Tag: برطانوی مسلمان

  • مسلمان عورتیں گلاب بانٹنے لگیں

    مسلمان عورتیں گلاب بانٹنے لگیں

    لندن: غیر مسلموں کے ساتھ مذہبی ہم آہنگی کے لیے برطانیہ میں مسلم خواتین گلاب بانٹنے نکل پڑیں۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا کے پُر امن ترین مذہب اسلام سے خوف زدہ انگلش معاشرے کو یہ بتانے کے لیے کہ اسلام ایک پُر امن مذہب ہے، مسلم عورتیں گلاب بانٹنے لگیں۔

    دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی نفرت کا جواب دینے کے لیے لندن میں مسلم کمیونٹی نے منفرد راستہ اختیار کیا، اسلاموفوبیا کا جواب دینے کے لیے ٹریفلگر اسکوائر پر برطانوی مسلمانوں نے ’روز فار پیس‘ مہم کے تحت لوگوں میں گلاب تقسیم کیے ۔

    لندن میں مقیم مسلمانوں نے لوگوں کو اسلام سے متعلق آگہی بھی فراہم کی، عوام نے مسلمانوں کے اس اقدام کو سراہا اور نفرتیں ختم کرنے کے لیے اسے بڑی کوشش قرار دیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  پیرس میں اسلاموفوبیا کے خلاف لاکھوں افراد کا احتجاج

    خیال رہے کہ اسلام دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے، لندن دنیا کے بڑے اور متنوع ثقافتوں والے شہروں میں سے ایک ہے تاہم اس کے باوجود کبھی کبھی یہاں مسلمان ایسا محسوس کرتے ہیں کہ انھیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔

    مغربی میڈیا مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ایک عرصے سے منفی پروپگینڈا کرتا آ رہا ہے، نائن الیون کے بعد اینٹی اسلام مہم میں بہت زیادہ شدت آ گئی تھی، جس کی وجہ سے برطانیہ جیسے ممالک میں اسلاموفوبیا نے جنم لیا۔

    تاہم برطانوی مسلمانوں نے بھی مایوس ہونا منظور نہیں کیا، مقامی مسلمان مرد اور عورتوں نے ’امن کے لیے گلاب‘ نامی مہم شروع کی اور ٹریفلگر اسکوائر پر راہگیروں میں گلاب تقسیم کیے۔ پھولوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا پیغام بھی منسلک کیا گیا جس پر حضور اکرم ﷺ کی حدیث کے ساتھ بائبل سے یکساں اقتباسات لکھے ہوئے تھے۔

  • برطانیہ میں مسلمانوں کو کرائے پرفلیٹ حاصل کرنے میں مشکلات

    برطانیہ میں مسلمانوں کو کرائے پرفلیٹ حاصل کرنے میں مشکلات

    لندن: برطانوی اخبار کی تحقیق کے مطابق ملک میں مسلم شناخت کے حامل افراد کو کرائے پر فلیٹ حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، بالخصوص شراکت کی بنیاد پر ان کے لیے مواقع انتہائی محدود ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی اخبار گارجین نے ایک سروے کیا جس کے تحت انہوں نے دو مختلف ناموں سے کرائے پر کمرے حاصل کرنے کی کوشش کی، ایک نام پر اچھا ردعمل آیا جبکہ دوسرے پر ردعمل انتہائی کم تھا۔

    گارجین کے مطابق انہوں نے محمد اور ڈیوڈ ، ان دو ناموں سے کرائے پر کمرے شراکت کی بنیاد پر حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ ڈیوڈ نام پر خاطر خواہ ردعمل اور پیش کشیں دیکھنے میں آئی جبکہ محمد نام سے کوشش کرنے پر کو ئی خاص ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔

    رہائشی لینڈ لارڈز کی ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اس سروے کی بنیاد پر حالات کی واضح تصویر کشید نہیں کی جاسکتی کہ ابھی ہمیں یہ نہیں پتا کہ آیا لوگ ایسا شعوری طور پر کررہے ہیں یا لاشعوری طور پر یہ فعل سرزد ہورہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے کرائے دار کا امیگریشن کی پڑتال کی ذمہ داری مالک مکان پر عائد کی گئی ہے جس کے سبب اکثر مالکان تارکینِ وطن کو جگہ کرائے پر دینے سے گریز کرتے ہیں۔

    یاد رہے کہ یہ پہلی بار نہیں کہ برطانیہ میں کسی اقلیتی گروہ کے ساتھ ایسا رویہ رکھا جارہا ہے ۔ سنہ 1950 کی دہائی میں کچھ جائیدادوں کے اشتہار بھی ایسے ہی رویوں کی عکاسی کیا کرتے تھے۔ ایک جملہ جو ان اشتہارات میں بے حد مشہور تھا وہ یہ تھا کہ ’ نو بلیک، نو آئرش ، نو ڈاگز‘ یعنی سیاہ فام، آئرلینڈ کے باشندے اور کتے اس اشتہار میں دلچسپی نہ لیں۔

    ماضی میں صورت حال سنگین تھی لیکن اب حالات کافی بدل چکے ہیں ۔گزشتہ سال ایک شخص کو جنوب ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی جائیدادیں کرائے پر دینے سے انکار کرنے پر مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تھا ، اس نے اپنے اس رویے کی وجہ وجہ ان افراد کے ’کھانوں کی بو‘ قرار دیا تھا۔

    تاہم ماہرین ’گارجین‘ اخبار کے اس سروےکو پوری طرح مسترد بھی نہیں کیا اور کہا ہے کہ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس پر تحقیق کرنا ضروری ہے۔