Tag: برطانوی دور

  • سَر کرپس کے برطانیہ سے دلی آنے کی وجہ کیا تھی؟

    سَر کرپس کے برطانیہ سے دلی آنے کی وجہ کیا تھی؟

    مارچ 1942 کو برطانیہ سے سَر کرپس دلی پہنچے اور یہاں ہندوستانی راہ نماؤں سے طویل مذاکرات کیے جس کے بعد 30 مارچ کو وہ تجاویز سامنے آئیں جنھیں متحدہ ہندوستان کی تاریخ میں کرپس تجاویز کہا جاتا ہے۔

    ہندوستان کے سیاسی اکابرین نے مختلف وجوہات کی بنیاد پر ان کی مخالفت کی اور کرپس تجاویز مسترد کر دیں۔

    سَر اسٹیفورڈ کرپس کی سربراہی میں وفد کو ہندوستان کیوں بھیجا گیا تھا؟

    تاریخ بتاتی ہے کہ 1942 کے ابتدائی ایام میں جب برطانوی سرکار نے محسوس کیا کہ ایشیا میں اس کے مقبوضات ایک ایک کرکے ہاتھ سے نکلنے لگے ہیں تو اس نے ہندوستان کے عوام کو مطمئن کرنے اور جنگ میں ان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے سَر اسٹیفورڈ کرپس کی سربراہی میں مشن ہندوستان بھیجا جس کا مقصد گفت و شنید سے ہندوستان کے آئینی مسائل کا حل تلاش کرنا تھا۔

    سَر اسٹیفورڈ کرپس نے قائداعظم محمد علی جناح، پنڈل جواہر لعل نہرو، مہاتما گاندھی، ابوالکلام آزاد اور متعدد راہ نمائوں سے ملاقاتیں کیں۔

    ان کی تجاویز میں کہا گیا تھا کہ برطانیہ ہندوستان میں ایک نئی وفاقی مملکت قائم کرنا چاہتا ہے جسے دولتِ مشترکہ کے دوسرے رکن ممالک کے برابر ڈومینین کا درجہ حاصل ہوگا۔ یہ رسمآ تاج برطانیہ کا وفادار ہو گا، تاہم داخلی اور خارجی امور میں کسی کا زیر دست نہ ہوگا۔

    سَر اسٹیفورڈ کرپس کی ان تجاویز کو مسلم لیگ اور کانگریس کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کردیا اور وہ نامراد لوٹ گئے۔

    جنگِ عظیم کے باعث ہندوستان میں بھی کئی تبدیلیاں دیکھی گئیں اور جاپانیوں کی مسلسل کام یابیوں نے ہندوستان میں انگریزوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا اور ان کے قدم متزلزل ہونے لگے تھے۔

    ان حالات میں برطانیہ نے کرپس مشن کا سہارا لیا جس کی ناکامی کے بعد کانگریس کی جانب سے "ہندوستان چھوڑ دو” کا نعرہ بلند کیا گیا تھا، ساتھ ہی سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا بھی عندیہ دے دیا گیا جس پر برطانوی حکومت مشتعل ہو گئی اور راہ نماؤں کو پابند سلاسل کرنے کا آغاز کر دیا۔

  • کراچی اور سکھر کے بازاروں کا ملکہ وکٹوریہ سے کیا تعلق ہے؟

    کراچی اور سکھر کے بازاروں کا ملکہ وکٹوریہ سے کیا تعلق ہے؟

    ایک زمانہ تھا جب بادشاہ، ملکہ، راجا اور نواب کسی سلطنت یا وسیع علاقے کے حکم راں اور مختار ہوا کرتے تھے۔

    اگر وہ رحم دل، انصاف پسند، رعایا کے خیر خواہ اور ان کا خیال رکھنے والے ہوتے تو وہ بھی ان سے محبت کرتے اور وقت پڑنے پر خود کو تاج و ریاست کا وفادار ثابت کرتے۔

    ملکہ وکٹوریہ انیسویں صدی عیسوی میں سلطنتِ برطانیہ کی مقبول حکم راں اور دنیا کی با اثر خاتون رہی ہیں۔

    یہ وہی ملکہ ہیں جن کے دور میں برصغیر کو برطانوی کالونی میں تبدیل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ ان کے 64 سالہ دورِ حکم رانی میں انھیں ایسی ملکہ کے طور پر دیکھا جاتا تھا جس نے تاجِ برطانیہ کا وقار بلند کیا اور سلطنت کی حکم راں ہونے کے ناتے اپنی طاقت اور عالمی سطح پر اپنا اثر رسوخ منوایا۔

    سلطنت کے امور احسن طریقے سے چلانے اور تاجِ برطانیہ کو نوآبادیات اور مختلف کالونیوں کی صورت میں مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے کوششوں کی وجہ سے وہ خواص، امرا اور عام لوگوں میں مقبول رہیں۔

    اپنے فیصلوں اور اقدامات کی وجہ سے حکومت اور خواص ملکہ سے گہری عقیدت رکھتے تھے اور اس کا اظہار کرنے کی غرض سے اس دور میں اپنی ملکہ کے نام پر دور دراز کے اپنے زیرِ تسلط علاقوں میں نشانِ وقار اور یادگار کے طور پر عظیم الشان بازار قائم کیے۔

    سب سے پہلا بازار آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں تعمیر کیا گیا جس کا نام کوئن وکٹوریہ مارکیٹ رکھا گیا۔

    اس کے بعد ہندوستان میں برطانوی عمل داروں نے اپنی ملکہ سے عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے سکھر شہر کا انتخاب کیا اور وہاں وکٹوریہ مارکیٹ قائم کی گئی۔

    اسی طرح شہر کراچی میں برطانوی انتظامیہ نے صدر کے علاقے میں ایک اور خوب صورت عمارت تعمیر کی اور یہاں بازار سجایا جسے آج ہم ایمپریس مارکیٹ کے نام سے جانتے ہیں۔

    آسٹریلیا کی کوئن وکٹوریہ مارکیٹ 1878، پاکستان کے شہر سکھر کی وکٹوریہ مارکیٹ 1883 اور کراچی میں موجود ایمپریس مارکیٹ 1889 میں تعمیر کی گئی تھی۔

  • ڈاکٹر فیلن نے عورتوں‌ کی جلی کٹی باتیں کب سنیں؟

    ڈاکٹر فیلن نے عورتوں‌ کی جلی کٹی باتیں کب سنیں؟

    یہ ہندوستان پر راج کرنے والی انگریز سرکار کے ایک ایسے افسر کا تذکرہ ہے جس نے نہ صرف اردو انگریزی لغت مرتب کی بلکہ عام ہندوستانیوں‌ میں‌ انھیں‌ ایک نرم مزاج اور یار باش افسر سمجھا جاتا تھا.

    یہ لغت نویس ڈاکٹر ایس ڈبلیو فیلن ہیں جو 1817 میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ہندوستان میں کئی دوست بنائے اور عام لوگوں سے میل جول رکھنا انھیں پسند تھا۔

    اس لغت نویس نے دنیا کو بتایا کہ ہندوستان میں عام بول چال اور تحریری زبان کے علاوہ ایک ایسی بولی بھی ہے جس کا ذخیرہ الفاظ، جملے اور صوتی اثر جداگانہ ہے۔ انھوں نے اسے زنانہ بولی کہا۔

    عورتوں کی بولی سے متعلق اپنے تبصرے میں فیلن لکھتے ہیں کہ عمر بھر تکلیف اور دکھ اٹھانے والی اس مخلوق کے لبوں سے فی البدیہہ جو جلی کٹی باتیں نکلتی ہیں، اُن میں تجربہ، خیال کی کاٹ، لفظوں کا انتخاب ہی نہیں بلکہ لہجے کی کھنک ایسی ہوتی ہے کہ ہزار مرد بھی ویسا ایک جملہ تخلیق نہیں کر سکتے۔

    ڈاکٹر فیلن نے بنگال کے محکمہ تعلیم میں ملازمت کی اور اپنی علمی استعداد اور قابلیت سے لغت مرتب کرنے کے علاوہ اردو زبان میں نظم و نثر سے متعلق کام کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر فیلن نے دہلی میں سکونت اختیار کی۔ بعد میں انگلستان چلے گئے جہاں اپنی مرتب کردہ لغت کی اشاعت کے ایک سال بعد یعنی 1880 میں ان کا انتقال ہو گیا۔

  • برطانوی دور کا جیل مینو تبدیل، اب کھانے میں‌ مزے مزے کے پکوان ملیں گے

    برطانوی دور کا جیل مینو تبدیل، اب کھانے میں‌ مزے مزے کے پکوان ملیں گے

    ڈھاکا : 19 ویں صدی میں برطانوی سامراج کی جیلوں میں قیدیوں کو روٹی کے ساتھ گُڑ دیا جاتا تھا، نئے مینیو میں روٹی کے ساتھ سبزی، پھل، مٹھائیاں اور دال میں پکے چاول دیئے جائیں گے۔

    تفصیلا ت کے مطابق بنگلہ دیش کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کو ٹھونسے جانے پر ڈھاکہ حکومت کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا رہتا ہے، لیکن حال ہی میں بنگالی حکومت نے گزشتہ 200 سال سے قیدیوں کو دیا جانے والا ناشتہ تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ بنگلادیش کی جیلوں میں گزشتہ 200 سالوں قیدیوں کو ایک ہی طرح کا ناشتہ دیا جارہا تھا جو برطانوی سامراج نے رائج کیا تھا۔

    بنگلہ دیش میں جیل امور کے ڈپٹی ڈائریکٹر بزلور رشید نے کہا ہے کہ ملک کی تمام جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 81 ہزار ہے، ان کے ناشتے کا مینیو تبدیل کردیا گیا، نئے ناشتے میں متنوع اشیاء کا اضافہ کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ 19 ویں صدی میں برطانوی سامراج کی جیلوں میں قیدیوں کو روٹی کے ساتھ گُڑ دیا جاتا تھا، اس کے سوا قیدیوں کو اور کوئی چیز میسر نہیں تھی۔ بنگالی حکومت بھی دو سو سال تک اسی پر عمل پیرا رہی ہے اور اب اس نے قیدیوں کے ناشتے میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق نئے مینیو میں روٹی کے ساتھ سبزی، پھل، مٹھائیاں اور دال میں پکے چاول دیئے جائیں گے، ماضی میں قیدیوں کو 116 گرام روٹی اور 14 اعشاریہ 5 گرام گڑ دیا جاتا رہا ہے۔

    واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کو ڈالنے پر انسانی حقوق کی تنظیمیں ڈھاکا پر شدید تنقید کرتی رہتی ہیں، بنگالی جیلوں میں 35 ہزار سے زاید افراد کو رکھنے کی گنجائش نہیں مگر وہاں پر بعض اوقات 60 سے 80 ہزار تک قیدیوں کو ٹھونس دیا جاتا ہے۔

    بزلور رشید کا کہنا ہے کہ قیدیوں کے ناشتے کے ’مینیو‘ میں تبدیلی جیل خانوں اور قیدیوں کے حوالے سے اصلاحات کے عمل کا حصہ ہے۔