Tag: برطانیہ

  • برطانیہ: 18 کروڑ پاؤنڈ کی غیر قانونی کرپٹو کرنسی برآمد

    برطانیہ: 18 کروڑ پاؤنڈ کی غیر قانونی کرپٹو کرنسی برآمد

    لندن: برطانوی پولیس نے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے سلسلے میں 18 کروڑ پاؤنڈ کی غیر قانونی کرپٹو کرنسی برآمد کر لی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی پولیس نے ریکارڈ 18 کروڑ پاؤنڈ کی کرپٹو کرنسی برآمد کی ہے جس کے بارے میں خدشات ہیں کہ اسے مجرمانہ سرگرمیوں میں استعمال کیا گیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے دوران یہ بڑی چوری پکڑی گئی ہے، اور اس چوری کا تعلق گزشتہ مہینے ہونے والے واقعے سے ہے۔

    میٹرو پولیٹن پولیس کا کہنا ہے کہ تقریباً ایک مہینہ قبل انھوں نے 11.4 کروڑ پاؤنڈ کی کرپٹو کرنسی برآمد کی تھی، تب سے منی لانڈرنگ کے خلاف تحقیقات پیچیدہ اور بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں، محکمے نے اس رقم اور اس سے ممکنہ طور پر جڑے جرم کا پتہ لگانے کے لیے بہت محنت کی ہے۔

    کرپٹو کرنسی برآمد ہونے کے بعد پولیس نے 24 جون کو منی لانڈرنگ کے خدشات پر ایک 39 سالہ خاتون کو گرفتار کیا تھا، جنھیں بعد میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

    نائب اسسٹنٹ کمشنر گراہم میک نلٹی کا کہنا تھا کہ جرم کی دنیا میں کیش اب بھی بادشاہ ہے، لیکن ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے بننے کے بعد ہم مجرموں کو منی لانڈرنگ کرنے کے لیے کرپٹو کرنسی کا استعمال کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

    گراہم میک نے بتایا کہ پہلے اس کے خلاف کارروائی کرنا مشکل تھا لیکن اب پولیس کو اس کے لیے خصوصی تربیت دی گئی ہے۔

  • یہ خوبصورت گھر کس جگہ تعمیر کیا گیا ہے؟ حقیقت جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    یہ خوبصورت گھر کس جگہ تعمیر کیا گیا ہے؟ حقیقت جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    برطانیہ میں ایک انوکھا ترین اور خوبصورت گھر فروخت کے لیے پیش کردیا گیا، گھر کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کبھی ریلوے اسٹیشن ہوا کرتا تھا۔

    برطانیہ میں ایک پرانا ریلوے اسٹیشن جو اب غیر فعال ہوچکا ہے، گھر میں تبدیل کردیا گیا۔ اسٹیشن کے ارد گرد کی زمین کو گارڈن قرار دے کر اسے نجی ملکیت بنا دیا گیا جو دیکھنے میں نہایت خوبصورت ہے۔

    3 بیڈرومز کا یہ گھر ساڑھے 5 لاکھ پاؤنڈز میں فروخت کے لیے پیش کیا گیا ہے۔

    اسٹیشن ہالٹ نامی یہ اسٹیشن سنہ 1885 میں تعمیر کیا گیا تھا، سنہ 1923 تک یہاں پر عملہ موجود تھا لیکن اس کے بعد یہاں سے تمام عملہ ہٹا دیا گیا اور ٹرینیں بغیر عملے کے یہاں پر رکتی رہیں۔

    40 سال بعد اس اسٹیشن کو مکمل طور پر بند کردیا گیا۔

    اس اسٹیشن کا محل وقوع نہایت شاندار ہے، سبزے سے گھرا ہوا لکڑی کا گھر جو کبھی ٹکٹ آفس ہوا کرتا تھا لوگوں کو بہت لبھا رہا ہے۔ اس کی رینوویشن بھی کی گئی ہے جس کے بعد ٹرین کا ایک خالی ڈبہ بھی یہاں کھڑا کردیا گیا ہے جبکہ تالاب بھی بنایا گیا ہے۔

    یہ گھر سڑکوں اورٹریفک کے شور سے بہت دور ہے اور یہاں تک صرف پیدل سفر کر کے ہی پہنچا جاسکتا ہے۔

  • افغانستان میں قائم وہ فوجی اڈہ جہاں آج سناٹے کا راج ہے

    افغانستان میں قائم وہ فوجی اڈہ جہاں آج سناٹے کا راج ہے

    کابل: افغانستان میں ایک ایسا فوجی اڈہ موجود ہے جہاں کبھی 600 جہاز روزانہ اترتے اور روانہ ہوتے تھے، لیکن آج یہاں دھول اڑتی ہے اور سناٹے کا راج قائم ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا نے ابھی چند روز پہلے افغانستان میں اپنا سب سے بڑا فوجی اڈہ بگرام ایئر بیس خالی کیا ہے، یوں ملک سے امریکی فوج کے انخلا کی جانب ایک اہم قدم اٹھ چکا ہے اور اندازہ ہے کہ 11 ستمبر کی ڈیڈ لائن سے کہیں پہلے امریکی اور اتحادی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی۔

    بگرام سے تقریباً 600 کلومیٹرز دور ایک ایسا فوجی اڈہ بھی تھا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی بیرونِ ملک سب سے بڑی فوجی چھاؤنی بنا اور 34 ہزار فوجیوں کے لیے بنائے گئے اس اڈے اس پر ایک ارب ڈالرز سے بھی زیادہ لاگت آئی تھی لیکن خالی ہونے کے 7 سال بعد آج یہاں کے بیشتر حصے پر ان کا نام و نشان تک باقی نہیں۔

    یہ افغان صوبہ ہلمند کے شہر لشکر گاہ کے قریب صحرا میں واقع کیمپ باسشن تھا جو 2005 سے 2014 تک افغانستان میں برطانوی فوج کا مرکز رہا۔ دور دراز ویران علاقے میں بنائے گئے اس فوجی اڈے میں تمام جدید ترین سہولیات دستیاب تھیں۔ یہ ایک پورا شہر تھا، جس کے تین نمایاں حصے تھے۔ ایک برطانوی فوجیوں کا کیمپ باسشن، دوسرا امریکا کا کیمپ لیدر نیک، جہاں برطانیہ سے بھی دو گنا زیادہ سپاہی تھے۔ جبکہ ایک افغان فوجیوں کا کیمپ خوارو تھا۔

    اس فوجی اڈے کا محض ایئرپورٹ ہی لندن کے مرکزی ایئرپورٹ گیٹ وِک کے حجم کا تھا۔ اس کے رن وے پر سی 17 گلوب ماسٹر جیسے طیارے بھی لینڈ کر سکتے تھے۔

    سنہ 2011 میں جب افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج کی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں تو اس اڈے پر روزانہ 600 ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹرز اترتے یا یہاں سے پرواز کرتے تھے۔ اس اڈے کے گرد موجود باڑھ ہی 24 کلومیٹرز کی تھی، جس کی حفاظت کا کام 36 واچ ٹاورز سے کیا جاتا تھا۔

    اڈے پر موجود برطانوی فوجیوں کے لیے خدمات انجام دینے والے 4 ہزار سے زیادہ کانٹریکٹرز بھی تھے۔ یہاں 3 ہزار سے زیادہ فوجی گاڑیاں اور ہیوی مشینری، 50 ہوائی جہاز، 1200 سے زیادہ خیمے، ایک جدید ہسپتال، ایک واٹر بوٹلنگ پلانٹ اور فاسٹ فوڈ ریستوران بھی تھا۔ اس اڈے کے لیے کھانے پینے کی تمام اشیا بیرون ملک سے آتی تھیں کیونکہ خطرہ تھا کہ مقامی ذرائع سے حاصل کردہ خوراک میں زہر نہ ملا دیا جائے۔

    اس کھانے کی فوجیوں کو فراہمی کے لیے تین بہت بڑی کینٹین بھی موجود تھے جہاں سے ایک دن 34 ہزار کھانے فراہم کیے جاتے تھے۔

    برطانیہ نے سنہ 2014 میں اس اڈے کی بندش کا فیصلہ کیا اور یہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں تھا کیونکہ اس کے مطابق تمام تر اہم نوعیت کا ساز و سامان واپس برطانیہ بھیجا جانا تھا۔ یوں اس پورے شہر کو اس طرح ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا کہ اس کا تمام تر سامان کہیں اور استعمال کیا جا سکے۔ مثلاً بوٹلنگ پلانٹ ہی کو لے لیں، جسے بند کر کے پرزوں میں تقسیم کر کے واپس برطانیہ بھیجا گیا۔ اس پلانٹ کو بنانے، چلانے اور کھول کر برطانیہ لے جانے پر 19.5 ملین پونڈز لاگت آئی۔

    لیکن سارا سامان ایسا نہیں تھا کہ جسے لے جایا جا سکتا ہو یا جسے لے جانے کا کوئی فائدہ ہو لہٰذا باقی ہر چیز کو ضائع کرنے یا اسے تلف کر کے کباڑ میں بیچنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پھر بھی جو چیزیں ایسی تھیں جو نہ لے جائی جا سکتی تھیں اور نہ کباڑ میں بیچی جا سکتی تھیں، انہیں دھماکا خیز مواد سے تباہ کر دیا گیا۔ صرف ایسے سامان کی مقدار ہی 60 ٹن تھی اور مالیت 4 لاکھ برطانوی پاؤنڈز سے زیادہ تھی۔

    برطانیہ نے 26 اکتوبر 2014 کو یہ کیمپ خالی کر کے اسے افغان فوج کے حوالے کر دیا لیکن اس سے پہلے یہاں سے ہر ممکنہ سہولت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ کیمپ کا جدید ترین اسپتال تک ختم کر دیا گیا۔

    کیمپ باسشن بنانے پر برطانیہ کے 50 ملین پونڈز خرچ ہوئے، لیکن اسے ختم کرنے اور یہاں کے سامان کو منتقل کرنے پر 300 ملین پونڈز کی لاگت آئی۔

    کیمپ باسشن کو ختم ہونے تقریباً سات سال ہونے والے ہیں اور اب اس کی محض دو یادگاریں ہی بچی ہیں، ایک رِنگ روڈ اور دوسرے واچ ٹاورز۔ اس رن وے پر جہاں روزانہ 600 جہاز اترتے اور پرواز کرتے تھے، اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں۔

    دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی سب سے بڑی جنگی مہم پر برطانیہ کی کل لاگت 37 ارب ڈالرز رہی اور اس دوران 453 برطانویوں کی جانیں گئیں۔

  • والدین نے شیرخوار کے غذائی چارٹ پر عمل کرتے ہوئے بڑی غلطی کر دی

    والدین نے شیرخوار کے غذائی چارٹ پر عمل کرتے ہوئے بڑی غلطی کر دی

    لندن: برطانیہ میں والدین نے شیر خوار بچے کے غذائی چارٹ پر عمل کرتے ہوئے ایسی غلطی کی، جس نے لوگوں کو حیران کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں والدین اپنے شیر خوار بچے کو ایسی چیز کھلاتے رہے جس نے لوگوں کو سر پکڑنے پر مجبور کر دیا، انھوں نے 7 ماہ کے بچے کو 6 ماہ تک آئس کیوب (برف کے ٹکڑے) کھلائے۔

    معلوم ہوا کہ والدین نے ایسا قصداً نہیں کیا تھا، بلکہ انھوں نے ایک ایسی غلطی کی جس نے لوگوں کو حیران کیا، انھیں یقین نہ آیا کہ کوئی ایسی غلطی بھی کر سکتا ہے۔

    یہ معاملہ تب سامنے آیا جب گزشتہ روز ایک برطانوی جوڑے نے ویب سائٹ ’ریڈٹ‘ پر دیگر لوگوں سے سوال کیا کہ ان کا بچہ سبزیاں اور پھل تو شوق سے کھا لیتا ہے لیکن ’آئس کیوب‘ کھانے میں بہت نخرے کرتا ہے۔

    دراصل ان والدین کو ایک غذائی چارٹ دیا گیا تھا، والدین کا خیال تھا کہ بچوں کے غذائی چارٹ میں پھلوں اور سبزیوں کے ساتھ آئس کیوب کھلانے کا بھی کہا گیا ہے، برطانوی اخبار دی مرر کے مطابق ویب سائٹ پر دیگر افراد نے اس جوڑے سے غذائی چارٹ کی تصویر شیئر کرنے کا مطالبہ کیا۔

    جب انھوں نے غذائی چارٹ شیئر کیا تو لوگوں نے اسے دیکھ کر سر پکڑ لیا، کیوں کہ غذائی چارٹ میں آئس کیوب کی تصاویر بچے کو دی جانے والی غذا کی مقدار کا تعین کرنے کے لیے بطور حوالہ دی گئی تھیں، یعنی آئس کیوب دوا کے سرونگ سائز کے حوالے کے طور پر تھے۔

    چارٹ میں واضح لکھا ہوا تھا کہ بچے کو ایک آئس کیوب کے سائز کے حساب سے مٹر کے دانے کھلائیں، دو آئس کیوب کے برابر گاجر کھلائیں۔

    تاہم والدین غلط فہمی میں مٹر، ڈیری مصنوعات، انڈوں، اناج اور گاجر کے ساتھ ساتھ بچے کو 6 ماہ تک تین آئس کیوب  روزانہ کھلاتے رہے۔ معلوم ہوا کہ والدین نے غذائی چارٹ کا ہدایت نامہ ایسی حالت میں پڑھا تھا جب انھیں نیند کی ضرورت تھی لیکن وہ نیند سے محروم تھے، اس وجہ سے انھوں نے اسے غلط پڑھ لیا۔

  • برطانیہ میں قومی شخصیات کے مجسموں کی حفاظت کے نئے قانون پر ناز شاہ نے اہم ترین سوال اٹھا دیا

    برطانیہ میں قومی شخصیات کے مجسموں کی حفاظت کے نئے قانون پر ناز شاہ نے اہم ترین سوال اٹھا دیا

    لندن: برطانیہ میں قومی شخصیات کے مجسموں کی حفاظت کے لیے نئے قانون پر ممبر پارلیمنٹ ناز شاہ نے اہم ترین سوال اٹھا دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی رکن پارلیمنٹ ناز شاہ نے ناموس رسالتﷺ کا معاملہ برطانوی پارلیمنٹ میں اٹھا دیا ہے، انھوں نے کہا کہ حکومت قومی شخصیات کے مجسموں کی حفاظت کے لیے قانون لا رہی ہے، مسلمانوں کے جذبات کو بھی سمجھا جائے۔

    انھوں نے پارلیمنٹ میں کہا کہ حکومت قومی شخصیات کے مجسموں کی حفاظت کے لیے بل لا رہی ہے، دلیل یہ ہے دی جا رہی ہے کہ مجسموں کو توڑنے اورگرانے سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔

    ایم پی ناز شاہ نے کہا مجسموں سے جذباتی وابستگی رکھنے والے نبیﷺ سے متعلق بھی مسلمانوں کے جذبات کو سمجھیں، حضرت عیسیٰ، حضرت محمدﷺ، حضرت موسیٰ، رام، گوتم بدھ، گرونانک سب قابل احترام ہیں، کیا پیغمبروں کے احترام سے متعلق مسلمانوں کے جذبات کا خیال اہم نہیں۔

    انھوں نے کہا مجسموں کو نقصان پہنچانے پر 10 سال قید کی سزا تجویز کی گئی ہے، مجسمے احساس نہیں رکھتے، نقصان پہنچانے پر زخمی نہیں ہوتے، فولادی اور سنگی مجسموں کے نقصان پر اتنی سخت سزا کا مقصد کیا ہے؟

    ناز شاہ کا کہنا تھا کہ ظاہر ہے کہ مجسمے قوم کی تاریخی، ثقافتی اور سماجی جذبات کی علامت ہیں، کوئی برطانوی ونسٹن چرچل کے علامتی مجسمے کو نقصان پہنچانا قبول نہیں کرے گا، لیکن ناز شاہ نے پارلیمنٹ میں سوال کیا کہ قوم کے جذبات کا معاملہ کیا صرف مجسموں کے لیے ہی اہم ہے؟

  • ویکسینیشن کروانے والوں میں کرونا وائرس کے خلاف مدافعت بڑھانے کے لیے برطانیہ کا اہم فیصلہ

    ویکسینیشن کروانے والوں میں کرونا وائرس کے خلاف مدافعت بڑھانے کے لیے برطانیہ کا اہم فیصلہ

    لندن: کرونا کے 2 ٹیکے لگوانے والوں کے لیے برطانیہ نے اہم فیصلہ کرتے ہوئے انھیں تیسری ڈوز کی فراہمی کے لیے تیاری شروع کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ویکسینیشن کروانے والوں میں کرونا وائرس کے خلاف مدافعت مزید بڑھانے کے لیے برطانیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ لوگوں کو ویکسین کا تیسرا ٹیکہ لگایا جائے گا۔

    برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے سب سے زیادہ غیر محفوظ لوگوں کو وائرس کے خلاف تحفظ بڑھانے کی غرض سے، موسمِ سرما سے قبل ستمبر سے ویکسینز کا تیسرا ٹیکہ لگانے کی پیش کش کی جائے گی۔

    این ایچ ایس کے مطابق پہلی 2 ڈوزز سے پیدا ہونے والی مدافعت کو طوالت دینے، اور وائرس کی متغیر اقسام کے خلاف دفاعی قوت کو بڑھانے کے لیے ویکسین کا اضافی ٹیکہ لگایا جائے گا۔

    یہ تیسرا ٹیکہ پہلے جن لوگوں کو لگے گا ان میں معمر افراد کی دیکھ بھال کے مراکز کے رہائشی، 70 سال یا اس سے زیادہ عمر کا ہر فرد اور فرنٹ لائن طبی کارکنان شامل ہیں۔

    اس کے بعد پچاس سال یا اس سے زیادہ عمر کے ہر فرد کو، اور 16 سے 49 سال کی عمر کے اُن لوگوں کو کی تیسرے ٹیکے کی پیش کش کی جائے گی، جو متاثر ہونے کے بعد شدید بیماری میں مبتلا ہو جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

    تاہم ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا گیا ہے کہ مذکورہ تیسری ڈوز کے لیے کون کون سی ویکسین استعمال کی جائے گی۔

    حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ تیسری ڈوز کا ٹیکہ لگوانے والوں کو انفلوئنزا کا ٹیکہ بھی لگوانا چاہیے، تشویش پائی جاتی ہے کہ کرونا وائرس سے متعلقہ پابندیوں میں نرمی کا یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ موسمِ سرما میں فُلو لوٹ آئے اور ایک اضافی مسئلہ بن جائے۔

  • جھگڑے کے بعد پڑوسی نے عجیب و غریب حرکت کر ڈالی

    جھگڑے کے بعد پڑوسی نے عجیب و غریب حرکت کر ڈالی

    شیفلڈ: پڑوسیوں میں جھگڑے ہوتے رہتے ہیں، لیکن برطانیہ میں ایک پڑوسی نے عجیب و غریب حرکت کر ڈالی، اس نے غصے میں آ کر گھر کے سامنے کھڑے چیڑ کے درخت کا اپنی گھر کی طرف کا آدھا حصہ ہی کاٹ ڈالا۔

    یہ واقعہ برطانوی کاؤنٹی ساؤتھ یارکشائر کے شہر شیفلڈ میں پیش آیا، دو پڑوسیوں میں اس بات پر جھگڑا ہوا کہ دروازے کے پاس کھڑے درخت پر کبوتر آ کر بیٹ کر جاتے ہیں جو گھر کے دروازے کے پاس گرتی ہے اور راستہ گندا ہو جاتا ہے، جھگڑے کے بعد ایک پڑوسی نے اپنی طرف کا درخت کا آدھا حصہ کاٹ دیا۔

    صفائی سے بالکل نصف کٹنے کے بعد درخت کی شکل عجیب لگنے لگی ہے، جس کے سبب اب لوگ اسے دیکھنے آنے لگے ہیں، اور درخت سیاحوں کے لیے دل چسپی کا سامان بن گیا ہے۔

    معلوم ہوا کہ چیڑ کا درخت 25 سال سے وہاں کھڑا تھا، 56 سالہ بھرت مسٹری اور اس کی فیملی یہ دیکھ کر سخت مایوسی کا شکار ہو گئی، جب اس کے پڑوسی نے اسپیشلسٹس کو بلوایا اور درخت کی نصف شاخیں کٹوا دیں۔

    ان پڑوسیوں کے درمیان ایک سال سے اس بات پر جھگڑا چل رہا تھا کہ درخت پر کبوتر آ کر شور مچاتے ہیں اور بیٹ کر جاتے ہیں، جس سے ڈرائیو وے میں گندگی پھیل جاتی ہے۔

    بھرت مسٹری نے بتایا کہ ہم پڑوسیوں نے متفقہ طور پر درخت کو گیند کی شکل میں ترشوایا تھا، لیکن حال ہی میں اس پر پرندے آنے لگے، کیوں کہ سال کے اس وقت پرندوں کا آنا متوقع ہوتا ہے، لیکن پڑوسی نے پرندوں کو وہاں بیٹھنے سے روکنے کے لیے سیاہ شاپنگ بیگز رکھنا شروع کر دیا۔

    بھرت مسٹری کے مطابق گزشتہ ہفتے پڑوسی نے اچانک ایک ٹری سرجن بلوایا اور ہمارے منع کرنے کے باوجود اس نے درخت کی اپنی طرف والی شاخیں کٹوا دیں، ہمیں سخت دکھ ہوا اس سے، ہم نے منتیں کر کر کے روکا لیکن وہ نہ مانا۔

    بھرت کا کہنا تھا کہ پڑوسی کو درخت کاٹنے کا حق تھا کہ وہ اس کی پراپرٹی پر مسئلہ پیدا کر رہا تھا لیکن 25 سال سے کھڑے درخت کو کاٹنا تکلیف دہ ہے۔

    تاہم جب اس باقی ماندہ درخت کی تصویر آن لائن پوسٹ کی گئی تو انٹرنیٹ صارفین میں یہ تیزی سے وائرل ہو گئی، اور اس کے بعد بڑی تعداد میں لوگ اس درخت کو ایک نظر دیکھنے آنے لگے ہیں۔

  • نیٹ فلکس سمیت آن لائن اسٹریمنگ سروسز کے لیے سخت ضابطہ اخلاق

    نیٹ فلکس سمیت آن لائن اسٹریمنگ سروسز کے لیے سخت ضابطہ اخلاق

    لندن: برطانیہ نے نیٹ فلکس سمیت آن لائن اسٹریمنگ سروسز کو سخت ضابطہ اخلاق کا پابند بنانے کا فیصلہ کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی حکومت نے آن لائن اسٹریمنگ پلیٹ فارمز کو سخت ضابطہ اخلاق کا پابند بنانے کی غرض سے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔

    اے ایف پی کے مطابق برطانوی حکومت کی جانب سے بدھ کو پیش کی گئی تجاویز کے تحت نیٹ فلکس، ڈزنی پلس اور ایمازون پرائم ویڈیوز پر بھی وہی قواعد و ضوابط لاگو ہوں گے، جن کے تحت بی بی سی، آئی ٹی وی اور اسکائی سمیت دیگر روایتی نشریاتی ادارے کام کرتے ہیں۔

    واضح رہے کہ برطانیہ میں نیٹ فلکس اور ایپل ٹی وی کو کسی بھی ضابطے کے تحت ریگولیٹ نہیں کیا گیا ہے، اور بی بی سی کی آئی پلیئر سروس کے علاوہ تمام آن لائن اسٹریمنگ پلیٹ فارمز کو سخت قوانین کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

    برطانوی سیکریٹری برائے ثقافت آلیور ڈاؤڈن کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی نے براڈکاسٹنگ کو تبدیل کر دیا ہے لیکن وقت آ گیا ہے کہ پبلک سروس براڈکاسٹرز کی صلاحیت کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے غور کیا جائے، صارفین کی حفاظت کو یقینی بنانے اور روایتی چینلز کو مقابلہ کرنے میں مدد فراہم کی جائے۔

    برطانیہ میں نگران ادارے ’آفس آف کمیونیکیشنز‘ کی جانب سے طے کیے گئے نشریاتی قوانین پر عمل درآمد کرنا ٹی وی چینلز کے لیے لازمی ہے، آفس آف کمیونیکیشنز نے نقصان دہ مواد اور نیوز پروگرامز میں غیر جانب داری کے حوالے سے قوانین وضع کیے ہوئے ہیں۔

    برطانیہ میں میڈیا کے حوالے سے کی جانے والی اصلاحات کا مقصد پبلک سروس براڈکاسٹرز کی آن لائن موجودگی کو مزید نمایاں کرنا بھی ہے، تاکہ اسمارٹ ٹی وی اور دیگر ڈیوائسز پر ان کے پروگرامز تک رسائی کو آسان بنایا جا سکے۔

  • برطانیہ میں ڈائناسورز کے حوالے سے اہم دریافت

    برطانیہ میں ڈائناسورز کے حوالے سے اہم دریافت

    لندن: برطانیہ میں ایک ماہر حجریات نے لاکھوں سال قبل زمین سے معدوم ہونے والے عظیم الجثہ جانور ڈائناسور کے قدموں کے نشان دریافت کر لیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جنوبی برطانیہ میں ڈائناسور کے 110 ملین سال ( 11 کروڑ سال ) قدیم قدموں کے نشان دریافت ہو گئے، ماہر حجریات کا کہنا ہے کہ یہ نشان ڈائناسور کے زمین پر چلنے سے بنے تھے، یہ نشان ہیسٹنگز میوزیم اینڈ آرٹ گیلری کے کیوریٹر اور یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ کے ایک سائنس دان نے دریافت کیے۔

    اس حوالے سے کہا گیا کہ قدموں کے نشانات 3 قسم کے ڈائناسورز کے ہیں، جن میں تھیروپوڈ، آرنیتھوپوڈ، اور اَنکلوسور شامل ہیں۔

    زمین سے ختم ہونے والے عظیم الجثہ جان دار ڈائناسور کے قدموں کے یہ نشان کینٹ میں واقع فوکس اسٹون کے ساحل کے قریب واقع علاقے اور چٹانوں میں دریافت ہوئے ہیں، جہاں طوفانی صورت حال اور ساحل کے قریب پانی نے چٹان کو متاثر کیا، جس کی وجہ سے اس پر مسلسل نئے فوسلز سامنے آ رہے ہیں۔

    پورٹس ماؤتھ کے پروفیسر ڈیوڈ مارٹل کا کہنا ہے کہ فوکس اسٹون میں ڈائناسورز کے قدموں کے نشان ملنے کا یہ پہلا موقع ہے اور یہ نہایت غیر معمولی دریافت ہے، کیوں کہ یہ ڈائناسورز زمین سے معدوم سے ہونے سے قبل آخری تھے جو اس علاقے میں پائے جاتے تھے۔

    ماہر حجریات کا خیال ہے کہ قدموں کے نقوش انکلوسورز (دکھنے میں ناہموار بکتربند جیسا ڈائناسور، جو زندہ ٹینکوں کی طرح تھے)، تھیروپوڈز (تین انگلیوں والے گوشت خور ڈائناسور)، اور آرنیتھوپوڈز (پودے کھانے والے ڈائناسورز جن کی پشت پرندوں جیسی تھی) کے ہیں۔

    زیادہ تر نشانات الگ الگ پائے گئے ہیں تاہم ان میں سے 6 قدموں کے نشان ایک جگہ ہیں۔ سب سے بڑے قدم کا نشان 80 سینٹی میٹر (31.5 انچ) چوڑا، اور 65 سینٹی میٹر (25.6 انچ) لمبا ہے۔

  • نئے برطانوی پاؤنڈ پر جنگ عظیم دوئم کے زمانے کے ریاضی دان کی تصویر

    نئے برطانوی پاؤنڈ پر جنگ عظیم دوئم کے زمانے کے ریاضی دان کی تصویر

    لندن: برطانیہ میں 50 پاؤنڈ کا نیا نوٹ جاری کردیا گیا جس پر جنگ عظیم دوئم کے زمانے کے ریاضی دان ایلن ٹیورنگ کی تصویر ہے، ایلن نے جرمنوں کا وہ خفیہ کوڈ توڑا تھا جس کے تحت جرمن فوجی پیغامات کی ترسیل کرتے تھے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق برطانیہ میں 50 پاؤنڈ کا نیا نوٹ مارکیٹ میں آگیا، نئے پلاسٹک نوٹ پر جنگ عظیم دوئم کے زمانے کے ریاضی دان اور کمپیوٹر سائنٹسٹ ایلن ٹیورنگ کی تصویر ہے۔

    حکام کے مطابق دکاندار پرانا پیپر نوٹ 30 ستمبر 2022 کے بعد قبول نہیں کریں گے، 50 پاؤنڈ کا نوٹ برطانیہ کا سب سے بڑا کرنسی نوٹ ہے۔

    ایلن ٹیورنگ کون ہے؟

    23 جون 1912 کو لندن میں پیدا ہونے والے ایلن ٹیورنگ سنہ 1938 میں اس ٹیم کا حصہ بنے جسے جنگ کے دوران جرمنوں کے کوڈنگ پیغامات سمجھنے کے لیے رکھا گیا۔

    اینگما کوڈ کے ذریعے جرمن فوجیوں کے درمیان پیغامات کی ترسیل ہوتی تھی اور اسے سمجھنے کا سہرا ایلن ٹیورنگ کے سر جاتا ہے جو لگاتار 3 سال اس پر محنت کرتے رہے۔

    برطانوی حکام کے مطابق اس کوڈ کو توڑنے کے لیے ایک غیر معمولی طور پر ذہین شخص کی ضرورت تھی اور ایلن ٹیورنگ وہی شخص تھے۔

    اس وقت لگائے گئے اندازوں کے مطابق اس ریاضی دان کی کوشش کے باعث جنگ عظیم دوئم کا دورانیہ 2 سال گھٹ گیا اور اس کی وجہ سے 1 کروڑ سے زائد افراد کی جانیں بچائی گئیں۔

    جس وقت ایلن نے اس کوڈ کو توڑا اس وقت انہیں پتہ چلا کہ جرمن ایک مسافر بحری جہاز پر حملے کا ارادہ رکھتے ہیں جس پر کئی سو افراد سوار تھے۔ اگر اس حملے کی بروقت اطلاع دی جاتی تو جرمنوں کا وار خالی جاتا اور وہ جان جاتے کہ ان کے کوڈ کو توڑ لیا گیا ہے۔

    بدقسمی سے ایلن کی ٹیم کے ایک رکن کا بھائی اس جہاز میں موجود تھا، ایلن اور ان کے ساتھیوں نے وسیع تر مفاد کی خاطر دل پر پتھر رکھ کر اس حملے کو ہونے دیا تاکہ جرمن ہوشیار نہ ہوسکیں۔

    ایلن ٹیورنگ ہم جنس پرست تھے جو اس وقت برطانیہ میں ایک جرم تھا، چنانچہ ایلن نے اپنا آخری وقت عدالتوں کے چکر کاٹتے اور بعد ازاں حکومتی نظر بندی میں گزارا۔ سنہ 1954 میں ایلن اپنے گھر میں مردہ پائے گئے، کہا جاتا ہے کہ انہوں نے خودکشی کی تھی۔

    سنہ 2013 میں ملکہ الزبتھ دوم نے ایلن ٹیورنگ کے لیے بعد از مرگ معافی کا اعلان کیا۔

    ایلن ٹیورنگ پر ہالی ووڈ فلم دی ایمی ٹیشن گیم بھی بنائی جاچکی ہے جس میں ریاضی دان کا مرکزی کردار بینڈکٹ کمبربیچ نے ادا کیا جبکہ کیرا نائٹلی نے ان کی ٹیم ممبر اور منگیتر کا کردار ادا کیا۔