Tag: برطانیہ کی خبرین

  • نوڈیل بریگزٹ: یورپ میں مقیم 13 لاکھ برطانوی شہریوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

    نوڈیل بریگزٹ: یورپ میں مقیم 13 لاکھ برطانوی شہریوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

    لندن: برطانیہ کا 29 مارچ 2019 کو یورپی یونین سے نکلنا طے ہے او ر دونوں فریق اگر کسی معاہدے تک نہ پہنچ پائے تو برطانیہ اور ای یو 27 کے بیرون ملک مقیم باشندے شدید مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔

    برطانیہ اور یورپی یونین ان دنوں ایک تاریخ سازمرحلے سے گزر رہے ہیں اور دونوں جانب سے اس پر ایک معاہدے کی کوشش کی جارہی ہے ، وزیراعظم تھریسا مے اور یورپی یونین کے درمیان ایک معاہدے کا مسودہ طے پاچکا ہے تاہم برطانوی پارلیمنٹ اس پر شدید تحفظات رکھتی ہے اورامکان ہے کہ معاہدے پر دستخط ہونے سے قبل ہی برطانیہ کے انخلا کا وقت آجائے گا۔

    یورپی یونین سے ہونے والے معاہدے میں ای یو 27 ممالک میں رہائش پذیر برطانوی شہریوں کو اور برطانیہ میں رہائش پذیر یورپی شہریوں کو بریگزٹ کا عمل مکمل ہونے تک قانونی تحفظ ملے گا اور وہ ہیلتھ کیئر، ویزہ فری ٹریول اور ملازمتوں کی سہولیات سے استفادہ حاصل کرسکیں گے تاہم اگر دونوں فریقین میں معاہدہ طے نہیں پایا تو پھر ان شہریوں کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان کھڑا ہوجائے گا۔

    یہ بھی پڑھیں


    بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    اس وقت 13 لاکھ برطانوی شہری یورپین یونین کے مختلف ممالک میں قیام پذیر ہیں جبکہ یورپی یونین کے 32 لاکھ شہری برطانیہ میں مقیم ہیں۔ یہ تمام افراد یورپی یونین کے شہریوں کو حاصل تمام تر مراعات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، لیکن اگر معاہدہ طے نہیں پاتا تو بریگزٹ کے ساتھ ہی ان کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ ماہرین اس صورتحال کو کھائی میں گرنے جیسا قرار دے رہے ہیں۔

    اگر بریگزٹ مسودہ برطانوی پارلیمنٹ سے منظور ہوجاتا ہے تو دونوں جانب کے شہری حالیہ سہولیات کو 31 دسمبر 2020 تک بلا تعطل حاصل کرسکیں گے اور اس دوران برطانیہ اور دیگر 27 یورپی ممالک اپنے ان شہریوں کے لیے معاہدے کرسکیں گے۔

    یورپی یونین نے بریگزٹ پر کوئی ڈیل نہ ہونے کی صورت میں متوازی منصوبے کے تحت طے کیا ہے کہ برطانیہ کے ان شہریوں کے ساتھ مہربان رویہ اپناتے ہوئے انہیں فی الفور عارضی رہائشی کی حیثیت سے نوازا جائے اور برطانیہ بھی اپنے ہاں مقیم یورپی شہریوں کے لیے ایسا ہی کرے۔

    چارٹ بشکریہ بی بی سی

    ساتھ ہی ساتھ یورپی کمیشن نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ نو ڈیل کی صورت میں برطانوی شہریوں کو یورپ کے ممالک میں وقتی طور پر ویزہ فری رسائی دی جائے اور برطانیہ بھی ایسا ہی کرے، تاکہ شہریوں کے معمولات کسی صورت متاثر نہ ہوں۔

    اگر 29 مارچ تک دونوں فریق کسی معاہدے پر نہیں پہنچتے تو برطانوی شہری ، یورپین یونین میں ایسے ہی ہوجائیں گے جیسا کہ امریکا ، چین یا کسی بھی اور ملک کے شہری ہیں اور ان پر ’تیسرے ملک ‘ کے شہریوں والے قوانین کا اطلاق ہوگا، جب تک کہ کوئی دو طرفہ ایمرجنسی ڈیل طے نہ کرلی جائے۔

    وہ برطانوی شہری اس معاملے میں سب سے زیادہ متاثر ہوں گے جو اپنے کام کے سلسلے میں متواتر ایک سے زیادہ یورپی ممالک کا سفر کرتےر ہتے ہیں اور انہیں اپنے یورپی مدمقابل افراد کی طرح ویزی فری انٹری کی سہولت میسر نہیں ہوگی۔

    دوسری جانب یونین کے ممالک میں مقیم برطانوی شہریوں کو صحت کے معاملات میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ ابھی ایک انشورنس پالیسی پوری یونین میں نافذ العمل ہے تاہم بریگزٹ کے بعد انہیں برطانیہ اورہراس ملک کے لیے علیحدہ انشورنس لینا ہوگی جہاں کا سفر ان کے معمولات میں شامل ہے، یہی صورتحال یونین کے شہریوں کو بھی درپیش ہوگی جنہیں برطانیہ کا سفر کرنا ہوگا ، انہیں وہاں کی انشورنس الگ سے لینا ہوگی۔

    کل 15 جنوری کو برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں برطانوی وزیراعظم تھریسا مے اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والےمسودے پر ووٹنگ ہونے جارہی ہے اور اس کے بعد ہی یورپ میں ہونے والے اس تاریخ ساز عمل کے مستقبل کے خدو خال ابھر کے سامنے آسکیں گے۔

  • دلوں کی ملکہ لیڈی ڈیانا کو بچھڑے 21 برس بیت گئے

    دلوں کی ملکہ لیڈی ڈیانا کو بچھڑے 21 برس بیت گئے

    کروڑوں دلوں پرراج کرنے والی برطانیہ کی شہزادی لیڈی ڈیانا کی 21 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔

    شہزادی ڈیانا یکم جولائی انیس سو اکسٹھ میں برطانیہ کے شہر نورفوک میں پیدا ہوئیں، شہزادی ڈیانا کو ہمیشہ سے ہی تعلیمی سرگرمیوں سے زیادہ فلاحی کاموں میں دلچسپی تھی۔

    انتیس جولائی 1981 کو برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ چارلس کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں، ان کی شادی کو فیری ٹیل میرج قرار دیا گیا اور دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے ان کی شادی کی تقریب دیکھی، ان کے دو بیٹے شہزادہ ولیم اور ہیری ہیں۔

    دنیا کے اس مقبول ترین شاہی جوڑے میں شادی کے سولہ سال بعد اگست 1996 میں طلاق ہوگئی، ڈیانا کی عالمی سطح پر مقبولیت کا بڑا سبب ان کی خوبصورت شخصیت تھی، طلاق کے بعد بھی ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہ آئی۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ تصاویر لیڈی ڈیانا کی کھینچی گئیں۔

    شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی شہزادی لیڈی ڈیانا ایک ہمدرد دل خاتون تھیں، برطانوی شاہی خاندان کا حصہ بننے والی شہزادی ڈیانا فیشن اور انسانی ہمدردی کی وجہ سے لوگوں میں مقبول رہیں۔ وہ خوبصورتی میں بے مثال اور پرکشش شخصیت کی حامل تھیں۔

    شہزادی ڈیانا 31 اگست 1997 میں پیرس میں ایک کار حادثے کے نتیجے میں دنیا سے چل بسی تھیں تاہم ان کی پُرکشش شخصیت اور فلاحی خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی۔

    دلوں کی ملکہ لیڈی ڈیانا کو ان کی گراں قدر خدمات پر مرنے کے بعد 1997ء میں امن کا نوبل انعام دیا گیا۔

  • بریگزٹ: تھریسا مے نئی منڈیوں کی تلاش میں افریقی ممالک کے دورے پر

    بریگزٹ: تھریسا مے نئی منڈیوں کی تلاش میں افریقی ممالک کے دورے پر

    کیپ ٹاؤن: برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے بریگزٹ کے بعد افریقہ میں برطانوی سرمایہ کاری بڑھانے کا اعلان کیا ہے، ان کی خواہش ہے برطانیہ افریقی ممالک میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک بن جائے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسا مے ان دنوں افریقہ کے دورے پر ہیں اور وزیراعظم بننے کے بعد یہ ا ن کا براعظم افریقہ کا پہلا دورہ ہے، انہوں افریقی ممالک میں چار بلین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے۔

    کیپ ٹاؤن میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا کہ 4 بلین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری سے افریقی معیشتوں کی مدد کی جائے گی ، تاکہ وہ نوجوانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ روزگار پیدا کرسکیں۔

    انہوں نے زور دیا کہ اب امداد کو محدود مدت کے غربت مٹانے والے منصوبوں کے بجائے طویل المعیاد معاشی منصوبوں میں استعمال کیا جائے تاکہ معاشی صورتحال اور سیکیورٹی ایک ساتھ بہتر کی جاسکے۔

    تھریسا مے اپنے اس تین روزہ تجارتی مشن میں نائجیریا اور کینیا کا بھی دورہ کریں گی۔ اپنے جنوبی افریقا کے دورے پر روانگی کے وقت انہوں نے ان تمام وارننگز کو بھی رد کردیا جو کہ بریگزٹ کے نتیجے میں ہونے والے معاشی نقصان کے حوالے سے تھیں۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بری ڈیل کرنے سے ڈیل نہ کرنا بہتر ہے۔

    اپنے اس سہہ روزہ دورے میں تھریسا مے جنوبی افریقہ ، کینیا اور نائجریا کے صدور سے مالقات کریں گی جس کا مقصد افریقی ممالک سے مضبوط تجارتی روابط قائم کرنا ہے ۔ انہیں نے خواہش کا اظہار کیا ہے کہ سنہ 2022 تک برطانیہ ، افریقی ممالک میں امریکا سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا ملک بن جائے۔