Tag: برطانیہ

  • برطانیہ میں خاتون نے کمبل سے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا

    برطانیہ میں خاتون نے کمبل سے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا

    دنیا بھر میں خواتین شریک حیات کیلئے بہترین مرد کا انتخاب کرتی ہیں لیکن برطانوی خاتون نے اپنے کمبل سے بے پناہ محبت باعث اسے جیون ساتھی بنانے کا اعلان کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانیہ سے تعلق رکھنے والی 49 سالہ پاسکل سلیک نامی خاتون نے عروسی کی تقریبات منعقد کرنے والے ادارے کی مدد سے اپنے ’کمبل‘سے شادی کا اعلان کرکے لوگوں کو حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ خاتون نے اپنی شادی میں دعوت عام دی ہے جو چاہے پاسکل کے ساتھ ان کی خوشی میں شریک ہوسکتا ہے۔

    پاسکل سلیک نامی خاتون کا کہنا ہے کہ ’میرا کمبل بڑاطاقتور اور بہترین ہے جس کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہوں گے اور یہ بے وفائی بھی نہیں کرتا‘۔

    پاسکل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اپنے کمبل سے بہت محبت کرتی ہوں، میں نے لوگوں کو اس لیے اپنی شادی میں مدعو کیا ہے تاکہ وہ میرے مستقل اور آرام دہ جیون ساتھی کے ساتھ تعلق کے گواہ رہیں۔

    مزید پڑھیں: قدیم محل کا بھوت اسی کا گارڈ نکلا

    مزید پڑھیں : ’بھوت‘ سے شادی کرنے والی خاتون نے علیحدگی کا اعلان کردیا

    عروسی کی یہ عجیب و غریب تقریب 10 فروری کو منعقد ہوگی جس میں پاسکل سلیک نائٹ گاؤن زیب تن کریں گیں اور پاؤں میں چپّل پہنیں گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ خاتون نے شادی میں شرکت کرنے والے مہمانوں سے بھی گاؤن پہننے اور ہاتھوں‌ میں‌ گرم پانی کی بوتل یا بھالوں رکھنے کی درخواست کی ہے۔

  • بریگزٹ کو ملتوی کرنا ہی سب سے بہتر آپشن ہے: سابق چانسلر

    بریگزٹ کو ملتوی کرنا ہی سب سے بہتر آپشن ہے: سابق چانسلر

    لندن: برطانیہ کے سابق چانسلر جارج اوسبورن کا کہنا ہے کہ یورپین یونین سے برطانیہ کے انخلا کو ملتوی کرنا ہی اس وقت سب سے بہتر آپشن ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے جارج اوس بورن کا کہنا تھا کہ اس وقت برطانیہ کو ’نوبریگزٹ‘ اور ’نو ڈیل‘ میں سے ایک کو چننا ہے، اورنوڈیل کو چننا ایسا ہی ہے جیسے آپ رشین رولٹ کھیل رہے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کو اس خطرناک صورتحال کی جانب نہ لے کر جائے ۔ یاد رہے کہ رشین رولٹ ایک ایسا کھیل ہے جو کبھی بھی نہیں کھیلنا چاہیے، اس مین ریوالور کے چھ میں سے پانچ خانے خالی رکھے جاتے ہیں اور ایک میں گولی ہوتی ہے۔ ریوالور بند کرکے گھمایا جاتا ہے اور بندوق چلانے والے کے پاس زیادہ سے زیادہ پانچ اور کم سے کم ایک موقع بھی ہوتا ہے ،لیکن بھیانک موت بالاخر مقدر ہوتی ہے۔

    بریگزٹ: کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    جارج اوس بورن کا مزید کہنا تھا کہ نو ڈیل کی صورت میں بندوق برطانیہ کی کنپٹی پر ہوگی لہذا ایسی کسی صورتحال سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔

    ممبران پارلیمنٹ اس وقت برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کی بریگزٹ ڈیل کے مدمقابل منصوبوں پر کام کررہے ہیں جن میں سے ایک بریگزٹ کو ملتوی کرنا بھی ہے ، جو کہ رواں سال 29 مارچ کو طے ہے۔

    دوسری جانب وزیراعظم تھریسا مے کا کہنا ہے نو بریگزٹ کے نقصانات کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ کی گئی مجوزہ بریگزٹ ڈیل کو منظور کرلیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بغیر ڈیل کے یورپین یونین سے انخلا ناممکن ہے۔

     یاد رہے کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کو بریگزٹ معاہدے کی منظوری کےلیے 15 جنوری کو ہونے والی ووٹنگ میں تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

    خیال رہے کہ نومبر 2018 میں وزیر اعظم تھریسامے اور یورپی یونین کے سربراہوں کے درمیان بریگزٹ معاہدے پر اتفاق ہوا تھا لیکن ایم پیز نے 230 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے معاہدے کو مسترد کردیا تھا۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ اگر برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے نکلنے کےلیے بریگزٹ معاہدے کو منظور نہیں کیا تو 29 مارچ کو برطانیہ، یورپی یونین سے بغیر کسی ڈیل کے ہی نکلنے پر مجبور ہوگا۔

  • بریگزٹ ڈیل مسترد، ڈونلڈ ٹسک نے برطانیہ کو یورپی یونین میں رہنے کا مشورہ دے دیا

    بریگزٹ ڈیل مسترد، ڈونلڈ ٹسک نے برطانیہ کو یورپی یونین میں رہنے کا مشورہ دے دیا

    برسلز : یورپین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے برطانوی پارلیمنٹ میں بریگزٹ ڈیل مسترد ہونے پر برطانیہ کو یورپی یونین میں رہنے کا مشورہ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کو دارالعوام میں تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا، پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے انخلا کی مخالفت میں فیصلہ دے دیا، ڈیل کے حق میں 202 جبکہ مخالفت میں 432 ووٹ پڑے، 118 حکومتی ممبران نے بھی ڈیل کے خلاف ووٹ دیا۔

    ڈونلڈ ٹسک نے سماجی رابطے کی ویب سایٹ پر ٹویٹ کیا کہ اگر معاہدہ ناممکن ہے اور کوئی بھی ڈیل نہیں چاہتا، تو پھر کس میں یہ کہنے کی ہمت ہوگی کہ مثبت حل کیا ہے؟

    یورپی حکام اور سیاست دانوں کی جانب سے بریگزٹ ڈیل مسترد کیے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ ڈیل مسترد ہونے پر بڑا دکھ ہوا: صدر یورپین کمیشن

    اس سے قبل یورپین کمیشن کے صدر جان کلاڈی جنکر نے کہا تھا کہ بریگزٹ ہونے میں بہت کم دن رہ گئے ہیں ایسے میں برطانوی پارلیمنٹ نے بریگزٹ ڈیل مسترد کی جس پر بڑا دکھ ہے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم تھریسامے کے تیار کردہ بریگزٹ معاہدے کی مخالفت میں حکمران جماعت کے ہی 118 ایم پیز نے ووٹ دئیے جو برطانوی تاریخ کی سب سے بڑی شکست ہے۔

    برطانوی پارلیمنٹ میں ہونے والی ووٹنگ نے بریگزٹ کے عمل کو مزید مشکوک کردیا ہے جبکہ اپوزیشن رہنما جیریمی کوربن نے تھریسامے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ ڈیل مسترد، تھریسامے کو تاریخی شکست

    دوسری جانب شکست کے بعد تھریسامے کا کہنا ہے کہ غیریقینی میں گزرنے والا ہر دن برطانیہ کو نقصان دے رہا ہے، اب بھی حکومت کو پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل ہے۔

    برطانوی وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہماری حکمت عملی 29 مارچ تک وقت گزارنا نہیں، 2 سال تک بریگزٹ ڈیل پر کام کیا، مستقبل سے متعلق سوچ رہے ہیں۔

  • طلسماتی دنیا جیسے خوبصورت دروازے

    طلسماتی دنیا جیسے خوبصورت دروازے

    ہم میں سے اکثر افراد دروازوں کے پاس سے سرسری سا گزر جاتے ہیں اور انہیں دیکھتے بھی نہیں، بعض دروازے اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ انہیں رک کر سراہا جانا چاہیئے مگر وہ اکثر نظر انداز ہوجاتے ہیں۔

    ایک برطانوی فوٹوگرافر بیلا فوکس ویل نے ایسے ہی لندن کے گلی کوچوں میں مختلف دروازوں کی تصاویر کھینچی ہیں۔

    یہ دروازے نہایت رنگین اور ان کے آس پاس کا منظر نہایت خوبصورت ہے جس کے باعث یہ دروازے پریوں کی گزرگاہ معلوم ہوتے ہیں۔

    بیلا کا کہنا ہے کہ بعض لوگ اپنے بیرونی دروازے بہت خوبصورت بناتے ہیں تاکہ جب وہ دن بھر کام کرنے کے بعد شام کو گھر پہنچیں تو انہیں خوشگوار احساس ہو۔

    ان کا کہنا ہے کہ دروازہ ایک علامت ہے نئے مواقعوں کا، جو ہماری زندگی میں جذبہ پیدا کرتا ہے۔

    بیلا نے ان دروازوں کی تصاویر کا انسٹا گرام اکاؤنٹ بھی بنا رکھا ہے جہاں لاکھوں لوگ ان تصاویر کو پسند کرتے ہیں۔

    آئیں ہم بھی ان خوبصورت دروازوں کو دیکھتے ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    The hidden alleyways behind Kensington High Street are some of my favourites ♥️

    A post shared by The Doors of London (@thedoorsofldn) on

     

    View this post on Instagram

     

    That archway is just asking for some climbing roses 🌹🌹🌹

    A post shared by The Doors of London (@thedoorsofldn) on

     

    View this post on Instagram

     

    If you could go on holiday anywhere in the world, right now, where would you go? ✈️🌎

    A post shared by The Doors of London (@thedoorsofldn) on

     

    View this post on Instagram

     

    After the leaves fall away, this is what’s left 🍂🍁

    A post shared by The Doors of London (@thedoorsofldn) on

     

    View this post on Instagram

     

    It’s coming! 🎃👻🧙 #halloweeninlondon

    A post shared by The Doors of London (@thedoorsofldn) on

     

    View this post on Instagram

     

    Who inspires you? ✨

    A post shared by The Doors of London (@thedoorsofldn) on

  • سانحہ اے پی ایس کے زخمی طالب علم احمدنواز کیلئے پوائنٹ آف لائٹ ایوارڈ کا اعلان

    سانحہ اے پی ایس کے زخمی طالب علم احمدنواز کیلئے پوائنٹ آف لائٹ ایوارڈ کا اعلان

    لندن : برطانوی وزیراعظم کا سانحہ اے پی ایس کے زخمی طالب علم احمد نواز کے لئے پوائنٹ آف لائٹ ایوارڈ کا اعلان کردیا ، احمدنواز نے کہا برطانوی  اعزاز میرے لئے باعث فخر ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ اے پی ایس میں دہشت گردوں اور موت کو شکست دینے والے طالب علم احمد نواز نے ایک بار پھر پاکستان کا سرفخر سے بلند کر دیا، برطانوی وزیراعظم کی جانب سے احمد نواز کے لئے پوائنٹ آف لائٹ ایوارڈ کا اعلان کردیا ہے۔

    ترجمان برطانوی سفارتخانہ کے مطابق برطانوی وزیراعظم کی جانب سے جاری کردہ خط میں انتہاپسندی کے خلاف احمد نواز کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا اس مہم میں احمدنواز نےگرانقدرکام کیا۔

    خط میں کہا گیا احمدنواز نے برطانیہ کےتعلیمی اداروں میں انتہاپسندی کےخلاف خطاب کیا، انھیں طالبان کی جانب سے قتل کی دھمکیاں ملیں لیکن ان کے عزم میں کوئی کمی نہ آئی اور وہ تعلیمی سرگرمیاں جاری کرتے دوسرے اسکولوں میں اپنا پیغام پھیلا رہے ہیں‌۔

    دوسری جانب احمدنواز کا کہنا ہے کہ برطانوی وزیراعظم کی جانب سے یہ اعزاز میرے لئے باعث فخرہے۔

    یاد رہے نومبر 2018 میں احمد نواز کو کولمبو میں ساؤتھ ایشیا یوتھ سمٹ میں ایشین انسپریشن ایوارڈ سے نوازا گیا تھا، یہ ایوارڈ امن کے فروغ اور نوجوانوں کوبااختیار بنانے پر دیا جاتا ہے۔

    س سے قبل طالب علم احمد نواز نے برطانوی امتحانات میں اعلیٰ کارکردگی دکھاتے ہوئے پوزیشن حاصل کی تھی ، احمد نے جی سی ایس ای امتحان میں 6 مضامین میں اے سٹارحاصل کئے اور 2مضامین میں اے گریڈ حاصل کیا۔

    بعد ازاں اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے احمد نواز نے کہا تھا کامیابی کا سہرا والدین اور خیرخواہوں کے سر جاتا ہے، میرا خواب ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کروں، سانحے کے بعد حوصلہ بڑھانے والوں نے بھی ہمت دی، ہمت بڑھانے والوں خاص طور پر ڈی جی ایس پی آر کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

    احمد نواز کا مزید کہنا تھا کہ سانحہ اے پی ایس بھولے جانے والا نہیں لیکن ہمیں آگے بڑھناہے اور یہ ثابت کرنا ہے کہ مشکلات کے باوجود ہم ہمت ہارنے والے نہیں۔

    واضح رہے چار سال قبل 16 دسمبر 2014 کو پشاور آرمی پبلک اسکول میں خون کی ہولی کھیلی گئی تھی، دہشت گردوں نےعلم کے پروانوں کے بے گناہ لہو سے وحشت و بربریت کی نئی تاریخ رقم کی تھی اور دردناک سانحے اور دہشت گردی کے سفاک حملے میں 147 افراد شہید ہوگئے تھے، جس میں 132 بچے بھی شامل تھے۔

    سانحہ اے پی ایس پشاور میں زخمی ہونے والے طالب علم احمد نواز کو حکومت نے سرکاری خرچ پر 2015 میں علاج کے لیے برطانیہ بھیجا تھا جہاں اُن کا علاج کوئین الزبتھ اسپتال میں ہوا، برطانوی ڈاکٹرز نے احمد نواز کا علاج کیا جس کے بعد وہ صحت مند زندگی کی طرف لوٹے اور پھر لندن میں ہی تعلیم کا آغاز کیا

  • نوڈیل بریگزٹ: یورپ میں مقیم 13 لاکھ برطانوی شہریوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

    نوڈیل بریگزٹ: یورپ میں مقیم 13 لاکھ برطانوی شہریوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

    لندن: برطانیہ کا 29 مارچ 2019 کو یورپی یونین سے نکلنا طے ہے او ر دونوں فریق اگر کسی معاہدے تک نہ پہنچ پائے تو برطانیہ اور ای یو 27 کے بیرون ملک مقیم باشندے شدید مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔

    برطانیہ اور یورپی یونین ان دنوں ایک تاریخ سازمرحلے سے گزر رہے ہیں اور دونوں جانب سے اس پر ایک معاہدے کی کوشش کی جارہی ہے ، وزیراعظم تھریسا مے اور یورپی یونین کے درمیان ایک معاہدے کا مسودہ طے پاچکا ہے تاہم برطانوی پارلیمنٹ اس پر شدید تحفظات رکھتی ہے اورامکان ہے کہ معاہدے پر دستخط ہونے سے قبل ہی برطانیہ کے انخلا کا وقت آجائے گا۔

    یورپی یونین سے ہونے والے معاہدے میں ای یو 27 ممالک میں رہائش پذیر برطانوی شہریوں کو اور برطانیہ میں رہائش پذیر یورپی شہریوں کو بریگزٹ کا عمل مکمل ہونے تک قانونی تحفظ ملے گا اور وہ ہیلتھ کیئر، ویزہ فری ٹریول اور ملازمتوں کی سہولیات سے استفادہ حاصل کرسکیں گے تاہم اگر دونوں فریقین میں معاہدہ طے نہیں پایا تو پھر ان شہریوں کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان کھڑا ہوجائے گا۔

    یہ بھی پڑھیں


    بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    اس وقت 13 لاکھ برطانوی شہری یورپین یونین کے مختلف ممالک میں قیام پذیر ہیں جبکہ یورپی یونین کے 32 لاکھ شہری برطانیہ میں مقیم ہیں۔ یہ تمام افراد یورپی یونین کے شہریوں کو حاصل تمام تر مراعات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، لیکن اگر معاہدہ طے نہیں پاتا تو بریگزٹ کے ساتھ ہی ان کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ ماہرین اس صورتحال کو کھائی میں گرنے جیسا قرار دے رہے ہیں۔

    اگر بریگزٹ مسودہ برطانوی پارلیمنٹ سے منظور ہوجاتا ہے تو دونوں جانب کے شہری حالیہ سہولیات کو 31 دسمبر 2020 تک بلا تعطل حاصل کرسکیں گے اور اس دوران برطانیہ اور دیگر 27 یورپی ممالک اپنے ان شہریوں کے لیے معاہدے کرسکیں گے۔

    یورپی یونین نے بریگزٹ پر کوئی ڈیل نہ ہونے کی صورت میں متوازی منصوبے کے تحت طے کیا ہے کہ برطانیہ کے ان شہریوں کے ساتھ مہربان رویہ اپناتے ہوئے انہیں فی الفور عارضی رہائشی کی حیثیت سے نوازا جائے اور برطانیہ بھی اپنے ہاں مقیم یورپی شہریوں کے لیے ایسا ہی کرے۔

    چارٹ بشکریہ بی بی سی

    ساتھ ہی ساتھ یورپی کمیشن نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ نو ڈیل کی صورت میں برطانوی شہریوں کو یورپ کے ممالک میں وقتی طور پر ویزہ فری رسائی دی جائے اور برطانیہ بھی ایسا ہی کرے، تاکہ شہریوں کے معمولات کسی صورت متاثر نہ ہوں۔

    اگر 29 مارچ تک دونوں فریق کسی معاہدے پر نہیں پہنچتے تو برطانوی شہری ، یورپین یونین میں ایسے ہی ہوجائیں گے جیسا کہ امریکا ، چین یا کسی بھی اور ملک کے شہری ہیں اور ان پر ’تیسرے ملک ‘ کے شہریوں والے قوانین کا اطلاق ہوگا، جب تک کہ کوئی دو طرفہ ایمرجنسی ڈیل طے نہ کرلی جائے۔

    وہ برطانوی شہری اس معاملے میں سب سے زیادہ متاثر ہوں گے جو اپنے کام کے سلسلے میں متواتر ایک سے زیادہ یورپی ممالک کا سفر کرتےر ہتے ہیں اور انہیں اپنے یورپی مدمقابل افراد کی طرح ویزی فری انٹری کی سہولت میسر نہیں ہوگی۔

    دوسری جانب یونین کے ممالک میں مقیم برطانوی شہریوں کو صحت کے معاملات میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ ابھی ایک انشورنس پالیسی پوری یونین میں نافذ العمل ہے تاہم بریگزٹ کے بعد انہیں برطانیہ اورہراس ملک کے لیے علیحدہ انشورنس لینا ہوگی جہاں کا سفر ان کے معمولات میں شامل ہے، یہی صورتحال یونین کے شہریوں کو بھی درپیش ہوگی جنہیں برطانیہ کا سفر کرنا ہوگا ، انہیں وہاں کی انشورنس الگ سے لینا ہوگی۔

    کل 15 جنوری کو برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں برطانوی وزیراعظم تھریسا مے اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والےمسودے پر ووٹنگ ہونے جارہی ہے اور اس کے بعد ہی یورپ میں ہونے والے اس تاریخ ساز عمل کے مستقبل کے خدو خال ابھر کے سامنے آسکیں گے۔

  • برطانیہ کا چھ ماہ سے کم قید کی سزا ختم کرنے پر غور

    برطانیہ کا چھ ماہ سے کم قید کی سزا ختم کرنے پر غور

    لندن : برطانوی وزیرِ انصاف نے انگلینڈ اور ویلز میں چھ ماہ سے کم قید کی سزا ختم کرنے پر غور شروع کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے وزیرِ انصاف نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ جرائم کو روکنے کے لیے کمیونٹی سزاؤں کی نسبت جیل کی کم مدتی سزا غیر موثر ثابت ہورہی ہیں۔

    برطانوی وزیرِ جیل خانہ جات روری سٹیورٹ نے مقامی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’کچھ سزائیں ایسی ہیں جو طویل مدتی ہونے کے باعث آپ کو نقصان پہنچاتی ہیں جبکہ کچھ سزاؤں کی مدت کم ہونے کی وجہ سے آپ پر کوئی اثر نہیں پڑتا‘۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ اگر کم مدتی یا اس جیسی دیگر سزائیں ختم ہوجائیں تو ہزاروں جیلیں آزاد ہوجائیں گی۔

    مقامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ہر سال نقب زنوں اور دکانوں میں چوریاں کرنے والے ملزمان سمیت 30 ہزار افراد کو چھ ماہ قید یا اس سے کم مدتی قید کی سزا ہوتی سنائی جاتی ہے، جیسے ختم کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔

    برطانوی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں 1990 کے بعد سے جیل میں آبادی کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے جو 2018 میں 40 ہزار سے 80 ہزار تک پہنچ گئی چکی ہے۔

    برطانوی وزیر جیل سٹیورٹ کا کہنا ہے کہ 12 ماہ سے کم قید کی سزا کاٹنے والے ایک تہائی مجرم دوبارہ جرم کرنے کے لیے جلد رہا ہوجائیں گے۔

    جیلوں میں اصلاحات کے حوالے سے کام کرنے والی ٹرسٹ نے وزارء کے مشورے کا خیر مقدم کیا ہے تاہم اس سے قبل ٹرسٹ کا مؤقف تھا کہ کم مدتی قید کی سزائیں ختم کرنے کا گمان بھی نہیں کرسکتے۔

  • بریگزٹ بحران سے نکلنے کے لیے اپوزیشن کا انتخابات کا مطالبہ

    بریگزٹ بحران سے نکلنے کے لیے اپوزیشن کا انتخابات کا مطالبہ

    لندن: برطانوی پارلیمنٹ میں اپوزیشن رہنما جیریمی کوربن نے بریگزٹ بحران سے نکلنے کے لیے انتخابات کرانے کا مطالبہ کردیا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق لیبرپارٹی کے رہنما جیریمی کوربن کا کہنا ہے کہ بریگزٹ بحران سے نمٹنے کے لیے ملک میں قبل ازوقت انتخابات کرائے جائیں۔

    اپوزیشن رہنما نے کہا کہ نئے مینڈیٹ والی حکومت ہی یورپی یونین سے بہتر انداز میں مذاکرات کرسکتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیراعظم تھریسامے کو اپنی بریگزٹ ڈیل پر یقین ہے تو الیکشن کرالیں تاکہ عوام اپنا فیصلہ دے سکیں۔

    دوسری جانب برطانیہ میں حکمران کنزرویٹو پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ لیبر پارٹی بریگزٹ کے معاملے پر سیاست کھیل رہی ہے۔

    کنزرویٹو پارٹی کے رہنماؤں کے مطابق لیبر پارٹی کے پاس بریگزٹ ڈیل پر کوئی منصوبہ نہیں ہے، وہ برطانوی وزیراعظم کی بریگزٹ ڈیل کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔

    واضح رہے کہ برطانوی وزیراعظم تھریسامے بریگزٹ ڈیل پر دستخط کرچکی ہیں جبکہ یورپی پارلیمنٹ بھی برطانیہ کی یونین سے علیحدگی کی منظوری دے چکی ہے۔

    مزید پڑھیں: برطانیہ یورپی یونین سے مقررہ وقت پر نکل جائے گا، برطانوی وزیراعظم

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے گزشتہ برس دسمبر میں پارلیمنٹ میں بریگزٹ کے حوالے سے ووٹنگ کا اعلان کیا تھا تاہم شکست کے خوف سے انہوں نے بریگزٹ پر ووٹنگ موخر کردی تھی۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیر رچرڈ ہارنگٹن کا کہنا تھا کہ ایم پیز کو تھریسامے کے یورپی یونین سے انخلا سے متعلق معاہدے کی حمایت یا نوڈیل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

    خیال رہے کہ جون 2016 میں برطانوی عوام نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔

  • بریگزٹ: کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    بریگزٹ: کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یعنی کہ یورپین یونین اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے، مارچ 2019 میں برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرناطے ہوچکا ہے اورتاحال برطانیہ اور یورپی یونین اس حوالے سے کسی حتمی معاہدے پر دستخط نہیں کرپائے ہیں۔

    بریگزٹ مسودہ نامی دستاویز جسے برطانوی حکومت اور یورپی یونین کے اعلیٰ ترین دماغوں نے ماہ سال کی محنتِ شاقہ کے بعد تیار کیا ہے، برطانیہ کی پارلیمنٹ اس پر راضی نہیں ہیں ، حد یہ ہے کہ خود حکومتی پارٹی کے کئی ارکان، جو کہ بریگزٹ کے حامی بھی ہیں ، تھریسا مے سے منحرف ہوچکے ہیں ۔

    یورپی یونین کا ماننا ہے کہ وہ اپنی جانب سے جس حد تک برطانیہ کو رعایت دے سکتے تھے ، وہ اسے بریگزٹ مسودے میں دی جاچکی ہے اور اس سے آگے ایک انچ بھی بڑھنا یورپ کے لیے ممکن نہیں ہے لہذا اب تھریسا مے کی حکومت اسی مسودے کو پارلیمنٹ سے منظور کروائے یا پھر برطانیہ’نوڈیل‘ کاراستہ اختیار کرے۔

    بریگزٹ ڈیل پر گزشتہ ماہ برطانوی پارلیمنٹ میں رائے شماری کی جانی تھی تاہم ممبران پارلیمنٹ کے تیور دیکھ کر تھریسا مے نے اسے ملتوی کیا اور اب یہ رائے شماری 15 جنوری کو منعقد کی جائے گی۔ اس دوران پارلیمنٹ میں برطانوی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتما د بھی لائی گئیں لیکن وہ اس کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہیں۔ انہوں نے سالِ نو کے آغاز پراپنی تقریر میں ہاؤس آف کامنز کے ممبران سے اپیل کی ہے کہ وہ اس مواہدے کی حمایت کرکے برطانیہ کو آگے بڑھنے کا موقع دیں، تاہم ممبران نے ان کے مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے جوابی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ووٹنگ سے پہلے اپنا پلان بی پارلیمنٹ کے سامنے رکھیں کہ اگر ان کا مسودہ پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو وہ آگے کیا لائحہ عمل اختیار کریں گی۔

    یورپی یونین کیا چاہتی ہے؟


    تھریسا مے اس معاملے پر یورپین یونین سے بھی اپیل کرچکی ہیں کہ بریگزٹ مسودے پر آئرش بارڈر کے مسئلے پر پیدا ہونے والے تنازعے میں ان کی حکومت کو کچھ رعایت دی جائے لیکن یورپی بلاک کا اس معاملے میں ماننا ہے کہ وہ اس معاملے میں پہلے ہی بہت رعایت دے چکے ہیں اور اس سے زیادہ یورپی یونین کے بس میں نہیں ہے۔

     ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    جرمنی اور آئرلینڈ اس معاملے پر وہ سب کچھ کرچکے ہیں جو وہ کرسکتے ہیں تاہم کسی سیاسی اعلامیے کی گنجائش فی الحال موجود نہیں ہے۔ یورپین یونین کی جانب سے صرف یقین دہانی ہی کرائی جاسکتی ہے کہ وہ آئرش بارڈر پر بیک اسٹاپ کو روکنے کے لیے 2021 تک تجاری معاہدے کو حتمی شکل دے دی جائے گی، لگتا نہیں ہے کہ یہ یقین دہانی برطانیہ کی ٹوری اور ڈیموکریٹ یونینسٹ پارٹی کو مطمئن کرپائے گی۔

    آئرش بارڈر کا تنازعہ ہے کیا؟


    آئرش باغیوں نے سنہ 1921 میں برطانوی حکومت سے علیحدگی اختیار کی تھی اور سنہ 1948 میں اسے باقاعدہ قانونی حیثیت دی گئی تھی ۔ ریپبلک آف آئر لینڈ نے اس موقع پر ایک علیحدہ ملک کی حیثیت اختیار کی تھی جس کے اکثریتی باشندے عیسائیت کے کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ شمالی آئرلینڈ کے لوگوں نے جو کہ پروٹسنٹ فرقے کے ماننے والے تھے، تاجِ برطانیہ کے ساتھ رہنا پسند کیا ۔ تب سے جمہوریہ آئرلینڈ ایک آزاد ملک ہے اور یورپی یونین کا ممبر بھی اور شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا علاقہ ہے۔

    برطانیہ کی یورپی یونین میں شمولیت کے بعد جب ان ممالک کے درمیان سرحدیں صرف نام کی رہ گئیں تو دونوں علاقوں میں بے پناہ تعاون بڑھا اور شمالی آئرلینڈ کی زیادہ تر تجارت اسی راستے یورپ سے ہونے لگی اور اس کا حجم اس وقت 3.5 ارب یورو ہے جو کہ برطانوی معیشت میں معنی خیز حیثیت رکھتی ہے ۔ اب اگر یہاں بارڈر وضع نہ کیا جائے تو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ضرب آتی ہے کہ یہ کیسی علیحدگی ہے اور اگر بارڈر سخت کیا جاتا ہے اور چیک پوسٹیں اور کسٹم بارڈر قائم کیے جاتے ہیں تو برطانیہ جو بریگزٹ کے سبب ابتدائی طور پر مالی دشواریوں کا سامنا کرے گا ، اسے مزید معاشی مشکلات سے گزرنا ہوگا۔

    لیبرپارٹی کی مشکلات


    دریں اثنا حکومتی جماعت یعنی کہ لیبر پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کے لیے اس مسودے کی حمایت میں بے پناہ مشکلات ہیں۔ سیاسی اعشارئیے بتار ہے کہ ہیں لیبر پارٹی کے ارکان نے اگراس مسودے کی حمایت کی تو ان کے لیے آئندہ الیکشن میں اپنےلیے عوامی حمایت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ اگر انہوں نے اس معاہدے پراپنی حکومت کوسپورٹ کیا تواس صورت میں وہ اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے حکومت سے ٹیکس نافذ کرنے کا اختیار واپس لے لیں گے، جس کے سبب پارٹی قیادت کو شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    معاشی افراتفری


    جہاں ایک جانب سیاسی میدان میں ہلچل مچی ہوئی ہے وہیں اس ساری مشق کے اثرات برطانیہ کی معیشت پر بھی مرتب ہورہے ہیں ۔ سال 2018 کی آخری سہہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو صرف ایک فیصد رہی ہے ۔ پیداوار کرنے والے گزشتہ تیس سال کی تاریخ میں کارکنوں کے سب سے بڑے کال کا سامنا کررہے ہیں اور گھروں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

    دوسری جانب اگر یورپی یونین اور برطانیہ بریگزٹ کے معاملے پر کوئی ڈیل نہیں کرپاتے ہیں تو شمالی آئرلینڈ میں حالات کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کرنا پڑے گی جو کہ مسائل کا شکار برطانوی حکومت کے لیے ایک سنگین بوجھ ہوگا۔

    اب ہوگا کیا؟


    صورتحال یہ ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ بریگزٹ مسودے پر رائے شماری کرنےجارہی ہے، سو اگر تھریسا مے کی حکومت مطلوبہ مقدار میں ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تب تو پھر تمام چیزیں منصوبے کے مطابق آگے بڑھیں گی، لیکن ا س کے امکانات فی الحال کم ہی ہیں۔

    دوسری جانب یورپی یونین اس وقت تک برطانیہ کو مسودے پر مزید کوئی رعایت دینے پر آمادہ نظر نہیں آرہا جب تک موجودہ مسودہ کم از کم ایک بار رائے شماری میں شکست سے دوچار نہ ہوجائے ۔ ووٹنگ کے نتائج پر ہی آگے کے حالات منحصر ہیں، اگر شکست کا مارجن سو ووٹ سے کام کا ہوا تو تھریسا مے کی حکومت کم از کم اس پوزیشن پر ہوگی کہ ایک بار پھر یورپی یونین سے رجوع کیا جائے اور مسودے کو کسی دوسرے تناسب کے ساتھ ایک بار پھر ووٹنگ کے لیے لایا جائے۔ لیکن اگر پہلی رائے شماری میں ہی بھاری اکثریت سے شکست ہوتی ہے یا دوسری بار بھی یہ مسودہ شکست سے دوچار ہوتا ہے تو پھر یقیناً یورپ ایک بڑے بحران کا سامنا کرے گا۔

    اس معاملے میں کچھ بھی ممکن ہے کیبنٹ واک آؤٹ کرسکتی ہے، حکمت عملی میں مستقل تبدیلی لائی جاسکتی ہے، کسٹم یونین کی جانب پیش رفت بھی ممکن ہے اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے ریفرنڈم یا پھر برطانیہ میں انتخابات کا انعقاد بھی ممکنات میں شامل ہے۔ آخرالذکردونوں صورتیں یورپی یونین کے آئین کے آرٹیکل 50 سے متصادم ہیں لہذا ان پریورپی یونین کی رضامندی لازمی ہوگی۔

    اب پندرہ جنوری کو ہونے والی ووٹنگ کا نتیجہ کچھ بھی آئے لیکن ایک بات ماننا پڑے گی کہ اس کرہ ارض پر یورپ وہ خطہ ہےجو ماضی میں بات بات پر برسرِ پیکار ہوجایا کرتا تھا، آج اپنی تاریخ کے حساس ترین دور اور پیچیدہ ترین تنازعے کو بھی جمہوری طریقے سے حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

    برطانوی حکومت اپنے عوام کی رائے کا احترام کررہی ہے اور یورپی یونین برطانوی حکومت کو اس کے عوام کی جانب سے حاصل آئینی اعتماد کا احترام کرتے ہوئے بنا کسی جنگ و جدل کے برطانیہ کو دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ چھوڑنے کی اجازت دے رہا ہے۔ اس وقت بھی جو تنازعات ہیں، وہ زیادہ تر تجارتی نوعیت کے ہیں اور امید ہے کہ 15 جنوری کے بعد صورتحال واضح ہوجائے گی کہ ان کا حل کیا نکلے گا۔

  • برطانیہ یورپی یونین سے مقررہ وقت پر نکل جائے گا، برطانوی وزیراعظم

    برطانیہ یورپی یونین سے مقررہ وقت پر نکل جائے گا، برطانوی وزیراعظم

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے کہا ہے کہ برطانیہ مقررہ وقت یعنی 29 مارچ کو یورپی یونین سے نکل جائے گا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ برسلز میٹنگ میں 27 یورپی رہنماؤں نے بریگزٹ ڈیل کی منظوری دے دی ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ سے بزیگزٹ کی توثیق ہونا باقی تھی، جبکہ وزیراعظم تھریسامے نے اپنے ملک کے قانون سازوں کو معاہدے کو قبول کرنے کی درخواست کی تھی۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے معاہدے کو اپنے ملک کے لیے روشن مستقبل قرار دیا تھا۔

    گزشتہ کئی ماہ سے جاری مذاکرات کے بعد اس معاہدے میں شہریوں کے حقوق سمیت مستقبل میں سلامتی اور تجارتی تعلقات کے فروغ کے لیے معاملات طے کیے گئے تھے۔

    مزید پڑھیں: ایم پیزکو بریگزٹ معاہدے کی حمایت یا نوڈیل میں سےایک کو چننا ہوگا‘ رچرڈ ہارنگٹن

    برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بریگزٹ کے متعلق معاہدہ پوری طرح ہمارے ہاتھ میں ہے لیکن برطانیہ کے ساتھ بریگزٹ سیکریٹری ڈومینک راب نے کہا تھا کہ مذکورہ پیش کش یورپی یونین کی رکنیت سے کمتر ہے۔

    واضح رہے کہ ایک ماہ قبل 18 ماہ کی طویل بات چیت کے بعد بزیگزٹ ڈیل پر برطانیہ اور یورپی یونین میں اتفاق ہوگیا تھا۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیر رچرڈ ہارنگٹن کا کہنا تھا کہ ایم پیز کو تھریسامے کے یورپی یونین سے انخلا سے متعلق معاہدے کی حمایت یا نوڈیل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

    یاد رہے کہ جون 2016 میں برطانوی عوام نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔