کو متأثر نہ کرسکے.

    انھوں‌ نے فلم سازوں کو بھی مایوس کیا، مگر اس میدان میں نامراد اور ناکام طلعت محمود آج بھی سُر اور آواز کی دنیا کا بڑا نام ہیں۔ گلوکار کی حیثیت سے مشہور طلعت محمود کو اس وقت کے نام ور فلم ساز اے آر کاردان نے اداکاری کے میدان میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا تھا۔

    برصغیر میں پسِ پردہ گائیکی کے حوالے سے طلعت محمود کا نام شہرت کی بلندیوں پر تھا جب انھوں نے فلم راج لکشمی سائن کی۔ یہ 1945 کی بات ہے۔ وہ بڑے پردے پر ہیرو کے روپ میں نظر آئے۔ اس وقت ممبئی کی فلم نگری میں طلعت محمود کے اس فیصلے کا تو بہت شور ہوا، لیکن بڑے پردے پر اداکار کے روپ میں انہیں پزیرائی نہ ملی۔ پہلی فلم کی ناکامی کے باوجود طلعت محمود کو بڑے بینر تلے مزید فلموں میں رول دیے گئے، لیکن ہر بار ناکامی ان کا مقدر بنی۔

    لالہ رخ، ایک گاؤں کی کہانی، دیوالی کی رات، وارث، سونے کی چڑیا، ٹھوکر وہ فلمیں ہیں جن میں طلعت محمود نے اپنے وقت کی مشہور ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا۔ ان میں نوتن، مالا سنہا اور ثریا شامل ہیں۔

    فلم نگری بہ حیثیت گلوکار ان کی شہرت کا آغاز آرزو نامی فلم کے گیت ‘‘اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو’’ سے ہوا۔ فلم داغ کے لیے انہوں نے ‘‘اے میرے دل کہیں اور چل’’ اور ‘‘ہم درد کے ماروں کا’’ جیسے گیت گائے اور اپنے فن کو منوایا۔

    طلعت محمود کے والد آل انڈیا ریڈیو پر نعتیں پڑھا کرتے تھے۔ لکھنؤ کے طلعت کو بچپن ہی سے گانے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا کہ فلم انڈسٹری کے بڑے ناموں اور گائیکوں نے ان کے کمال فن کا اعتراف کیا۔

    1940 میں طلعت محمود 16 برس کے تھے جب انھوں نے آل انڈیا ریڈیو، لکھنؤ پر اپنی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کروایا تھا۔ بعد میں گلوکاری کے میدان میں کام یابیاں ان کا مقدر بنتی چلی گئیں۔ تاہم اداکاری کے میدان میں بری طرح ناکام رہے۔

  • افریقہ مستقبل کا برصغیر ثابت ہوگا، وزیرخارجہ

    افریقہ مستقبل کا برصغیر ثابت ہوگا، وزیرخارجہ

    اسلام آباد: وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ افریقہ کا2 ٹریلین ڈالرسے زائد کا جی ڈی پی ہے، افریقہ مستقبل کا برصغیر ثابت ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق وزارت خارجہ میں افریقی ممالک کی 2 روزہ سفرا کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افریقی ملکو ں کی شرح نموں میں اضافہ ہو رہا ہے، افریقہ مستقبل کا برصغیر ثابت ہوگا۔

    شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کے افریقی ملکوں کے ساتھ سیاسی تعلقات ہیں، پاکستان کے سیکیورٹی اہلکاروں نے افریقی امن میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا افریقی ملکوں کے ساتھ عسکری تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    وزیر خارجہ نے کہا کہ اسلام آباد میں 700 سے زائد سفارتی اہلکار تربیت حاصل کر رہے ہیں، پاکستان افریقی ملکوں سے تجارتی روابط بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ افریقی ممالک کے ساتھ تجارت پر مبنی سفارتکاری کو فروغ دے رہے ہیں، افریقی ممالک کے ساتھ ویزے میں آسانیاں پیدا کر رہے ہیں، افریقی ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں۔

    شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افریقہ کا 2 ٹریلین ڈالر سے زائد کا جی ڈی پی ہے۔ انہوں نے کہا افریقی ممالک سے حکومتی، عوامی رابطوں کے فروغ کی ضرورت ہے۔