Tag: برطانیہ

  • قدیم دور کے اس بچے کی موت کی وجہ معلوم ہو گئی

    قدیم دور کے اس بچے کی موت کی وجہ معلوم ہو گئی

    ابتدائی قرون وسطیٰ کے برطانیہ میں ایک 6 سالہ لڑکے کی الم ناک موت کی وجہ سائنس دانوں نے معلوم کر لی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایسٹونیا کی یونیورسٹی آف ٹارٹو کے محققین نے 6 سالہ بچے کی باقیات کے تجزیے کے بعد اس کی وجۂ موت کی تفصیلات جاری کی ہیں۔

    یہ بچہ 14 سو سال پرانے اینگلو سیکسن دور سے تعلق رکھتا تھا، بچے کی باقیات کیمبرج شائر کے علاقے سے دریافت کی گئی تھیں، اب سائنس دانوں نے جینیاتی تجزیے کی مدد سے ایک ہزار چار سو سال قبل مرنے والے اس بچے کی موت کی وجہ جان لی ہے۔

    لیبارٹری میں ہونے والے تجزیے سے انکشاف ہوا کہ اس 6 سالہ بچے کو 540 سے 550 بعد از مسیح کے درمیان ایڈکس کے پہاڑی سلسلوں میں دفن کیا گیا تھا۔

    ریسرچرز کے مطابق دانت کے جینیاتی تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ بچہ گردن توڑ بخار، طاعون اور جوڑوں کے درد میں مبتلا تھا۔

    تاہم بچے کی موت کی وجہ انفلوئنزا اور طاعون ہے، کیوں کہ ویکسین ایجاد ہونے سے قبل 1977 تک انفلوئنزا بچوں میں موت کا اہم سبب تھا، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر انفلوئنزا کی وجہ سے قوت مدافعت کم زور پڑنے سے طاعون نے اسے اپنا نشانہ بنا لیا۔

    محققین نے 2 فروری کو جینوم بائیولوجی میں شائع شدہ مقالے میں کہا کہ ابتدائی قرون وسطیٰ کے انگلینڈ میں 6 سالہ لڑکے کی الم ناک موت نے سائنس دانوں کو ہیموفیلس انفلوئنزا بی کی تاریخ کا ابتدائی براہ راست اشارہ دیا ہے۔ تقریباً 550 عیسوی میں یہ اس بیکٹیریل انفیکشن کا سب سے پرانا کیس ہے، جسے Hib کہا جاتا ہے۔

    اس لڑکے کو کیمبرج شائر میں طاعون کے قبرستان میں دفن کیا گیا تھا، لڑکے کے ایک دانت سے لیا گیا ڈی این اے اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ انفلوئنزا بھی اسی دور میں لوگوں کو متاثر کر رہا تھا، جب تاریخ کی پہلی دستاویزی طاعون کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔

  • چند لمحوں کے لیے ماسک اتارنے پر لاکھوں کا جرمانہ

    چند لمحوں کے لیے ماسک اتارنے پر لاکھوں کا جرمانہ

    لندن: برطانیہ میں ایک شخص کو صرف 16 سیکنڈ کے لیے ماسک اتارنے پر لاکھوں کا جرمانہ ادا کرنا پڑگیا۔

    برطانیہ میں کرسٹوفر او ٹول نامی شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے خریداری کے دوران کچھ دیر کے لیے اپنے چہرے سے ماسک اتار دیا تھا جس کے بدلے اسے بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑا۔

    کرسٹوفر نے کہا کہ انہیں ماسک پہننے کے اصول سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، انہوں نے تھوڑی دیر کے لیے شاپنگ کرتے ہوئے اپنا ماسک اتار دیا لیکن اس کے بدلے انہیں 400 پاؤنڈز یعنی 2 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑا۔

    کرسٹوفر او ٹول کے ساتھ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ ایک جگہ خریداری کر رہے تھے، کرسٹوفر کے مطابق ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، اس لیے انہوں نے تقریباً 16 سیکنڈ تک اپنا ماسک اتارے رکھا۔

    اسی وقت پولیس اہلکار اسٹور کے اندر آئے اور ماسک نہ پہننے پر اس کا نام نوٹ کیا، یہ واقعہ گزشتہ سال فروری کے مہینے کا ہے جب برطانیہ میں ہر جگہ ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا تھا۔

    واقعے کے چند دن بعد کرسٹوفر کو کرمنل ریکارڈ آفس سے ایک خط موصول ہوا جس میں اسے 10 پاؤنڈز یعنی تقریباً 10 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کو کہا گیا تھا۔

    کرسٹوفر نے اس خط کے بدلے میں حکام کو ای میل کے ذریعے جرمانے کی ادائیگی نہ کرنے کی وضاحت پیش کی، جس پر انہیں حکام کی جانب سے ایک اور خط دیا گیا جس میں جرمانے کی رقم بڑھا کر 400 پاؤنڈز یعنی 2 لاکھ روپے کر دی گئی۔

  • برطانیہ میں ’مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ‘: سروے

    برطانیہ میں ’مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ‘: سروے

    لندن: حال ہی میں کی جانے والی ایک سماجی تحقیق سے علم ہوا کہ برطانیہ میں مسلمان دوسرا سب سے کم پسند کیے جانے والا گروہ ہے، برطانوی شہری اسلام سے ناواقف لیکن اس کے بارے میں حتمی رائے رکھتے ہیں جو عموماً منفی ہوتی ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلمان ملک میں دوسرا سب سے کم پسند کیے جانے والا گروہ ہے، یہ تحقیق برطانیہ میں اسلامو فوبیا کی بڑھتی ہوئی حد کو ظاہر کرتی ہے۔

    برمنگھم یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہر چار میں سے ایک برطانوی شہری مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں منفی خیالات رکھتا ہے۔

    ایک چوتھائی سے زیادہ لوگ مسلمانوں کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہیں اور صرف 10 فیصد سے کم بہت زیادہ منفی محسوس کرتے ہیں۔

    16 سو67 لوگوں کے سروے میں برطانوی افراد نے دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام کے بارے میں زیادہ منفی خیالات کا اظہار کیا۔

    تقریباً 5 میں سے ایک برطانوی شخص جو 18.1 فیصد بنتا ہے، مسلمانوں کی برطانیہ نقل مکانی پر پابندی کی حمایت کرتے ہیں جبکہ 9.5 فیصد اس خیال کی پرزور تائید کرتے ہیں۔

    تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانوی افراد اسلام کے بارے میں بات کرنے کے لیے تو تیار رہتے ہیں لیکن انہیں مذہب کا حقیقی علم ہونے کا امکان بہت کم ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا ہے کہ برطانوی افراد زیادہ تر غیر مسیحی مذاہب کے حوالے سے اپنی لاعلمی کو تسلیم کرتے ہیں، اکثریت کا کہنا ہے کہ انہیں یقین نہیں کہ یہودیوں (50.8 فیصد) اور سکھوں (62.7 فیصد) کے مقدس کلمات کیسے پڑھائے جاتے ہیں۔

    البتہ تاہم اسلام کے بارے میں کوئی بھی بات کرنے میں لوگ پراعتماد ہوتے ہیں اور صرف 40.7 فیصد غیر یقینی کا شکار ہوتے ہیں، یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ لوگوں میں یہ غلط قیاس کرنے کا امکان بہت زیادہ ہے کہ اسلام مکمل طور پر لفظی ہے۔

    اس تحقیق کے مصنف اور ریسرچر ڈاکٹر سٹیفن جونز کا کہنا ہے کہ یہ دریافت ہونا کہ برطانوی شہری اسلام کے بارے میں جانتے کم ہیں لیکن اس پر کوئی بھی تبصرہ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، اس بات کو بتاتا ہے کہ تعصب کیسے کام کرتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اسلامو فوبیا برطانیہ میں اتنا پھیل چکا ہے کہ اب اسے سماجی طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔

  • برطانوی پولیس نے معروف ماڈل کا موبائل ضبط کرلیا

    برطانوی پولیس نے معروف ماڈل کا موبائل ضبط کرلیا

    معروف برطانوی ماڈل کیٹی پرائس کا موبائل فون پولیس حکام کی جانب سے ضبط کرلیا گیا ہے، ماڈل نے اپنے سابق شوہر کی منگیتر کو دھمکی آمیز پیغامات بھیجے ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق ماڈل کیٹی پرائس نے عدالتی احکامات کے خلاف ورزی کی ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ماڈل نے اپنے سابق شوہر کی منگیتر کو دھمکی آمیز پیغامات بھیجے ہیں جس کے لیے انہیں عدالت نے منع کیا تھا۔

    خیال رہے کہ کیٹی پرائس پہلے بھی ایسا کرچکی ہیں جس کے بعد ان کے سابق شوہر کیئر ہیلن کی منگیتر نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔

    عدالت نے ماڈل کو وارن کیا تھا کہ آئندہ وہ ایسی کوئی حرکت نہ کریں اور مشعل سے دور رہیں لیکن ماڈل اپنی حرکت سے باز نہ آئیں جس کے بعد پولیس نے ان کا موبائل ضبط کرلیا۔

    پولیس کے مطابق ماڈل کا موبائل ضبط کرنے پر وہ بری طرح رونے لگیں، فون ان کے خلاف ثبوت کے طور پر عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

    ماڈل کی ذہنی کیفیت پر جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق انہیں ذہنی سکون کی ضرورت ہے جس کے لیے انہیں ری ہیب سینٹر جانے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔

  • برطانیہ کی روس کو دھمکی

    برطانیہ کی روس کو دھمکی

    لندن: برطانیہ نے ایک بار پھر روس کو دھمکی دی ہے کہ یوکرین میں روس نواز حکومت آئی تو اس پر پابندیاں عائد کر دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے نائب وزیر اعظم اور سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے انصاف ڈومینک راب نے اتوار کو کہا ہے کہ برطانیہ کی حکومت ماسکو کے خلاف سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہے۔

    ڈومینک راب کا کہنا تھا کہ روس نے اگر یوکرین پر حملہ کرنے یا روس نواز سیاست دانوں کو اقتدار میں لانے کی کوشش کی تو برطانیہ اس پر معاشی پابندیاں عائد کر دے گا۔

    واضح رہے کہ یوکرین کے معاملے پر یورپ، برطانیہ اور امریکا کی جانب سے روس کو مسلسل دھمکیاں دی جا رہی ہیں، جب کہ روس نے نیٹو اور امریکا سے سرحدوں سے فوج ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس 11 دسمبر کو برطانوی وزیر خارجہ لِز ٹرَس نے کہا تھا کہ اگر روس نے یوکرین پر دوبارہ حملہ کیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، جی سیون ممالک کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ کے موقع پر برطانوی وزیر خارجہ نے ماسکو حکومت پر زور دیا کہ وہ یوکرین میں فوجی مداخلت سے باز رہے۔

    یوکرین تنازع: امریکا اور روس کے مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلا؟

    نیٹو کے سیکریٹری جنرل ینس اسٹولٹن برگ نے 17 دسمبر کو ایک بار پھر ماسکو کو دھمکاتے ہوئے کہا تھا کہ یوکرین پر حملے کی روس کو بھاری قمیت چکانا پڑے گی۔ برسلز میں جارجیا کے وزیر اعظم اراکلی گار بیشویلی سے بات چیت کرتے ہوئے اسٹولٹن برگ کا کہنا تھا کہ نیٹو اپنے شرکا کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔

    اسی روز ماسکو میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زخارووا نے خبردار کیا کہ نیٹو کے رکن ملکوں کی جانب سے یوکرین کو اسلحے کی فراہمی کشیدگی میں اضافے کا سبب بنے گی۔ جب کہ یورپی یونین نے روس کو یوکرین کے خلاف جارحیت پر سنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ روس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی تیاریاں کر لی گئی ہیں۔

    یوکرین پر کشیدگی میں واضح اضافے کے بعد امریکا نے منگل 19 جنوری کو خبردار کیا کہ روس کسی بھی وقت یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے، وہائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے نیوز کانفرنس میں کہا ’ہم اب ایسے مرحلے پر ہیں جس میں روس کسی بھی وقت یوکرائن پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔‘

  • جنسی اسکینڈل: برطانوی شہزادے نے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ڈیلیٹ کر دیے

    جنسی اسکینڈل: برطانوی شہزادے نے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ڈیلیٹ کر دیے

    لندن: برطانوی پرنس اینڈریو نے شاہی اعزازات سے محروم ہونے کے 6 دن بعد سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو ڈیلیٹ اور محدود کر دیا۔

    بکنگھم پیلس نے ایک ہفتہ قبل کہا تھا کہ ڈیوک آف یارک 61 سالہ پرنس اینڈریو سے ان کے فوجی اعزازات اور شاہی سرپرستی لے کر ملکہ کو واپس کر دی گئی ہے۔

    پرنس اینڈریو پر ورجینیا جوفرے نامی خاتون نے بچوں کے جنسی استحصال کا الزام لگایا ہے، انھوں نے الزام لگایا کہ انھیں ایک امریکی فنانسر اور سزا یافتہ جنسی مجرم جیفری ایپسٹین نے کم عمری میں اسمگل کیا تھا۔

    تاہم شہزادہ اینڈریو امریکی شہری جوفرے کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی مسلسل تردید کرتے آ رہے ہیں، ڈیوک کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ نیویارک میں ورجینیا جوفرے کے لائے گئے مقدمے کے خلاف اپنا دفاع جاری رکھیں گے۔

    اب جب کہ برطانوی شہزادے کو بچوں کے جنسی استحصال کے مقدمے کا سامنا ہے، نہ صرف ان سے شاہی اعزازات واپس لے لیے گئے ہیں، بلکہ وہ سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی کو بھی مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    صارفین نے جب ان کے ٹوئٹر پیج پر جانا چاہا تو معلوم ہوا کہ وہ اپنا اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر چکے ہیں، اور انسٹاگرام پیج میں بھی تبدیلیاں کر کے اسے پرائیویٹ کر چکے ہیں، جب کہ فیس بک پیج لائیو تو ہے لیکن غیر فعال پڑا ہوا ہے، اس پر آخری پوسٹ جنوری 2020 میں کی گئی تھی۔

    اینڈریو کے قریبی ذرائع نے آج ڈیلی میل آن لائن کو بتایا کہ ان کے تمام سوشل میڈیا چینلز اب ہٹا دیے گئے ہیں اور اب لائیو نہیں ہیں، لیکن ان میں سے کچھ کو فلٹر ہونے میں زیادہ وقت لگ رہا ہے، نیز یہ تبدیلیاں ڈیوک آف یارک کے حوالے سے بکنگھم پیلس کے حالیہ بیان کی عکاسی کرنے کے لیے کی گئی ہیں۔

    پرنس اینڈریو ملکہ الزبتھ دوم اور شہزادہ فلپ کے تیسرے بچے اور دوسرے بیٹے ہیں، اور برطانوی تخت کی جانشینی کی قطار میں نویں نمبر پر ہیں۔

  • سعیدہ وارثی کا برطانیہ میں مقیم غیر ملکیوں کے حوالے سے اہم مطالبہ

    سعیدہ وارثی کا برطانیہ میں مقیم غیر ملکیوں کے حوالے سے اہم مطالبہ

    لندن: برطانوی سیاستدان سعیدہ وارثی نے برطانوی حکومت سے شہریت بل کی شق 9 کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہوم سیکریٹری کے پاس کسی کی شہریت ختم کرنے کا اختیار خطرناک ہوگا۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق برطانوی سیاستدان بیرونس سعیدہ وارثی نے برطانوی حکومت سے شہریت بل کی شق 9 کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    ہاؤس آف لارڈز میں خطاب کرتے ہوئے سعیدہ وارثی نے کہا کہ حکومت شہریت بل کی شق 9 پر نظر ثانی کر کے اسے ختم کرے، ہوم سیکریٹری کے پاس کسی کی شہریت ختم کرنے کا اختیار خطرناک ہوگا۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ برطانوی ہوم سیکریٹری پریتی پٹیل نے نیشنلٹی اینڈ بارڈر بل میں ایک نئی شق شامل کی تھی جس کے بعد حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی کو بتائے بغیر اس کی برطانوی شہریت ختم کر سکتی ہے۔

    نئی شق کے مطابق حکومت کسی ایسے شخص کو نوٹس دینے سے بھی مستثنیٰ ہوگی جس کی شہریت ختم کرنا مقصود ہوگی، مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق بظاہر اس بل کو لانے کی وجہ قومی اور عوامی مفاد بتائی گئی۔

  • برطانیہ: بچوں کے لیے فائزر ویکسین کی ایک تہائی ڈوز

    برطانیہ: بچوں کے لیے فائزر ویکسین کی ایک تہائی ڈوز

    لندن: برطانیہ میں بچوں کو فائزربائیو این ٹیک کی تیار کردہ کرونا ویکسین کی کم مقدار کی خصوصی ڈوز لگائی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں اومیکرون کے تیزی سے پھیلاؤ کے پیش نظر ویکسین ایڈوائزرز نے چھوٹے بچوں کے لیے ویکسینیشن کی نئی سفارشات مرتب کر لی ہیں، جنھیں منظور کر لیا گیا ہے۔

    سفارشات کے مطابق برطانیہ میں صحت کے خطرے سے دوچار بچوں کو کم ڈوز یعنی کرونا ویکسین کی ایک تہائی ڈوز لگانے کی سفارش کی گئی ہے۔

    خطرے سے دوچار پانچ سے 11 سال کے بچوں کو فائزر ویکسین بالغوں کے لیے استعمال ہونے والی ڈوز کے ایک تہائی (10 مائیکروگرام) مقدار پر دی جائے گی، یہ سفارش آٹھ ہفتوں کے وقفے پر دی جانے والی دو ڈوز کے پرائمری کورس کے لیے ہے۔

    حکام کی جانب سے بوسٹر پروگرام کی توسیع کی بھی سفارش منظور کی گئی ہے، جس میں مکمل 30 مائیکروگرام فائزر/بائیو این ٹیک بوسٹر اب تین مخصوص گروپس کے لیے مجوزہ ہیں: 16 سے 17 سال کی عمر کے افراد؛ 12 سے 15 سال کی عمر کے بچے جو طبی رسک گروپ میں ہیں، یا جو کسی ایسے شخص کے ساتھ گھر میں رہتے ہیں جس کی قوت مدافعت کمزور ہو؛ اور 12 سے 15 سال کی عمر کے بچے جن کا مدافعتی نظام کمزور ہے اور انھیں پہلے ہی ویکسین کی تیسری بنیادی ڈوز مل چکی ہے، جب کہ بوسٹر ڈوز کو ان کے پرائمری کورس کے آخری شاٹ کے تین ماہ سے پہلے نہیں دیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا ایڈوائزری پینل بھی کرونا ویکسین بوسٹر شاٹ لگوانے کی سفارش کر چکا ہے، ڈبلیو ایچ او کے ایڈوائزری پینل کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ خصوصی طور پر بڑی عمر کےافراد میں ویکسین کی افادیت کم ہورہی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق کمزور قوت مدافعت رکھنے والوں کو بوسٹرشاٹ لگوانا چاہیے۔

  • برطانوی ہاؤس آف کامنز نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم پر وضاحت طلب کرلی

    برطانوی ہاؤس آف کامنز نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم پر وضاحت طلب کرلی

    لندن: برطانوی ہاؤس آف کامنز نے بھارتی ہائی کمیشن لندن کو خط لکھ کر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم پر وضاحت طلب کرلی، خط میں کہا گیا کہ 2 سال میں ڈھائی ہزار بے گناہ کشمیریوں کو حراست میں لیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا پردہ چاک کرتے ہوئے بھارتی ہائی کمیشن لندن کو خط لکھ دیا۔ خط برطانوی درالعوام کے 28 ارکین کی جانب سے لکھا گیا ہے۔

    برطانوی درالعوام نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سماجی کارکن خرم پرویز کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا ہے۔

    خط میں کہا گیا کہ خرم پرویز کی گرفتاری کا معاملہ اقوام متحدہ میں بھی اٹھایا گیا ہے، خرم پرویز کی گرفتاری کی وجوہات بتائی جائیں اور معاملے کی شفاف انداز میں تحقیقات کی جائیں۔

    برطانوی درالعوام کا کہنا تھا کہ خرم پرویز دہشت گرد نہیں بلکہ انسانی حقوق کا دفاع کرنے والا ہے۔

    خط میں کہا گیا کہ 2 سال میں ڈھائی ہزار بے گناہ افراد کو حراست میں لیا گیا، مقبوضہ کشمیر میں جعلی مقابلوں کی تشویش ناک اطلاعات ہیں۔ بے گناہ کشمیریوں کو مبینہ دہشت گرد بنا کر مار دیا جاتا ہے جبکہ مرنے والے تمام عام شہری ہوتے ہیں۔

    برطانوی درالعوام نے اپنے خط میں مذکورہ تمام واقعات پر بھارتی ہائی کمیشن سے وضاحت بھی طلب کرلی۔

  • برطانیہ: کرونا اقدامات نے بغاوت کھڑی کر دی

    برطانیہ: کرونا اقدامات نے بغاوت کھڑی کر دی

    لندن: کرونا اقدامات نے برطانوی پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کے سامنے بغاوت کھڑی کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کو کرونا اقدامات پر پارلیمنٹ میں اپنی ہی پارٹی کے اندر بغاوت کا سامنا ہے۔

    خبر رساں ایجنسی روئٹرز کا کہنا ہے کہ بورس جانسن کو منگل کے روز پارلیمانی ووٹنگ میں اپنے کنزرویٹو قانون سازوں کے درمیان ایک بڑی بغاوت کا سامنا ہے، یہ ووٹنگ کرونا وائرس کے نئے ویرینٹ اومیکرون کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نئی پابندیوں کی منظوری کے لیے کی جا رہی ہے۔

    مذکورہ اقدامات میں ورک فرام ہوم، عوامی مقامات پر ماسک پہننے اور کچھ مقامات پر داخل ہونے کے لیے کرونا پاس استعمال کرنا شامل ہیں، ان اقدامات کی پارلیمنٹ سے منظوری متوقع ہے لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کو ووٹوں کے لیے اپوزیشن یعنی لیبر پارٹی پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔

    یہ برطانوی وزیر اعظم کے لیے ایک اور دھچکا ہے جو پہلے ہی کئی معاملات میں شدید دباؤ کا شکار ہیں، جن میں ڈاؤننگ اسٹریٹ کے دفتر میں (گزشتہ برس) مبینہ پارٹیوں کا انعقاد، جب کہ اس وقت اس طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد تھی، اپنے اپارٹمنٹ کی مہنگی تزئین و آرائش اور افغانستان سے افراتفری میں انخلا جیسے معاملات شامل ہیں۔

    برطانیہ میں ’نفسیاتی مریض‘ نے پولیس کی دوڑیں لگوادیں

    بورس جانسن کے بہت سے قانون سازوں کا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں سفاکانہ ہیں، نائٹ کلبز جیسے کچھ مقامات پر داخلے کے لیے ویکسینیشن سرٹیفکیٹس متعارف کرائے جا رہے ہیں جنھیں کووِڈ پاسپورٹ کہا گیا، متعدد قانون ساز اس پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

    جب کہ دوسرے قانون ساز بورس جانسن پر اپنا غصہ نکالنے کے لیے ووٹوں کو ایک موقع کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ شخص جس نے کنزرویٹو پارٹی کو 2019 کے انتخابات میں بڑی اکثریت حاصل کرنے میں مدد دلائی تھی، اب وہی اپنی خود ساختہ غلطیوں اور غلط فہمیوں سے پارٹی کی کامیابیوں کو ضائع کر رہا ہے۔

    تاہم عدم اطمینان کی بڑبڑاہٹ کے باوجود، کنزرویٹو پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ جانسن کے خلاف ابھی تک ایسی کافی بنیاد میسر نہیں ہے کہ وہ انھیں ہٹا سکیں، اور ایسا کوئی ممکنہ چیلنجر جو ان کی جگہ لینے کے لیے درکار حمایت حمایت حاصل کر سکے، بھی موجود نہیں ہے۔