Tag: برطانیہ

  • شہزادی کیٹ مڈلٹن کے لباس میں رنگ بھریں

    شہزادی کیٹ مڈلٹن کے لباس میں رنگ بھریں

    برطانوی شہزادی کیٹ مڈلٹن اپنی خوبصورتی اور فیشن کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ان کا فیشن نہایت باوقار اور سادہ ہے جو دنیا بھر میں فیشن ٹرینڈز کی نئی ترجیحات طے کرتا ہے۔

    اب شہزادی کے خاکوں پر مشتمل ایسی کلرنگ بک پیش کی گئی ہے جسے خریدنے والا ان کے لباسوں میں اپنی مرضی کے رنگ بھر سکتا ہے۔

    2

    3

    کیٹ مڈلٹن کے خاکوں پر مشتمل یہ کتاب فلاحی مقاصد کے لیے جاری کی گئی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی رقم برطانوی شاہی محل کے زیر انتظام چلنے والے فلاحی منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔

    6

    5

    کتاب میں کیٹ مڈلٹن کی مختلف مواقعوں پر لی گئی 31 تصاویر کو خاکوں کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ ان خاکوں میں شہزادی کہیں محو رقص ہیں، کہیں گھڑ سواری کر رہی ہیں، کہیں چائے سے لطف اندوز ہو رہی ہیں اور کہیں شہزادہ ولیم کے ساتھ کسی تقریب میں شریک ہیں۔

    4

    اس کتاب کی قیمت 6 ڈالر رکھی گئی ہے اور اس میں شہزادی کیٹ کے لباس کے علاوہ باقی تمام اشیا اپنے اصل رنگوں میں موجود ہیں۔

    کیا آپ ایسی خوبصورت تصاویر میں رنگ بھرنا چاہیں گے؟

  • برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کا بل منظور

    برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کا بل منظور

    لندن : برطانوی دارالعوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کا بل منظور کرلیا، بریگزٹ بل کی حمایت میں 494، مخالفت میں 122ووٹ پڑے، بریگزٹ بل منظوری کے لئےدارالامرا بھجوا دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کےیورپی یونین سے نکلنےکی بنیاد ڈال دی گئی، برطانوی دارالعوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا۔

    برطانوی خبررساں ایجنسی کے مطابق اراکین نے 122  کے مقابلے میں 494 ووٹوں سے بریگزٹ بل منظورکرلیا، بل پاس ہونے سے یورپی یونین سے علیحدگی کے مرحلے کی منظوری مل گئی، بل پاس ہونے سےبرطانیہ یورپی یونین سےعلیحدگی کے مذاکرات شروع کرسکے گا۔

    یاد رہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کا عمل شروع کرنے سے متعلق ایک قانونی بل پر برطانوی پارلیمان میں منگل کے روز سے بحث کا آغاز ہوا تھا۔ اس بل کے منظوری کے بعد حکومت کو یہ اجازت مل جائے گی کہ وہ باقاعدہ طور پر بریگزٹ عمل کا آغاز کر دے۔

    واضح رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

    بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے ابتداء میں مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ ہوگا۔

  • برطانوی بحری فوج میں ’خودکش بمبار‘ شامل کرنے کا اشتہار

    برطانوی بحری فوج میں ’خودکش بمبار‘ شامل کرنے کا اشتہار

    لندن: لندن کے طول و عرض میں عجیب و غریب اشتہاری پوسٹر نے شہریوں کو خوف اور اچھنبے میں مبتلا کردیا جس میں انہیں ’خود کش بمبار‘ بننے کی دعوت دی گئی ہے۔

    پوسٹر میں برطانیہ کی بحری فوج کا نشان ثبت ہے جبکہ اس میں فوج کے یونیفارم میں ملبوس 3 فوجیوں کو دکھایا گیا ہے۔ پوسٹر میں مزید معلومات کے لیے بحری فوج کی آفیشل ویب سائٹ بھی دی گئی ہے۔

    bomber-4

    یہ پوسٹر دراصل ایک برطانوی آرٹسٹ ڈیرن کلن نے شاہی (برطانوی) بحری فوج کی ہجو میں بنایا ہے۔ پوسٹر میں فوج میں شامل جوہری آبدوز کے عملے میں نوکری حاصل کرنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ نوکری خودکش بمبار بننے کے مترادف ہے۔

    پوسٹر میں لکھا گیا ہے، ’ہماری جوہری آبدوزیں ایک خودکش مہم پر ہیں۔ ان آبدوزوں سے میزائل لانچ کرنے کا مطلب ہے یقینی موت۔ نہ صرف اس شخص کی جس نے میزائل لانچ کیا، بلکہ اس کے ساتھ ان لاکھوں معصوم لوگوں کی بھی جو اس میزائل کے نشانے پر ہوں گے‘۔

    اسے بنانے والے آرٹسٹ نے صرف ایک پوسٹر بنا کر اسے شہر میں لگایا، اور تھوڑی ہی دیر بعد شہریوں نے اس کی کئی کاپیاں بنا کر پورے لندن میں آویزاں کردیں۔

    bomber-3

    آرٹسٹ کا کہنا ہے کہ جوہری بموں کا استعمال اپنے آپ کو قتل کیے بغیر ممکن نہیں۔ ’جس طرح دہشت گرد خود پر بم باندھ کر ہزاروں معصوم افراد کو مار دیتے ہیں، بالکل یہی کام ہم خود بھی کر رہے ہیں‘۔

    اس عجیب و غریب پوسٹر اور اس پر لکھے پیغام نے پہلے تو لندن کے شہریوں کو ہراساں کیا، اس کے بعد جب انہیں اس کے پس منظر کا علم ہوا تو انہوں نے خود بھی اس پیغام کی تشہیر شروع کردی۔

  • مُردوں کاجزیرہ اور اس کی حقیقت

    مُردوں کاجزیرہ اور اس کی حقیقت

    برطانیہ کےشمالی ساحل کینٹ پرواقع ’مُردوں کےجزیرے‘ کےحوالےسےحیرت انگیز معلومات منظرِعام پر آئیں ہیں جوآج سے پہلےشاید لوگوں کے علم میں نہ تھیں۔

    برطانیہ میں واقع ’مُردوں کےجزیرہ‘صدیوں سے پراسرار رہاہےاور اس سے متعلق کئی دہائیوں تک ڈراؤنی کہانیاں اورافواہیں گردش کرتی رہی ہیں۔

    1

    برطانوی دارالحکومت سے74کلومیٹرفاصلے پرواقع اس جزیرےپر200 سال قبل ان قیدیوں کولا کرتابوت میں دفنایاجاتاتھا‘جوکہ جان لیوا بیماریوں کا شکار ہوا کرتے تھے۔

    2

    کینٹ میں واقع اس جزیرے کے اطراف میں بڑھتی ہوئی سمندری سطح اور ساحلی کٹاؤ کی وجہ سے مُردوں کا یہ جزیرہ اوراس پرموجود ان لوگوں کی باقیات اور ان کی آخری آرام گاہ منظرِعام پرآئی ہیں۔

    3

    مُردوں کے جزیرے کے حوالے سے لوگوں میں مختلف افواہیں ہمیشہ گردش کرتی رہی ہیں جن میں سے بعض افواہوں کےمطابق اس جزیرے پرایک ایسی دیو ہیکل مخلوق آباد ہے جو کہ انسانوں کو پکڑ کران کا دماغ کھالیاکرتاتھااورپھران کے ڈھانچے کو پھینک دیتاتھا۔

    4

    دو سوسال سے زائد عرصے تک خوف کی علامت سمجھے جانے والا یہ جزیرہ برطانوی دارالحکومت لندن سے 74کلو میٹر کےفاصلے پرشیپی جزیرےکےسامنے واقع ہے۔

    5

    آثار قدیمہ کے ماہرڈاکٹر پال ولکنسن نے مُردوں کے جزیرے کے نام سے مشہور اس جگہ کا دورہ کیا اور اس بات کی تصدیق کی اس جزیرے سے جو باقیات اور ہڈیاں ملی ہیں وہ انسانوں کی ہی ہیںاور کسی حیوان یا دیو ہیکل کی موجودگی کے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔

    6

  • ارمینہ کی ایک اور غیر ملکی فلم

    ارمینہ کی ایک اور غیر ملکی فلم

    فلم جانان میں مرکزی کردار ادا کرنے والی باصلاحیت اداکارہ ارمینہ رانا خان کو ایک اور غیر ملکی فلم میں سائن کرلیا گیا ہے۔ وہ اس سے قبل ہی اپنی ایک اور غیر ملکی فلم دی ایکیلیز پروپوزل کی شوٹنگ میں مصروف ہیں۔

    پاکستانی سینما میں مختصر عرصے میں اپنی منفرد شناخت بنانے والی ارمینہ رانا خان نے فلم جانان اور بن روئے میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔

    ان کی نئی برطانوی فلم رئیل ٹارگٹ میں وہ ایک سیکرٹ ایجنٹ ولسن کا کردار نبھائیں گی جو ایک خطرناک مشن پر کینیڈا سے لندن بھیجی جائے گی۔

    armeena-2

    armeena-3

    ارمینہ فی الحال ایک اور فلم دی ایکیلیز پروپوزل کی شوٹنگ میں مصروف ہیں۔ اس فلم میں ارمینہ روبوٹ کا کردار ادا کرتی نظر آئیں گی۔

    یہ فلم مصنوعی ذہانت کے نقصانات پر بنائی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ روبوٹ کی سوچنے سمجھنے کی طاقت انسانوں کے لیے کتنی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔

    ارمینہ اس سے قبل ایک اور برطانوی فلمررائتھ میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھا چکی ہیں۔ اس فلم کو سنہ 2013 میں کینز فلم فیسٹیول میں پیش کیا گیا تھا۔

  • برطانیہ اورترکی میں سوملین پاؤنڈ کا دفاعی معاہدہ طے پاگیا

    برطانیہ اورترکی میں سوملین پاؤنڈ کا دفاعی معاہدہ طے پاگیا

    انقرہ :برطانیہ اور ترکی کےدرمیان ایک سوملین پاؤنڈ کادفاعی معاہدہ طے پایاہے جس کے تحت برطانیہ ترک فضائیہ کے لیے لڑاکا طیارہ تیار کرنے میں مدد فراہم کرےگا۔

    تفصیلات کےمطابق برطانیہ اور ترکی کے درمیان 100ملین پاؤنڈ کے دفاعی معاہدے کا اعلان برطانوی وزیراعظم تھریسا مے اور ترک صدر رجب طیب اردگان کے درمیان ملاقات کےبعدکیاگیا۔

    اس موقع پر تھریسامے کا کہنا تھا کہ ترکی برطانیہ کے کا دیرینہ دوست ہے تاہم ان تعلقات کو مزید وسعت دینے کے لیے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دینے کا اعلان بھی کیا گیا۔

    ترک صدر نے کہا کہ ترکی برطانیہ سے اپنی سالانہ تجارت بیس ارب ڈالر تک بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ابھی دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ لگ بھگ سولہ ارب ڈالر کی تجارت ہورہی ہے۔

    یاد رہےکہ گزشتہ سال 15جولائی کو ترکی میں حکومت کےخلاف ہونے والی بغاوت کے حوالے سے برطانوی وزیراعظم کاکہناتھاکہ ’ہمیں فخر ہے کہ آپ کی جمہوریت کے دفاع میں برطانیہ آپ کے ساتھ کھڑا تھا۔‘

    واضح رہے کہ خیال رہے کہ 15 جولائی کو رجب طیب اردگان کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کی کوشش میں کم از کم 246 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

  • برطانوی مسلمانوں کی جانب سے بے گھر افراد میں کھانا تقسیم

    برطانوی مسلمانوں کی جانب سے بے گھر افراد میں کھانا تقسیم

    لندن: برطانوی مسلمانوں نے اپنے خلاف تمام تر تعصب اور نفرت انگیز واقعات کے باوجود کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے لندن کے بے گھر افراد میں کھانا تقسیم کیا۔

    مشرقی لندن کی مسجد سے شروع کی جانے والی اس مہم کے تحت 10 ٹن کھانا بے گھر افراد میں تقسیم کیا گیا جو زیادہ تر عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ مہم میں 7 ہزار سے زائد افراد نے رضا کارانہ خدمات انجام دیں۔

    uk-5

    uk-4

    اس مہم کے لیے مالی تعاون مختلف مسلمان کاروباری افراد، اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں نے فراہم کیا۔ 10 ٹن کی ان غذائی اشیا میں چاول، پاستہ، سیریل اور دیگر ڈبہ بند اشیا شامل تھیں۔

    مہم میں مسلمانوں کے ساتھ دیگر مذاہب کے افراد نے بھی شرکت کی۔ انہوں نے اسے مذہبی ہم آہنگی کا ایک بہترین مظاہرہ قرار دیا۔

    uk-3

    uk-2

    واضح رہے کہ برطانیہ کے ترقی یافتہ ملک ہونے کے باوجود صرف دارالحکومت لندن میں ساڑھے 3 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہونے کے سبب سڑکوں پر رات گزارتے ہیں۔

  • برطانیہ: کرایہ مانگنا جرم،مسلمان ٹیکسی ڈرائیور پر تشدد

    برطانیہ: کرایہ مانگنا جرم،مسلمان ٹیکسی ڈرائیور پر تشدد

    لندن : مغربی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کا سلسلہ تاحال جاری ہے،برطانیہ کے علاقے ڈربی شائر میں ایک مرد اور ایک خاتون نے کرایہ طلب کرنے پر مسلمان ٹیکسی ڈرائیور کو تشدد کا نشانہ بنایا، پاس کھڑے لوگ ویڈیو بناتے رہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ واقعہ برطانیہ کے علاقے ڈربی شائر میں پیش آیا جہاں 50 سالہ ڈرائیور شاہد اقبال ڈرائیور پر تشدد کیا گیا لیکن کسی نے اسے بچانے کی کوشش نہیں کی۔

    مسلمان ٹیکسی ڈرائیور شاہد اقبال نے بتایا کہ خاتون نے نہ صرف ٹیکسی کا کرایہ دینے سے انکار کیا بلکہ زبردستی گاڑی کا اسٹیئرنگ پکڑتے ہوئے اس سے 80 پاؤنڈ کا مطالبہ کیا، انہوں نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس کو بلانے کے لیے موبائل فون جیب سے نکالنے کی کوشش کی تو خاتون نے اس کے ہاتھ پر کاٹ لیا اور تھپڑ بھی مارے۔

    شاہد اقبال کے مطابق جواب میں وہ فوراً گاڑی سے نکلے تاہم خاتون اور اس کے ساتھی نے مل کر اسے دھکے دیے جب کہ پاس کھڑے افراد نے ان کی کوئی مدد نہ کری بل کہ ویڈیو بنانے میں مصروف رہے اور واقعے سے لطف اندوز ہوئے اور یہ ویڈیو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کردی جو کہ انٹرنیٹ پر وائرل ہوگئی۔

  • لندن: مسلمان خاتون کا حجاب اتارنے اور سڑک پر گھسیٹنے کی کوشش

    لندن: مسلمان خاتون کا حجاب اتارنے اور سڑک پر گھسیٹنے کی کوشش

    لندن: برطانوی دارالحکومت لندن میں اسلام سے نفرت پرستی کا ایک اور واقعہ پیش آگیا جس میں ایک باحجاب خاتون کو ان کے حجاب سے سڑک پر گھسیٹا گیا۔

    میٹرو پولیٹن پولیس کا کہنا ہے کہ 2 سفید فام نوجوانوں نے اس راہ گیر مسلمان خاتون کو دیکھ کر یہ نفرت پرستانہ اور تعصبانہ اقدام اٹھایا۔

    عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ان سفید فام لڑکوں نے خاتون کا اسکارف کھینچ کر اتارنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں خاتون زمین پر گر گئی اور گھسٹتی چلی گئی۔

    مزید پڑھیں: خواتین حجاب کھینچے جانے پر کیا کریں

    قریب ہی واقع ایک ترکی ریستوان کے بیرے کا کہنا ہے کہ انہوں نے ریستوران سے باہر رکھی کرسیوں پر خاتون کو بہت بری حالت میں پایا۔ وہ اس کے قریب یہ سوچ کر گئے کہ شاید یہ ریستوران میں آنے والی خاتون ہے، مگر وہ رو رہی تھی اور بری طرح کانپ رہی تھی۔ ’اس نے بتایا کہ اس پر حملہ کیا گیا ہے‘۔

    واقعہ کے بعد موقع پر موجود افراد نے خاتون کی مدد کی اور انہیں مذکورہ ریستوران کے اندر پہنچایا۔

    ریستوران مالک کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس سے پہلے اس جگہ پر کبھی ایسا ناخوشگوار واقعہ نہیں دیکھا۔

    مزید پڑھیں: یورپ میں مقیم مسلمانوں کو نفرت انگیز رویوں سے کیسے بچایا جائے؟

    واضح رہے کہ برطانیہ، امریکا اور مختلف یورپی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پرستی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ برطانوی ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ اس نسلی شدت پرستی کا نشانہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر اقلیتی گروہ جیسے یہودی، مہاجرین اور ہم جنس پرست افراد بھی بن رہے ہیں۔

    لندن کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ نفرت پرستی کے ان واقعات کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات پر عمل کر ہے ہیں۔

  • برطانوی وزیر اعظم یورپی یونین کے اجلاس میں سخت شرمندگی کا شکار

    برطانوی وزیر اعظم یورپی یونین کے اجلاس میں سخت شرمندگی کا شکار

    اگر آپ کسی ایسی محفل میں چلے جائیں جہاں کوئی آپ کا جاننے والا نہ ہو تو وہاں کسی سے گفتگو نہ ہوسکنا اور تنہا رہنا ایک متوقع صورتحال ہے، لیکن اگر کوئی شخصیت کسی ملک کی وزیر اعظم ہو اور اس کے ساتھ یہی صورتحال پیش آئے تو کیا ہوگا؟

    یقیناً یہ ایک بہت ہی شرمندہ کرنے والی صورتحال ہوگی اور اس کا سامنا کرنے والا نہایت ہی خفت کا شکار ہوگا۔ برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے کو بھی ایسی ہی کچھ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔

    حال ہی میں ہونے والے یورپی یونین کے اجلاس میں تھریسا مے کی ایسی ہی ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ تنہا کھڑی نظر آرہی ہیں۔ ان کے آس پاس موجود عالمی لیڈرز آپس میں مل رہے ہیں اور گفتگو کر رہے ہیں تاہم برطانوی وزیر اعظم کی طرف کوئی دیکھ بھی نہیں رہا۔

    وہ منتظر رہیں اور پلٹ پلٹ کر دیکھتی رہیں کہ کوئی ان کی طرف آ کر ان سے ملے اور گفتگو کرے مگر اجلاس میں مکمل طور پر انہیں نظر انداز کیا گیا۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم کو اس رویے کا سامنا دراصل اس لیے کرنا پڑا کیونکہ اب برطانیہ یورپی یونین کا حصہ نہیں ہے۔ یہ یورپی یونین کے رہنماؤں کی جانب سے برطانیہ سے ایک سرد مہری کا اظہار تھا جس نے اجلاس میں تھریسا مے کی پوزیشن کو نہایت نازک بنا دیا۔