Tag: برطانیہ

  • کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کا سامنا کن افراد کو رہتا ہے؟

    کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کا سامنا کن افراد کو رہتا ہے؟

    کرونا وائرس کا شکار ہونے والے افراد کو طویل عرصے تک اس کی علامات کا سامنا رہتا ہے اور حال ہی میں ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ہر 10 میں سے 3 مریض ان علامات کا سامنا کرتے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں علم ہوا کہ کووڈ سے متاثر ہر 10 میں سے ایک مریض کو 3 یا اس سے زیادہ مہینے تک کووڈ کی علامات کا سامنا ہوتا ہے اور ان میں تھکاوٹ سب سے عام ہے۔

    ایسے مریضوں کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جن میں بیماری کی علامات صحت یابی کے بعد بھی کئی ماہ تک موجود رہتی ہیں۔

    برطانیہ کے نیشنل انسٹی ٹوٹ فار ہیلتھ ریسرچ (این آئی ایچ آر) کی اس تحقیق میں متعدد تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا۔

    تحقیق میں انتباہ کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریضوں کے اعضا پر طویل المعیاد منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جن کو بیماری کے باعث ہسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا تھا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ ممکنہ طور پر 4 مختلف سنڈرومز کا مجموعہ ہوسکتا ہے، جن میں سے ہر ایک کی اپنی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ان سنڈرومز میں پوسٹ انٹینسیو کیئر سنڈروم، اعضا کو طویل المعیاد نقصان، پوسٹ وائرل سنڈروم اور ایک نیا سینڈروم شامل ہے جو دیگر سے مختلف الگ ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ لانگ کووڈ ایک متحرک بیماری ہے، ماہرین کا کہنا تھا کہ اس تجزیے سے بیماری کے مختلف پیٹرنز کو سمجھنے میں مدد ملے گی، مگر ہمیں اس کی ہر وجہ کو جاننے کی ضرورت ہے، ہمیں مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے کہ یہ علامات کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ کم از کم 10 فیصد افراد کو لانگ کووڈ کی ایک علامت کا سامنا 3 ماہ بعد بھی ہوتا ہے، مگر ڈیٹا کو اکٹھا کرنے کا عمل محدود ہونے کے باعث ہوسکتا ہے کہ یہ شرح زیادہ ہو۔

  • آن لائن ٹیکسی ڈرائیورز کے لیے بڑی خوش خبری

    آن لائن ٹیکسی ڈرائیورز کے لیے بڑی خوش خبری

    لندن: امریکی کمپنی اوبر نے 70 ہزار ڈرائیورز کو ورکرز کا درجہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے، اب ان کو پنشن بھی ملے گی۔

    تفصیلات کے مطابق اوبر نے برطانیہ میں اپنے ڈرائیورز کو باقاعدہ کارکنوں کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے انھیں کم از کم اجرت سمیت ماہانہ چھٹیاں اور پنشن جیسی مراعات بھی ملیں گی۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق اوبر کے ڈرائیورز کو یہ سہولت دنیا میں پہلی بار فراہم کی جا رہی ہے۔

    ٹیکسی ایپلیکیشن اوبر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بدھ سے اوبر کے برطانیہ میں ستر ہزار سے زیادہ ڈرائیورز کو ورکرز کا درجہ دے دیا جائے گا۔ خیال رہے کہ یہ فیصلہ برطانوی سپریم کورٹ کی اس رولنگ کے بعد کیا گیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اوبر کے ڈرائیورز کو کارکنان کے حقوق ملنے کا حق ہے، اور اس فیصلے سے برطانیہ کے ڈرائیورز اور اوبر کے درمیان قانونی جنگ چھڑ گئی تھی۔

    سروسز ایمپلائز انٹرنیشنل یونین امریکا نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے، ایک ماہ قبل امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ایک ریفرنڈم میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اوبر ڈرائیورز کو بھی ورکرز کا درجہ دیا جائے۔

    واضح رہے کہ ٹیکسی ایپلی کیشن کمپنیوں کے ڈرائیورز نے پروپوزیشن 22 کے نام سے مشہور ایک مقدمہ درج کیا تھا، جو نومبر میں منظور ہو گیا، اس میں کہا گیا تھا کہ ڈرائیور خود مختار کنٹریکٹرز ہیں، تاہم انھیں کچھ مراعات ملنی چاہیئں، جیسا کم از کم اجرت، صحت اور انشورنس کی سہولیات وغیرہ۔

  • کرونا وائرس سے موت کا خطرہ کن افراد کو زیادہ ہے؟

    کرونا وائرس سے موت کا خطرہ کن افراد کو زیادہ ہے؟

    اب تک دیکھا جاچکا ہے کہ کرونا وائرس بعض افراد کو بہت زیادہ اور بعض افراد کو بہت کم متاثر کرتا ہے، ماہرین نے اس کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ماہرین نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کن افراد میں کووڈ 19 کی شدت زیادہ اور موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    برطانیہ میں ہونے والی اس تحقیق کے مطابق سست رفتاری سے چلنے کے عادی افراد میں کووڈ 19 سے موت کا خطرہ لگ بھگ 4 گنا جبکہ سنگین حد تک بیمار ہونے کا امکان 2 گنا سے زیادہ ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں 4 لاکھ 12 ہزار سے زیادہ درمیانی عمر کے افراد کو شامل کیا گیا، ان افراد کے جسمانی وزن اور چلنے کی رفتار کا موانہ کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے اور موت کے خطرے سے کیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ تیز رفتاری سے چلنے والوں کے مقابلے میں نارمل وزن کے حامل سست روی سے چلنے والے افراد میں کووڈ 19 کی شدت سنگین ہونے اور موت کا خطرہ بالترتیب ڈھائی گنا اور 3.75 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم یہ پہلے سے جانتے ہیں کہ موٹاپا کووڈ 19 کے نتائج کو بدترین بنانے والا عنصر ہے، مگر یہ پہلی تحقیق ہے جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ سست روی سے چلنے والے افراد میں بیماری کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، چاہے وزن جتنا بھی ہو۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ تیز رفتاری سے چلنے والے فربہ افراد میں اس بیماری کی زیادہ شدت اور موت کا خطرہ سست روی سے چلنے والے لوگوں سے کم ہوتا ہے، تاہم جسمانی وزن زیادہ ہو اور چلنے کی رفتار بھی کم ہو تو یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے خیال میں عوامی صحت اور تحقیقی رپورٹس میں جسمانی وزن کے ساتھ جسمانی فٹنس کے عام اقدامات جیسے چلنے کی رفتار کو شامل کرنے پر غور کیا جانا چاہیئے کیونکہ یہ کووڈ 19 کے شکار ہونے پر نتائج کی پیش گوئی کرنے والے عناصر ہیں۔

  • بین الاقوامی مقابلہ پاکستانی طالب علم نے اپنے نام کر لیا

    بین الاقوامی مقابلہ پاکستانی طالب علم نے اپنے نام کر لیا

    ہڈرزفیلڈ: یونیورسٹی آف ہڈرز فیلڈ کے اسکول آف لا کے زیر اہتمام منعقدہ بین الاقوامی مقابلہ پاکستانی طالب علم نے اپنے نام کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں یونی ورسٹی آف Huddersfield میں قانون کے شعبے کی جانب سے منعقدہ ایک انٹرنیشنل مقابلہ پاکستانی طالب علم راجہ عیسیٰ اللہ خان نے جیت لیا۔

    لا مُوٹ میں دنیا کے مختلف ممالک سے طلبہ نے شرکت کی، جو پاکستانی طالب علم راجہ عیسی اللہ خان نے جیتا، اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اُنھیں فخر ہے کہ وہ پاکستان کا نام روشن کر پائے ہیں۔

    راجہ عیسیٰ نے کہا دنیا بھر میں موجود پاکستانی طالب علم پاکستان کے سفیر ہیں، اگر محنت اور لگن سے کوئی بھی کوشش کی جائے تو کامیابی آپ کے قدم ضرور چومتی ہے۔

    عیسیٰ کا آبائی تعلق گوجرانوالہ کی تحصیل وزیر آباد سے ہے، اُنھوں نے ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی اور 2018 میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے برطانیہ آئے اور ہڈرزفیلڈ یونی ورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔

    واضح رہے کہ قانون پڑھانے والے اداروں میں لا موٹ ایک نصابی سرگرمی ہے، جس میں طلبہ ایک مصنوعی عدالت یا ثالثی کی کارروائی میں حصہ لیتے ہیں، اور یادداشتوں کا مسودہ تیار کرتے ہیں اور زبانی دلائل میں بھی حصہ لیتے ہیں۔

  • برطانیہ: خاتون کی جسمانی باقیات برآمد، پولیس افسر حراست میں

    برطانیہ: خاتون کی جسمانی باقیات برآمد، پولیس افسر حراست میں

    لندن: برطانوی علاقے کینٹ سے انسانی جسم کی باقیات دریافت ہوئی ہیں، برطانوی پولیس کے مطابق مذکورہ خاتون کئی روز سے لاپتہ تھیں اور ان کی گمشدگی کے الزام میں ایک پولیس افسر زیر تفتیش ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانوی پولیس نے تصدیق کی ہے کہ کینٹ کے علاقے سے ملنے والی جسمانی باقیات سارہ ایورڈ کی ہیں جو چند روز قبل اپنے گھر جاتے ہوئے لاپتہ ہوئی تھیں۔

    پولیس کے مطابق 33 سالہ سارہ ایورڈ 3 مارچ کو جنوبی لندن سے اپنے گھر برکسٹن جاتے ہوئے لاپتہ ہوئی تھیں، پولیس نے سارہ کی تلاش کے لیے 750 گھر وں میں جا کر معلومات حاصل کیں جبکہ 120 افراد نے فون کر کے معلومات دیں۔

    سارہ کی گمشدگی کے الزام میں ایک پولیس افسر کو گرفتار کیا گیا تھا، پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار پولیس افسر 3 مارچ کی شب اپنی ڈیوٹی پر نہیں تھا۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق ملزم کی معاونت کے الزام میں ایک عورت کو بھی حراست میں لیا گیا تھا جو اب ضمانت پر ہے۔

    اب کینٹ کے علاقے میں ایک خاتون کی جسمانی باقیات دریافت ہوئی ہیں اور فرانزک کے بعد تصدیق ہوئی کہ یہ سارہ ہی ہیں۔

    پولیس، گرفتار پولیس افسر کے علاوہ دیگر خطوط پر بھی معاملے کی تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے۔

  • برطانیہ میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے نیا انکشاف

    برطانیہ میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے نیا انکشاف

    ماہرین کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں موجود کرونا وائرس کی نئی قسم دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ جان لیوا اور متعدی ہے۔ ماہرین نے کرونا کی اس قسم سے اموات کی شرح کا تعین بھی کیا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں سامنے آنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں 64 فیصد زیادہ جان لیوا ہے۔

    برسٹل، لنکا شائر، واروک اور ایکسٹر یونیورسٹیوں کی اس مشترکہ تحقیق میں یکم اکتوبر 2020 سے 29 جنوری 2021 کے دوران کرونا وائرس کی برطانوی قسم سے متاثر 54 ہزار مریضوں کا موازنہ اتنی ہی تعداد میں پرانی قسم سے بیمار ہونے والے افراد سے کیا۔

    ماہرین نے عمر، جنس، نسل، علاقے اور سماجی حیثیت جیسے عناصر کو مدنظر رکھ کر یقینی بنایا کہ اموات کی وجہ کوئی اور نہ ہو۔

    یہ کسی طبی جریدے میں شائع ہونے والی پہلی تحقیق ہے جس میں کرونا کی برطانوی قسم سے اموات کی شرح کا تعین کیا گیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی اصل قسم سے شرح اموات ہر ایک ہزار میں 2.5 تھی مگر برطانوی قسم میں یہ شرح ہر ایک ہزار میں 4.1 تک پہنچ گئی، جو 64 فیصد زیادہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی یہ نئی قسم نہ صرف زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے بلکہ یہ زیادہ جان لیوا بھی نظر آتی ہے۔

    اس نئی قسم کے نتیجے میں اموات کی شرح میں اضافے کی وجوہات کو مکمل طور پر واضح نہیں کیا گیا، تاہم حالیہ مہینوں میں سامنے آنے والے کچھ شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ بی 1.1.7 سے متاثر افراد میں وائرل لوڈ زیادہ ہوتا ہے، جس کے باعث وائرس نہ صرف زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے بلکہ مخصوص طریقہ علاج کی افادیت کو بھی ممکنہ طور پر متاثر کرسکتا ہے۔

    برطانیہ میں یہ نئی قسم سب سے پہلے ستمبر میں سامنے آئی تھی اور اس کی دریافت کا اعلان دسمبر 2020 میں کیا گیا تھا، جو اب تک درجنوں ممالک تک پہنچ چکی ہے اور امریکا میں یہ دیگر اقسام کے مقابلے میں 35 سے 45 فیصد زیادہ آسانی سے پھیل رہی ہے۔

    امریکی حکام کا اندازہ ہے کہ یہ نئی قسم رواں سال مارچ میں امریکا میں سب سے زیادہ پھیل جانے والی قسم ہوگی۔

    اس نئی قسم سے لاحق ہونے والا سب سے بڑا خطرہ اس کا زیادہ تیزی سے پھیلنا ہی ہے، ایک اندازے کے مطابق یہ پرانی اقسام کے مقابلے میں 30 سے 50 فیصد زیادہ متعدی ہے، تاہم کچھ سائنسدانوں کے خیال میں یہ شرح اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔

  • برطانوی عدالت نے لارڈ نذیر احمد کو باعزت بری کر دیا

    برطانوی عدالت نے لارڈ نذیر احمد کو باعزت بری کر دیا

    مانچسٹر: برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے سابق رکن لارڈ نذیر احمد کو ہراسانی کیس میں عدالت نے باعزت بری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے سابق رکن لارڈ نذیر کے خلاف ہراسانی کیس میں آج تفصیلی فیصلہ جاری ہوا، اور انھیں الزامات سے باعزت بری کر دیا گیا۔

    شیفلڈ کراؤن کورٹ میں 15 جنوری سے اس کیس کی سماعت جاری تھی، آج تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا، لارڈ کے سابق ممبر پر 5 سال قبل جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

    26 فروری کو لارڈ نذیر کیس پر مختصر فیصلہ سنایا گیا تھا، تاہم عدالت نے لارڈ نذیر احمد کو آج جنسی ہراسانی کیس میں الزامات جھوٹے قرار دے کر باعزت بری کر دیا۔

    لارڈ نذیر احمد نے اپنے بیان میں کہا کہ مجھ پر لگائے گئے الزامات تحقیقات کے بعد جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے، میں ہرجانے سمیت ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔

    انھوں نے کہا میری شہرت کو ایک سازش کے تحت داغدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن آج برطانوی عدالت سے انصاف کی توقع آج پوری ہوئی، آج حق و سچ کی فتح ہوئی ہے۔

    لارڈ نذیر نے کہا کہ وہ دنیا بھر مظلوم مسلمانوں کا مقدمہ مؤثر انداز میں لڑیں گے، انھوں نے کہا کشمیریت میرے خون میں ہے، آخری سانس تک کشمیر کا مقدمہ لڑوں گا۔

  • ہمت ہے تو ڈھونڈ کر دکھاؤ: پولیس کی فیس بک پوسٹ پر ملزم کا کمنٹ

    ہمت ہے تو ڈھونڈ کر دکھاؤ: پولیس کی فیس بک پوسٹ پر ملزم کا کمنٹ

    برطانوی پولیس اس وقت عجیب و غریب صورتحال کا شکار ہوگئی جب ملزم کی تلاش کے لیے لکھی گئی فیس بک پوسٹ پر ملزم نے کمنٹ کرتے ہوئے کہا، ہمت ہے تو ڈھونڈ کر دکھاؤ۔

    انگلینڈ کی بریڈ فورڈ شائر کاؤنٹی میں مقامی پولیس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر ایک پوسٹ کی جس میں ایک ملزم کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے عوام سے اپیل کی گئی۔

    پولیس نے ملزم کا حلیہ بتاتے ہوئے کہا کہ مذکورہ ملزم گزشتہ برس جنوری میں ہونے والی ایک واردات میں ملوث ہے، اگر کوئی اس کے بارے میں کوئی بھی معلومات رکھتا ہے تو وہ اس حوالے سے پولیس سے رابطہ کرے۔

    تاہم صورتحال اس وقت مضحکہ خیز ہوگئی جب ملزم نے پوسٹ پر کمنٹ کردیا، اگر ہمت ہے تو پکڑ لو۔

    ملزم کے اس کمنٹ پر ہزاروں لوگوں نے مختلف تاثرات کا اظہار کیا، بعض کو یہ صورتحال مزاحیہ لگی تو بعض افراد اس پر سخت افسوس کرتے دکھائی دیے۔

    پولیس کے مطابق ملزم 20 سالہ جورڈن کار اسی کاؤنٹی سے تعلق رکھتا ہے، اس کا قد 6 فٹ ہے، بال چھوٹے اور گھنگھریالے ہیں جبکہ بازو پر ایک ٹیٹو بھی موجود ہے۔

    پولیس نے لکھا کہ اگر کوئی شخص ملزم سے رابطے میں ہے اور کسی بھی طرح اس کی مدد کر رہا ہے تو اسے جان لینا چاہیئے کہ وہ ایک جرم میں شریک بن رہا ہے۔

    ترجمان پولیس کے مطابق وہ مختلف خطوط پر معاملے کی تفتیش کر رہے ہیں، اگر کوئی شخص ملزم کو کہیں دیکھے تو اس سے براہ راست رابطے سے گریز کرے اور فوری طور پر پولیس کو مطلع کرے۔

    پولیس نے اس کے لیے ایک نمبر بھی جاری کیا ہے۔

  • ہیری اور میگھن کے انٹرویو پر طوفان کھڑا ہوگیا

    ہیری اور میگھن کے انٹرویو پر طوفان کھڑا ہوگیا

    برطانیہ کے شاہی خاندان سے علیحدہ ہوجانے والے جوڑے شہزادہ ہیری اور اہلیہ میگھن مرکل کے تہلکہ خیز انٹرویو نے طوفان کھڑا کردیا ہے، ایک طرف تو میگھن کی ہمت کی داد دی جارہی ہے، تو دوسری طرف انہیں سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔

    جوڑے نے معروف امریکی ٹی وی میزبان اوپرا ونفرے کو اپنا انٹرویو دیا تھا جو اتوار کی شب نشر کیا گیا، اس انٹرویو میں میگھن مرکل نے کھل کے شاہی خاندان کے کئی راز افشا کردیے۔

    جوڑے نے شاہی خاندان کے ساتھ اور اس کے عین درمیان میں رہتے ہوئے روز مرہ کی زندگی کے تجربات کو بہت تلخ قرار دیا۔ ان دونوں کا کہنا تھا کہ وہ شاہی خاندان کی زندگی سے اس قدر نالاں تھے کہ انہوں نے شاہی طرز زندگی ترک کر کے امریکا میں آباد ہونے کا فیصلہ کر لیا۔

    تجزیہ کاروں کے مطابق یہ انٹرویو برطانوی شاہی خاندان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔

    شہزادے اور ان کی اہلیہ کے اس انٹرویو میں دیے گئے بیانات پر معروف شخصیات، سیاستدانوں اور سماجی کارکنوں سبھی نے اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے۔

    دونوں کے اس انٹرویو کو امریکا میں عمومی طور پر سراہا گیا ہے اور اس جوڑے کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا گیا، اکثریت نے شاہی خاندان کے چھوڑنے کے فیصلے کو درست قرار دیا۔

    معروف امریکی ٹینس اسٹار سیرینا ولیمز نے میگھن مرکل کی تعریف کرتے ہوئے انہیں اپنی بے لوث دوست قرار دیا۔ سیرینا کا کہنا تھا کہ وہ مجھے روز ایک نیک انسان کی زندگی کا درس دیتی ہے۔ میگھن کے الفاظ اس پر گزرنے والے ظلم اور اسے پہنچنے والے دکھ کی نشاندہی کرتے ہیں۔

    معروف شاعرہ اور سماجی کارکن امینڈا گورمن نے کہا کہ میگھن کی شکل میں شاہی خاندان نے معاشرے میں تبدیلی، تخلیق نو اور مفاہمت لانے کا ایک سنہری موقع کھو دیا ہے۔

    سیاہ فام شہریوں کے حقوق کے رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی بیٹی بیرونیس کنگ نے میگھن مرکل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ شاہانہ اقدار تباہ کاریوں اور نسل پرستی سے پیدا ہونے والی مایوسی اور نا امیدی کے خلاف ڈھال کی حیثیت نہیں رکھتی۔

    دوسری جانب برطانیہ میں دونوں کے اس انٹرویو پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کے ایک معروف براڈ کاسٹر پیئرس مورگن نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ یہ انٹرویو برطانوی شاہی خاندان کی سخت تذلیل، ملکہ اور شاہی خاندان کے ساتھ سراسر دھوکہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ میگھن کے بیانات لغو اور تخریبی ہیں۔ انہوں نے اپنے مفاد کے لیے اس قسم کی احمقانہ باتیں کیں مگر مجھے تعجب ہیری کے رویے پر ہے۔ انہوں نے میگھن کو یہ سب کچھ کہنے کیسے دیا؟ یہ ان کے خاندان کے لیے انتہائی شرمناک ہے۔

    برطانیہ کی ایک وزیر وکی فورڈ نے میگھن کی طرف سے نسل پرستانہ رویے کا شکار ہونے کی شکایات سامنے آنے پر کہا کہ ہمارے معاشرے میں نسل پرستی کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔

    تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس انٹرویو پر ملکہ برطانیہ کی جانب سے تو کوئی بیان نہیں دیا جائے گا، البتہ شاہی خاندان کی جانب سے بھی تاحال اس پر کوئی تبصرہ یا وضاحت جاری نہیں کی گئی۔

    ماہرین کے مطابق چونکہ جوڑے نے شاہی خاندان کی کسی خاص شخصیت کا نام لینے سے گریز کیا ہے، لہٰذا شاہی محل بھی چپ سادھے ہوئے ہے۔

  • ملکہ برطانیہ کا میگھن مارکل کے ساتھ رویہ کیسا تھا؟

    ملکہ برطانیہ کا میگھن مارکل کے ساتھ رویہ کیسا تھا؟

    لندن: شاہی خاندان چھوڑنے والی امریکی اداکارہ میگھن مارکل اپنے ساتھ ملکہ الزبتھ کے رویے کے بارے میں کہتی ہیں کہ سب کچھ ٹھیک تھا جب شاہی اداروں نے حالات بگاڑ دیے، ملکہ برطانیہ کا رویہ میرے ساتھ بہت اچھا تھا۔

    امتیازی سلوک پر اپنے شوہر برطانوی شہزادہ ہیری کے ساتھ محل اور شاہی خاندان چھوڑنے والی میگھن مارکل نے چند دن قبل معروف میزبان اوپرا ونفرے کو ایک تہلکہ خیز انٹرویو میں کئی شاہی رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔

    شاہی خاندان اور محل کے انتظامات کنٹرول کرنے والے اداروں سے متعلق میگھن نے بہت کچھ کہا، لیکن ان سب کے برعکس ملکہ الربتھ کا رویہ انھوں نے ’اچھا‘ قرار دیا۔

    انٹرویو میں شاہی خاندان کے افراد سے متعلق انھوں نے کہا ’شاہی خاندان کے افراد کا رویہ میرے ساتھ بہت اچھا تھا، حالات تو شاہی اداروں کے سبب بگڑے، جنھوں نے مجھے نیچا دکھایا۔‘

    شاہی محل میں رہنے کے دوران خودکشی کرنا چاہتی تھی: میگھن مرکل کا تہلکہ خیز انٹرویو

    میگھن کا کہنا تھا کہ ایک طرف شاہی خاندان کے ارکان تھے، دوسری طرف شاہی اداروں کو چلانے والے افراد تھے، یہ دونوں ہی مختلف چیزیں ہیں، شاہی خاندان کے ارکان میں سب سے اہم ملکہ الزبتھ بھی میرے ساتھ بہتر رویہ رکھتی تھیں۔

    اس سنسنی خیز انٹرویو میں شاہی خاندان کی بہو میگھن مارکل نے نسلی تعصب کا بھی ذکر کیا، انھوں نے کہا جب وہ پہلی بار ماں بننے والی تھیں، تو اُس وقت گہری رنگت کے سبب اُن کی اولاد کو شہزادہ یا شہزادی کا درجہ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا، یہ بحث بھی شروع ہو گئی کہ آیا اُن کی اولاد کو شاہی القاب، سیکیورٹی اور پروٹوکول دیا جائے گا یا نہیں۔

    برطانوی شاہی خاندان میں ساس بہو کے جھگڑے عروج پر

    رنگ و نسل پر ہونے والی یہ بحث کس کی جانب سے کی گئی تھی، میگھن نے کہا کہ یہ بتانا بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگا۔