Tag: برطانوی جاسوس

  • یومِ وفات: برطانوی جاسوس نورُ النّسا پر بدترین تشدّد کے بعد گولی مار کر ہلاک کردیا گیا

    یومِ وفات: برطانوی جاسوس نورُ النّسا پر بدترین تشدّد کے بعد گولی مار کر ہلاک کردیا گیا

    ٹیپو سلطان برصغیر کی تاریخ کے ایسے حکم ران ہیں جنھیں محبِّ وطن اور بہادر ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ وہ مسلمانوں کے ایسے ہیرو ہیں‌ جنھوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کیا اور لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔

    عنایت خان میسور کے اسی شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جن کی بیٹی نورُ النسا انڈین شہزادی اور برطانوی جاسوس مشہور ہیں۔ انھیں نور عنایت خان کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    نور کے والد تصوّف کے شیدائی، علم وفنون کے رسیا اور عدم تشدّد کے قائل تھے۔ انھوں نے ایک نومسلم امریکی خاتون سے شادی کی تھی۔ نورُ النسا عنایت خان یکم جنوری 1914ء کو روس کے شہر ماسکو میں پیدا ہوئیں۔ نورُالنّسا کا بچپن پیرس کے نواح میں گزرا۔ 1927ء میں والد کے انتقال کے بعد نورُ النسا کو میدانِ عمل میں‌ اترنا پڑا۔ وہ بہن بھائیوں میں بڑی تھیں۔

    نور کو عام بچّوں کی طرح کہانیاں سننے کا شوق تھا، لیکن وہ خود بھی ریڈیو پر بچّوں کو کہانیاں سنانا چاہتی تھیں۔ اسی شوق نے انھیں بچّوں کے لیے لکھنے پر آمادہ کیا اور یہی نہیں انھوں نے ریڈیو اور وائرلیس کی تکنیک کو بھی سمجھا اور آگے چل کر وائرلیس آپریٹر کی حیثیت سے ایک بڑی اور نہایت خطرناک ذمہ داری نبھائی۔

    یہ 1940ء کی بات ہے جب فرانس پر جرمنی نے قبضہ کیا تو نورُ النّسا نے برطانیہ کے لیے جرمنی کے خلاف خفیہ پیغام رسانی کی۔

    وہ یہ خطرناک کام کرنے والی پہلی خاتون ریڈیو آپریٹر تھیں۔ نور النّسا کی عمر 26 برس تھی جب وہ جرمنی کے قبضے اور فرانس میں ظلم و ستم کے خلاف کسی خفیہ مشن کا حصّہ بنیں۔

    وہ متعدد زبانوں پر عبور رکھتی تھیں اور اسی صلاحیت نے انھیں برٹش اسپیشل آپریشنز کے انڈر کور ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کا موقع فراہم کیا تھا۔

    وہ نازی جرمنی کے زیرِ قبصہ فرانس میں پیرا شوٹ کے ذریعے داخل ہونے والے جاسوسوں میں‌ سے ایک تھیں۔ انھیں‌ نازیوں کی سرگرمیوں کو سبوتاژ کرنے اور جرمن فوجی دستوں کی معلومات برطانیہ کو بھیجنے کا مشن سونپا گیا تھا۔ نورُ النّسا مشکل حالات اور پکڑے جانے کے خوف کے ساتھ بہرحال ایک جاسوس کے طور پر اپنی ذمہ داریاں انجام دیتی رہیں، لیکن ایک روز انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ نازیوں نے انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور قید کرلیا۔ دورانِ تفتیش ان سے اہم معلومات حاصل کرنے کی ہر کوشش ناکام ثابت ہوئی اور ستمبر 1944ء میں نور عنایت خان سمیت دیگر تین جاسوس خواتین کو جرمنی لے جایا گیا جہاں 13 ستمبر کو گولیاں مار دی گئیں۔

    نور عنایت خان کی موت کے بعد برطانیہ نے انھیں بہادر اور فرض شناس جاسوس قرار دیا اور انھیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ برطانیہ میں نور عنایت خان کے یادگاری مجسمے بھی نصب ہیں۔

    ان کی زندگی پر دو ناول بھی لکھے گئے۔ 13 ستمبر 1944ء کو نور عنایت خان 30 سال کی عمر میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

    کہتے ہیں کہ نورُ النّسا اپنے جدِ امجد سلطان ٹیپو سے والہانہ عقیدت رکھتی تھیں۔ دل چسپ بات ہے کہ برطانیہ ہی کے لیے جاسوس کے طور پر کام کرنے والی اس لڑکی کی خواہش تھی کہ انگریز اس کے وطن ہندوستان سے نکل جائیں اور یہ بات انھوں نے برطانوی خفیہ سروس میں بھرتی کے انٹرویو کے دوران انگریز افسر سے بھی کہہ دی تھی۔

  • کرونا: کیا ’’جیمز بانڈ‘‘ مبینہ سازش کو بے نقاب کرسکتا ہے؟

    کرونا: کیا ’’جیمز بانڈ‘‘ مبینہ سازش کو بے نقاب کرسکتا ہے؟

    خفیہ ایجنٹ 007 کی شہرت دنیا بھر میں ہے۔ اسے آپ ’’جیمز بانڈ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

    ہالی وڈ کی بلاک بسٹر سیریز میں لگ بھگ سات دہائیوں سے اس کردار کو شائقین کی بھرپور توجہ اور دل چسپی حاصل ہے۔

    جیمز بانڈ کے کردار کو 1953 میں تخلیق کیا گیا تھا۔ یہ معروف ناول نگار ایان فلیمنگ کی اختراع ہے۔ انھوں نے بانڈ سیریز کے بارہ ناول لکھے۔

    1964 میں وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو خفیہ ایجنٹ کے اس سلسلے کو دوسرے چھے ناول نگاروں نے لکھنا شروع کیا اور خطروں سے کھیلنے والے اس پُرسرار کردار پر متعدد ڈرامے اور فلمیں بنائی گئیں۔

    برطانوی خفیہ ایجنٹ جیمز بانڈ کے اس مقبولِ عام کردار کو اپنے وقت کے نام ور اداکاروں نے نبھایا اور شائقین کی توجہ کا مرکز بن گئے۔

    اس کردار کے خالق نے ناول میں بتایا تھا کہ جیمز بانڈ ایک سفید فام وجیہہ مرد ہے، جسے دنیا ایجنٹ 007 کے نام سے جانتی ہے۔

    اس کردار نے خطروں سے کھیلتے ہوئے اپنے اسٹائل اور مخصوص اشیا جیسے گلاسز، ہیئراسٹائل، کوٹ اور ٹائی کے علاوہ بندوق تھامنے کے منفرد انداز سے بھی شائقین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ مداحوں نے یہی گیٹ اپ اپنایا اور اسی کی طرز کا لباس اور ہیئر اسٹائل بنانے لگے، جو جیمز بانڈ کی شخصیت سے ان کے بے حد متاثر ہونے کا ثبوت ہے۔

    فلمی دنیا میں ’’جیمز بانڈ‘‘ کا سفر طویل اور مالی طور پر فائدہ مند ثابت ہوا۔

    1962 میں بانڈ سلسلے کی پہلی فلم ’’ڈاکٹر نو‘‘ تھی اور اداکار شین کونری کا اس ایجنٹ کے روپ میں سامنے آنا گویا تہلکہ خیز ثابت ہوا، اس اداکار نے سنیما کے شائقین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ جیمز سیریز میں بانڈ گرل کا کردار بھی بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس کے لیے اداکارہ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔

    ’’جیمز بانڈ‘‘ نے کئی اہم اور مشکل ترین کام انجام دیے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں جہاں کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے اور اس کا علاج دریافت کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، وہیں سوشل میڈیا پر مختلف مفروضے گردش میں ہیں جن میں وائرس کو لیبارٹری میں تیار کردہ حیاتیاتی ہتھیار اور اس کے ذریعے مخصوص ممالک کی معیشت کو برباد کرکے مفادات کی تکمیل بتایا جارہا ہے۔ تاہم عام آدمی کے لیے اس کی حقیقت جاننا آسان نہیں۔

    کیا جیمز بانڈ جیسا ذہین اور شاطر ایجنٹ اس سازش کو بے نقاب کرسکتا ہے؟