Tag: برطانوی سائنسدان

  • مائیکل فیراڈے کا تذکرہ جس نے زمین پر زندگی کے تصوّر کو بدل کر رکھ دیا

    مائیکل فیراڈے کا تذکرہ جس نے زمین پر زندگی کے تصوّر کو بدل کر رکھ دیا

    آج ہم مختلف شعبہ ہائے حیات اور علم و فنون میں جس تیز رفتاری سے ترقّی کررہے ہیں اور ایجادات و مصنوع کا جو حیرت انگیز اور محیّرالعقول سفر جاری ہے، اس میں بالخصوص انیسویں صدی کے سائنس دانوں کا بنیادی اور اہم کردار ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں‌ کرسکتی۔

    اُس دور کے سائنسی تجربات انقلاب آفریں ثابت ہوئے اور ایجادات کی ابتدائی شکلیں ہی آج جدید سانچے میں‌‌ ڈھل کر ہمارے لیے کارآمد بنی ہوئی ہیں۔ یہ تمہید دراصل عظیم سائنس داں مائیکل فیراڈے کے تذکرے کے لیے باندھی گئی ہے جس کے بارے میں کہا گیا:

    "جب ہم اس کی ایجادات اور سائنس اور صنعت پر ان کے اثرات دیکھتے ہیں تو کوئی اعزاز اتنا بڑا نظر نہیں آتا کہ فیراڈے کو دیا جاسکے، جو ہر زمانے کا عظیم ترین سائنس دان ہے۔”

    مائیکل فیراڈے کا وطن انگلستان تھا جہاں وہ 22 ستمبر 1791ء کو پیدا ہوا۔ اس عظیم سائنس دان نے زندگی کی 76 بہاریں دیکھیں۔ وہ 25 اگست 1867ء کو کیمیا اور برقیات کے میدان میں کئی انقلاب آفریں دریافتوں اور ایجادات کا خزانہ چھوڑ کر دنیا سے چلا گیا۔

    فیراڈے کے ان سائنسی کارناموں نے زمین پر زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ اس کا اصل میدان کیمیا تھا جس میں اس نے برقناطیسی قوّت اور برقناطیسی کیمیا پر بہت کام کیا۔

    مائیکل فیراڈے نے کیمیا کے میدان میں بہت سی اہم دریافتیں کیں۔ ان کی اہم ترین دریافت بینزین ہے جو ایک کیمیائی مادّہ ہے۔ کلورین گیس پر فیراڈے کی تحقیق نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم اس سائنس دان کی وجہِ شہرت بجلی اور مقناطیسیت پر ان کے تجربات اور تحقیق ہے۔

    آج بجلی گھروں میں موجود بڑی بڑی مشینوں یعنی جنریٹروں سے جو بجلی حاصل کی جاتی ہے، وہ فیراڈے کے اصول کے مطابق ہی پیدا کی جاتی ہے۔ یہی بجلی دورِ جدید میں زندگی کو رواں دواں اور کاموں کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔

    مائیکل فیراڈے کی ذاتی زندگی پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہو گاکہ ایک لوہار کا بیٹا تھا۔ جب وہ عمر کے چودھویں سال میں تھا تو ایک جلد ساز کے پاس کام سیکھنے بیٹھ گیا۔ یہاں اکثر لوگ سائنس کے موضوع پر اپنی کتب اور رسائل بھی جلد بندی کے لیے دے جاتے تھے۔ فیراڈے نے ان میں دل چسپی لینا شروع کی اور یہ شوق اس حد تک بڑھ گیا کہ وہ 1812ء میں لندن کے شاہی ادارے میں سائنسی لیکچر سننے کے لیے جانے لگا۔

    ایک مرتبہ فیراڈے کی ملاقات مشہور سائنس دان سرہمفری ڈیوی سے ہوگئی جنھوں نے اس کا شوق اور لگن دیکھتے ہوئے شاہی ادارے میں لیبارٹری اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے کی پیشکش کی اور یوں‌ فیراڈے ایک سائنس دان بن گیا۔

    فیراڈے 1823ء میں مایع کلورین گیس تیّار کرنے والا اوّلین سائنس دان بنا اور کام یابی کے اگلے ہی سال ایک کیمیائی مادّہ بینزین بھی دریافت کرلیا۔ فیراڈے کی ایک ایجاد وہ شیشہ بھی تھا جس میں سے حرارت نہیں گزر سکتی تھی۔

    1820ء میں ڈنمارک کے ایک سائنس دان نے ثابت کیا تھا کہ برقی رو سے مقناطیسی قوّت پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس پر غور کرتے ہوئے فیراڈے کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ بالکل اسی طرح مقناطیسی قوّت سے برقی رو بھی تو پیدا کی جا سکتی ہے اور اس نے اس پر تحقیقی کام شروع کر دیا۔ قبل ازیں فیراڈے نے بجلی اور مقناطیسیت کو استعمال کرکے بجلی سے حرکت پیدا کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔ اسی طریقے پر 1830ء میں بجلی کی پہلی موٹر تیّار کرلی اور اگلے سال تجربات کے بعد یہ جانا کہ جب کسی مقناطیس کے قطبین کے درمیان کسی تار کو حرکت دی جائے تو برقی رو پیدا ہوتی ہے۔

    فیراڈے کی ان دریافتوں نے بڑے پیمانے پر برقی رو پیدا کرنے کا راستہ کھول دیا اور اسی بنیاد پر بجلی گھر میں بجلی پیدا کرنے والے بڑے بڑے جنریٹروں کی تیّاری اور تنصیب عمل میں لائی گئی۔ اس کے بعد فیراڈے ٹرانسفارمر بنانے میں لگ گئے۔ یہ وہی ٹرانسفارمر ہمارے گھر کے قریب کسی بجلی گھر کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ یہ بجلی کی تاروں میں موجود بہت زیادہ برقی توانائی کو گھروں کی ضرورت کے مطابق تبدیل کرکے گزرنے دیتا ہے۔

    برقی رو اور اس سے متعلق انقلاب برپا کردیننے والی مشینوں اور آلات کے ساتھ فیراڈے نے کیمیائی مادّوں پر بجلی کے اثرات کا بھی مطالعہ کیا۔

    آج ہم اسی سائنس دان کے طفیل اپنے تمام کام سہولت اور بڑی آسانی سے انجام دے رہے ہیں اور اس کے سائنسی کارناموں کی بدولت جو مختلف شعبوں میں‌ جو انقلاب برپا ہوا اسے تاریخ میں سب سے روشن اور شان دار باب بن کر محفوظ ہے۔

  • برطانیہ: لاک ڈاؤن میں مزید سختی سے متعلق سائنس دانوں کی اپیل

    برطانیہ: لاک ڈاؤن میں مزید سختی سے متعلق سائنس دانوں کی اپیل

    لندن: کرونا وائرس کے نئے اسٹرین سے مریضوں میں بے تحاشا اضافے اور اموات کے بعد برطانوی سائنس دانوں نے ملک بھر میں نافذ لاک ڈاؤن میں مزید سختی لانے کی اپیل کر دی ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق سائنس دانوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ برطانیہ میں لاک ڈاؤن میں مزید سختی کی جائے، موجودہ لاک ڈاؤن سے کرونا کی نئی قسم کا پھیلاؤ روکنا مشکل ہے۔

    دوسری طرف برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے عوم سے ایک بار پھر اپیل کی ہے کہ خدارا گھروں سے نہ نکلیں۔

    ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں 90 فی صد لوگ قوانین پر سختی سے عمل پیرا ہیں، برطانوی حکومت اب تمام مقامات پر ماسک پہننے کی پابندی پر غور کر رہی ہے۔

    واضح رہے کہ کرونا وائرس کیسز کی تعداد کے لحاظ سے برطانیہ اس وقت دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر ہے، اب تک 29 لاکھ 57 ہزار کیسز سامنے آ چکے ہیں جب کہ اموات کی تعداد 79,833 ہے۔

    برطانیہ: تیسری کرونا ویکسین کے حوالے سے بڑی خبر

    گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران 68 ہزار نئے کیسز سامنے آئے، جب کہ 1,325 مریض کرونا انفیکشن کے باعث ہلاک ہو گئے۔

    گزشتہ روز برطانیہ نے کرونا وبا کی روک تھام کے لیے ایک اور کرونا ویکسین کی منظوری دے دی ہے، برطانوی ریگولیٹری اتھارٹی نے موڈرنا ویکسین کو بھی پاس کر دیا ہے، برطانیہ اس سے قبل فائزر اور آکسفورڈ کی کرونا ویکسینز بھی منظور کر چکا ہے، اور یہ کرونا وائرس سے بچاؤ کی تیسری ویکسین ہے۔

  • بجلی جانے پر جنریٹر چلانے والے مائیکل فیراڈے کو نہ بھولیں

    بجلی جانے پر جنریٹر چلانے والے مائیکل فیراڈے کو نہ بھولیں

    موسمِ گرما میں پاکستان کے عوام کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے دہری مصیبت اٹھانا پڑتی ہے۔ ان دنوں ملک بھر میں شدید گرمی پڑ رہی ہے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث سبھی کو مشکلات کا سامنا ہے۔

    مال دار، خوش حال یا متوسط طبقہ تو جنریٹر کے ذریعے اپنا کام نکال لیتا ہے، لیکن ملک کے غریب اور دیہاڑی دار طبقے کے لیے تو دو وقت کی روٹی کا حصول ہی مشکل ہے، وہ جنریٹر یا ایسے کسی دوسری سہولت کا سوچ بھی نہیں‌ دیکھ سکتے۔

    اگر آپ کو خوش قسمتی سے جنریٹر کی سہولت میسر ہے تو یہ بھی جان لیں کہ جنریٹر، جس کی مدد سے آپ بجلی جانے کے بعد پنکھوں کی ہوا اور کم از کم برقی قمقموں کی روشنی حاصل کرلیتے ہیں، کس انگریز سائنس داں کے طبیعیاتی قانون پر کام کرتا ہے؟

    یہ مائیکل فیراڈے ہیں جنھوں نے فزکس اور کیمسٹری کے میدان میں کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ انھوں نے 1831 میں الیکٹرو میگنیٹک انڈکشن کا قانون پیش کیا تھا۔

    مائیکل فیراڈے نے دریافت کیا کہ برقی کرنٹ، مقناطیسی میدان پیدا کرتا ہے اور مسلسل بدلاؤ سے مقناطیسی میدان سے برقی کرنٹ پیدا ہوتا ہے۔

    اس سائنس داں کی انقلابی تھیوری کے نتیجے میں جنریٹر سے کرنٹ پیدا کرنا ممکن ہوا اور آج یہ مشین جدید شکل میں ہماری زندگی کی مشکلات کو کم کررہی ہے۔

    سادہ لفظوں میں‌ بیان کیا جائے تو فیراڈے نے اپنے سائنسی قانون میں یہ بھی‌ بتایا کہ مقناطیسی میدان کی تبدیلی جتنی تیز ہو گی، وولٹیج بھی اتنا ہی زیادہ پیدا ہوگا۔ آج اسی اصول کی مدد سے جنریٹر بنائے جاتے ہیں اور بجلی پیدا کی جاتی ہے۔

  • ٹی بی کی تشخیص میں برطانوی سائنسدانوں کی اہم پیش رفت

    ٹی بی کی تشخیص میں برطانوی سائنسدانوں کی اہم پیش رفت

    لندن : برطانوی سائنسدانوں نے تپ دق کی تشخیص میں اہم پیش رفت حاصل کرلی ہے جس سے علاج مزید موثر ہو جائے گا۔

    تفصیلات کےمطابق اوکسفرڈ اور برمنگھم کے سائنس دانوں نے ٹی بی کی تشخیص میں جینوم سیکونسنگ کا طریقہ استعمال کر کے اہم پیش رفت حاصل کر لی ہے۔

    برطانوی سائنسدانوں کی اس اہم پیش رفت کےبعد جن مریضوں کو درست دوا کےانتخاب کے لیےمہینوں انتظار کرنا پڑتا تھا اب ان کے اندر بیماری پیدا کرنے والے جراثیم کی شناخت چند دنوں کے اندر اندر ہو سکے گی۔

    برطانوی وزیرِ صحت جیریمی ہنٹ کاکہناہے کہ اس پیش رفت سے زندگیاں بچائی جا سکیں گی۔

    خیال رہےکہ برطانیہ میں ٹی بی کےمریضوں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے،لیکن اس کے باوجود انگلینڈ میں اس مرض کی شرح یورپ کےدوسرے ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔


    مزید پڑھیں: پاکستان ٹی بی کا شکار پانچواں بڑا ملک


    سائنس دانوں کےمطابق جینوم سیکونسنگ کی مدد سے وہ ایک ہفتے میں مختلف نمونوں کے اندر ڈی این اے کی شناخت کر سکتے ہیں۔مرض کی جلد تشخیص کی بدولت مریضوں کا علاج جلد شروع کیا جا سکتا ہے۔

    مائیکرو بیالوجسٹ پروفیسر گریس اسمتھ نےکہاکہ ہم یہ معلومات دے سکتے ہیں کہ بیماری پیدا کرنے والے جراثیم کون سے ہیں اور ان پر کون سی ادویات اثر نہیں کرتیں۔

    واضح رہےکہ اس وقت دنیا بھر میں تشویش ہے کہ ٹی بی کے ایسے جراثیم سامنے آ رہے ہیں جن پر اینٹی بیاٹک ادویات اثر نہیں کرتیں۔اس کے باعث اس مرض کو دنیا سے ختم کرنے کی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔

  • گھر میں وائی فائی راﺅٹر کہاں رکھا جائے؟

    گھر میں وائی فائی راﺅٹر کہاں رکھا جائے؟

    لندن : آج کل وائی فائی کا استعمال عام ہوگیا ہے اور اکثر لوگوں کو اس مسئلہ کا سامنا ہے کہ وائی فائی کے سگنلز گھر میں کہیں اچھی طرح موصول ہورہے ہوتے ہیں اور کہیں بہت ہی کم؟ لیکن لوگوں کو اِس مسئلہ کی اصل وجہ معلوم نہیں ہوتی۔

    جب ایک برطانوی سائنسدان کے گھر میں وائی فائی کے سگنل کمزور ہونے کا مسئلہ پیدا ہوا تو اس نے وائی فائی راﺅٹر کو رکھنے کی سہی جگہ کا  تعین کرنا شروع کردیا، جہاں سگنل کا مسئلہ نہ ہو اور بالآخر ریاضیاتی مساواتوں کے ذریعے برطانوی سائنسدان نے معلوم کرلیا کہ سارے گھر میں سگنل پھیلانے کیلئے راﺅٹر کو گھر کے مرکز میں رکھنے سے سگنل اچھی طرح موصول ہوتے ہیں۔

    جیسن کول نامی ماہر فزکس مشہور زمانہ امپیریل کالج لندن کے سائنسدان ہیں۔ انہوں نے ہیلموٹز مساواتوں کے ذریعے راﺅٹر رکھنے کی بہترین جگہ کا تعین کیا۔اگرچہ یہ بات بظاہر سادہ معلوم ہوتی ہے کہ طاقتور سگنل کیلئے راﺅٹر کو گھر کے مرکز میں رکھا جائے ۔،

    جیسن کا کہنا ہے کہ اس نے ایک کمپیوٹر سافٹ ویئر تیار کیا ہے، جو خود کار طریقے سے اس جگہ کا تعین کرتا ہے کہ جہاں راﺅٹر رکھنے سے سارے گھر میں سگنل موصول ہوسکیں۔

    اس بات کی بھی تصدیق کی گئی کہ دیوراریں اور دیگر رکاوٹیں سگنل کو کمزور کرتی ہیں اور طاقتور ترین سگنل کیلئے ضروری ہے کہ آپ کے کمپیوٹر یا موبائل فون اور وائی فائی راﺅٹر کے درمیان کوئی چیز نہ ہو۔