Tag: برطانیہ

  • ایسا کپڑا جسے دھونے کی ضرورت نہیں

    ایسا کپڑا جسے دھونے کی ضرورت نہیں

    لندن: برطانیہ میں ماہرین نے ایسا کپڑا تیار کیا ہے جسے دھونے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور یہ سورج کی روشنی میں خود بخود صاف ہوجائے گا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانوی کارڈف یونیورسٹی میں کیمسٹری کے شعبے کی تحقیقی ٹیم ایک نئے قسم کے کپڑے کی ایجاد میں کامیاب ہوئی ہے جسے سورج کی روشنی کے سامنے کرنے پر 99 فیصد بیکٹیریا ختم ہو جاتے ہیں۔

    سورج کی روشنی کپڑے سے داغ اور بدبو کو دور کر دیتی ہے، جس کے بعد آپ انہیں چند منٹ میں دوبارہ استعمال کر سکتے ہیں۔

    یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق ماہرین نے حفظان صحت کے مقاصد کے لیے کپڑا تیار کیا ہے جو غیر زہریلی دھاتوں کے ساتھ مل کر سورج کی توانائی بیکٹیریاز کو مارنے، داغوں اور بدبو دور کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

    محقق جینیفر ایڈورڈز نے وضاحت کی کہ اس کپڑے کو پہلے پانی سے دھویا جاتا ہے اور پھر بیکٹیریاز کو مارنے کا عمل شروع کرنے کے لیے دھوپ میں خشک کرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس منفرد کپڑے کو دوبارہ استعمال کے قابل سینیٹری پیڈز میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

    تحقیقاتی ٹیم نے انکشاف کیا کہ سب سے اہم چیز اینٹی بیکٹیریل سرگرمی ہے اور یہ صرف روشنی کے تحت ہوتی ہے اور اندھیرے میں غیرمؤثر ہوتی ہے۔

    ماہرین نے بل اور میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن سے مالی اعانت حاصل کی ہے۔ ماہرین اپنی اس ایجاد کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوششوں کو تیز کر رہے ہیں اور اگلے 12 ماہ کے اندر ایک ایسی پروڈکٹ تیار کر رہے ہیں جو مہلک انفیکشن کے امکان کو کم کرنے میں کارآمد ہو۔

  • برطانیہ: کرونا کے علاج کے لیے اینٹی باڈی کاکٹیل منظور

    برطانیہ: کرونا کے علاج کے لیے اینٹی باڈی کاکٹیل منظور

    لندن: برطانیہ نے کرونا انفیکشن کے علاج کے لیے اینٹی باڈی کاکٹیل استعمال کرنے کی منظوری دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی صحت حکام نے جمعے کو کرونا انفیکشن کو روکنے اور اس کا علاج کرنے کے لیے ایک اینٹی باڈی کاکٹیل کی منظوری دی ہے، جسے ریجینرون اور روش نے تیار کیا ہے، جلد ہی مریضوں پر اس کا استعمال شروع کر دیا جائے گا۔

    ہیلتھ ریگولیٹری ایجنسی (MHRA) کا کہنا تھا کہ روناپریو (Ronapreve) دوا کرونا انفیکشن سے بچاؤ میں مدد کر سکتی ہے، شدید کووِڈ 19 علامات کو ختم کر سکتی ہے، اور اسپتال داخل ہونے کے امکانات کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے۔

    برطانوی وزیر صحت ساجد جاوید نے ایک بیان میں کہا کہ یہ کاکٹیل علاج کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے ہمارے ‘ہتھیاروں’ میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوگا۔

    جاپان: کرونا مریضوں کے اینٹی باڈی کاکٹیل سے علاج میں پیش رفت

    حکام کے مطابق روناپریو دوا انجیکشن یا ڈرپ کے ذریعے دی جا سکتی ہے، یہ دوا سانس کے نظام کے اندر کرونا وائرس سے بچاؤ کرتی ہے، اسے نظام تنفس کے خلیات تک رسائی سے روکتی ہے۔

    روناپریو کا تعلق ادویہ کی اس کلاس سے ہے، جسے مونوکلونل (monoclonal) اینٹی باڈیز کہا جاتا ہے، جو انفیکشن سے لڑنے والی قدرتی اینٹی باڈیز کی نقل کرتی ہیں، حکام نے واضح کیا ہے کہ یہ دوا ویکسینیشن کے متبادل کے طور پر ہرگز استعمال نہیں کی جائے گی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ جاپان پہلا ملک تھا جس نے روناپریو دوا کی کرونا انفیکشن کے علاج کے لیے منظور کیا تھا۔

  • شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈیانا کی شادی کے کیک کا ٹکڑا لاکھوں روپے میں نیلام

    شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈیانا کی شادی کے کیک کا ٹکڑا لاکھوں روپے میں نیلام

    لندن: برطانیہ کی آنجہانی شہزادی لیڈی ڈیانا اور ولی عہد شہزادہ چارلس کی شادی کے کیک کے ایک ٹکڑے کی 4 لاکھ روپے میں نیلامی ہوئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں آنجہانی لیڈی ڈیانا اور ولی عہد شہزادہ چارلس کی شادی کے کیک کے ایک ٹکڑے کی تقریباً 4 لاکھ روپے میں نیلامی ہوئی ہے تاہم خبردار کیا گیا ہے کہ اسے کھانا منع ہے۔

    بدھ کو ہونے والی اس نیلامی میں توقع کی جا رہی تھی کہ یہ 40 برس پرانا کیک 3 سے 5 سو ڈالر میں فروخت ہوگا، لیکن اس کے برعکس یہ 25 سو 58 ڈالرز میں نیلام ہوا۔

    انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہم حیران ہیں اس کیک کی نیلامی میں لوگوں کی بڑی تعداد حصہ لینا چاہتی تھی۔ برطانیہ، امریکا اور مشرقی وسطیٰ کے ممالک سے بہت سے لوگوں نے اس نیلامی کے بارے میں پوچھا۔

    انتظامیہ کے مطابق نیلامی جیتنے والے شخص کا تعلق برطانیہ کے شہر لیڈز سے ہے۔

    یہ کیک سب سے پہلے ملکہ ایلزبتھ دوئم کی والدہ کے لیے کام کرنے والی مویرا سمتھ کو دیا گیا تھا، لیکن ان کی وفات کے بعد 2008 میں ان کے خاندان نے اسے ایک ہزار پاؤنڈز میں فروخت کر دیا تھا۔

    اس کیک کو خریدنے والے نے اب اسے منافعے میں بیچا ہے۔

    یاد رہے کہ سنہ 1996 میں شہزادہ چارلس اور شہزادی ڈیانا کی علیحدگی کے بعد کیک کے ٹکڑے کئی بار فروخت ہوئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ اب بھی لیڈی ڈیانا میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

    شہزادی ڈیانا سنہ 1997 میں پیرس میں 36 برس کی عمر میں ایک کار حادثے میں اپنے مداحوں کو سوگوار چھوڑ گئی تھیں۔

  • شہزادہ ہیری کی حمایت کیوں کی؟ برطانوی شہزادی مشکل میں پڑ گئیں

    شہزادہ ہیری کی حمایت کیوں کی؟ برطانوی شہزادی مشکل میں پڑ گئیں

    لندن: پرنس ہیری کی حمایت نے برطانوی شہزادی یوجین کو مشکل میں ڈال دیا ہے، اور انھیں تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈچز آف سسیکس اور پرنس ہیری کی اہلیہ میگھن مارکل کی چالیسویں سال گرہ پر شہزادی یوجین نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر خصوصی اسٹوری شیئر کی، جس میں انھوں نے شاہی خاندان چھوڑنے والے جوڑے کی علی الاعلان حمایت کی۔

    بدھ کے روز شہزادی یوجین نے میگھن کے آرک ویل مانیٹرنگ پروگرام میں رضاکارانہ طور پر حصہ لینے کا بھی اعلان کیا، اور میگھن کے لیے اپنی حمایت پر زور دیا، یہ پروگرام ان خواتین کے لیے ہے جو وبائی امراض کے بعد ملازمتوں میں واپس آنا چاہتی ہیں۔

    اور اب برطانوی شاہی خاندان سے علیحدگی اختیار کرنے والے شہزادہ ہیری کی کزن شہزادی یوجین کو ہیری کی اس حمایت کرنے پر تنقید کا سامنا ہے، بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق شہزادی یوجین کی جانب سے ہیری کو دی جانے والی عوامی حمایت برطانوی شاہی خاندان کے لیے مزید مشکلات کھڑی کرے گی۔

    شاہی مبصر ڈینیلا ایلسر کا دعویٰ ہے کہ شہزادی یوجین کی عوامی حمایت سسیکس رائلز کے لیے گیم چینجر بن سکتی ہے، یوجین، جو کہ برطانیہ شاہی خاندان کے مقبول افراد میں سے ایک ہیں، واضح طور پرمحل کے معاملات کو متاثر کر سکتی ہیں۔

    انھو ں نے یہ بھی کہا کہ مختلف شاہی افراد نے گزشتہ ہفتے ڈچز آف سسیکس کی 40 ویں سالگرہ کے موقع پر سوشل میڈیا پر آفیشل پوسٹیں شیئر کیں، لیکن صرف یوجین واحد شاہی شخصیت تھیں جنھوں نے انسٹاگرام پر میگھن مارکل کی 40×40 مہم کی تعریف کی اور ان کی درخواست پر ان کے نئے اقدام کا حصہ بنیں۔

    شاہی مبصر کہا اگر یوجنین نے ہیری کی سوانح حیات لکھنےمیں مدد کرنے کا فیصلہ کیا، تو یہ سسیکس کے لیے ایک مکمل گیم چینجر ہوگا اور شاہی محل کے لیے بہت بڑی مشکل کا سبب بنے گا۔

  • برٹش میوزیم: زبردستی چھینے گئے نوادرات سے سجا دنیا کا سب سے بڑا میوزیم

    برٹش میوزیم: زبردستی چھینے گئے نوادرات سے سجا دنیا کا سب سے بڑا میوزیم

    لندن: برطانیہ کا برٹش میوزیم جسے تاریخ کے موضوع پر دنیا کا سب سے بڑا میوزیم مانا جاتا ہے، اپنے پاس بے شمار ایسے نوادرات رکھتا ہے جو دیگر ممالک سے چھینے گئے ہیں۔

    مشہورِ زمانہ برٹش میوزیم عالمی تاریخ کے موضوع پر دنیا کا سب سے بڑا عجائب گھر ہے، ہر سال لاکھوں افراد اس میں موجود 80 لاکھ سے زائد ثقافتی و تاریخی نوادرات اور فن پارے دیکھنے کے لیے آتے ہیں جو انسان کی 20 لاکھ سال کی تاریخ کا احاطہ کرتے ہیں۔

    اس عجائب گھر کے قابل دید نوادرات میں موجود آدھی چیزیں ایسی ہیں، جن کی ملکیت پر اس وقت تنازعہ ہے۔ ایک طرف برٹش میوزیم ان نوادرات کی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے تو دوسری جانب ایسی مہمات بھی شروع ہوئی ہیں جن میں یہ آثار واپس اصل ممالک کو دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

    اب واضح طور پر دو دھڑے موجود ہیں، ایک وہ جو عجائب گھروں کی متنازعہ چیزوں کو اصل ممالک کو واپس کرنے کے حامی ہیں اور دوسری جانب وہ حلقہ ہے جو سمجھتا ہے کہ مغرب کے عجائب گھروں میں یہ تاریخی نوادر زیادہ محفوظ ہیں۔

    لیکن یہ ساری چیزیں آخر برطانیہ پہنچیں کیسے؟ اس کے لیے ہمیں 17 ویں صدی میں جانا پڑے گا جب برطانیہ نے دنیا کے مختلف علاقوں پر اپنے پنجے گاڑنا شروع کر دیے تھے۔ پھر اس نے کئی بر اعظموں پر قبضے کیے اور بالآخر تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت بنا ڈالی جو دنیا کے تقریباً ایک چوتھائی رقبے پر پھیلی ہوئی تھی۔

    صدیوں تک ان نو آبادیاتی مقبوضات کا استحصال کیا گیا، جنوبی افریقہ سے لے کر ہندوستان اور آسٹریلیا سے لے کر نائیجیریا تک نہ صرف وہاں کے وسائل اور دولت کو لوٹا گیا بلکہ ثقافتی نوادرات اور آثار قدیمہ کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اس لوٹ مار سے حاصل کیے گئے بیشتر مال کا ٹھکانہ برٹش میوزیم بنا جسے 1753 میں تعمیر کیا گیا تھا اور پھر یہ پھیلتا ہی چلا گیا۔

    آج اس عجائب گھر میں ایسے نوادرات بھی ہیں جو قانونی طریقے سے حاصل کیے گئے ہیں اور کئی ایسے ہیں جن کی ملکیت پر شبہات ہیں، یہاں تک کہ عجائب گھر میں داخل ہوتے ہی آپ کی نظر جس پہلی چیز پر پڑے گی، وہ بھی دراصل چوری ہی کی ہے۔

    روزیتا کی لوح جسے برطانیہ نے مصر میں موجود فرانس کی قابض افواج سے چھینا تھا۔ اس کے علاوہ پارتھینن کے کچھ حصے جو دراصل ایک برطانوی لارڈ نے ایتھنز میں موجود قلعے سے نکالے تھے اور بعد میں برٹش میوزیم کو دیے یا پھر سب سے متنازع افریقہ کے بنین برونز۔

    ہاتھی دانت پر کندہ کاری سے لے کر کانسی سے بنے مجسموں تک، یہ کئی اقسام کی نوادرات دراصل بنین کی سلطنت سے لوٹی گئی تھیں، جو آج کل نائیجیریا کا حصہ ہے۔ یہ فن پارے 16 ویں صدی میں اس سلطنت میں بنائے گئے تھے جن میں سے بیشتر آراستہ دیواروں کا حصہ تھے جنہیں مذہبی رسومات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن دراصل ان میں اس خطے کی پوری تاریخ موجود تھی۔

    یہ ہزاروں فن پارے سنہ 1897 میں چوری ہونا شروع ہوئے جب یورپ کی نوآبادیاتی طاقتیں افریقہ پر قبضہ کر چکی تھی۔ یہ اتنی منظم لوٹ مار تھی کہ انہوں نے اس براعظم کو باہم تقسیم کر لیا تھا تاکہ سب اس کا مالی استحصال کریں اور فائدہ اٹھائیں۔

    جو علاقے برطانیہ کے حصے میں آئے، بنین بھی انہی میں سے ایک تھا لیکن یہاں کی ریاست نے برطانیہ کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا۔

    سنہ 1897 میں انہوں نے برطانیہ کے سات اہلکاروں اور ان کے رہنماؤں کو قتل کیا جس کا بہانہ بناتے ہوئے برطانیہ اپنی افواج لے کر بنین پر چڑھ دوڑا۔ بظاہر وہ بدلہ لینا چاہتے تھے لیکن ان کا اصل مقصد کچھ اور تھا۔

    افریقی تاریخ کے ماہرین کے مطابق برطانیہ کو علم تھا کہ بنین کے شاہی محلات میں اتنے نوادرات موجود ہیں کہ انہیں فروخت کر کے وہ اس پوری مہم کے اخراجات نکال سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سوچ سمجھ کر اس علاقے کو لوٹنے کا منصوبہ بنایا۔ بنین پر حملہ کر کے اسے جلا کر راکھ کر دیا گیا، لیکن اس سے پہلے ہزاروں کی تعداد میں نوادرات نکال لی گئیں، ان کی درجہ بندی کی گئیں، انہیں نشان زد کیا گیا، ان کی تصویریں لی گئیں اور پھر برطانیہ بھیج دیا گیا۔ جہاں سے پھر انہیں دنیا کے مختلف ممالک میں بیچا بھی گیا اور بہت سے نوادرات برٹش میوزیم کے حصے میں آئے۔

    نائیجیریا کو سہ 1960 میں جا کر آزادی ملی اور بنین کا شہر بھی اسی ملک میں آیا۔ یہاں سے لوٹے گئے نوادرات آج مغرب کے مختلف ممالک میں ہیں، مثلاً جرمنی کے لائپزگ میوزیم آف ایتھنولوجی، پیرس کے کوا برانلی میوزیم میں اور برٹش میوزیم میں بھی۔

    مارچ 2000 میں بنین کے شاہی خاندان نے غیر قانونی طور پر لوٹے گئے تمام ثقافتی نوادرات کی واپسی کا باضابطہ مطالبہ کیا، لیکن برٹش میوزیم ایسی کسی بھی درخواست کو خاطر میں نہیں لایا، کیونکہ برٹش میوزیم ایکٹ 1963 کے تحت وہ نوادرات واپس کر ہی نہیں سکتا۔

    برٹش میوزیم کی ڈھٹائی اپنی جگہ لیکن کچھ لوگوں کو شرم ضرور آئی۔ مثلاً 1897 کی بنین مہم میں شامل ایک برطانوی فوجی کی اولاد نے 2014 میں دو نوادرات بنین کے شاہی خاندان کو واپس کیں۔

    نائیجیریا کی حکومت نے برطانیہ کےعلاوہ دیگر مغربی ممالک سے بھی اس حوالے سے بات چیت کی، لیکن کوئی ملک راضی نہیں ہوا، سوائے جرمنی کے۔ جرمنی نے سالہا سال کے دباؤ کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ سینکڑوں بیش قیمت نوادرات اور فن پارے نائیجیریا کو واپس کرے گا اور یہ عمل جلد ہی شروع ہونے کا امکان ہے۔

    یہ داستان تو افریقہ کے محض ایک علاقے کی ہے، نہ صرف باقی بر اعظم بلکہ اس سے باہر، جہاں جہاں برطانیہ اور اس جیسی نوآبادیاتی طاقتوں کے قدم گئے، وہاں کے آثار اس عجائب گھر میں موجود ہیں۔

    ہندو دیوتا شیو کے خوبصورت مجسمے سے لے کر ٹیپو سلطان کی تلوار تک، ہندوستانی تاریخ کے کئی آثار اس وقت لندن میں پڑے ہیں جن کی واپسی کا مطالبہ محض اس لیے ضروری نہیں کہ یہ نوادرات ہیں، بلکہ یہ عمل ثقافتی اور تاریخی شناخت چھیننے کے مترادف ہے۔

  • برطانیہ سے پاکستان کو ریڈ لسٹ سے نکالے جانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا

    برطانیہ سے پاکستان کو ریڈ لسٹ سے نکالے جانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا

    اسلام آباد : برطانیہ سے پاکستان کو ریڈ لسٹ سے نکالے جانےکا مطالبہ زور پکڑنے لگا ، اب تک آن لائن پٹیشن پر 58 ہزار سے زیادہ افراد دستخط کرچکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ سے پاکستان کو ریڈ لسٹ سے نکالے جانےکا مطالبہ زور پکڑنے لگا، برطانیہ میں پاکستان کوریڈ لسٹ سے نکالنے کیلئےآن لائن پٹیشن پر دستخط جاری ہے ، تاحال آن لائن پٹیشن پر 58 ہزار سے زیادہ افراد دستخط کرچکے ہیں۔

    ایک لاکھ دستخط پر پاکستان کوریڈلسٹ سے نکالنے کامعاملہ پارلیمنٹ میں زیربحث آئےگا، آن لائن پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ہزاروں افراد پاکستان میں پھنسے ہیں ،مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے متعدد خاندان برطانیہ نہیں جا سکتے ، پاکستان سےبرطانیہ کےلیےبراہ راست پروزایں نہیں چلائی جارہی۔

    پٹیشن میں مطالبہ کیا ہے کہ برطانیہ پاکستان کو ریڈلسٹ سے نکالے ، برطانیہ نے بھارت کو ریڈلسٹ سے نکال دیا ہے۔

    خیال رہے سینٹر فیصل جاوید نے بھی پاکستان کو ریڈ لسٹ میں نکالنے کی پٹیشن کو ٹوئٹ شیئر کیا۔

    یاد رہے برطانیہ نے بھارت کو ریڈ لسٹ سے نکال دیا تاہم پاکستان کو کم کورونا شرح پر بھی ریڈ لسٹ میں برقرار رکھا ہے، نئی پالیسی کا اطلاق 8 اگست سے شروع ہوگا۔

  • ساڑھے 4 ہزار روپے کا چمچ، جس نے خریدار کو لکھ پتی بنا دیا

    ساڑھے 4 ہزار روپے کا چمچ، جس نے خریدار کو لکھ پتی بنا دیا

    لندن: برطانیہ میں اکیا کے اسٹور سے خریدے گئے 20 پاؤنڈز یعنی لگ بھگ ساڑھے 4 ہزار روپے کے قدیم چمچ نے خریدار کو لکھ پتی بنا دیا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق فرنیچر اور گھریلو سامان کی خرید و فروخت کے بڑے اسٹور اکیا سے خریدے گئے 20 پاؤنڈ کے پرانے چمچ نے خریدار کی قسمت کو چارچاند لگا دیے۔

    مذکورہ چمچ نایاب اور پرانی اشیا کی شناخت کے ایک شخص نے اکیا اسٹور میں دیکھا تھا جو تیرہویں صدی کا ہے۔

    اسٹور میں چمچ کی قیمت 20 پاؤنڈ تھی جس کو جوہر شناس گاہک نے خرید کر نمائش میں فروخت کے لیے لگا دیا، چمچ چاندی کا بنا ہوا ہے اور اس کی ابتدائی قیمت کا اندازہ 500 پاؤنڈز لگایا گیا تھا۔

    چمچ کا ہینڈل 5 انچ کا ہے اور اسے رومن طرز پر بنایا گیا ہے، چمچ کی آخری بولی 1900 پاؤنڈز بمعہ فیس لگائی گئی جو کہ قیمت خرید سے کہیں زیادہ ہے۔

    نمائش کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ چمچ کو زیر زمین دبا دیا گیا تھا اور جس نے بھی اسے اسٹور پر فروخت کے لیے رکھا اسے نایاب اشیا کی شناخت نہیں تھی۔

    منتظمین کا کہنا ہے کہ نمائش میں بھیجنے والے شخص کو بھی اس کی زیادہ شناخت نہیں تھی لیکن یہ چمچ جیسے ہی ہمارے پاس پہنچا ہم نے پہچان لیا کے یہ نایاب اور انتہائی قیمتی ہے۔

  • رات کو پارک میں چہل قدمی کے دوران خاتون کے ساتھ ہوش اڑا دینے والا واقعہ

    رات کو پارک میں چہل قدمی کے دوران خاتون کے ساتھ ہوش اڑا دینے والا واقعہ

    لندن: برطانیہ میں ایک خاتون کے ساتھ رات کے وقت پارک میں چہل قدمی کے دوران خوف ناک واقعہ پیش آیا، جس نے خاتون کے ہوش اڑا دیے۔

    تفصیلات کے مطابق لندن میں رہنے والی 43 سالہ سوسن ٹریفٹب چند دن قبل رات نو بجے نارتھ فیلڈز، ایلنگ میں واقع پارک بلونڈن میں چہل قدمی کرنے نکلیں تو پارک میں ان پر لاتعداد خون خوار چوہوں نے حملہ کر دیا۔

    یہ واقعہ 19 جولائی کو پیش آیا تھا، سوسن نے دعویٰ کیا ہے کہ چہل قدمی کے دوران جب ان کی نظر گھاس پر گھومتے بے شمار چوہوں پر گئی تو وہ اچھل پڑیں، اتنے سارے چوہے دیکھ کر وہ بری طرح خوف زدہ ہو گئیں۔

    سوسن کے مطابق وہ پارک سے نکلنے لگیں تو چوہوں نے اچانک ان پر حملہ کر دیا، جس سے ان کے ہاتھ اور پیر کترنے کی وجہ سے زخمی ہو گئے۔

    Blondin Park

    برطانوی میڈیا کی رپورت کے مطابق خاتون اتنے سارے چوہوں کو دیکھ کر خود کو بیمار محسوس کرنے لگیں، انھوں نے بتایا کہ چوہے میرے پیروں پر رینگ رہے تھے، میں انھیں پاؤں مار کر دور کر رہی تھی، لیکن اندھیرا ہونے کی وجہ سے یہ دیکھ پانا مشکل تھا کہ چوہے کہاں سے آ رہے ہیں، اور چوہے میرے پیروں کو کاٹ رہے تھے اور میرے جسم کے اوپر چڑھنے کی کوشش کررہے تھے۔

    سوسن کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس طرح کے کسی واقعے کے بارے میں سنا بھی نہیں تھا اس لیے انھیں سمجھ نہیں آیا کہ وہ کس سے مدد مانگیں، تاہم ایلنگ کونسل کے ترجمان نے کہا ہے کہ پارکوں وغیرہ میں گندگی اور بچے ہوئے کھانے کو جانوروں کے لیے چھوڑ دینے کی وجہ سے عام طور پر چوہے پارک میں آتے ہیں۔

  • برطانیہ کا کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کا اعلان

    برطانیہ کا کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کا اعلان

    لندن: برطانیہ نے کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کا اعلان کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق غیر ملکی کرپٹ عناصر کے خلاف اعلان کے ساتھ برطانوی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اب کرپشن کا پیسہ برطانیہ لانے والوں کو ہدف بنایا جائے گا۔

    ڈاکٹر شہباز گل نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ پہلے مرحلے میں پانچ ایسے افراد کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے، کرپشن غریب ممالک کے عوام کو مزید افلاس میں دھکیل دیتی ہے، یہ کرپشن غریب ملکوں میں جمہوریت کے لیے زہر ہے۔

    حکومت پاکستان نے بھی برطانوی حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، وزیر مملکت فرخ حبیب نے کہا کہ نواز شریف کو پاکستان کی عدالتوں نے کرپشن پر سزائیں دیں، لیکن وہ سزا سے بچنے کے لیے لندن میں چھپے ہوئے ہیں۔

    شہباز گل نے کہا دیر آید درست آید، نواز شریف جیسے عناصر اپنے ممالک سے پیسہ چوری کر کے برطانیہ لے کر گئے، ایسے افراد ہی غربت اور پس ماندگی کی اصل وجہ ہیں، یہ لوگ جلد اپنے انجام کو پہنچیں گے۔

    انھوں نے کہا پاناما جیسے اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد خود برطانیہ میں عوام کا ایسے کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائی کے لیے شدید دباؤ ہے۔

  • شہزادہ ہیری کا شاہی خاندان سے متعلق ایک اور متنازعہ بیان

    شہزادہ ہیری کا شاہی خاندان سے متعلق ایک اور متنازعہ بیان

    لندن: برطانوی شہزادہ ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن مرکل شاہی خاندان سے علیحدگی کے بعد محل میں گزارے گئے اپنے تلخ تجربات کے بارے میں بتاتے رہے ہیں، اب حال ہی میں شہزادہ ہیری نے خود کو وہاں پھنسا ہوا قرار دیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانوی شہزادے ہیری نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ شاہی خاندان میں پھنس گئے تھے اور اپنی زندگی پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں تھا۔

    رپورٹ کے مطابق شہزادہ ہیری نے دنیا کے سامنے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ شاہی خاندان اور ان کے نظام سے سخت نفرت کرتے ہیں۔

    خیال رہے کہ شہزادہ ہیری اور ان کی اہلیہ اپریل 2020 میں شاہی خاندان چھوڑ کر امریکا جا بسے تھے۔ کچھ عرصہ قبل جوڑے نے امریکی ٹاک شو کی میزبان اوپرا ونفری سے انٹرویو کے دوران شاہی خاندان کی جانب سے دی جانے والی تکالیف کا انکشاف کیا تھا۔

    انٹرویو کے دوران شہزادہ ہیری نے کہا کہ میں بادشاہت میں پھنس گیا تھا۔ جب میزبان نے پوچھا کہ کیسے آپ نے محل کو چھوڑا اور کس طرح آپ بادشاہت میں پھنس گئے تھے تو ہیری نے کہا کہ شاہی خاندان کا سسٹم ہی ایسے بنا ہے۔

    ہیری نے مزید کہا کہ میرے خاندان کے باقی لوگ بھی اس سسٹم میں پھنسے ہوئے ہیں مگر وہ یہ سسٹم چھوڑ نہیں سکتے، لہٰذا مجھے ان پر بہت دکھ ہوتا ہے۔

    مذکورہ انٹرویو میں ہیری کی اہلیہ میگھن مرکل نے شاہی خاندان پر نسل پرستی کا الزام بھی عائد کیا تھا جس کے بعد شاہی محل کو وضاحت جاری کرنی پڑی تھی۔