Tag: برطانوی راج

  • لارڈ میکالے: ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا غارت گر یا خیر خواہ؟

    لارڈ میکالے: ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا غارت گر یا خیر خواہ؟

    لارڈ میکالے ایک انگریز مدبّر اور ایسا پالیسی ساز تھا جس نے برطانوی عہد میں ہندوستان میں اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، لیکن وہ برصغیر میں متنازع بھی رہا کہ بحیثیت قوم ہندوستانیوں کے نزدیک میکالے ان کی تہذیب اور ثقافت کا دشمن اور اسی بنیاد پر قابلِ نفرت شخص تھا۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ تقسیمِ ہند کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے نام سے معرضِ‌ وجود میں آنے والی دو ریاستیں آج بھی اسی لارڈ میکالے کی فکر اور پالیسیوں سے استفادہ کر رہی ہیں۔

    میکالے کا تذکرہ بالخصوص ہندوستان میں تعلیمی نظام اور قوانین و تعزیرات کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ میکالے کے بارے میں ہندوستانیوں کی ایک عام رائے یہ تھی کہ وہ مغربی فکر اور تہذیب و ثقافت کو ہندوستان میں‌ پروان چڑھانے اور ہندوستان کو اس کی تاریخی اور ثقافتی جڑوں سے الگ کرکے یہاں ایک طبقہ پیدا کرنا چاہتا تھا جو مغرب کی اقدار کی پیروی کرتا ہو۔ اس کے ثبوت میں اس کا یہ مقولہ ہر جگہ پڑھنے کو ملتا تھا: ”ہماری بہترین کوششیں ایک ایسا طبقہ معرضِ وجود میں لانے کے لیے وقف ہونی چاہییں جو ایسے افراد پر مشتمل ہو جو رنگ و نسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو لیکن ذوق، ذہن، اخلاق اور فہم و فراست کے اعتبار سے انگریز“۔

    ہمارا نظامِ تعلیم بھی لارڈ میکالے کی دین ہے۔ وہ 25 اکتوبر 1800ء میں پیدا ہوا اور 1859ء میکالے اس دنیا سے کوچ کر گیا۔ وہ اپنے عہد کا ایک دانش ور تھا جو برطانوی پارلیمان میں‌ شامل رہا۔ میکالے نے تاریخی اور سماجی و سیاسی موضوعات پر مضامین تحریر کیے اور شہرت پائی۔ وہ 1839ء اور 1841ء کی جنگوں میں ’’سیکریٹری آف وار‘‘ کے عہدے پر بھی فائز رہا۔ اس نے 1846ء اور 1848ء کے دوران ’’پے ماسٹر جنرل ‘‘ کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔ انگلستان کی تاریخ پر شاہ کار کتاب بھی تحریر کی، اور برصغیر میں تعلیمی پالیسی ساز کے طور پر کام کیا مگر ہندوستانی عوام میں وہ صرف مغربی تہذیب اور ثقافت کا پرچارک مشہور تھا۔ لارڈ میکالے کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اسے یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ جو بھی پالیسی نافذ کرنا چاہے، کر سکتا تھا۔ لارڈ میکالے نے جس نظامِ تعلیم کی داغ بیل ڈالی تھی، اس نے واقعی برِّصغیر کا تعلیمی ماحول یک سَر تبدیل کر دیا تھا جو ہندوستانیوں‌ کی سوچ میں تبدیلی کا ذریعہ بن گیا۔ متحدہ ہندوستان میں اُس وقت کے کئی علما، فاضل شخصیات، مسلمان سیاسی راہ نماؤں اور دانش وروں‌ نے بھی انگریزی زبان کی ترویج، اور جدید تعلیم کے لیے لارڈ میکالے کی تجاویز اور بعض‌ نکات پر اعتراضات کیے تھے، لیکن اسے قبول بھی کر لیا گیا۔ یہ شخصیات سمجھتی تھیں کہ میکالے کی وجہ سے ہندوستانی اپنی تہذیب و ثقافت کو کم تر خیال کرنے لگے ہیں اور وہ مغربی کلچر کو قبول کررہے ہیں۔

    ٹامس بیبنگٹن میکالے اس کا پورا نام تھا جو 1834ء میں ہندوستان کی سپریم کونسل میں بطور رکن قانون حلف اٹھانے کے بعد یہاں چار برس تک مقیم رہا۔ ہندوستان میں اس نے انڈین پینل کوڈ مرتب کیا۔ اس کا دوسرا بڑا کارنامہ اس تعلیمی یادداشت کی تصنیف تھا۔ اس کے فیصلوں نے ہندوستان کے تعلیمی مستقبل اور اس کے قانونی نظام پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے۔

    میکالے کی مخالفت اور اس کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کے باوجود اس انگریز کا پہلا کارنامہ ہندوستان میں جدید نظامِ تعلیم کی ترویج اور دوسرا مجموعۂ تعزیراتِ ہند کی تشکیل کہا جاتا ہے۔ اس کے وضع کردہ نظامِ تعلیم اور تشکیل کردہ مجموعۂ تعزیرات ہند کی جامعیت ملاحظہ ہو کہ لگ بھگ دو صدی بعد بھی برصغیر پاک و ہند میں ان دونوں نظاموں میں معمولی ترامیم تو کی جاتی ہیں، لیکن ان کا کوئی قابلِ قبول متبادل آج تک پیش نہیں کیا جاسکا۔ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا یہ غارت گر بھی کیسا نکلا کہ اس کی سربراہی میں جو مجموعۂ تعزیراتِ ہند مرتب کیا گیا، اسے پاکستان اور بھارت نے اپنے قیام کے بعد قبول بھی کیا اور ان دونوں ملکوں کی عدالتوں میں فوجداری مقدمات کا فیصلہ انہی کی بنیاد پر کیا جاتا اور مجرموں کو سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ یہ قوانین غدر کے بعد برطانوی حکومت کے تحت ہندوستان میں نافذ کیے گئے تھے۔ یہ مجموعۂ تعزیرات پانچ سو گیارہ دفعات پر مشتمل ہے۔ میکالے کی ذہانت اور فہم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے ان پانچ سو گیارہ دفعات میں جرم کی ہر شکل کو کچھ اس انداز سے سمو دیا ہے کہ اس پر بڑے بڑے قانون داں بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ تعزیرات کا یہ نظام پاک و ہند کی سماجی زندگی میں بھی اس طرح رچ بس گیا ہے کہ اس سے زیادہ معقول سزائیں ہم آج بھی نہیں سوچ سکے ہیں۔ خود کشی کی کوشش سے لے کر قتلِ عمد تک، انفرادی لڑائی جھگڑے سے لے کر بلوے تک اور نفرت انگیز تقاریر سے لے کر ریاست کے خلاف بغاوت تک کے ہر جرم کی اتنی معقول سزا اس مجموعے میں لکھی گئی ہے کہ اس میں کوئی کمی بیشی مشکل نظر آتی ہے اور ہر قانون داں لارڈ میکالے کی طے کردہ سزا پر ہی متفق ہے۔

    پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو یہاں دستور ساز اسمبلی نے انہی قوانین کو ‘مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان‘ کہہ کر منظور کر لیا۔ بعد میں معمولی اور جزوی تبدیلیاں تو کی گئیں مگر بیشتر کو بعینہ روا رکھا گیا۔

    لارڈ میکالے کے مجموعۂ تعزیرات کا پندرہواں باب مذہبی منافرت کے بارے میں ہے۔ اس باب میں اس نے بتایا ہے کہ اگر کوئی شخص مذہب کی آڑ لے کر معاشرے کے کسی گروہ کو نشانہ بناتا ہے تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا چاہیے۔ اس باب میں‌ تجویز کردہ سزاؤں کا خوف ایسا تھا کہ کئی برس تک برطانوی ہندوستان کا کثیر مذہبی معاشرہ بڑی حد تک مذہبی رواداری کے ساتھ قائم رہا لیکن بعد میں‌ پاکستان اور بھارت میں‌ بھی مذہبی تفریق اور تعصب نے کیا کیا رنگ دکھائے، یہ سب کے سامنے ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ متحدہ ہندوستان میں مخصوص ذہنیت اور مذہبی و ثقافتی تفاخر میں مبتلا راہ نماؤں نے اپنے زیرِ اثر طبقات میں جس طرح لارڈ میکالے کو اس کی پالیسیوں پر مطعون کیا اور اس کے اقدامات کو متنازع بنایا، ان کو ہندوستان میں فکری اور تعلیمی سطح پر انقلابی تبدیلیاں دیکھنے کے خواہش مند بعض حلقوں کے اکابرین نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا، اور اس سوچ کو ہندوستانی قوم کی پسماندگی اور مسلسل تنزلّی کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ آج کسی نہ کسی شکل میں میکالے کی سوچ بھی زندہ ہے اور اس کی پالیسیاں اور وضع کردہ قوانین بھی ہمارے لیے کارآمد ثابت ہو رہے ہیں۔

  • وارن ہیسٹنگز: وہ اپنے سامنے افلاطون کی بھی حقیقت نہیں جانتا تھا!

    پروانۂ تجارت حاصل کرنے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے جس طرح ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کر کے کروڑوں لوگوں پر راج کیا، تاریخ میں اس کی مثال نہیں‌ ملتی۔ کمپنی نے فوج کی مدد سے ایک قوم کو غلام بنا لیا تھا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ اٹھارویں صدی کے وسط میں کمپنی ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کرنے میں کام یاب ہوگئی اور بظاہر اقتدار مقامی حکم رانوں کے ہاتھ میں تھا، مگر آمدن و محصول سے برطانیہ مستفید ہو رہا تھا۔

    ہندوستان کے مشرقی صوبوں میں ٹیکس وصول کرنے اور انتظامی معاملات چلانے کا معاہدہ کرنے والے انگریزوں نے خود کو ہندوستان کے عوام کا خیر خواہ اور ان کی فلاح و بہبود کا خواہاں‌ ثابت کرنے کے لیے یہاں سڑکیں، پُل، سرائے تعمیر کروائے، درس گاہیں اور مدارس قائم کیے جہاں عربی بھی سکھائی جاتی تھی، اور ہندوستان کو ریل کا ذریعۂ سفر بھی دیا، لیکن اس ملک کی آزادی ختم ہو چکی تھی اور صوبوں کا انتظام انگریز منتظمین چلا رہے تھے۔

    یہاں ہم وارن ہیسٹنگز (Warren Hastings) جو گورنر جنرل بنگال تھا، کے بارے میں‌ مولوی ذکاءُ اللہ کے مضمون سے چند پارے نقل کررہے ہیں جس میں وہ اس انگریز صوبہ دار کے سیاسی تدبّر، فہم و فراست اور بحیثیت منتظم اس کی خوبیوں کے معترف ہیں، لیکن کہا یہ بھی جاتا ہے کہ سنہ 1773ء سے بدعنوانی کے الزام میں اپنے مواخذے کی کارروائی تک یہ انگریز افسرِ اعلیٰ عوام کو اپنے حُسنِ‌ انتظام کا یقین دلاتے ہوئے انگریزوں کو ان کا محسن بتانے کے لیے پروپیگنڈہ کرتا رہا۔ مؤرخین نے اسے ذہین اور چالاک بھی لکھا ہے۔

    مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد کی تاریخ کو مولوی ذکاءُ‌ اللہ نے سلطنتِ انگلیشیہ کے نام سے مضامین کو بہم کیا ہے۔ وہ مؤرخ اور مترجم مشہور تھے جن کے کئی مضامین یادگار ہیں۔

    وارن ہیسٹنگز کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
    شاید ہی کوئی دوسرا مدبّر و منتظمِ ملکی ایسا گزرا ہو کہ جس کی تفضیح اور ہجو اس مبالغہ سے اور تعریف اس شد و مد سے ہوئی ہو اور اس کی ساری زندگی کے افعال اور اعمال کی تحقیقات ایسی شہادتِ تحریری سے ہوئی ہو۔ مگر اس کی نسبت لکھنے والے طرف دار اور متعصب تھے۔

    اگر نظرِ انصاف سے دیکھیے تو اس کی یہ بھلائیاں اور برائیاں معلوم ہوں گی جو ہم نیچے لکھتے ہیں۔ اس کی فطانت اور فراست و ذہانت کے سب دوست دشمن قائل ہیں۔ کوئی اس میں شبہ نہیں کرتا کہ وہ بیدار مغز اور ہوشیار دل ایسا تھا کہ امورِ خطیر اور معاملاتِ عظیم کے انصرام اور سر انجام کرنے کی اس میں قابلیت اور لیاقت تھی۔ برسوں تک اس نے ایک سلطنتِ بزرگ اور مملکتِ عظیم کا نظم و نسق کیا۔ سوائے ذہین اور قابل ہونے کے وہ محنت شعار اور جفاکش پرلے درجہ کا تھا۔ کاہلی اس سے کروڑوں کوس دور رہتی تھی۔

    اس کے جانشین جو ہوئے ان میں دو چار قابلیت اور لیاقت میں تو ہم پلہ ہوئے مگر محنت مشقت و کار گزاری میں اس سے کہیں ہلکے تھے۔ یہی پہلا عالی دماغ تھا۔ جس نے یہ سوچا کہ انگریزی گورنمنٹ سب سے علیحدہ رہ کر قائم نہیں رہ سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اور ہندوستانی رئیسوں سے آمیزش اور سازش کرے۔ یہی باب فتح و نصرت کی کنجی ہے۔ یہی وہ روشن عقل تھا کہ اس شاہراہ پر انگریزی گورنمنٹ کو رستہ دکھایا۔ جس پر چلنے سے وہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ گئی۔ گو یہ خیالات اس وقت انگلستان میں عام نہ تھے مگر بری بھلی طرح سے تجربہ ہو کر آخر کار وہی صحیح ثابت ہو گئے۔

    اس نے انگریزی صوبوں کے حسنِ انتظام میں اپنی عقل و ذہن کو بہت خرچ کیا۔ انقلابوں کے طوفان نے سارے ملک میں اندھیر مچا رکھا تھا۔ کسی سلطنت کا چراغ روشن نہ تھا۔ شمعِ افسردہ کی طرح سب میں دھواں نکل رہا تھا۔ مالی اور دیوانی عدالتوں کا بہت برا حال تھا۔ وہ نام کی عدالتیں تھیں۔ حقیقت میں اس کے طفیل وہ ظلم و ستم ہوتے تھے کہ قلم لکھ نہیں سکتا۔

    غرض سارے زمانے کی عافیت تنگ تھی۔ اس نے ان سب عدالتوں کی اصلاح کی۔ گو ان کو ان کے درجۂ کمال تک نہیں پہنچایا اور نہ ان کو اچھا بنایا۔ مگر وہ ایک بنیاد اس کی ایسی ڈال گیا کہ پھر اس پر اوروں کو ردے لگا کر عمارت بنانی آسان ہو گئی۔ کوئی حکومت کا کارخانہ ایسا نہ تھا کہ جس کی طرف اس نے توجہ نہ کی ہو اور ان میں بہت سی مفید باتوں کا موجد نہ ہو۔

    اس نے اپنی سرکار کی ہوا خواہی اور خیر اندیشی میں بھی کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ مگر اس میں اس نے اخلاق کی نیکی پر خیال نہیں کیا۔ جس وقت سرکار نے روپیہ مانگا۔ تو اس کے سر انجام کرنے میں کسی بات کا آگا پیچھا نہیں سوچا۔ از راہِ ظلم و تعدی جو دولت کا سامان کیا اہلِ انگلستان نے اس کو سر بے سامانی سمجھا۔ اس کی طبیعت کا خمیر ایسا تھا کہ وہ عدالت اور صداقت کو ضرورت کے وقت کچھ چیز نہیں سمجھتا تھا اور مروت و فتوت کو انسانیت میں داخل نہیں جانتا تھا۔ "گر ضرورت بود روا باشند” پر عمل تھا۔ وہ خود رائی کے سبب بر خود غلط اتنا تھا کہ اپنے سامنے افلاطون کی بھی حقیقت نہیں جانتا تھا۔ ہر کام اس کا ایک راز سر بستہ اور سر پوشیدہ تھا۔ کسی کام کی اصل و حقیقت کھلنے ہی نہیں دیتا تھا۔ گو اس کے ظاہر ہو جانے سے نقصان نہ ہو۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ہر کام کو بڑے پیچ پاچ سے کرتا تھا۔ غرض اس میں جو خوبیاں تھیں، وہ تحسین کے قابل تھیں اور جو برائیاں تھیں وہ نفریں کے لائق۔

    یوں سمجھنا چاہیے کہ رعایا پروری۔ سپاہ کی دلداری۔ لوگوں کو اپنا کر لینا۔ رفاہیتِ عباد اور معموریٔ بلاد کا خیال یہ سب خوبیاں اس میں ایسی تھیں کہ وہ ایک طوطیِ خوش رنگ کی طرح خوش نما معلوم ہوتی تھیں۔ مگر اپنی سرکار کی نمک شناسی کے سبب سے اس کی گنجینہ آزمائی، دولت افزائی ایسی ایک بلّی اس میں تھی کہ وہ اس طوطیِ خوش رنگ کو نوچے کھاتی تھی۔ مگر اس بلّی کے بھنبھوڑنے کے لیے اس کے پاس ایک کتّا بھی موجود تھا، جو اس کی خود پرستی و خود رائی تھی۔

    غرض یہ فضائل اور رذائل اس میں کام کر رہے تھے جو ایک بڑے بند مکان میں طوطی اور بلّی اور کتّا کام کریں۔ ہیسٹنگز صاحب کی سب سے زیادہ تعریف اس بات میں تھی کہ اس نے سارے کارخانوں اور کاموں کے لیے خود ہی مقدمات کو ترتیب دیا اور اس بات کو سر انجام کیا۔ جب وہ ولایت سے ہندوستان آیا تو طفلِ مکتب تھا۔ نوکری ملی تو تجارت کے کارخانے میں۔ کبھی اس کو اہلِ علم اور منتظمانِ ملکی کی صحبت بھی میسر نہ ہوئی۔ جتنے اس کے یہاں جلیس و انیس تھے، ان میں کوئی اس سے زیادہ صاحبِ لیاقت نہ تھا کہ اپنی لیاقت کو بڑھاتا بلکہ اس کو خود استاد بن کر سب کو لیاقت کا سبق پڑھانا پڑا۔ وہ سب کا راہ نما تھا اور اس کا راہ نما فقط اس کی عقل و دانش کا نور تھا۔

  • انگلستان کا باشندہ

    انگلستان کا باشندہ

    آج کے دور میں‌ کسی بھی قوم کا تمدّن، رہن سہن، طرزِ‌ حیات، کسی فرد کی سوچ اور اس کا انفرادی طرزِ عمل، اور تمام حالات و واقعات کا دنیا کو علم ہے، اور یہ کوئی انوکھی یا تعجب خیز بات نہیں ہے، لیکن ایک وقت تھا جب براعظموں پر پھیلے ہوئے ممالک میں‌ بسنے والی اقوام ایک دوسرے کے حالات سے آج کی طرح باخبر نہیں‌ تھیں۔

    برطانوی راج کے دوران جب ہندوستان سے قابل اور باصلاحیت لوگوں خاص طور پر علم و ادب سے وابستہ شخصیات کو برطانیہ جانے کا موقع ملا تو انھوں وہاں کے تمدّن اور طرزِ زندگی کو قریب سے دیکھا اور اسے اردو زبان میں سفرناموں یا خودنوشت سوانح عمریوں کی شکل میں پیش کر دیا جو قارئین میں بے حد مقبول ہوئیں۔

    یہاں ہم معروف جریدے "نگار” کے ایک مضمون "بلادِ مغرب: ایک مشرقی خاتون کی نگاہ سے” سے برطانوی معاشرے کی مثبت جھلکیاں پیش کررہے ہیں جو دراصل آنسہ عنبرہ سلام کے تجربے اور مشاہدے پر مبنی ہیں۔ وہ اس زمانے میں بلادِ انگلستان کی سیاحت کے لیے گئی تھیں جب ہندوستان میں بہت کم لوگ برطانوی معاشرت اور گوروں کی عادات اور مزاج سے واقف تھے۔ اس مضمون میں انھوں نے برطانوی قوم میں‌ وقت کی قدر اور نظم و ضبط، صبر اور برداشت کے حوالے سے لکھا ہے:

    "اس سے زیادہ محبوب چیز اہلِ انگلستان کے لیے اور کوئی نہیں۔ گھر کی معیشت میں، گھر سے باہر کی زندگی میں مشاغلِ معاش میں اور دوسروں کے ساتھ ملنے جلنے میں الغرض ہر جگہ اور ہر وقت تم ان کے اندر ایک تنظیمِ عمل پاؤ گے۔”

    "ہر کام کے لیے ایک وقت اور وقت پر کام کی پابندی۔ یہ ان کے نظامِ عمل کی روح ہے جس سے کبھی کوئی انگریز بیگانہ نظر نہیں آسکتا۔”

    "ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹ گھر کے قریب جہاں دو تین سے زیادہ آدمیوں کا ہجوم ہو اور انہوں نے صف بنالی، پھر ہر نیا آنے والا اسی صف کے آخر میں شامل ہوتا جائے گا اور کبھی وہ اس کی کوشش نہ کرے گا کہ اُچک کر یا گھس پل کر پہلے ٹکٹ حاصل کرے، ان کی ذہن ہی میں یہ بات نہیں آتی کہ خلافِ اصول کیونکر کوئی چل سکتا ہے۔”

    "چوراہوں پر پولیس والے نے ہاتھ اٹھایا اور مسافروں، گاڑیوں اور موٹروں کا سیلاب دفعۃً رک گیا، اس نے ہاتھ نیچے کیا اور پھر اسی نظام کے ساتھ آہستہ آہستہ سب چل پڑے۔ ایسا عجیب و غریب منظر ہوتا ہے کہ بے اختیار داد منہ سے نکل جاتی ہے۔ باوجود شدید ازدحام اور کثرتِ آمد و رفت کے وہاں نہ کوئی ہنگامہ نظر آتا ہے، نہ کوئی شوروغل، ہر کام سکون کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ہر شخص خاموشی کے ساتھ اپنے کام میں منہمک ہے اور یہ سب نتیجہ ہے انتظامِ معیشت کا اور فرض شناسی کا۔”

    "ایک مشرقی انسان کی طرح نہ ان کے ہاں کاہلی کی دیر ہے نہ گھبراہٹ کی جلدی۔ تم اگر کسی ضرورت سے ڈاک خانہ میں جاؤ گے تو وہاں کا ہجوم دیکھ کر حیران رہ جاؤ گے اور تم کو یقین ہو جائے گا کہ ضرورت پوری نہیں ہوسکتی، لیکن اگر تم صبر کے ساتھ صف میں شامل ہوگئے تو پھر دیکھو گے کہ چند منٹ کے اندر تم سے آگے کا ہجوم چھٹ گیا ہے اور تمہارے بعد اس سے زیادہ لمبی قطار آدمیوں کی بن گئی ہے۔ وہاں یہ رات دن کا مشغلہ ہے۔ اور ہر شخص اس میکانکی زندگی کا عادی ہے۔”

    "تم کسی بڑے مخزن (اسٹور ہاؤس) یا تجارتی ذخیرہ کی دکان میں پہنچ جاؤ اور وہاں کے انہماک کو دیکھو، تم یہ معلوم کر کے حیران رہ جاؤ گے کہ ایک دن میں وہاں چار لاکھ آدمی آتے جاتے ہیں، یہاں دروازہ سے داخل ہوتے ہی تم کو مختلف تختیاں لکھی ہوئی نظر آئیں گی جو مختلف سمتوں کا حال بتاتی ہیں اور ہر سمت میں مختلف قسم کے مال کے ذخیروں کا پتہ بتاتی ہیں۔ پھر تم ذرا آگے بڑھے کہ وہاں خوش سلیقہ ملازم (مرد و عورت) شگفتہ روئی کے ساتھ آئے اور تمہاری ضروریات کے متعلق تمام آسانیاں بہم پہونچائیں۔”

    "ٹیلیفون سڑک پر ہر ہر جگہ تم کو ملیں گے اور فوراً تم کو اس مکان کے نمبر سے ملا دیں گے جہاں سے تم گفتگو کرنا چاہتے ہو۔ زمین کے اوپر نیچے یہاں ریل کا ایسا ہی جال ہے جیسے جسم انسان میں شرائن و ورید، لیکن ہر گاڑی میں تمام تفصیلی نقشے متعدد اشارات و ہدایات موجود رہتی ہیں جس سے ایک شخص بہ آسانی منزلِ مقصود تک پہنچ جاتا ہے، پھر یوں بھی ان نقشوں کے دیکھنے کی ضرورت کس کو ہوتی ہے۔ ریل کے ملازم خود تمہاری مدد کرنے کے لیے ہر وقت ہر جگہ غلاموں کی طرح موجود رہتے ہیں۔”

    "انگلستان کا باشندہ اپنے قواعد کو کبھی بیکار و معطل نہیں رہنے دیتا اور پوری ہمّت کے ساتھ وہ ان سے کام لیتا ہے۔ اور یہی نظامِ عمل ہے کہ وہ حفظِ نشاط کے لیے کافی آرام بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ چنانچہ تم دیکھو گے کہ ابتدائی مدارس سے لے کر بڑی بڑی کالجوں تک یہ دستور ہے کہ نو بجے صبح سے قبل وہاں تعلیم شروع نہیں ہوتی۔ اور کارخانے والے مجبور ہیں کہ اتوار اور نصف دن سنیچر کا تعطیل کے لیے وقف کریں۔ اسی طرح ہر طبقہ کے لوگ سالانہ تعطیل چند دن کی نہایت لطف سے مناتے ہیں جس میں مرید و مخدوم سب برابر ہیں۔”

    "ایک خاتون میری دوست ہیں جن کے ایک چھوٹا بچّہ ہے اور خود ہی ان کو گھر کا سارا انتظام اور بچّہ کی نگرانی کرنی پڑتی ہے، لیکن اتوار کے دن وہ خود بھی تعطیل مناتی ہیں اور ایک دن کے لیے کسی عورت کی خدمات حاصل کر لیتی ہیں۔ اس راحت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تعطیل کے بعد لوگ نہایت نشاط اور ناز و قوّت کے ساتھ کام پر جاتے ہیں اور ان کو کوئی تکان نہیں ہوتی۔”

  • ملکۂ اودھ بیگم حضرت محل جنھیں انگریزوں کی غلامی کسی قیمت پر قبول نہ تھی

    ملکۂ اودھ بیگم حضرت محل جنھیں انگریزوں کی غلامی کسی قیمت پر قبول نہ تھی

    برصغیر کی تاریخ کے صفحات جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی سازشوں، اور مکر و فریب کی داستان سناتے ہیں اور تجارت کے بہانے ہندوستان پر قبضہ کرنے والے انگریزوں کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے ہیں، وہیں ہمیں‌ بیگم حضرت محل جیسے کرداروں کے بارے میں جاننے کا موقع بھی ملتا ہے جنھوں نے انگریزوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا اور ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑی۔

    بیگم حضرت محل نے مسلمانوں ہی نہیں ہندوؤں اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کو متحد ہو کر آزادی کی جنگ لڑنے پر آمادہ کیا تھا۔ انھیں ہندوستان کی اوّلین خاتون مجاہدِ آزادی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

    اس دور اندیش، بہادر اور غیّور خاتون نے انگریز کی” تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی پالیسی کو بھانپ کر ہر مذہب کے پیروکاروں کو متحد ہونے کی تلقین کی اور اپنے قول و عمل سے تحریکِ جنگِ آزادی کو ایک نیا رخ دے دیا۔

    بیگم حضرت محل فیض آباد میں 1820ء میں پیدا ہوئیں۔ وہ کوئی معمولی عورت تھیں اور نہ ہی کسی عام گھرانے کی فرد۔ وہ اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کی رفیقِ حیات تھیں۔

    ہندوستان پر قبضہ کرتے ہوئے انگریز اودھ کے دربار پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے، لیکن انھیں یہ معلوم نہیں‌ تھا کہ ایک لڑکی راستے میں دیوار بن کر کھڑی ہو جائے گی۔

    تاریخ نے اس لڑکی کو کئی نام دیے مثلاً محمدی خانم، مہک پری، افتخار النساء، راج ماتا، جنابِ عالیہ، لیکن اس لڑکی کا سب سے مشہور نام بیگم حضرت محل تھا۔

    انگریزوں نے 1856ء میں مختلف ہندوستانی ریاستوں اور علاقوں پر اپنا راج قائم کرتے ہوئے جب واجد علی شاہ کو جلاوطنی پر مجبور کیا اور وہ کلکتہ چلے گئے تو بیگم حضرت محل نے اودھ کی باگ ڈور سنبھالی اور انگریزوں کے خلاف میدانِ‌ عمل میں اتریں‌۔

    بیگم حضرت محل نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ جنگ کے میدان میں انگریزوں کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ وہ انگریزوں کے اندازے سے کہیں بڑھ کر پُرعزم اور باحوصلہ ثابت ہوئیں، کیوں کہ وہ پالیسی سازی اور تنظیمی امور میں طاق تھیں۔

    1857ء کی جنگ کے دوران انھوں نے اودھ میں اپنی فوج کی قیادت کرتے ہوئے ایک عورت ہونے کے باوجود میدانِ جنگ میں عزم و ہمّت کی مثال قائم کی۔ وہ دو سال تک لڑائی جاری رکھتے ہوئے اپنی افواج کو منظّم اور ان کی طاقت میں اضافہ کرنے کے لیے بھی تدابیر اختیار کرتی رہیں۔ ایک وقت آیا جب مالی مسائل اور دوسری مشکلات بڑھ گئیں، لیکن انھوں نے شکست تسلیم نہ کی بلکہ انگریزوں نے انھیں وظیفہ و شاہانہ طرزِ زندگی اور دوسری مراعات کی پیشکش کی تو بیگم حضرت محل نے اسے ٹھکرا دیا۔

    بدقسمتی سے اپنوں کی سازش اور دغا بازی اور دوسرے ریاستی حکم رانوں کے تعاون سے محروم ہوجانے کے بعد ان کا آزادی کا خواب پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا، لیکن حضرت محل جب تک زندہ رہیں، انگریزوں کے آگے ہتھیار نہیں‌ ڈالے۔

    بیگم حضرت محل کی زندگی کا سورج 7 اپریل 1879ء کو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ انھوں نے نیپال میں‌ اپنی زندگی کی آخری سانس لی اور وہیں ان کا مدفن بنا۔

  • جدوجہدِ آزادی: ہندوستان میں جداگانہ مسلم تشخّص اور تحریکِ پاکستان

    جدوجہدِ آزادی: ہندوستان میں جداگانہ مسلم تشخّص اور تحریکِ پاکستان

    مسلمانوں کے ساتھ ساتھ صدیوں تک ہندوستان میں‌ ہر مذہب کے ماننے والے اسلامی احکامات، علما اور بزرگانِ دین کی تعلیمات اور صوفیائے کرام کے پیار و محبّت کے درس کی بدولت امن و سکون سے زندگی بسر کرتے رہے، لیکن انگریزوں کی آمد کے بعد جب اس اتحاد و اتفاق اور یگانگت نے دم توڑا تو ہندوستان بھی تقسیم ہوگیا۔

    برصغیر اور مسلم ہند کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو سب سے نمایاں اور اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ یہاں مسلم قومیت کا تصوّر پہلے سے موجود تھا۔ جب ہندوؤں نے انگریزوں سے گٹھ جوڑ کرکے مسلمانوں کو سیاست و سماج، تعلیم و معیشت غرض ہر شعبے میں پیچھے رکھنے کی کوششیں شروع کیں اور مسلمانوں میں‌ احساس محرومی پیدا کرنے کے ساتھ مذہبی تفریق اور نفرت پھیلا کر ہندوستان پر حکومت کرنے کا خواب دیکھنے لگے جس نے جداگانہ تشخّص کو برقرار رکھنے کے تصّور کو تقویت دی اور تحریکِ پاکستان کا سفر شروع ہوا۔

    تحریکِ پاکستان کے یوں کئی عوامل ہیں، لیکن یہاں ہم اس حوالے سے چند بنیادی اور نمایاں پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔

    جداگانہ تشخص اور تحریکِ پاکستان
    تحریکِ پاکستان کا ایک وسیع پس منظر ہے جسے جاننے کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں کہ مسلمانوں میں جداگانہ تشخص اور علیحدہ وطن کی خواہش نے متعصب اور انتہا پسند ہندوؤں کی وجہ سے جنم لیا اور حالات کو بگاڑتے ہوئے مسلمان قیادت کو اس مقام پر پہنچا دیا جہاں انھوں نے اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کیا اور اس کے لیے ہر محاذ پر انگریزوں اور متعصب ہندوؤں کا مقابلہ کیا۔ 1920ء کے بعد جو حالات پیدا کردیے گئے تھے، ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ مسلمان انگریزوں اور ہندوؤں کی سازشوں کے سبب اکٹھے نہیں رہ سکتے تھے۔

    حالات میں بگاڑ اور ہندوؤں کا انگریزوں سے گٹھ جوڑ
    جنگِ بلقان کے دوران 1913ء میں کانپور میں مچھلی بازار کی مسجد کا بیرونی حصہ شہید کر دیا گیا جس سے مذہبی جذبات بُری طرح مجروح ہوئے ، اور مسلمانوں کو یہ احساس ہوگیا کہ برطانوی حکومت نے مسلمانوں کو مذہبی اور سماجی اعتبار سے پامال کرنے کا تہیہ کر لیا ہے، چناں چہ سانحہ کانپور سے اسلامیانِ ہند کی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔

    اس واقعے سے پورے ہندوستان کے مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف
    غم و غصہ پیدا ہوا اور ہر طرف ہلچل مچ گئی۔ مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد جیسے راہ نماؤں اور اکابرین نے بالترتیب لاہور سے ’’زمیندار‘‘، دہلی سے ’’کامریڈ‘‘ اور کلکتہ سے ’’الہلا ل‘‘ نامی اخبارات جاری اور مسلمانوں کا مؤقف سامنے رکھتے ہوئے انگریز سرکار کی پالیسیوں پر تنقید کی۔ دیگر مسلم زعماء مثلا ًمولانا عبدالباری فرنگی ، محلی، مولانا آزاد سبحانی ، مولانا شوکت علی وغیرہ نے ایسے واقعات کو انگریزوں کی مسلم دشمن پالیسی قرار دے کر کڑی نکتہ چینی کی۔

    اسی واقعے کے بعد جب مسلمانوں پر فائرنگ اور مسلم راہ نماؤں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں تو ان راہ نماؤں نے شدید احتجاج کیا جس سے مسلمانوں میں ملّی بیداری اور عملی سیاست میں حصّہ لینے کی سوچ کو تقویت پہنچی۔

    ہندو مسلم فسادات
    1920ء کے بعد ہندوستان میں انگریز سرکار کی مسلم دشمن پالیسیوں اور ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کر کے نقصان پہنچانے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ نہ صرف برطانوی دور کی بدترین یاد ہے بلکہ مسلسل فسادات نے ایک خونیں تاریخ رقم کی۔ اس عشرے میں ہندو مسلم فسادات کی تاریخ میں ایک نئے اور سنگین باب کا اضافہ ہوا اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے ماضی میں کی جانے والی تمام کوششیں برباد ہوگئیں۔ مسلمانوں پر عیاں ہوگیا کہ انگریز اور ہندو ان کے بدترین دشمن ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہوگئی جسے پاٹنا ممکن نہ تھا۔

    محمد علی جناح اور ہندو مسلم اتحاد کی کوششیں
    محمد علی جناح جو اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے ایک سفیر اور اہم راہ نما تھے، وہ بھی حالات سے دل گرفتہ نظر آئے۔ اسی عشرہ میں اتحاد و اتفاق بڑھانے اور انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد کرانے کے حوالے سے کانفرنسیں بھی ہوئیں اور ہندو مسلم مفاہمت کے لیے کئی تجاویز سامنے آئیں جن میں قائد اعظم کے ایما پر دہلی تجاویز اہم ترین تھیں۔ یہ تجاویز 1937 میں مسلم زعما کے ایک اجلاس میں مرتب کی گئی تھیں، مگر آل انڈیا نیشنل کانگریس نے گاندھی اور نہرو کی سرکردگی میں ان مطالبات پر غور کیا اور اپنے ابتدائی اجلاس میں تسلیم بھی کرلیا لیکن بعد میں چند متعصب ہندوؤں کے زیرِ اثر ان میں سے چند مطالبات کو رد کر دیا گیا۔

    کانگریس کی چالیں اور مسلمانوں کو کم زور کرنے کی سازشیں
    اس کے بعد جب نہرو رپورٹ سامنے آئی جو کانگریس نے ہندوستان کے آئین کی حیثیت سے تیار کی تھی، ان میں بھی مسلم حقوق کو پامال کیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ دسمبر 1928ء اور جنوری 1929ء میں جب نہرو رپورٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے کلکتہ میں نیشنل کنونشن منعقد ہوا تواس میں بھی محمد علی جناح کے تین بنیادی مطالبات کو مسترد کر دیا گیا۔

    ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا
    محمد علی جناح اور ان ساتھیوں کے لیے یہ ایک انتہائی مایوس کن اور چونکا دینے والی صورت حال تھی۔ محمد علی جناح نے اپنے پارسی دوست جمشید نسروانجی سے کہا کہ’’آج ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا اس طرح جدا ہو گئے ہیں کہ اب کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے۔‘‘

    اس رپورٹ کے بعد اس وقت مختلف معاملات پر گروہ بندی اور اختلافات کی وجہ سے دور ہو جانے والے مسلمان راہ نماؤں کو بھی جب کانگریس کی مسلم دشمنی کا یقین ہوگیا تو وہ سب متحد ہوگئے۔

    مسلمان قیادت کا اتحاد اور آل پارٹیز مسلم کانفرنس
    جنوری 1929ء میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس اسی اتحاد کا مظہر ہے۔ اس کانفرنس کا اجلاس دہلی میں ہوا جس کی صدارت سر سلطان محمد آغا خان نے کی۔ اس کانفرنس میں نہ صرف میاں محمد شفیع اور سر شفاعت احمد خان پیش پیش تھے بلکہ ترک موالات اور تحریک خلافت کے راہ نما مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور حسرت موہانی جیسے جید علما اور سیاست دانوں نے بھی اس میں اہم کردار اداکیا۔

    قائدِ اعظم کے 14 نکات
    ان واقعات کی روشنی میں محمد علی جناح نے 1929ء میں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے اور اسے برصغیر کی تاریخ میں اسلامیانِ ہند کے منشور کی حیثیت حاصل ہوئی۔ بعد کے برسوں میں مسلم لیگ اور محمد علی جناح کی قیادت میں مختلف مسلم جماعتوں کے اتحاد کی کوششیں جاری رہیں اور لندن میں تین گول میز کانفرنسیں منعقد ہوئیں جس کے بعد ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء مرتب کیا گیا۔

    انتخابات اور کانگریس کی غیر متوقع کام یابی
    1906ء سے 1938ء تک ہندو مسلم مفاہمت کی کوششیں اور اس ضمن میں تجاویز مسلمانوں کی ہی جانب سے پیش کی جاتی رہی تھیں لیکن کانگریس اور ہندوؤں کی جانب سے منفی رویہ اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ دیکھا گیا جس نے 1937ء کے انتخابات کے بعد شدت اختیار کرلی۔ انتخابات سے قبل قوی امید تھی کہ کانگریس اور مسلم لیگ میں مفاہمت ہو جائے گی اور دونوں جماعتیں مل کر مخلوط وزارتیں قائم کریں گی، لیکن انتخابات میں کانگریس کی غیر متوقع کام یابی کے بعد طاقت کے نشے میں بدمست کانگریس نے کچھ اور ہی منصوبہ بنا لیا۔

    کانگریس کے متعصب اور مفاد پرست ہندو راہ نماؤں نے دوسری تمام پارٹیوں کو اپنے اندر ضم کرکے ہندوستان کی واحد سیاسی جماعت بن جانے کا سوچا اور مخلوط وزارتوں کے بارے میں مسلم لیگ کی پیش کش کو ٹھکرا دیا، یہی نہیں جن ہندو اکثریتی صوبوں میں کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں وہاں مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کردیا۔

    کانگریس کی پالیسیاں اور مسلم کش اقدامات
    سیاسی طاقت کے حصول کے بعد کانگریس کی جانب سے ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت یکے بعد دیگرے مسلم کش اقدامات کیے جن میں بندے ماترم کو قومی ترانہ کی حیثیت دینا، تمام سرکاری عمارتوں پر کانگریس کے پرچم کو قومی پرچم کی حیثیت سے لہرانا، اردو کی جگہ ہندی زبان، گائے کو ذبح کرنے پر پابندی، ملازمتوں میں مسلمانوں کو ان کے مخصوص اور مقررہ حقوق سے محروم کرنا۔

    آل انڈیا مسلم لیگ کی مقبولیت
    مسلم قیادت اور اکابرین نے یہ سب دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی غرض سے قائدِ اعظم کے ساتھ 1934ء میں‌ کوششوں کا آغاز کیا اور جب مسلم لیگ کا اجلاس لکھنؤ میں 1937ء میں ہوا تو اس نے ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو ایک ایسے جوش وجذبہ سے سرشارکردیا جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس اجلاس کے صرف تین ماہ بعد ہی مسلم لیگ کی نئی شاخیں قائم ہونے لگیں اور رکنیت سازی زوروں پر تھی۔

    محمد علی جناح کی حکمت عملی، صبر و تحمل اور سیاسی بصیرت کے باوصف تحریک کام یاب ہوتی چلی گئی اور ہندوستان بھر میں ترقی کی اور بڑے صوبوں میں اسلامیانِ ہند کے کام یاب ترین اجلاس منعقد ہوئے۔ مسلم لیگ کی روز افزوں قوّت اور مقبولیت بڑھنے کا اندازہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے بھی ہوتا ہے جس نے سیاسی طور پر مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچایا۔ مسلم لیگ کی مقبولیت کا ایک ثبوت 1939ء میں یومَِ نجات منانے کی جناح صاحب کی اپیل تھی جس پر برصغیر کے مسلمانوں نے والہانہ انداز اور جوش و جذبے سے لبیک کہا۔

    مسلم قومیت کا فروغ اور علیحدہ ریاست کا قیام
    وہ وقت بھی آیا جب قائداعظم نے الگ مسلم قومی تشخص کی اس طرح توضیح اور تشریح کی کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں ایک علیحدہ مملکت کے قیام پر سب رضامند ہوگئے۔ چنانچہ قائداعظم کی زیرِ قیادت مسلم لیگ نے لاہور میں 1940ء میں منعقدہ اجلاس میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کو اپنا نصب العین قرار دے دیا جو بعد میں پاکستان کے نام سے مشہور ہوا۔

    یہ پہلا موقع تھا جب اسلامیانِ ہند نے اتنے واضح اور مدلل انداز میں اپنی منفرد اور علیحدہ قومیت کا نہ صرف اعلان اور دعویٰ کیا بلکہ برصغیر میں ایک علیحدہ وطن کی تشکیل پر بھی زور دیا اور 14 اگست 1947ء میں لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر مسلمانوں نے پاکستان حاصل کیا۔

  • تحریکِ‌ پاکستان: ’’مسلم لیگ کیا ہے؟ میں، شمسُ الحسن اور ان کا ٹائپ رائٹر‘‘

    تحریکِ‌ پاکستان: ’’مسلم لیگ کیا ہے؟ میں، شمسُ الحسن اور ان کا ٹائپ رائٹر‘‘

    سیّد شمسُ الحسن تحریکِ آزادی کے اُن سپاہیوں میں سے ایک ہیں جنھیں قائدِ اعظم محمد علی جناح کا قرب اور رفاقت ہی نصیب نہیں ہوئی بلکہ وہ بانی پاکستان کے معتمد اور لائقِ بھروسا ساتھیوں میں‌ شمار ہوتے تھے۔

    ان کا ایک امتیاز اور اعزاز یہ بھی ہے کہ ان کے خلوص، نیک نیّتی، دیانت داری، عزمِ مصمم اور اٹل ارادوں کو دیکھ کر بانی پاکستان قائدِ‌ اعظم محمد علی جناح نے انھیں شان دار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا تھا اور وہ الفاظ شمسُ الحسن کو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔

    سّید شمسُ الحسن نے برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کو توانا، مضبوط اور فعال بنانے کے لیے ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ وہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں نمایاں اور ممتاز رہے۔

    آزادی کی تحریک کے لیے دن رات ایک کردینے والے سیّد شمسُ الحسن 1892ء میں بریلی میں پیدا ہوئے تھے۔ 1914ء سے 1947ء تک انھوں نے مسلم لیگ کے آفس سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی بے لوث اور پُرخلوص کاوشوں اور شبانہ روز محنت کو دیکھتے ہوئے قائدِ‌اعظم نے ایک مرتبہ اس مجاہد کے بارے میں فرمایا کہ ’’مسلم لیگ کیا ہے، میں، شمسُ الحسن اور ان کا ٹائپ رائٹر۔‘‘

    قیامِ پاکستان کے بعد شمسُ الحسن 1948ء سے 1958ء تک پاکستان مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری کے طور پر کام کرتے رہے۔ وہ 7 نومبر 1981ء کو وفات پاگئے تھے۔ سید شمسُ الحسن کو کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردَ خاک کیا گیا۔

    2007ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • دادا بھائی ناؤروجی: عظیم سیاسی اور سماجی راہ نما جن کے لیے برطانوی سیاست دانوں نے تحقیر آمیز الفاظ استعمال کیے

    دادا بھائی ناؤروجی: عظیم سیاسی اور سماجی راہ نما جن کے لیے برطانوی سیاست دانوں نے تحقیر آمیز الفاظ استعمال کیے

    آج دادا بھائی ناؤروجی کا یومِ وفات ہے جنھیں متحدہ ہندوستان میں دور اندیش اور زیرک سیاست داں اور عوام کے خیر خواہ کی حیثیت سے نہایت عزّت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ اوّلین ہندوستانی تھے جس نے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ تجارت کی آڑ میں‌ برطانیہ لوٹ مار اور ہندوستان کے عوام کا استحصال کر رہا ہے۔

    دادا بھائی ناؤروجی ستمبر 1825ء کو بمبئی کے ایک پارسی گھرانے میں پیدا ہوئے اور اسی شہر میں 30 جون 1917ء کو وفات پائی۔

    ناؤروجی ایک غریب گھرانے کے فرد تھے اور یہی وجہ تھی کہ انھیں مفت ابتدائی تعلیم کے ایک منصوبے سے فائدہ اٹھانا پڑا۔ وہ نیک صفت اور باشعور تو تھے ہی، لیکن مالی تنگی اور مسائل نے انھیں زیادہ حسّاس بنا دیا تھا، انھوں نے اس مفت تعلیم کو خود پر قرض تصوّر کیا اور سوچ لیا کہ آگے چل کر تعلیم سمیت ہر شعبے میں عوامی خدمت کا راستہ اپنائیں گے۔ وہ ایک ایسے ہندوستانی راہ نما تھے جس نے نسل پرستی اور ہر قسم کے امتیاز کی مخالفت کرتے ہوئے سامراجی نظام کو چیلنج کیا۔

    دادا بھائی ناؤروجی چھوٹی عمر ہی سے شعور اور آگاہی کے ساتھ فلاحی مقاصد کے فروغ کے لیے سرگرم رہے۔ 1840ء کی دہائی کے آخر میں انھوں نے لڑکیوں کے لیے اسکول کھولے تو ہندوستان کا قدامت پسند طبقہ ان کے خلاف ہوگیا، لیکن انھوں نے اس کی پروا نہ کی۔ ان کی اسی ثابت قدمی اور خلوص کا نتیجہ تھا کہ بڑی تعداد میں طالبات اسکول آنے لگیں۔

    ناؤروجی کا شمار ان مثالی ہندوستانیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اس زمانے میں صنفی مساوات پر بات کی اور کہا کہ دنیا میں عورت کو بھی مردوں کی طرح تمام حقوق حاصل ہیں اور وہ ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرنے کا حق رکھتی ہیں۔

    1901ء میں دادا بھائی ناؤروجی کی کتاب Poverty and Un-British Rule in India شایع ہوئی جس نے برطانوی سیاست دانوں اور افسر شاہی کو گویا مشتعل کردیا، انھوں نے اس کتاب میں تفصیلی وضاحت دی کہ نوآبادیاتی نظام میں کیسے ہندوستان کی دولت کو برطانیہ منتقل کیا جارہا ہے جب کہ ہندوستان میں غربت پنپ رہی ہے۔

    1855ء میں ناؤروجی پہلی مرتبہ برطانیہ گئے اور ان کی دولت اور خوش حالی دیکھنے کے بعد ہندوستان کے حالات اور عوام کی کس مپرسی کے اسباب جاننے کی کوشش کی اور اس کے لیے معاشی جائزہ اور مالی تجزیہ پر کام شروع کیا۔ انھوں نے بتایا کہ برطانیہ ہندوستانیوں سے مخلص نہیں اور انھیں قحط کے عفریت اور دیگر مسائل کے ساتھ غربت کی چکّی میں‌ جھونک رہا ہے جس پر برطانیہ کی جانب سے انھیں‌ باغی اور سرکش کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ان کی یہ بات خاص و عام تک پہنچ چکی تھی۔

    ان کے خیالات نے مغرب کے باشعور طبقے، ترقی پسند مکتبہ فکر سمیت یورپ کے اشتراکیت پسندوں کو متاثر کیا۔ انھوں نے محنت کش طبقے کا ساتھ دیا، تعلیم اور دیگر شعبوں سمیت انتخابات میں عورتوں‌ کے حقِ رائے دہندگی کے لیے آواز اٹھائی اور ہندوستان میں فوری طور پر مثالی اور عوام دوست اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جس پر انھیں سنجیدہ طبقات کی حمایت حاصل ہوگئی۔

    یہ ان کا گویا وہ جرم تھا جس پر برطانوی سیاست دانوں نے ان کے لیے تحقیر آمیز الفاظ استعمال کیے۔ لیکن اس مخالفت اور پروپیگنڈے کے باوجود وہ دن آیا جب 1892ء میں وہ لندن میں پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے اور ایک موقع پر دادا بھائی ناؤروجی نے ایوان میں اپنا نظریہ اور مؤقف پیش کیا۔ انھوں نے کہاکہ برطانوی طرزِ حکم رانی سفاکانہ ہے جس میں‌ ان کے ہم وطنوں کا استحصال اور انھیں‌ بنیادی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے، اس کے بعد ناؤروجی 1895ء میں دوبارہ انتخابی میدان میں‌ اترے، مگر انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اس وقت تک ان کی فکر اور آواز برطانیہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک تک پہنچ چکی تھی جس کا بہت فائدہ ہوا۔ وہ پہلے ایشیائی تھے جو رکنِ پارلیمان منتخب ہوئے۔

    ناؤروجی ایک ایسے راہ نما تھے جس نے اپنے سیاسی اور سماجی خدمت کے سفر میں‌ کئی بار نامساعد حالات، اپنوں کی مخالفت اور سخت رویّے کا بھی سامنا کیا، لیکن کسی بھی موقع پر گھبرا کر اپنا راستہ نہیں بدلا اور خود کو رجائیت پسند اور باہمّت ثابت کیا۔

  • کراچی پورٹ ٹرسٹ: ایک صدی پرانی تاریخی اہمیت کی حامل عمارت

    کراچی پورٹ ٹرسٹ: ایک صدی پرانی تاریخی اہمیت کی حامل عمارت

    کراچی شہر انگریز دور میں بھی علم و فنون کا مرکز، تہذیب و ثقافت کا گہوارہ اور کاروباری و تجارتی سرگرمیوں کے لیے مشہور رہا ہے جہاں مختلف اقوام اور مذاہب کے ماننے والے بستے تھے جس کی ایک جھلک یہاں کے فنِ تعمیر میں بھی نظر آتی ہے۔

    کراچی میں کئی قدیم عمارتیں دیکھی جاسکتی ہیں جو آج بھی رہائشی اور کاروباری مقاصد کے لیے استعمال ہورہی ہیں۔ ان میں سے اکثر عمارتیں ہندو راجائوں، امرا اور برطانوی حکم رانوں کی بنوائی ہوئی ہیں، جو اس زمانے کے جمالیاتی ذوق کی آئینہ دار ہیں۔ ایک ایسی ہی مشہور اور اہم عمارت کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ہیڈ کوارٹر کی ہے جسے ایک صدی قبل تعمیر کیا گیا تھا۔

    اس عمارت کا سمندری راستوں سے سامان کی ترسیل میں کلیدی کردار رہا ہے اور اس عمارت سے متعلقہ عملہ شہر کی اہم ترین بندر گاہ کے لیے کئی دہائیوں سے خدمات فراہم کررہا ہے۔

    کراچی پورٹ ٹرسٹ کی عمارت کا یہ مرکزی دفتر برطانوی، ہندو اور گوتھک ثقافتوں کے امتزاج کا نمونہ ہے اور ماہرین کے مطابق اس میں‌ رومن فنِ تعمیر کی آمیزش بھی ہے، جب کہ عمارت کا مرکزی گنبد اسلامی طرزِ تعمیر کا عکاس ہے۔

    یہ کراچی کی اہم اور نمایاں عمارات میں سے ایک ہے جسے بمبئی حکومت کے کنسلٹنٹ آرکیٹکچر جارج وائٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے انتظامی دفاتر کی تعمیر 1916ء میں مکمل ہوئی تھی جہاں سے آج تک کراچی پورٹ کے لیے عملہ سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔

    اس قدیم عمارت کی تعمیر کا کام 1912ء میں شروع کیا گیا تھا جو چار سال کی مدت میں‌ مکمل کیا گیا اور اس وقت کے ممبئی کے گورنر لارڈ ویلنگٹن نے اس کا افتتاح کیا تھا، اس دور میں‌ اس کی تعمیر پر 9 لاکھ سے زائد رقم خرچ ہوئی تھی۔

    تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں‌ کہ اس عمارت کو پہلی جنگِ عظیم کے دوران انڈیا جنرل اسپتال کا نام دے دیا گیا تھا جب کہ مئی 1919ء تک یہ عمارت فوجی اسپتال کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔

    یہ عمارت دو منزلہ ہے جس کے دروازے کھڑکیاں بڑے اور محرابیں کشادہ و بلند ہیں۔ دروازوں اور کھڑکیوں میں مہنگی ساگون لکڑی استعمال کی گئی ہے۔ عمارت کا داخلی اور خارجی حصّہ سادہ اور پُرکشش ہے، جب کہ کمرے کشادہ ہیں جن کی چھت اونچی ہے۔

    یہ عمارت ماضی کی یادگار اور اہم قومی ورثہ ہے جہاں یومِ‌ آزادی اور دیگر اہم تہواروں پر
    برقی قمقمے روشن کیے جاتے ہیں اور سجاوٹ و آرائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

  • برطانوی حکومت کے حق میں ہندوستانی طلبہ کی ذہن سازی کیسے کی جاتی تھی؟

    برطانوی حکومت کے حق میں ہندوستانی طلبہ کی ذہن سازی کیسے کی جاتی تھی؟

    انگریزوں نے ہندوستان پر اپنا راج برقرار رکھنے کے لیے جہاں من مانے اصولوں اور قوانین کا سہارا لیا، وہیں ہندوستانیوں کی حمایت اور وفاداریاں سمیٹنے کی کوشش بھی کی اور لوگوں کو یہ باور کرایا کہ برطانیہ اس خطّے اور مقامی لوگوں کی ترقی و خوش حالی چاہتا ہے جس کا ثبوت مختلف سرکاری اسکیمیں اور ترقیاتی کام ہیں۔

    کہتے ہیں اس زمانے میں عام لوگوں اور اسکولوں کے طلبہ کی "برکاتِ حکومتِ انگلشیہ” کے تحت لٹریچر سے ذہن سازی کی جاتی تھی۔ اس ضمن میں برطانوی راج کے فوائد و ثمرات سے متعلق سوالات ہوتے اور درست جواب دینے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ اس حوالے سے اردو کے مشہور و معروف افسانہ اور ناول نگار، فلمی ہدایت کار اور صحافی خواجہ احمد عباس کی آپ بیتی ‘‘جزیرہ نہیں ہوں میں‘‘ سے یہ اقتباس لائقِ مطالعہ ہے۔

    خواجہ احمد عباس نے ایسے ہی ایک واقعے کو یوں رقم کیا ہے:

    ”مجھ سے آگے والے لڑکے سے انسپکٹر صاحب نے کہا، ”تم بتاؤ برطانوی راج کی رحمتیں کون کون سی ہیں؟“

    جواب پہلے سے ہمیں زبانی یاد کرایا جاچکا تھا اور ہم کو وہی دہرانا تھا۔ ”برطانوی حکومت نے ہندوستان کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ سڑکیں بنوائی ہیں، ریلوے، ڈاک خانے، اسکول، اسپتال….“

    لڑکا کچھ ایسا ذہین نہیں تھا۔ اردو بولتے بولتے بھی اکھڑ گیا۔ انگریزی تو ہمارے اساتذہ تک کو نہیں آتی تھی۔

    ”جناب انسپکٹر صاحب، برطانوی حکومت نے ہمارے لیے بنائیں سڑکیں، ریلیں، ڈاک خانے….“ اس سے آگے کی فہرست وہ بھول گیا اور خاموش ہوگیا۔

    ”اور… اور؟“ انسپکٹر نے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے پوچھا۔ اس کو امید تھی کہ لڑکا کہے گا شفا خانے، کتب خانے وغیرہ وغیرہ۔

    ”اور کون بتا سکتا ہے؟“ انسپکٹر نے پوچھا۔ میں نے فوراً اپنا ہاتھ اٹھا دیا۔

    یہ واقعہ ہمارے شہر میں مہاتما گاندھی کی آمد کے فوراً بعد کا ہے اور مجھ کو معلوم تھا کہ ان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ مجھ کو صرف ایک ہی اور ”خانہ“ معلوم تھا، جو لڑکا بتانا بھول گیا تھا۔

    ”ہاں؟“ انسپکٹر صاحب نے میری طرف رُخ کیا۔ میں جماعت میں سب سے چھوٹا تھا۔ انھوں نے مسکرا کر میرا حوصلہ بڑھاتے ہوئے پہلے والے لڑکے کے الفاظ دہرائے۔ ”ریلیں، سڑکیں، ڈاک خانے….؟“

    میں نے بہ آوازِ بلند فاتحانہ انداز سے کہا۔ ”قید خانے۔“

    میرا اشارہ ان قید خانوں کی طرف تھا جن میں مہاتما گاندھی، علی برادران اور ان کے بہت سے پیرو کاروں کو بند کر کے رکھا گیا تھا۔

    میرے جواب پر انسپکٹر صاحب خوش نہیں ہوئے۔ حالاں کہ میں مطمئن تھا کہ قید خانے اور ڈاک خانے ہم صوت تھے۔

  • سخت سردی کے باوجود مولانا نے کمبل اوڑھنا گوارا نہ کیا!

    سخت سردی کے باوجود مولانا نے کمبل اوڑھنا گوارا نہ کیا!

    انگریز برِصغیر کو دولت کی کان اور کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ سمجھتے تھے اور یہاں کی دولت سے خوب فائدہ اُٹھاتے تھے۔ یہاں سے سستے داموں کپاس خریدتے، یہ کپاس انگلستان جاتی، وہاں اُس سے طرح طرح کے کپڑے تیار ہوتے۔

    پھر یہ کپڑے برصغیر آتے، مہنگے داموں فروخت ہوتے اور انگریز اس کاروبار سے مالی منفعت حاصل کرتے۔ ایک تو یہ کہ اُن کے کارخانے چلتے، ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا۔ دوسرے یہ کہ کپڑے کی فروخت سے بھی خوب فائدہ ہوتا۔

    ایک کپاس ہی کیا، برِصغیر کی ساری قدرتی پیداوار انگلستان جاتی۔ وہاں سے بدلی ہوئی شکل میں واپس آ کر انگریزوں کی دولت بڑھاتی۔ اس زمانے میں برِصغیر میں کارخانے بھی کم تھے۔ جو تھے وہ بھی انگریزی کارخانوں سے مقابلہ نہ کر پاتے۔

    برِصغیر کے راہ نماؤں نے انگریزوں کی اس زبردستی کو ختم کرنے کے لیے سودیشی تحریک شروع کی۔ سودیشی کا مطلب ہے دیس سے تعلق رکھنے والی۔ سودیشی تحریک کے تحت ہر شخص سے کہا گیا کہ اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں خریدے اور استعمال کرے۔ برِصغیر کی معیشت کو پہنچنے والے بھاری نقصان کے اعتبار سے یہ بہت اچھی تحریک تھی۔

    دنیا کی تمام ترقی کرنے والی قومیں اسی اصول پر عمل کرتی ہیں۔ انگریز اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں خریدتے ہیں اور اُس پر فخر کرتے ہیں۔ امریکی فرانسیسی، چینی، جاپانی سب اپنے ملکوں کی مصنوعات پسند کرتے ہیں۔ یہ خاصیت ہم میں ہی ہے کہ اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں چھوڑ کر پرائے دیس کی چیزیں خریدتے ہیں۔ انہیں استعمال کرتے اور خوشی خوشی ہر ایک کو دکھاتے ہیں کہ یہ باہر کا کپڑا ہے۔ یہ باہر کا جوتا ہے۔ حالاں کہ اس سے قومی صنعتوں اور قومی ترقی کو بڑا نقصان ہوتا ہے۔ افسوس کہ آج بھی ہمارا یہی حال ہے۔

    سودیشی تحریک کو لوگوں نے کام یاب بنانے کی کوشش کی اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے سارے ملک میں پھیل گئی۔ مولانا حسرت کو بھی سودیشی تحریک بہت پسند آئی۔ انہوں نے سب سے پہلے تو یہ عہد کیا کہ میں اب کوئی غیر ملکی چیز استعمال نہیں کروں گا۔ یہ بڑا مشکل عہد ہے۔ آسان بات نہیں مگر مولانا دُھن کے پکّے تھے۔ جب تک جیے اس عہد کو نباہتے رہے۔

    ایک دفعہ ایسا ہوا کہ سخت سردی کا زمانہ تھا۔ شام کے وقت مولانا لکھنؤ میں ایک معروف عالم سیّد سلیمان ندوی سے ملنے گئے۔ باتوں میں بڑی دیر ہو گئی۔ سید صاحب نے اصرار کیا۔ کہنے لگے۔ "اب کہاں جائیے گا۔ رات بہت ہو گئی ہے۔ سردی بھی بہت ہے۔ رات یہیں گزار لیجے، صبح کو چلے جائیے گا۔”

    مولانا سیّد صاحب کے اصرار پر وہیں ٹھہر گئے۔ رات کو اتفاقاً سیّد صاحب کی آنکھ کھلی تو خیال آیا، مولانا حسرت مہمان ہیں۔ ذرا دیکھ لو آرام سے تو ہیں۔ کوئی تکلیف تو نہیں۔ یہ سوچ کر سیّد صاحب اس کمرے میں گئے جہاں مولانا سو رہے تھے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ مولانا گُڑی مُڑی بنے، سُکڑے سِمٹے لیٹے ہیں اور اونی کمبل پائنتی پر پڑا ہے۔

    ہُوا یہ کہ مولانا کے پائنتی کمبل رکھ دیا گیا تھا کہ رات کو اوڑھ کر سو جائیں۔ کمبل تھا ولایتی۔ مولانا نے ولایتی کمبل دیکھا تو اپنے عہد کے مطابق اُسے نہیں اوڑھا۔ کمبل پائنتی پڑا رہا۔ مولانا رات بھر سردی میں سُکڑتے رہے، مگر ولایتی کمبل اوڑھنا گوارا نہ ہوا۔ عہد پر قائم رہنے والے سچّے لوگ ایسے ہوتے ہیں۔

    اگر سب لوگ اپنے عہد کا پاس کرنے لگیں تو کوئی بڑے سے بڑا قومی کام بھی ناممکن نہ رہے۔

    (ڈاکٹر اسلم فرخی کے کتابچے "مولانا حسرت موہانی” سے نثر پارے)