Tag: برطانیہ کی خبریں

  • بریگزٹ: کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    بریگزٹ: کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یعنی کہ یورپین یونین اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے، مارچ 2019 میں برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرناطے ہوچکا ہے اورتاحال برطانیہ اور یورپی یونین اس حوالے سے کسی حتمی معاہدے پر دستخط نہیں کرپائے ہیں۔

    بریگزٹ مسودہ نامی دستاویز جسے برطانوی حکومت اور یورپی یونین کے اعلیٰ ترین دماغوں نے ماہ سال کی محنتِ شاقہ کے بعد تیار کیا ہے، برطانیہ کی پارلیمنٹ اس پر راضی نہیں ہیں ، حد یہ ہے کہ خود حکومتی پارٹی کے کئی ارکان، جو کہ بریگزٹ کے حامی بھی ہیں ، تھریسا مے سے منحرف ہوچکے ہیں ۔

    یورپی یونین کا ماننا ہے کہ وہ اپنی جانب سے جس حد تک برطانیہ کو رعایت دے سکتے تھے ، وہ اسے بریگزٹ مسودے میں دی جاچکی ہے اور اس سے آگے ایک انچ بھی بڑھنا یورپ کے لیے ممکن نہیں ہے لہذا اب تھریسا مے کی حکومت اسی مسودے کو پارلیمنٹ سے منظور کروائے یا پھر برطانیہ’نوڈیل‘ کاراستہ اختیار کرے۔

    بریگزٹ ڈیل پر گزشتہ ماہ برطانوی پارلیمنٹ میں رائے شماری کی جانی تھی تاہم ممبران پارلیمنٹ کے تیور دیکھ کر تھریسا مے نے اسے ملتوی کیا اور اب یہ رائے شماری 15 جنوری کو منعقد کی جائے گی۔ اس دوران پارلیمنٹ میں برطانوی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتما د بھی لائی گئیں لیکن وہ اس کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہیں۔ انہوں نے سالِ نو کے آغاز پراپنی تقریر میں ہاؤس آف کامنز کے ممبران سے اپیل کی ہے کہ وہ اس مواہدے کی حمایت کرکے برطانیہ کو آگے بڑھنے کا موقع دیں، تاہم ممبران نے ان کے مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے جوابی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ووٹنگ سے پہلے اپنا پلان بی پارلیمنٹ کے سامنے رکھیں کہ اگر ان کا مسودہ پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو وہ آگے کیا لائحہ عمل اختیار کریں گی۔

    یورپی یونین کیا چاہتی ہے؟


    تھریسا مے اس معاملے پر یورپین یونین سے بھی اپیل کرچکی ہیں کہ بریگزٹ مسودے پر آئرش بارڈر کے مسئلے پر پیدا ہونے والے تنازعے میں ان کی حکومت کو کچھ رعایت دی جائے لیکن یورپی بلاک کا اس معاملے میں ماننا ہے کہ وہ اس معاملے میں پہلے ہی بہت رعایت دے چکے ہیں اور اس سے زیادہ یورپی یونین کے بس میں نہیں ہے۔

     ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    جرمنی اور آئرلینڈ اس معاملے پر وہ سب کچھ کرچکے ہیں جو وہ کرسکتے ہیں تاہم کسی سیاسی اعلامیے کی گنجائش فی الحال موجود نہیں ہے۔ یورپین یونین کی جانب سے صرف یقین دہانی ہی کرائی جاسکتی ہے کہ وہ آئرش بارڈر پر بیک اسٹاپ کو روکنے کے لیے 2021 تک تجاری معاہدے کو حتمی شکل دے دی جائے گی، لگتا نہیں ہے کہ یہ یقین دہانی برطانیہ کی ٹوری اور ڈیموکریٹ یونینسٹ پارٹی کو مطمئن کرپائے گی۔

    آئرش بارڈر کا تنازعہ ہے کیا؟


    آئرش باغیوں نے سنہ 1921 میں برطانوی حکومت سے علیحدگی اختیار کی تھی اور سنہ 1948 میں اسے باقاعدہ قانونی حیثیت دی گئی تھی ۔ ریپبلک آف آئر لینڈ نے اس موقع پر ایک علیحدہ ملک کی حیثیت اختیار کی تھی جس کے اکثریتی باشندے عیسائیت کے کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ شمالی آئرلینڈ کے لوگوں نے جو کہ پروٹسنٹ فرقے کے ماننے والے تھے، تاجِ برطانیہ کے ساتھ رہنا پسند کیا ۔ تب سے جمہوریہ آئرلینڈ ایک آزاد ملک ہے اور یورپی یونین کا ممبر بھی اور شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا علاقہ ہے۔

    برطانیہ کی یورپی یونین میں شمولیت کے بعد جب ان ممالک کے درمیان سرحدیں صرف نام کی رہ گئیں تو دونوں علاقوں میں بے پناہ تعاون بڑھا اور شمالی آئرلینڈ کی زیادہ تر تجارت اسی راستے یورپ سے ہونے لگی اور اس کا حجم اس وقت 3.5 ارب یورو ہے جو کہ برطانوی معیشت میں معنی خیز حیثیت رکھتی ہے ۔ اب اگر یہاں بارڈر وضع نہ کیا جائے تو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ضرب آتی ہے کہ یہ کیسی علیحدگی ہے اور اگر بارڈر سخت کیا جاتا ہے اور چیک پوسٹیں اور کسٹم بارڈر قائم کیے جاتے ہیں تو برطانیہ جو بریگزٹ کے سبب ابتدائی طور پر مالی دشواریوں کا سامنا کرے گا ، اسے مزید معاشی مشکلات سے گزرنا ہوگا۔

    لیبرپارٹی کی مشکلات


    دریں اثنا حکومتی جماعت یعنی کہ لیبر پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کے لیے اس مسودے کی حمایت میں بے پناہ مشکلات ہیں۔ سیاسی اعشارئیے بتار ہے کہ ہیں لیبر پارٹی کے ارکان نے اگراس مسودے کی حمایت کی تو ان کے لیے آئندہ الیکشن میں اپنےلیے عوامی حمایت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ اگر انہوں نے اس معاہدے پراپنی حکومت کوسپورٹ کیا تواس صورت میں وہ اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے حکومت سے ٹیکس نافذ کرنے کا اختیار واپس لے لیں گے، جس کے سبب پارٹی قیادت کو شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    معاشی افراتفری


    جہاں ایک جانب سیاسی میدان میں ہلچل مچی ہوئی ہے وہیں اس ساری مشق کے اثرات برطانیہ کی معیشت پر بھی مرتب ہورہے ہیں ۔ سال 2018 کی آخری سہہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو صرف ایک فیصد رہی ہے ۔ پیداوار کرنے والے گزشتہ تیس سال کی تاریخ میں کارکنوں کے سب سے بڑے کال کا سامنا کررہے ہیں اور گھروں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

    دوسری جانب اگر یورپی یونین اور برطانیہ بریگزٹ کے معاملے پر کوئی ڈیل نہیں کرپاتے ہیں تو شمالی آئرلینڈ میں حالات کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کرنا پڑے گی جو کہ مسائل کا شکار برطانوی حکومت کے لیے ایک سنگین بوجھ ہوگا۔

    اب ہوگا کیا؟


    صورتحال یہ ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ بریگزٹ مسودے پر رائے شماری کرنےجارہی ہے، سو اگر تھریسا مے کی حکومت مطلوبہ مقدار میں ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تب تو پھر تمام چیزیں منصوبے کے مطابق آگے بڑھیں گی، لیکن ا س کے امکانات فی الحال کم ہی ہیں۔

    دوسری جانب یورپی یونین اس وقت تک برطانیہ کو مسودے پر مزید کوئی رعایت دینے پر آمادہ نظر نہیں آرہا جب تک موجودہ مسودہ کم از کم ایک بار رائے شماری میں شکست سے دوچار نہ ہوجائے ۔ ووٹنگ کے نتائج پر ہی آگے کے حالات منحصر ہیں، اگر شکست کا مارجن سو ووٹ سے کام کا ہوا تو تھریسا مے کی حکومت کم از کم اس پوزیشن پر ہوگی کہ ایک بار پھر یورپی یونین سے رجوع کیا جائے اور مسودے کو کسی دوسرے تناسب کے ساتھ ایک بار پھر ووٹنگ کے لیے لایا جائے۔ لیکن اگر پہلی رائے شماری میں ہی بھاری اکثریت سے شکست ہوتی ہے یا دوسری بار بھی یہ مسودہ شکست سے دوچار ہوتا ہے تو پھر یقیناً یورپ ایک بڑے بحران کا سامنا کرے گا۔

    اس معاملے میں کچھ بھی ممکن ہے کیبنٹ واک آؤٹ کرسکتی ہے، حکمت عملی میں مستقل تبدیلی لائی جاسکتی ہے، کسٹم یونین کی جانب پیش رفت بھی ممکن ہے اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے ریفرنڈم یا پھر برطانیہ میں انتخابات کا انعقاد بھی ممکنات میں شامل ہے۔ آخرالذکردونوں صورتیں یورپی یونین کے آئین کے آرٹیکل 50 سے متصادم ہیں لہذا ان پریورپی یونین کی رضامندی لازمی ہوگی۔

    اب پندرہ جنوری کو ہونے والی ووٹنگ کا نتیجہ کچھ بھی آئے لیکن ایک بات ماننا پڑے گی کہ اس کرہ ارض پر یورپ وہ خطہ ہےجو ماضی میں بات بات پر برسرِ پیکار ہوجایا کرتا تھا، آج اپنی تاریخ کے حساس ترین دور اور پیچیدہ ترین تنازعے کو بھی جمہوری طریقے سے حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

    برطانوی حکومت اپنے عوام کی رائے کا احترام کررہی ہے اور یورپی یونین برطانوی حکومت کو اس کے عوام کی جانب سے حاصل آئینی اعتماد کا احترام کرتے ہوئے بنا کسی جنگ و جدل کے برطانیہ کو دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ چھوڑنے کی اجازت دے رہا ہے۔ اس وقت بھی جو تنازعات ہیں، وہ زیادہ تر تجارتی نوعیت کے ہیں اور امید ہے کہ 15 جنوری کے بعد صورتحال واضح ہوجائے گی کہ ان کا حل کیا نکلے گا۔

  • برطانیہ: نئے سال کے پہلے ہی ہفتے طلاقوں میں ہوش ربا اضافہ

    برطانیہ: نئے سال کے پہلے ہی ہفتے طلاقوں میں ہوش ربا اضافہ

    لندن: ایسا لگتا ہے کہ اردو محاورہ گھر ٹوٹنا اس وقت برطانیہ پر آسیب کی طرح چھا گیا ہے، نئے سال کے پہلے مہینے کے پہلے ہی ہفتے طلاقوں میں ہوش ربا اضافہ ہو گیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں نئے سال کے آغاز ہی میں طلاقوں کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے، وکلا نے جنوری کے پہلے پیر کو ’طلاق کا دن‘ نام دے دیا۔

    [bs-quote quote=”وکلا نے جنوری کے پہلے پیر کو ’طلاق کا دن‘ نام دے دیا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    برطانوی فلاحی ادارے کے مطابق کرسمس سے لے کر نئے سال کے آغاز تک عدالتوں میں طلاق کی 455 آن لائن درخواستیں آ چکی ہیں۔

    ادارے کا کہنا ہے کہ طلاق کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں کی تعداد اب تک کے ریکارڈ سے سب سے زیادہ ہے، اس سے قبل اتنی کم مدت میں اتنی زیادہ درخواستیں کبھی موصول نہیں ہوئیں۔

    برطانیہ میں کیے گئے سروے کے مطابق 55 فی صد سے زائد لوگوں کا کہنا ہے کہ نئے سال کی آمد پر لوگوں پر ذہنی دباؤ ہوتا ہے جس سے رشتے تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔


    یہ بھی پڑھیں:  دبئی: موبائل میں بیلنس لوڈ نہ کروانے پر بیوی نے طلاق مانگ لی


    ماہرین اس حوالے سے پریشان ہیں کہ نئے سال کے آغاز پر لوگوں پر رشتے توڑنے کا جنون کیوں سوار ہوا، وہ رشتے جنھیں وہ شادی کے بندھن میں بندھتے وقت عمر بھر نبھانے کا باقاعدہ وعدہ کرتے ہیں۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ طلاقوں کی بڑھتی تعداد کے پیچھے کچھ نفسیاتی اور معاشی عوامل ہو سکتے ہیں، جس کے سبب شادی شدہ جوڑے ذہنی تناؤ میں آ جاتے ہیں۔

    تاہم ان کا خیال ہے کہ اگر پہلے سے شادی شدہ جوڑے گھریلو جھگڑوں سے اپنے تعلق کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں اور خوش گوار گھریلو زندگی گزاریں تو ایسے مواقع پر پریشانیوں کا مقابلہ بغیر رشتوں کے نقصان کیا جا سکتا ہے۔

  • ایم پیزکو بریگزٹ معاہدے کی حمایت یا نوڈیل میں سےایک کو چننا ہوگا‘ رچرڈ ہارنگٹن

    ایم پیزکو بریگزٹ معاہدے کی حمایت یا نوڈیل میں سےایک کو چننا ہوگا‘ رچرڈ ہارنگٹن

    لندن: برطانوی وزیررچرڈ ہارنگٹن کا کہنا ہے کہ ایم پیز کو تھریسامے کے یورپی یونین سے انخلا سے متعلق معاہدے کی حمایت یا نوڈیل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر رچرڈ ہارنگٹن کا کہنا ہے کہ وہ ایم پیز جو چاہتے ہیں کہ برطانیہ کو کسی معاہدے کے بغیر یورپی یونین سے نکلنے کی اجازت نہیں دی جائے بعد میں کوئی معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں حکومت کے مالی اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کریں گے۔

    بریگزٹ معاہدے کے مخالف ایم پیز کی جانب سے آج ہاؤس آف کامنز میں فنانس بل میں ترمیم کے لیے ووٹ ڈالا جائے گا، اور اگر یہ بل منظور ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت کچھ ٹیکسز میں اضافہ نہیں کرسکے گی جس سے حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    تھریسامے بریگزٹ ڈیل کی منظوری کا کوئی راستہ نکالیں، جیریمی ہنٹ

    دوسری جانب یورپی یونین کی جانب سے معاہدے پر منظوری کے باوجود تھریسامے کا بریگزٹ معاہدے کا مسودہ تاحال برطانوی پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوسکا ہے۔

    اس سے قبل رواں سال کے آغاز پر برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ نئے سال میں آگے دیکھنے کا وقت ہے، 2019 وہ سال ہوسکتا ہے جس میں ہم اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ آگے بڑھیں۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اگر اختلافات بھلا کر بریگزٹ معاہدے کی حمایت کرے تو برطانیہ کے لیے یہ نئے دور کا آغاز ہوگا۔

    بریگزٹ معاہدے کی حمایت ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے‘ تھریسامے

    یاد رہے کہ جون 2016 میں برطانوی عوام نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔

    برطانیہ نے 1973 میں یورپی یونین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

  • بریگزٹ معاہدے کی حمایت ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے‘ تھریسامے

    بریگزٹ معاہدے کی حمایت ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے‘ تھریسامے

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ اگر اختلافات بھلا کر بریگزٹ معاہدے کی حمایت کرے تو برطانیہ کے لیے یہ نئے دور کا آغاز ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے سال نو کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ نئے سال میں آگے دیکھنے کا وقت ہے، 2019 وہ سال ہوسکتا ہے جس میں ہم اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ آگے بڑھیں۔

    یورپی یونین کی جانب سے معاہدے پر منظوری کے باوجود تھریسامے کا بریگزٹ معاہدے کا مسودہ تاحال برطانوی پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوسکا ہے۔

    بریگزٹ پر دوبارہ ریفرنڈم کروایا جائے، لیبر کارکنان کا قیادت پر دباؤ

    سابق برطانوی وزرائے اعظم جان میجر اور ٹونی بلیئر کی جانب زور دیا جا رہا ہے کہ اگر ایم پیز معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے راضی نہیں ہوتے تو دوبارہ ریفرنڈم کروایا جائے۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے مطابق دوبارہ ریفرنڈم ’ہماری سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا‘ اور ’آگے بڑھنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچے گا‘۔

    یاد رہے کہ جون 2016 میں برطانوی عوام نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔

    برطانیہ نے 1973 میں یورپی یونین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

  • بریگزٹ معاہدہ برطانیہ کو سزا دینے کے لیے ہے، سیمی ولسن

    بریگزٹ معاہدہ برطانیہ کو سزا دینے کے لیے ہے، سیمی ولسن

    لندن: برطانیہ کی ڈپلومیٹک یونینسٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ تھریسا مے کی بریگزٹ ڈیل سے یورپی یونین ، برطانیہ کو سزا دینے کی پوزیشن میں آجائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق بریگزٹ سے متعلق ڈی یو پی کے ترجمان اور بریگزٹ کے کٹر حامی سیمی ولسن نے خبردار کیا ہے کہ یورپین یونین برطانوی عوام کے جمہوری فیصلے کا احترام نہیں کررہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ’’ میرا خیال ہے کہ برطانوی عوام اب محسوس کررہے ہیں کہ یورپی یونین برطانیہ کے منتخب نمائندوں کی رائے کی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یورپی یونین نے بالکل واضح کردیا ہے کہ وہ نہ ہماری وزیراعظم کی عزت کرتے ہیں، نہ ہی ہمارے اداروں کی، نہ ان کی نظر میں ہمارے جمہوری فیصلوں کی اہمیت ہے اور نہ ہی ہمارے عوام کی جنہوں نے ایک جمہوری عمل سے یہ فیصلہ لیا ہے‘‘۔

    انہوں نے یہ بھی خیال ظاہر کیا ہے کہ ایسی صورتحال میں کسی دوستانہ معاہدے پر پہنچنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچا ہے۔

    بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    سیمی ولسن نے مزید کہا کہ یورپی یونین کی جانب سے خواہش ظاہر کی جارہی ہے کہ وہ ہمیں بطور پارٹنر رکھنے کے خواہش مند ہیں ، لیکن یہ ڈیل ظاہر کررہی ہے کہ وہ ہمیں یورپین یونین سے علیحدگی کی سزا دیناچاہتے ہیں اور اس معاہدے سے انہیں ایسا کرنے میں آسانی رہے گی۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم نے بریگزٹ ڈیل پر ممبران ِ پارلیمنٹ کے اعتراض کے بعد برسلز کا دورہ کیا تھااور یورپی یونین سے آئرش تنازعے کے مجوزہ حل پر قانونی معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی جو کہ ناکام رہی تھی۔

    یورپی یونین کی جانب سے واضح کردیا گیا تھا کہ اب اس معاہدے کی کسی بھی شق پر مزید مذاکرات کی گنجائش نہیں ہے اور برطانیہ کو من و عن اس پر عمل کرنا ہوگا۔ یادر ہے کہ آئندہ سال مارچ میں برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدہ ہونا طے شدہ ہے، جس کے لیے برطانوی عوام کی اکثریت نے ریفرنڈم میں ووٹ دیا تھا۔

  • برطانیہ میں تاریخی سرخ ٹیلیفون بوتھ پھر سے سڑکوں کا حصہ بن گئے

    برطانیہ میں تاریخی سرخ ٹیلیفون بوتھ پھر سے سڑکوں کا حصہ بن گئے

    برطانیہ میں سرخ رنگ کے تاریخی ٹیلیفون بوتھ پھر سے سڑکوں پر نصب کیے جارہے ہیں جس سے سڑکوں کی خوبصورتی میں اضافہ ہورہا ہے۔

    سرخ رنگ کے ٹیلی فون بوتھ 80 سال تک برطانیہ کے منظر نامے کا حصہ رہے اور ایک ثقافتی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔

    تاہم موبائل فونز کی آمد کے بعد ان کی اہمیت و افادیت کم ہوتی گئی۔ بالآخر انہیں سڑکوں سے اٹھا کر ایک جگہ ڈھیر کردیا گیا۔

    اب مقامی انتظامیہ دوبارہ انہیں روزمرہ زندگی کا حصہ بنا رہی ہے۔

    بعض مقامات پر بحال کیے جانے والے ان بوتھ میں کہیں چھوٹا سا کتب خانہ بنایا گیا ہے، تو کہیں کافی شاپ۔

    بعض بوتھ کسی ایسے شخص کو ڈسکو کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں جو پارٹیز میں جانا اور لوگوں سے گھلنا ملنا نہیں چاہتا۔

    اب ٹیلیفون بوتھ کی واپسی دیکھ کر برطانیہ کے معمر افراد نے نہایت خوشی کا اظہار کیا ہے۔

  • دانت کا علاج موت کا سبب بن گیا

    دانت کا علاج موت کا سبب بن گیا

    لندن: برطانیہ میں دانتوں کا علاج کرانے کے لیے اسپتال جانے والی معذور خاتون کئی دن زیر علاج رہنے کے بعد انتقال کرگئیں ، ڈینٹسٹ نے خاتون کے تمام دانت نکال دیے تھے۔

    تفصیلات کےمطابق یہ واقعہ برطانیہ کے علاقے ورسسٹرشائر میں پیش آیا جہاں رواں سال اکتوبر میں 49 سالہ رشل جونسٹون اپنے دانت کی خراب حالت کے سبب آپریشن کے لیے گئی تھیں۔

    یہ کہا جارہاہ ہے کہ ڈاکٹر نے دانتوں کی حالت خراب ہونے کے سبب ان کے تمام دانت نکال دیے جس کے سبب ان کی طبعیت خراب ہوئی اور آپریشن کے چند گھنٹوں بعد وہ اپنے حواس میں نہ رہیں۔ کئی دن انہوں نے اسپتال میں جان بچانے والی مشینوں کے سہارے گزارے اور بالاخر نومبر کے آخر میں اسپتال انتظامیہ نے ان کے اہل خانہ کو کہہ دیا کہ وہ اب ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔

    برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق دو اورخاندانوں نے اسی نوعیت کی شکایت کی ہے کہ ان کے بچوں کے ساتھ بھی اسی نوعیت کا واقعہ پیش آیا تھا ۔ دونوں بچے ذہنی طور پر متاثر تھے اور ان کا خیال تھا کہ خرابی کے سبب ان کے کچھ دانت نکالے جائیں گے تاہم جب بچے واپس آئے تو ان کے منہ میں کوئی دانت نہیں تھا۔

    مریضوں کے ورثا ء کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں مریض کے اہل خانہ کو ہر صورت اعتماد میں لینا چاہیئے اور ایسا کوئی عمل بغیر اجازت ہر گز نہیں کرنا چاہیے۔

    ڈینٹل سروس چلانے والے سرکاری اداےکا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال کا شکار مریضوں کے ساتھ جو طریقہ کار اپنانا لازمی ہے وہ مکمل طریقےسے اپنایا گیا ہے اور خاتون کے علاج میں کوئی کوتاہی نہیں کی گئی ہے۔ خاتون کی موت کی تحقیقات کے لیے تین طبی ماہرین پر مشتمل کمیشن تشکیل دیا گیا ہے ۔

    اس معاملے پر مہم چلانے والے کچھ لوگوں کا کہنا ہے خصوصی توجہ کے طالب مریضوں اور ان کے اہل خانہ میں عموماً رابطے کے مسائل پیش آتے ہیں ، ایسی صورتحال میں ڈاکٹر کو چاہیئے کہ سارے دانت نکالنے سے قبل اہل خانہ سے گفتگو کرے اور اس کے لیے لازمی اجازت حاصل کرے۔

  • بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    برطانیہ نے سنہ 1973 میں یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی تھی اور سنہ 1975 میں اسے ریفرنڈم کے ذریعے قانونی حیثیت دی گئی تھی۔ قانونی حیثیت ملنے کے 41 سال بعد برطانوی عوام نے سنہ 2016 میں ہی ایک ریفرنڈم کے ذریعے یہ فیصلہ کیا کہ یورپی یونین میں شمولیت ایک گھاٹے کا سودا تھا، لہذا اب اس یونین سے قطع تعلقی کی جائے۔ 23 جون 2016 میں برطانیہ کے 51.9 فیصد عوام نے یونین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیا۔

    [bs-quote quote=”بچھڑنا ہے توجھگڑا کیوں کریں ہم” style=”style-9″ align=”left” author_name=”جون ایلیا”][/bs-quote]

     

    یہاں سے شروع ہوتا ہے عالمی منظر نامے کا سب سے دلچسپ اور منفردسیاسی عمل جس میں یورپی یونین اور برطانیہ نے وہ فارمولا طے کرنا تھا کہ جس کےذریعے علیحدگی کا عمل خوش اسلوبی سے طے پاجائے ۔ بقول شاعر

     

    ریفرنڈم کے وقت کے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اس علیحدگی کے حق میں نہیں تھے ، سو انہوں نے جمہوری روایات نبھاتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ایک ایسے وزیراعظم کے لیے نشست خالی کردی جو کہ عوامی رائے کو مقدم رکھتے ہوئے یورپین یونین سے علیحدگی کے اس عمل کو سہولت سے انجام دے ۔ برطانوی پارلیمنٹ نے اس عمل کے لیے تھریسا مے کو بطور وزیراعظم چنا اور ا ن کی سربراہی میں شروع ہوا مشن بریگزٹ جس میں برطانیہ کی پارلیمنٹ ان سے امید رکھتی تھی کہ وہ برطانیہ کے اس انخلا ء کے لیے ایک ایسا معاہدہ تشکیل دیں جو کسی بھی صورت برطانیہ کے لیے نقصان کا سودا نہ ہو۔

    سافٹ یا ہارڈ بریگزٹ


    جب یہ طے پاگیا کہ برطانیہ نے یورپی یونین سےعلیحدہ ہونا ہی ہے تو برطانیہ کے سامنے دو ہی راستے تھے ، ایک یہ کہ سافٹ انخلا کرے یعنی جس میں یورپ کے ساتھ کچھ ایسے معاہدے کیے جائیں کہ برطانیہ کا انخلا بھی ہوجائے اور یورپی یونین کی شکل میں تشکیل پانے والی دنیا کی یہ واحد سنگل ٹریڈ مارکیٹ بھی متاثر نہ ہو۔ دوسری صورت کو ماہرین ’طلاق‘ کا نام دے رہے ہیں جس کے نتیجے میں برطانیہ کوئی خاص معاہدے کیے بغیر ہی یورپی یونین سے نکل جائے ، اس عمل کو اپنانے میں برطانیہ کو واضح نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دیکھا جائے تو سافٹ بریگزٹ ہی برطانیہ کے لیے فائدہ مند ہے لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ برطانوی وزیراعظم تھریسا مےنے یورپی رہنماؤں کے ساتھ مل کر ایک مسودہ تیار کیا جسے برطانوی ہاؤس آف کامنز سے منظوری درکارہے۔

    یورپی یونین اور برطانوی حکومت کے درمیان طے پانے والے 585 صفحات پر مشتمل معاہدے کے بنیادی نکات میں دو چیزیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات اور دوسرے تجارت اورسیکیورٹی کے معاملات۔ساتھ ہی ساتھ اس میں شہری حقوق، مالی معاملات اور آئریش بارڈر کے مسائل بھی شامل ہیں۔

    واضح رہے کہ آئر لینڈ کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کا معاملہ برسلز کے ساتھ ہونے والی اس ڈیل میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔تھریسا مے کے وزراء کا ماننا ہے کہ مسودے کے مطابق آئر لینڈ تجارتی طور پر یورپین یونین کے زیادہ قریب ہوجائے گا جو کہ کسی بھی صورت برطانیہ کے حق میں نہیں ہے۔خیال رہے کہ معاہدے کے دونوں ہی فریق آئرلینڈ کے ساتھ کوئی سخت بارڈر نہیں چاہتے ہیں۔

    آئرلینڈ کے ساتھ بارڈر کا معاملہ ہی اس مسودے کا ایسا حصہ ہے جس پر برطانیہ کے عوامی نمائندو ں کوشدید قسم کے تحفظات ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یا تو یہ معاملہ حل کیا جائے یا پھر وہ ہارڈ بریگزٹ کو اس معاہدے پر ترجیح دیں۔

    آئرش بارڈر کا تنازعہ ہے کیا؟


    آئرش باغیوں نے سنہ 1921 میں برطانوی حکومت سے علیحدگی اختیار کی تھی اور سنہ 1948 میں اسے باقاعدہ قانونی حیثیت دی گئی تھی ۔ ریپبلک آف آئر لینڈ نے اس موقع پر ایک علیحدہ ملک کی حیثیت اختیار کی تھی جس کے اکثریتی باشندے عیسائیت کے کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ شمالی آئرلینڈ کے لوگوں نے جو کہ پروٹسنٹ فرقے کے ماننے والے تھے، تاجِ برطانیہ کے ساتھ رہنا پسند کیا ۔ تب سے جمہوریہ آئرلینڈ ایک آزاد ملک ہے اور یورپی یونین کا ممبر بھی اور شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا علاقہ ہے۔

    برطانیہ کی یورپی یونین میں شمولیت کے بعد جب ان ممالک کے درمیان سرحدیں صرف نام کی رہ گئیں تو دونوں علاقوں میں بے پناہ تعاون بڑھا اور شمالی آئرلینڈ کی زیادہ تر تجارت اسی راستے یورپ سے ہونے لگی اور اس کا حجم اس وقت 3.5 ارب یورو ہے جو کہ برطانوی معیشت میں معنی خیز حیثیت رکھتی ہے ۔ اب اگر یہاں بارڈر وضع نہ کیا جائے تو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ضرب آتی ہے کہ یہ کیسی علیحدگی ہے اور اگر بارڈر سخت کیا جاتا ہے اور چیک پوسٹیں اور کسٹم بارڈر قائم کیے جاتے ہیں تو برطانیہ جو بریگزٹ کے سبب ابتدائی طور پر مالی دشواریوں کا سامنا کرے گا ، اسے مزید معاشی مشکلات سے گزرنا ہوگا۔

    مسودہ کیا کہتا ہے؟


    تھریسا مے اور یورپی حکام کے درمیان طے پانے والے بریگزٹ مسودے میں طرفین نے اس بات پر رضامندی کا اظہار کیا ہے کہ فی الحال شمالی آئرلینڈ کو غیر معینہ مدت تک ایسے ہی رہنے دیا جائے جیسا کہ ابھی ہے ، لیکن اس مسودے میں کوئی حتمی مدت طے نہیں کی گئی ہے ۔ یہی وہ سارا معاملہ ہے جہاں برطانیہ کے عوامی نمائندے آکر رک گئے ہیں اور خود تھریسا مے کی اپنی جماعت کے ممبران پارلیمنٹ میں بھی اس مسودے کو منظور کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

    تھریسا مے نے اس معاملے پر 11 دسمبر کو ہاؤس آف کامنز میں ووٹنگ کروانی تھی لیکن حد درجہ مخالفت دیکھ کر انہوں نے ووٹنگ ملتوی کرکے یورپی حکام سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے بھرپور کوشش کی کہ انہیں زیادہ سے زیادہ یقین دہانی حاصل ہوجائے کہ اس معاملے پرمن وعن ایسے ہی عمل ہوگا جیسا کہ برطانوی عوام کی خواہش ہے۔ یورپی یونین کے صدر نے اس معاملے پر کہنا ہے کہ بریگزٹ معاہدے میں اب مزید کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ، ہاں اس کی شقوں کی وضاحت کی جاسکتی ہے ۔

    تھریسا مے کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد


    برطانوی وزیراعظم نے جب ووٹنگ ملتوی کرائی تو یہ معاملہ ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا، خود ان کی قدامت پسند جماعت کے ممبران ہی ان کے خلاف ہوگئے ہیں اور ان کے خلاف تحریک ِ عدم اعتماد لانےکے لیے مطلوبہ 48 ارکان کی درخواستیں موصول ہوئی جس کے بعد ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مطالبہ منظورکرلیا گیا ہے۔

    اگر تھریسا مے کے خلاف یہ تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو ان کی جگہ بورس جانسن اورپاکستانی نژاد ساجد جاوید وزارتِ عظمیٰ کے لیے مضبوط ترین امیدوارہیں، لیکن یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ اگر تھریسا مے نہیں رہتی ہیں اوران کی جگہ کوئی وزیراعظم برسراقتدار آتا ہے تو پھر اس بریگزٹ مسودے کی کیا حیثیت رہے گی اور آیا یہ کہ اسی کے ساتھ آگے بڑھا جائے گا یا پھر برطانیہ 19 مارچ 2019 کو یورپی یونین سے طلاق کی جانب جائے گا۔

    دیکھا جائے تو یورپ اور بالخصوص یورپی یونین اور برطانیہ اپنی تاریخ کے انتہائی اہم اور حساس ترین دور سے گزرررہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ وہی یورپ ہے جو کبھی بات بات پر توپ وتفنگ لے کر میدان میں نکل آیا کرتا تھا اور کبھی سات سالہ جنگ تو کبھی تیس سالہ جنگ اور کبھی سو سال کی جنگ لڑتا تھا، جنگِ عظیم اول اور دوئم کے شعلے بھی یورپ سے ہی بھڑکے تھے لیکن اب یہ اس حساس ترین مرحلے سے جمہوریت کی اعلیٰ ترین اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے گزررہا ہےاورہر معاملہ مشورے اور افہام و تفہیم سے حل کیاجارہاہے۔

    امید ہے کہ برطانیہ اور اہل یورپ اس مرحلے سے نبٹ کر جب آگے بڑھیں گے تو ایک تابناک مستقبل ان کا انتظار کررہا ہوگا اور اپنی آئندہ نسلوں کو سنانے کے لیے ان کے پاس ایک ایسی تاریخ ہوگی جس پر وہ بلاشبہ فخر کرسکیں گے۔

  • بریگزٹ ڈیل ناکام ہوگئی تو تھریسا مے کو عہدے سے مستعفیٰ ہونا پڑ سکتا ہے: برطانوی رہنما

    بریگزٹ ڈیل ناکام ہوگئی تو تھریسا مے کو عہدے سے مستعفیٰ ہونا پڑ سکتا ہے: برطانوی رہنما

    لندن: برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کی پارٹی کے ایک سابق رہنما نے خبردار کیا ہے کہ اگر مے کی بریگزٹ ڈیل ووٹنگ میں ناکام ہوگئی تو انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑ سکتا ہے۔

    ڈیلی ٹیلی گراف سے گفتگو کرتے ہوئے آئن اسمتھ کا کہنا تھا کہ مے اور ان کی کابینہ کا اس ڈیل پر جمے رہنا صورتحال کو مزید بگاڑ سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ ووٹنگ کے بعد تھریسا مے کیا رویہ اختیار کرتی ہیں۔ اگر وہ کہتی ہیں کہ ’ہم ہار گئے لیکن ہم اسے دوبارہ کریں گے‘ تو قیادت کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں کئی رکن پارلیمنٹ بھی مے کو خبردار کرچکے ہیں کہ اگر تھریسا مے کی ڈیل ناکام ہوجاتی ہے اور وہ یورپی یونین سے اچھے تعلقات استوار کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں تو انہیں اپنا عہدے سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔

    ورک اور پنشن کی سیکریٹری امبر رڈ کا کہنا ہے کہ گو کہ وہ تھریسا مے کی ڈیل کی حمایت کرتی ہیں تاہم اگر ان کی یہ ڈیل ناکام ہوجاتی تو ناروے پلس آپشن پر غور کیا جائے جس کے تحت ناروے دو اہم تنظیموں یورپین فری ٹریڈ ایسوسی ایشن اور یورپین اکنامک ایریا کا رکن ہے۔

    واضح رہے کہ لیبر پارٹی بریگزٹ معاہدے کی منسوخی کے لیے پارلیمنٹ میں قرارداد لارہی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ برطانیہ ایک دم سے یورپی یونین سے علیحدہ ہوکر افراتفری کا شکار نہ ہوجائے۔

  • برطانیہ میں مسلمانوں کو کرائے پرفلیٹ حاصل کرنے میں مشکلات

    برطانیہ میں مسلمانوں کو کرائے پرفلیٹ حاصل کرنے میں مشکلات

    لندن: برطانوی اخبار کی تحقیق کے مطابق ملک میں مسلم شناخت کے حامل افراد کو کرائے پر فلیٹ حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، بالخصوص شراکت کی بنیاد پر ان کے لیے مواقع انتہائی محدود ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی اخبار گارجین نے ایک سروے کیا جس کے تحت انہوں نے دو مختلف ناموں سے کرائے پر کمرے حاصل کرنے کی کوشش کی، ایک نام پر اچھا ردعمل آیا جبکہ دوسرے پر ردعمل انتہائی کم تھا۔

    گارجین کے مطابق انہوں نے محمد اور ڈیوڈ ، ان دو ناموں سے کرائے پر کمرے شراکت کی بنیاد پر حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ ڈیوڈ نام پر خاطر خواہ ردعمل اور پیش کشیں دیکھنے میں آئی جبکہ محمد نام سے کوشش کرنے پر کو ئی خاص ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔

    رہائشی لینڈ لارڈز کی ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اس سروے کی بنیاد پر حالات کی واضح تصویر کشید نہیں کی جاسکتی کہ ابھی ہمیں یہ نہیں پتا کہ آیا لوگ ایسا شعوری طور پر کررہے ہیں یا لاشعوری طور پر یہ فعل سرزد ہورہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے کرائے دار کا امیگریشن کی پڑتال کی ذمہ داری مالک مکان پر عائد کی گئی ہے جس کے سبب اکثر مالکان تارکینِ وطن کو جگہ کرائے پر دینے سے گریز کرتے ہیں۔

    یاد رہے کہ یہ پہلی بار نہیں کہ برطانیہ میں کسی اقلیتی گروہ کے ساتھ ایسا رویہ رکھا جارہا ہے ۔ سنہ 1950 کی دہائی میں کچھ جائیدادوں کے اشتہار بھی ایسے ہی رویوں کی عکاسی کیا کرتے تھے۔ ایک جملہ جو ان اشتہارات میں بے حد مشہور تھا وہ یہ تھا کہ ’ نو بلیک، نو آئرش ، نو ڈاگز‘ یعنی سیاہ فام، آئرلینڈ کے باشندے اور کتے اس اشتہار میں دلچسپی نہ لیں۔

    ماضی میں صورت حال سنگین تھی لیکن اب حالات کافی بدل چکے ہیں ۔گزشتہ سال ایک شخص کو جنوب ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی جائیدادیں کرائے پر دینے سے انکار کرنے پر مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تھا ، اس نے اپنے اس رویے کی وجہ وجہ ان افراد کے ’کھانوں کی بو‘ قرار دیا تھا۔

    تاہم ماہرین ’گارجین‘ اخبار کے اس سروےکو پوری طرح مسترد بھی نہیں کیا اور کہا ہے کہ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس پر تحقیق کرنا ضروری ہے۔