Tag: برطانوی راج

  • برطانوی افسر اور لاہور کی دو سڑکیں

    برطانوی افسر اور لاہور کی دو سڑکیں

    1864 میں ہندوستان میں‌ آنکھ کھولنے والے ایڈورڈ کے والد رائل انجینئرنگ سروس سے وابستہ تھے اور برطانوی راج میں انھیں پنجاب میں تعینات کیا گیا تھا۔

    ہندوستان میں قیام کے دوران اس برطانوی افسر کے گھر پیدا ہونے والے ایڈورڈ نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ونچسٹر کالج اور نیو کالج آکسفورڈ سے اعلیٰ تعلیم مکمل کی اور 1883 میں انڈین سول سروس کے امتحان میں‌ کام یاب قرار پایا۔ یوں وہ سول سروس کا اہم رکن بنا جس نے متعدد اہم اور کلیدی عہدوں‌ پر خدمات انجام دیں۔ تاریخ‌ کے صفحات میں‌ اس برطانوی افسر کا پورا نام سَر ایڈورڈ ڈگلس میکلیگن درج ہے۔

    ایڈورڈ ڈگلس میکلیگن کو ہندوستان میں‌ مختلف عہدوں‌ پر اہم ذمہ داریاں نبھانے کا موقع ملا‌۔ 1881 کی پہلی مردم شماری بھی اسی کے زیرِ نگرانی مکمل ہوئی تھی۔

    ڈگلس پنجاب میں‌ پلا بڑھا تھا، وہ یہاں‌ کے رسم و رواج، لوگوں کے مزاج، عادات اور ثقافت سے خوب آشنا تھا۔ اس نے پنجاب میں‌ مختلف ذوات اور قبائل پر ایک مبسوط کتاب بھی مرتب کی تھی۔

    1906 میں اسے برطانوی سرکار نے پنجاب کا چیف سیکرٹری مقرر کیا جب کہ 1910 میں وہ سیکرٹری ایجوکیشن اور بعد میں سیکرٹری ریونیو کے عہدے پر فائز ہوا۔ 1919 میں اسے لیفٹیننٹ گورنر پنجاب مقرر کیا گیا۔

    میکلیگن کے دور میں‌ پنجاب میں سیاسی اور عوامی بے چینی شدید تھی جس کا سبب جلیانوالا باغ کا سانحہ تھا۔ میکلیگن کو اسی بے چینی اور مخالفت کا زور توڑنے اور حالات کو سنبھالنے کے لیے پنجاب کا حاکم بنایا گیا تھا۔

    سَر ایڈورڈ ڈگلس میکلیگن نے گورنر کی حیثیت سے لاہور میں دو تعلیمی ادارے قائم کیے جو آج یونیورسٹی کا درجہ پاچکے ہیں۔ 1923 میں میکلیگن نے مغل پورہ ٹیکنیکل کالج کی بنیاد رکھی تھی جسے بعد میں‌ اسی برطانوی افسر کے نام پر میکلیگن انجنیئرنگ کالج کہا جانے لگا تھا۔

    1924 میں اس برطانوی منتظم نے لاہور کالج فار ویمن کی بنیاد رکھی اور یہ بھی ملک کی جامعات میں‌ سے ایک ہے۔ یہ دونوں تعلیمی ادارے تو آج بھی میکلیگن کی یاد دلاتے ہیں، مگر لاہور کی دو سڑکیں‌ بھی اسی انگریز افسر سے موسوم تھیں جن کے نام بعد میں‌ تبدیل کردیے گئے۔

    لاہور کے باسی اگر اے جی آفس چوک سے جین مندر کو جانے والی سڑک پر نکلیں‌ تو انھیں‌ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کسی زمانے میں ایڈورڈ روڈ کہلاتی تھی۔ اگر اسی اے جی آفس چوک سے بائیں ہاتھ کی طرف مڑیں تو برسوں پہلے اس سڑک کو میکلیگن روڈ کہا جاتا تھا۔

    یوں سَر ایڈورڈ ڈگلس میکلیگن کے نام کے دو حصّوں میں لکھ کر دو الگ الگ سڑکوں پر سجایا گیا۔ آج تقسیمِ ہند، برطانوی دور کے پنجاب کا تذکرہ اور سَر ایڈورڈ ڈگلس میکلیگن کا نام تو تاریخ کے اوراق میں موجود ہے، لیکن لاہور کی مذکورہ سڑکوں پر اس برطانوی منتظم کا نام کہیں‌ نہیں‌ ملے گا۔

    1952 میں اس برطانوی افسر کی زندگی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔

  • "سنا ہے آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے!”

    "سنا ہے آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے!”

    ہندوستان پر برطانوی راج کے دوران جہاں اس خطے کے عام باسیوں اور اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو انگریزی زبان سمجھنے اور گوروں کے ساتھ بات چیت میں دشواری پیش آتی تھی، اسی طرح انگریزوں کو بھی براہ راست عوام سے رابطے میں زبان ہی رکاوٹ تھی۔

    بعض انگریز صوبے دار اور بڑے عہدوں پر فائز افسران مقامی زبان سیکھنے کے خواہش مند ہوئے۔ کچھ نے سرکاری ضرورت کے تحت اور بعض نے ذاتی خواہش اور دل چسپی سے فارسی سیکھنے کے لیے اتالیق کی مدد لی۔ تاہم عام بول چال اور بات تھی، مگر بامحاورہ اور شاعرانہ گفتگو ہضم کرنا آسان تو نہ تھا۔ اسی سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ پڑھیے۔

    مشہور ادیب آغا حشر کاشمیری کے ایک شناسا خاصے باذوق، صاحبِ علم اور فارسی پر عبور رکھتے تھے۔ کہتے ہیں ایرانی بھی ان کی فارسی دانی کو تسلیم کرتے تھے، لیکن ان دنوں مولوی صاحب روزگار سے محروم تھے اور معاشی مسائل جھیل رہے تھے۔

    آغا حشر ان کے حالات سے اچھی طرح واقف تھے اور کوشش تھی کہ کسی طرح مولوی صاحب کی ملازمت ہوجائے۔ ایک روز کسی نے آغا صاحب کو بتایاکہ ایک انگریز افسر فارسی سیکھنا چاہتا ہے اور کسی اچھے اتالیق کی تلاش میں ہے۔

    آغا صاحب نے بمبئی کے ایک معروف رئیس کے توسط سے مولوی صاحب کو اس انگریز افسر کے ہاں بھجوا دیا۔

    صاحب بہادر نے مولوی صاحب سے کہا۔

    "ویل مولوی صاحب ہم کو معلوم ہوا کہ آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے۔”

    مولوی صاحب نے انکساری سے کام لیتے ہوئے کہا۔ "حضور کی بندہ پروری ہے ورنہ میں فارسی سے کہاں واقف ہوں۔”

    صاحب بہادر نے یہ سنا تو مولوی صاحب سے ادھر ادھر کی دو چار باتیں کیں اور نہایت احترام سے رخصت کر دیا، لیکن جس رئیس نے انھیں بھیجا تھا، اس سے شکایت یہ کی کہ بغیر سوچے سمجھے ایک ایسے آدمی کو فارسی پڑھانے کے لیے میرے پاس کیوں بھیجا جو اس زبان کا ایک لفظ تک نہیں جانتا۔

  • ڈاکٹر فیلن نے عورتوں‌ کی جلی کٹی باتیں کب سنیں؟

    ڈاکٹر فیلن نے عورتوں‌ کی جلی کٹی باتیں کب سنیں؟

    یہ ہندوستان پر راج کرنے والی انگریز سرکار کے ایک ایسے افسر کا تذکرہ ہے جس نے نہ صرف اردو انگریزی لغت مرتب کی بلکہ عام ہندوستانیوں‌ میں‌ انھیں‌ ایک نرم مزاج اور یار باش افسر سمجھا جاتا تھا.

    یہ لغت نویس ڈاکٹر ایس ڈبلیو فیلن ہیں جو 1817 میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ہندوستان میں کئی دوست بنائے اور عام لوگوں سے میل جول رکھنا انھیں پسند تھا۔

    اس لغت نویس نے دنیا کو بتایا کہ ہندوستان میں عام بول چال اور تحریری زبان کے علاوہ ایک ایسی بولی بھی ہے جس کا ذخیرہ الفاظ، جملے اور صوتی اثر جداگانہ ہے۔ انھوں نے اسے زنانہ بولی کہا۔

    عورتوں کی بولی سے متعلق اپنے تبصرے میں فیلن لکھتے ہیں کہ عمر بھر تکلیف اور دکھ اٹھانے والی اس مخلوق کے لبوں سے فی البدیہہ جو جلی کٹی باتیں نکلتی ہیں، اُن میں تجربہ، خیال کی کاٹ، لفظوں کا انتخاب ہی نہیں بلکہ لہجے کی کھنک ایسی ہوتی ہے کہ ہزار مرد بھی ویسا ایک جملہ تخلیق نہیں کر سکتے۔

    ڈاکٹر فیلن نے بنگال کے محکمہ تعلیم میں ملازمت کی اور اپنی علمی استعداد اور قابلیت سے لغت مرتب کرنے کے علاوہ اردو زبان میں نظم و نثر سے متعلق کام کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر فیلن نے دہلی میں سکونت اختیار کی۔ بعد میں انگلستان چلے گئے جہاں اپنی مرتب کردہ لغت کی اشاعت کے ایک سال بعد یعنی 1880 میں ان کا انتقال ہو گیا۔

  • کراچی ایمپریس مارکیٹ سے تجاوزات کا خاتمہ: 50 سال بعد تاریخی عمارت کی دھلائی

    کراچی ایمپریس مارکیٹ سے تجاوزات کا خاتمہ: 50 سال بعد تاریخی عمارت کی دھلائی

    کراچی: شہرِ قائد کے مصروف ترین علاقے صدر میں تجاوزات کے خاتمے کے بعد ایمپریس مارکیٹ کی تاریخی عمارت کو اسنارکل کی مدد سے پچاس سال بعد دھویا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایمپریس مارکیٹ میں دکانیں مسمار کیے جانے کے بعد محکمہ فائر بریگیڈ کے اسنارکل کے ذریعے تاریخی عمارت کی دھلائی کر کے برسوں کی گرد صاف کر دی گئی۔

    [bs-quote quote=”ایمپریس مارکیٹ کے اطراف سے ملبہ اٹھنے میں دس سے پندرہ دن لگیں گے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”بشیر صدیقی” author_job=”ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ سیل”][/bs-quote]

    ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں مسمار کی گئی دکانوں کے ملبے کو بھی ہیوی مشینری کے ذریعے اٹھانے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔

    اینٹی اینکروچمنٹ کے ڈائریکٹر بشیر صدیقی نے کہا ہے کہ یہاں سے ملبہ اٹھانے میں دس سے پندرہ دن کا وقت لگے گا اس کے بعد لوگوں کو عمارت اپنی اصل شکل میں نظر آنے لگے گی۔

    مغل اور یورپی طرزِ تعمیر کی شاہ کار عمارت ایمپریس مارکیٹ شہر کے عین قلب میں واقع ہے، اس کی دھلائی کے ایم سی اور بلدیہ کی جانب سے کی گئی۔

    خیال رہے کہ اس عمارت کو قومی ورثے کا درجہ حاصل ہے، سپریم کورٹ کی طرف سے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں کہ اسے ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا جائے جس کے بعد پہلے مرحلے پر اس کے اطراف سے نا جائز تجاوزات کا خاتمہ کیا گیا۔

    تجاوزات کے خاتمے کے بعد انتظامیہ کو عمارت کی صفائی ستھرائی اور تزئین و آرائش کا بھی خیال آیا، عمارت میں لگی گھڑیاں بھی تبدیل کی جائیں گی جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں، عمارت کی ٹوٹی دیواروں کی بھی مرمت کی جائے گی۔


    یہ بھی پڑھیں:  کراچی: تجاوزات کے خلاف بڑا آپریشن مکمل، کراچی پولیس چیف کا دورۂ ایمپریس مارکیٹ


    یاد رہے کہ برطانوی راج میں 1884 اور 1889 کے درمیان اس عمارت کی تعمیر کوئین وکٹوریہ ایمپریس کے نام سے کی گئی، تعمیر کے بعد متعدد مرتبہ یہ تزئین و آرائش اور مرمت کے عمل سے گزری ہے، تاہم ایک طویل عرصے سے اس کی تزئین و آرائش اور مرمت نہ ہونے کی وجہ سے عمارت خاصی بری حالت میں تھی۔

    [bs-quote quote=”عمارت کو قومی ورثے کا درجہ حاصل ہے، سپریم کورٹ نے ماڈل کے طور پر پیش کرنے کا حکم دیا۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    عمارت پر سیاسی جماعتوں کے جھنڈے لگے ہوئے تھے اور مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے چاکنگ بھی کی گئی ہے۔ ایمپریس مارکیٹ کراچی کے علاقے صدر ٹاؤن میں واقع ہے، آج یہ شہرِ قائد کی سب مشہور اور مصروف مقامات میں سے ایک ہے۔

    اٹھارویں صدی میں بننے والی ایمپریس مارکیٹ کا حسن ناجائز تجاوزات کی بھرمار نے گہنا دیا تھا، تاہم اب اطراف کا علاقہ بھی تجاوزات سے صاف کر دیا گیا ہے، جس کے بعد مارکیٹ کو اصل حالت میں بحال کیا جائے گا۔

    ایمپریس مارکیٹ کے بارے میں ایک روایت ہے کہ جس جگہ اسے تعمیر کیا گیا، اسی جگہ پر 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد کئی ہندوستانی ‘باغی سپاہیوں’ کو توپ سے اڑایا گیا تھا۔