Tag: برطانیہ

  • برطانیہ: معمر افراد کو کام پر واپس لانے کے لیے نئے منصوبے کا اعلان

    برطانیہ: معمر افراد کو کام پر واپس لانے کے لیے نئے منصوبے کا اعلان

    لندن: برطانیہ نے نیا بجٹ پیش کر دیا، بجٹ تقریر میں 50 برس سے زائد عمر کے افراد کو کام پر واپس لانے کے لیے نئے منصوبے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق برطانوی چانسلر خزانہ جیریمی ہنٹ نے نئے مالی سال کا بجٹ پیش کر دیا، نئے مالی سال کے بجٹ میں بینیفٹس، چائلڈ کیئر اور پنشن سے متعلق اصلاحات کا اعلان کیا گیا ہے۔

    بجٹ میں انرجی بلز کی مد میں ڈھائی ہزار پاؤنڈ سالانہ کی پرائس کیپ اسکیم میں 3 ماہ کی توسیع کی گئی ہے، پری پیمنٹ میٹر کے تحت صارفین کو زائد رقم ادا نہیں کرنی پڑے گی، اس سے چالیس لاکھ گھرانوں کو سالانہ 45 پاؤنڈ کی بچت ہوگی۔

    ہڑتالوں کے باعث برطانیہ کو کارکنوں کی شدید قلت کا سامنا ہے، اس لیے برطانوی حکومت نے مزید لوگوں کو کام پر لانے اور ملک کو سرمایہ کاری کا ایک پرکشش مقام بنانے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کر دیا ہے، بدھ کے روز بجٹ میں اسی لیے مفت چائلڈ کیئر، گھریلو توانائی کی سبسڈی میں توسیع اور کاروباری سرمایہ کاری کی ترغیبات کو بڑھانے کا اعلان کیا گیا۔

    برطانیہ کو اس وقت دوہرے ہندسے کی افراط زر، بڑھتی ہوئی شرح سود اور مزدوروں کی وسیع ہڑتالوں کا سامنا ہے، نئے بجٹ کے ساتھ وزیر اعظم رشی سُنک کو رواں برس معیشت کو وسعت دینے اور اسے جمود سے نکالنے کے لیے جنوری میں کیے گئے وعدے کو پورا کرنا ہوگا۔

    بجٹ کے مطابق برطانیہ میں آئندہ پانچ برسوں میں دفاع کے لیے بھی 11 بلین پاؤنڈ خرچ کیے جائیں گے۔

  • برطانوی ویزا ملنے میں تاخیر: افغان صحافیوں کو لاحق خطرات میں اضافہ

    برطانوی ویزا ملنے میں تاخیر: افغان صحافیوں کو لاحق خطرات میں اضافہ

    لندن: برطانیہ میں افغان سول سوسائٹی کے نمائندوں کو آباد کرنے کی اسکیم تاخیر کا شکار ہے جس سے افغان صحافیوں کی مشکلات اور انہیں لاحق خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

    اردو نیوز کے مطابق آزادی صحافت کے حق میں کام کرنے والی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ افغان شہری بالخصوص صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں برطانیہ ناکام ہو رہا ہے۔

    افغان شہریوں کو برطانیہ میں آباد کرنے میں تاخیر کا مطلب یورپی اتحادی ممالک بشمول جرمنی اور فرانس کا لندن کی پالیسی سے اتفاق نہ کرنا ہے۔

    خیال رہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اگست 2021 میں سابق وزیر اعظم بورس جانسن نے افغان ری لوکیشن اینڈ اسسٹنس پالیسی (اے آر اے پی) کے نام سے ایک سکیم متعارف کی تھی جس کا مقصد افغان سول سوسائٹی کے نمائندوں کو برطانیہ میں آباد کرنا تھا۔

    صحافتی تنظیموں کی جانب سے یہ انتباہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب برطانوی حکومت کو افغان شہریوں کی دوبارہ آباد کاری کی سکیم کے اگلے مرحلے کی تفصیلات جاری کرنا ہیں۔

    صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ متعدد افغان شہریوں نے ان سے مدد کی اپیل کی ہے، جبکہ اس سے قبل برطانیہ کے اتحادی یورپی ممالک متعدد افغان صحافیوں کو پناہ دے چکے ہیں۔

    صحافتی گروپس انڈیکس سینسر شپ، نیشنل یونین آف جرنلسٹس، پی ای این انٹرنیشنل اور انگلش پی ای این نے برطانوی سیکریٹری داخلہ سویلا بریورمین سے افغان شہریوں کی آباد کاری میں مدد کی درخواست کی ہے۔

    انڈیکس آن سینسر شپ کے ایڈیٹر مارٹن برائٹ کا کہنا ہے کہا کہ افغانستان، پاکستان یا ایران میں پناہ لینے والے افغان صحافیوں کو برطانوی حکومت کی جانب سے کسی قسم کی یقین دہانی نہیں کروائی گئی جبکہ وہ اے سی آر ایس سکیم کے تحت برطانیہ میں آباد ہونے کے اہل ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اے سی آر ایس سکیم میں پیش رفت کے حوالے سے واضح معلومات نہ ہونے کی وجہ سے بھی افغان شہریوں کو کسی قسم کی کوئی مدد نہیں فراہم کی جا سکتی جس سے صحافیوں کے لیے گمشدگی، تشدد، گرفتاری، قید اور قتل کی دھمکیوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد سے افغان صحافیوں کی اکثریت ہمسایہ ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہے تاہم ملک بدر کیے جانے کے امکان کے باعث ان کے لیے خطرات برقرار ہیں۔

    گزشتہ ماہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں حکام کی جانب سے اکثر افغان صحافیوں کے ذاتی الیکٹرانکس بشمول فون، لیپ ٹاپ اور کیمرا ضبط کرنے کی خبریں سامنے آئی تھیں۔

    پاکستان میں پناہ لینے والی ایک خاتون افغان صحافی نے بتایا کہ اس وقت میں قیامت سے گزری ہوں۔ پاکستانی معاشرے میں بہت زیادہ امتیازی سلوک، نسل پرستی اور تعصب ہے، بالخصوص افغان خواتین کے لیے۔

    طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے اکثر افغان صحافی مغربی میڈیا تنظیموں کے لیے کام کر رہے تھے، اس کے باوجود برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے لیے کام کرنے والے 8 صحافیوں کا برطانوی ویزا مسترد ہو گیا تھا۔

    البتہ برطانوی محکمہ داخلہ کے خلاف قانونی کارروائی کے بعد ان صحافیوں کی ویزا ایپلی کیشن پر دوبارہ غور کیا گیا۔

    برطانوی حکومت کے ترجمان کے مطابق سکیم کے تحت 24 ہزار سے زائد افغان شہریوں کو برطانیہ میں آباد کیا گیا ہے جس میں خواتین اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان، سکالر، صحافی، جج اور دیگر شامل ہیں۔

  • شہزادہ ہیری کو گھر خالی کرنے کا کہہ دیا گیا

    شہزادہ ہیری کو گھر خالی کرنے کا کہہ دیا گیا

    لندن: شہزادہ ہیری کو فروگمور میں واقع شاہی گھر خالی کرنے کا کہہ دیا گیا۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق شہزادہ ہیری اور میگھن مارکل سے ونڈسر کاسل میں واقع گھر خالی کرنے کی درخواست کی گئی ہے، ان سے کہا گیا ہے کہ شاہی پراپرٹی فروگمور کاٹیج خالی کر دیں۔

    رپورٹس کے مطابق رواں سال مئی میں شہزادہ چارلس کی تاج پوشی کے بعد جوڑے کو فروگمور کاٹیج خالی کرنا ہوگا، کنگ چارلس ہیری کی انتہائی متنازع اور الزامات سے بھری کتاب سامنے آنے پر ناراض ہیں۔

    ہیری اور میگھن نے 2018 میں دس بیڈرومز کے اس کاٹیج کی 2.4 ملین پاؤنڈ کی لاگت سے تزئین و آرائش کی تھی۔

    فروگمور کاٹیج ملکہ الزبتھ نے اس جوڑے کو تحفے میں دیا تھا، اور گزشتہ سال جوڑے اپنی بیٹی کی پہلی سالگرہ کا دن اسی فروگمور کاٹیج میں گزارا تھا۔

    2020 میں یہ جوڑا شاہی خاندان کے ورکنگ ممبرز کے طور پر اپنا کردار چھوڑ کر کیلیفورنیا منتقل ہو گیا تھا۔

  • مسافروں کو دنیا کا انوکھا نظارہ دکھانے کے لیے پائلٹ نے جہاز موڑ دیا

    مسافروں کو دنیا کا انوکھا نظارہ دکھانے کے لیے پائلٹ نے جہاز موڑ دیا

    آئس لینڈ اور برطانیہ کے درمیان سفر کرنے والے ایک طیارے کے مسافر اس وقت زمین کا انوکھا اور خوبصورت ترین منظر دیکھنے میں کامیاب رہے جب پائلٹ نے تمام مسافروں کے لیے جہاز کو مکمل طور پر گھما دیا۔

    برطانوی ایئر لائن ایزی جیٹ کے ایک پائلٹ نے مسافروں کو ناردرن لائٹس کا مسحور کن نظارہ کروانے کے لیے جہاز کو مکمل طور پر 360 ڈگری کے زاویے پر گھما دیا۔

    یہ جہاز آئس لینڈ سے مانچسٹر جا رہا تھا جب برطانیہ کا آسمان اس خوبصورت منظر سے بھر گیا جسے ناردرن لائٹس کہا جاتا ہے۔

    ناردرن لائٹس، قدرت کا شاندار لائٹ شو ہے جسے ارورہ بوریلیس بھی کہا جاتا ہے، یہ نظارہ اس وقت ہوتا ہے جب سورج کی سطح پر ہونے والے دھماکے، جنھیں سولر فلیئرز کہتے ہیں، زمین کی فضا میں موجود گیسوں سے ٹکرا کر سرخ، سبز اور جامنی رنگ کے چمکتے ہوئے بینڈ بناتے ہیں۔

    اس جہاز میں چیشائر سے تعلق رکھنے والے مسافر ایڈم گروز نے بتایا کہ یہ ناقابل یقین نظارہ ان کے چار راتوں والے سیاحتی دورے سے بڑھ کر محسور کن تھا۔

    گروز کا کہنا ہے کہ جب ان کے جہاز نے ریکجاوک سے اڑان بھری، وہ اور ان کی منگیتر جیسمین ماپ جہاز کے دائیں جانب بیٹھے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پائلٹ اتنے مہربان نہ ہوتے تو شاید وہ کبھی بھی یہ لائٹس نہیں دیکھ پاتے۔

    جہاز کے کپتان نے منظر کو اچھی طرح دکھانے کے لیے کیبن کی لائٹس کو مدھم کر دیا۔

    دراصل ہوا یوں تھا کہ جب طیارہ روشنیوں بھرے آسمان پر اڑ رہا تھا تب اس نظارے کو صرف ایک طرف بیٹھے افراد ہی دیکھ سکتے تھے، پائلٹ نے دوسری طرف بیٹھے افراد کو بھی یہ منظر دکھانے کے لیے جہاز کو گھما دیا۔

    ایزی جیٹ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ہمیں خوشی ہے کہ کپتان کنٹرولڈ طریقے سے جہاز گھمانے میں کامیاب رہا تاکہ مسافروں کو قدرت کے عظیم ترین مقامات میں سے ایک پر شاندار منظر دیکھنے کو مل سکے۔

    ترجمان کے مطابق ہمارا عملہ ہمیشہ اپنے مسافروں کے لیے بڑھ چڑھ کر خدمات فراہم کرنا چاہتا ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ ہم ان کے ساتھ یہ خاص منظر شیئر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

  • برطانیہ میں سبزیوں کی خریداری پر حد مقرر

    برطانیہ میں سبزیوں کی خریداری پر حد مقرر

    لندن: برطانوی سپر مارکیٹس نے سبزیوں کی خریداری پر حد مقرر کر دی ہے، اس کی وجہ بدلتے ہوئے موسمی حالات کی وجہ سے غذائی پیداوار متاثر ہونا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹس کے مطابق برطانوی سپر مارکیٹس کی کئی شاخوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ بعض سبزیوں اور پھلوں کی خریداری کی حد مقرر کر رہی ہیں۔

    کھانے پینے اور روز مرہ استعمال کی دیگر اشیا فروخت کرنے والی ان مارکیٹس نے سبزیوں کی خریداری پر حد کی وجہ جنوبی یورپی اور شمالی افریقی ممالک میں ان اشیا کے پیداواری سلسلے میں خلل کو قرار دیا۔

    برطانیہ کی سب سے بڑی سپر مارکیٹ چین ٹیسکو نے فی گاہک تین ٹماٹر، تین بڑی مرچوں اور تین کھیروں کی فروخت کی حد مقرر کی ہے۔

    جرمن مارکیٹ چین آلڈی کی برطانوی شاخ نے بھی اسی طرح کے اقدامات کا اعلان کیا ہے جبکہ موریسنز نے ان اشیا کے ساتھ ساتھ سلاد پتہ کی فروخت کی بھی حد مقرر کر دی، اس سے ایک روز قبل ہی ایسڈا سپر مارکیٹ نے مجموعی طور پر 8 سبزیوں اور پھلوں کی فروخت پر حد مقرر کی تھی۔

    برطانیہ کی طرف سے یورپی یونین چھوڑ دینے کے ناقدین کھانے پینے کی اشیا کی اس قلت کو بریگزٹ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں جو کہ یورپ کے باقی حصے میں کہیں موجود نہیں، تاہم صنعت سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قلت کی وجہ موسم کی خرابی ہے۔

    برطانوی ریٹیل کنسورشیم میں خوراک اور پائیداری کے معاملات کے ڈائریکٹر اینڈریو اوپی کے بقول، جنوبی یورپ اور شمالی افریقی ممالک میں مشکل موسمی حالات نے کچھ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار کو متاثر کیا ہے، جن میں ٹماٹر اور مرچیں بھی شامل ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ سپر مارکیٹس اشیا کی فراہمی کے سلسلے سے جڑے مسائل پر قابو پانے میں ماہر ہوتی ہیں اور وہ کسانوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں تاکہ گاہکوں کو تازہ پیداوار تک رسائی حاصل رہے۔

    او پی کا مزید کہنا تھا کہ یہ قلت مزید کچھ ہفتوں تک جاری رہنے کی توقع ہے۔

    گزشتہ ماہ اسپین کو غیر معمولی سرد موسم کا سامنا رہا، جنوبی اسپین سے سامان لے جانے والے سمندری بحری جہازوں کی روانگی بھی معطل ہوتی رہی جس کی وجہ سے اشیا کی فراہمی کا یہ سلسلہ مزید متاثر ہوا۔

    اسی طرح مراکش میں کسانوں نے سرد موسم، تیز بارشوں اور سیلاب کے سبب پیداواری حجم میں کمی کے بارے میں بتایا ہے۔

  • 16 سال قبل پراسرار حالات میں لاپتہ بچی واپس آگئی؟

    16 سال قبل پراسرار حالات میں لاپتہ بچی واپس آگئی؟

    پولینڈ میں رہنے والی ایک خاتون جولیا وینڈل نے دعویٰ کیا ہے کہ 16 سال قبل ایک بچی کی گمشدگی کے جس کیس نے عالمی شہرت حاصل کی تھی، وہ وہی بچی ہیں۔

    پولش خاتون کا یہ دعویٰ سوشل میڈیا پر بے حد وائرل ہورہا ہے، خاتون نے ایک پوسٹر اٹھا رکھا ہے جس میں ایک بچی کی تصویر اور اسے ڈھونڈنے کی اپیل کی گئی ہے، خاتون کے مطابق یہ بچی وہ ہیں۔

    واقعے کا پس منظر

    16 سال قبل مئی 2007 میں ایک برطانوی خاندان اپنی تعطیلات گزارنے پرتگال آیا تھا، جہاں ایک رات جب والدین ڈنر کے لیے قریبی ریستوران میں تھے، ان کی 3 سال بچی میڈیلین مک کین لاپتہ ہوگئی۔

    بچی اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ اس ریزورٹ میں موجود تھی جہاں اس خاندان کا قیام تھا۔

    پولیس کو کمرے کا دروازہ ٹوٹا ہوا ملا جس پر بچی کے اغوا کا شبہ ظاہر کیا گیا۔

    خاندان نے جلد ہی مقامی اور برطانوی میڈیا کو بھی اس کیس میں شامل کرلیا جس کے بعد اس کیس کو عالمی شہرت حاصل ہوگئی اور دنیا بھر سے لوگ 3 سالہ بچی کی سلامتی اور بحفاظت گھر واپسی کی دعائیں کرنے لگے۔

    حتیٰ کہ چند معروف شخصیات نے جن میں برطانوی و پرتگالی فٹ بالرز ڈیوڈ بیکہم اور کرسٹیانو رونالڈو بھی شامل تھے، بچی کو ڈھونڈنے کی اپیل کی۔ برطانوی مصنفہ جے کے رولنگ نے بھی بچی کی اطلاع دینے والے کے لیے رکھی گئی کئی ملین پاؤنڈز کی خطیر انعامی رقم میں حصہ ڈالنے کا اعلان کیا۔

    تاہم یہ تمام کوششیں بے سود رہیں اور دونوں ممالک کی پولیس سر توڑ کوششوں کے باوجود بچی کا سراغ لگانے میں ناکام رہی۔

    اس دوران بچی کے والدین پر بھی الزام لگایا گیا کہ بچی ایک حادثے میں ہلاک ہوچکی ہے جس کی ذمہ داری سے بچنے کے لیے انہوں نے گمشدگی کا ڈرامہ رچایا ہے۔

    بچی کے والدین کو باقاعدہ تفتیش کے مراحل سے گزرنا پڑا تاہم ایک پرتگالی عدالت نے والدین کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے مقامی پولیس کو انہیں ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔

    برطانیہ میں بچی کے پڑوس میں مقیم ایک خاتون کو بھی ہرجانے کی ادائیگی کا حکم دیا گیا جن پر کچھ برطانوی اخبارات نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ بچی کی ہلاکت یا گمشدگی میں والدین کے ساتھ شامل ہیں۔

    10 سال بعد 2017 میں جرمن اور برطانوی پولیس نے ایک 43 سالہ جرمن شہری کو گرفتار کیا جو بچوں کے اغوا اور ان سے زیادتی کے گھناؤنے جرائم میں ملوث تھا، پولیس کے مطابق میڈیلین کی گمشدگی بھی اس شخص یا اس کے ریکٹ سے تعلق رکھتی ہے۔

    اب ایک پولش خاتون کے اس دعوے کے بعد، کہ وہی میڈیلین مک کلین ہیں، ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

    تاحال ان کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات سامنے نہیں آسکیں کہ اس دوران وہ کہاں رہیں اور ان پر کیا گزری، تاہم ان کا کہنا ہے کہ برطانوی خاندان نے ان سے رابطہ کر کے ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کی پیشکش کی ہے تاکہ وہ اپنے بچھڑے ہوئے خاندان سے مل سکیں۔

  • برطانیہ پر بریگزٹ کے ہولناک اثرات پڑنا شروع

    برطانیہ پر بریگزٹ کے ہولناک اثرات پڑنا شروع

    لندن: برطانیہ پر بریگزٹ کے بعد کے منفی اثرات پڑنا شروع ہو گئے ہیں۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق بریگزٹ کے بعد برطانوی امیگریشن، تجارت اور سیاحت پر بے تحاشا منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، اور کہا جا رہا ہے کہ بہت سے طویل المدتی نتائج ابھی تک مکمل طور پر سامنے نہیں آئے، جو ممکن ہے آنے والے برسوں میں مزید واضح ہو جائیں۔

    23 جون، 2016 کو برطانوی ووٹرز نے ایک خصوصی ریفرنڈم میں برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں فیصلہ دیا تھا، جس پر 31 جنوری 2020 عمل درآمد ہوا۔

    یورپی یونین سے علیحدگی کے اس فیصلے سے امیگریشن، تجارت اور سیاحت سمیت مختلف شعبوں پر دور رس اثرات پڑنے لگے ہیں۔

    برطانیہ میں داخلہ

    یورپی یونین کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے برطانیہ میں اب چھٹیاں گزارنا قدرے مشکل ہو گیا ہے، کیوں کہ بریگزٹ سے قبل یورپی یونین میں شامل کسی بھی ملک کا قومی شناختی کارڈ رکھنے والا کوئی بھی فرد آزادانہ طور پر برطانیہ میں داخل ہو سکتا تھا، اب پاسپورٹ رکھنے والوں کو یہ سہولت حاصل ہے۔

    سیاحوں کی تعداد میں کمی

    برطانوی سیاحتی اتھارٹی کے مطابق یورپی شہریوں سے 2022 میں برطانیہ کے دوروں کی تعداد میں 2019 کے مقابلے میں تقریباً ایک تہائی کمی آ گئی ہے-

    ہوٹلوں کی بڑھتی قیمتیں

    برطانیہ کے شعبہ مہمان نوازی کی جانب سے ہوٹلوں کے اخراجات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے سیاحوں کوخاصی مشکل کا سامنا ہے، مہمان نوازی کے اخراجات بڑھنے کی وجہ سے دیگر اشیا بھی مہنگی ہو گئی ہیں۔ چار پانچ سال پہلے اگر دو لوگوں کو 10 دن کی رہائش پر چھ سے آٹھ ہزار یورو خرچ کرنا پڑتے تھے تو اب اسی ٹور پیکج کے لیے انھیں دوگنا زیادہ رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔

    عملے کی کمی

    ہوٹلوں، بارز اور ریستوراںوں میں عملے کی کمی کا سامنا ہے، آکسفورڈ یونیورسٹی کی مائیگریشن آبزرویٹری کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق جون 2019 اور جون 2021 کے درمیان برطانوی مہمان نوازی کے شعبے میں کام کرنے والے یورپی یونین کے ملازمین کی تعداد میں 25 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔

    ماضی میں برطانوی سیاحتی شعبے کا زیادہ تر انحصار یورپی یونین کے ممالک سے آئے کم اجرت والے ورکرز پر ہوا کرتا تھا مگر اب ایسا نہیں رہا۔

    نئے امیگریشن قوانین

    بریگزٹ کے بعد لاگو ہونے والے امیگریشن کے نئے قوانین نے یورپی یونین کے کم ہنر مند شہریوں کے لیے برطانوی لیبر مارکیٹ میں داخل ہونا بہت مشکل بنا دیا ہے۔

  • برطانیہ کے شعبہ صحت نے تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال کر دی

    برطانیہ کے شعبہ صحت نے تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال کر دی

    لندن: برطانیہ کے شعبہ صحت نے تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں کارکنوں نے پیر کو ہیلتھ سروس کی تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال کر دی، صحت کے شعبے نے مکمل طور پر کام روک دیا۔

    برطانوی محکمہ صحت کی 75 سالہ تاریخ میں پہلی بار لاکھوں ہیلتھ ورکرز احتجاجاً ہڑتال پر چلے گئے ہیں، کارکنوں کی جانب سے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے، اتنی بڑی ہڑتال سے سرکاری نیشنل ہیلتھ سروس پر بوجھ مزید بڑھ گیا ہے۔

    نرسوں کے ساتھ ساتھ ایمبولینس ڈرائیور بھی سراپا احتجاج بن گئے ہیں، ایمبولینس ورکرز نے 10 فروری سے باضابطہ طور پر ہڑتال کا حصہ بننے کا اعلان کر دیا ہے، اس سے قبل نرسیں اور ایمبولینس ورکرز الگ الگ ہڑتال کر رہے تھے، لیکن پیر کے واک آؤٹ میں دونوں شامل ہو گئے ہیں۔

    دوسری جانب میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر اسٹیفن پوئس کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے ہونے والے احتجاج میں فزیو تھراپسٹس بھی شامل ہوجائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ نرسیں منگل کو، ایمبولینس کا عملہ جمعہ کو اور فزیو تھراپسٹس جمعرات کو واک آؤٹ کریں گے۔

    ورکرز گزشتہ 40 برسوں میں برطانیہ کی بدترین مہنگائی کا سامنا کر رہے ہیں، اور ان کا مطالبہ ہے کہ تنخواہوں میں مہنگائی کے حساب سے اضافہ کیا جائے تاکہ ان کے گھریلو اخراجات پورے ہوں۔

    تاہم، دوسری طرف حکومت نے ایک بار پھر کہا ہے کہ یہ ناقابل برداشت ہوگا، اگر تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا تو اس سے اشیا کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا، جس سے شرح سود اور رہن کی ادائیگیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔

    وسطی لندن میں سینٹ تھامس اسپتال کے باہر مظاہرے کا حصہ بننے والی ایک نرس نے کہا کہ ضرورت ہے کہ حکومت تنخواہ پر ہماری بات سنے، اور یہ نہ کہے کہ این ایچ ایس کے پاس پیسے نہیں ہیں، کیوں کہ ہمیں جو تنخواہ دی جا رہی ہے، اس میں ہم گزر بسر نہیں کر سکتے۔

    واضح رہے کہ برطانیہ میں تقریباً 5 لاکھ کارکنان، جن میں سے زیادہ تر پبلک سیکٹر سے ہیں، گزشتہ موسم گرما سے ہڑتالیں کر رہے ہیں، جس سے حال ہی میں وزیر اعظم بننے والے رشی سنک پر تنازعات کے جلد از جلد حل کے لیے دباؤ بہت بڑھ گیا ہے۔

  • اساتذہ کی ہڑتال، برطانیہ میں 23 ہزار اسکول متاثر ہوں گے

    لندن: برطانوی حکومت اور ٹیچرز یونین کے درمیان مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہونے کے بعد برطانیہ اور ویلز میں اساتذہ کی ہڑتالوں کا سلسلہ مزید آگے بڑھنے والا ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق ٹیچرز یونین اور برطانوی وزیرِ تعلیم کے درمیان مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں، ٹیچرز یونین بدھ کو ہڑتال کی کال دے گی۔

    نیشنل ایجوکیشن یونین نے کہا کہ سیکریٹری تعلیم گیلین کیگن نے بدھ کی ہڑتال سے بچنے کے لیے ایک موقع ضائع کر دیا، ہڑتال سے 23 ہزار اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔ انھوں نے کہا کہ 7 ہڑتالوں کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس میں سے یہ پہلی ہڑتال ہوگی۔

    دوسری طرف سیکریٹری تعلیم کیگن نے ہڑتال کی کارروائی جاری رہنے پر مایوسی کا اظہار کیا، یونین کا کہنا تھا کہ حکومت ہڑتال کی وجوہ پر سنجیدگی سے غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ تنخواہوں میں اضافے اور دیگر مراعات کے لیے اساتذہ کی ہڑتال میں دوسرے شعبوں سے وابستہ ایک لاکھ بھی لوگ شرکت کریں گے۔

  • برطانیہ کی کاروباری سرگرمیوں میں تشویشناک حد تک کمی

    لندن : برطانیہ میں گزشتہ چند ماہ سے متواتر ایسی خبریں آرہی ہیں جسے وہاں رہنے والا ہر شخص یہ محسوس کررہا ہے کہ موجودہ برطانیہ چند سال قبل کے برطانیہ سے بہت مختلف ہے۔

    ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کاروباری سرگرمیوں میں کمی نے لوگوں کو شدید متاثر کیا ہے اور خدشہ ہے کہ برطانیہ میں کساد بازاری کی تیزی میں مزید اضافہ ہوگا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے برطانوی اقتصادی ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ کاروباری سرگرمیوں میں کمی برطانیہ کے کساد بازاری کے خطرے کو مزید تقویت دے رہی ہے۔

    ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ مہنگائی کی شرح میں ہوشربا اضافے اور آئے دن ہونے والی ہڑتالوں کے سبب معاشی طور پر افراتفری آئندہ بھی برقرار رہنے کی توقع ہے۔

    رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے نجی شعبے کی اقتصادی سرگرمیاں ماہ جنوری میں دو سال کی کم ترین سطح پر تھیں، حالیہ دنوں میں کیے گئے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کاروباری اداروں نے بینک آف انگلینڈ کے سود کی بلند شرح، آئے دن کی ہڑتالوں اور صارفین کی جانب سے خریداری میں کمی کو معیشت کی سست روی کا ذمہ دار قراردیا ہے۔

    اس مہینے کے آغاز میں شائع ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال نومبر میں برطانیہ کی معاشی نمو میں وقتی اضافہ ہوا تھا، جس نے گزشتہ سال 2022 کی دوسری سہ ماہی میں گرتی ہوئی پیداوار کے امکانات کو کچھ کم کیا۔

    اس صورتحال میں مجموعی طور پر برطانیہ میں صنعتی سرگرمیاں بھی کافی متاثر ہوئی ہیں کیونکہ ریلوے ملازمین، نرسیں، ایمبولینس ڈرائیورز اور اساتذہ اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے سڑکوں پر ہیں جس کے سبب مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔