Tag: برف

  • عمر گل کی گھر کے باہر سے برف ہٹانے کی ویڈیو وائرل

    عمر گل کی گھر کے باہر سے برف ہٹانے کی ویڈیو وائرل

    قومی کرکٹ کے سابق فاسٹ بولر عمر گل کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے، جس میں وہ اپنے گھر کے باہر برف ہٹانے میں مصروف نظر آرہے ہیں۔

    اپنے سوشل میڈیا پر سابق فاسٹ بولر عمر گل نے ایک ویڈیو شیئر کی ہے، جس میں بارش اور ژالہ باری کے مناظر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

    سابق فاسٹ بولر کو انسٹاگرام پر شیئر کی گئی ویڈیو میں کو گھر کے باہر سے برف ہٹاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

    اپنے پیغام میں اُن کا کہنا تھا کہ ”اس طرح کی ژالہ باری بہت خطرناک ہوسکتی ہے، خاص طور پر جب اچانک آجائے۔ اللّٰہ ہم سب کو ایسی آفات سے محفوظ رکھے، اپنا خیال رکھیں اور آس پاس کے لوگوں کا بھی حال معلوم کرتے رہیں۔

    واضح رہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شدید بارش اور ژالہ باری ہوئی، کئی علاقوں میں اولوں سے گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔

    اسلام آباد میں اچانک شروع ہونے والی طوفانی بارش اور ژالہ باری نے شہر کا نقشہ بدل دیا، بڑے بڑے اولے پڑے تو باہر کھڑی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے، لنڈی کوتل، طور خم و دیگر علاقوں میں طوفانی بارش سے چل تھل ہوگا۔

    برساتی ریلوں میں مال بردار گاڑیوں پھنس گئیں، تیز ہواؤں اور بارش کے باعث پاک افغان شاہراہ بھی بند کردی گئی۔

    ویڈیو: عمر گل دوران انٹرویو بے اختیار رو پڑے؟

    ژالہ باری کے بعد شاہراہوں نے سفید چادر اوڑھ لی اور دلکش نظارے دیکھنے میں آئے، تاہم پارکنگ میں کھڑی مختلف گاڑیوں کو بڑے اولے پڑنے سے شدید نقصان پہنچا۔

  • سائنس کی بڑی کامیابی، پانی سے مشابہ برف بنالی

    سائنس کی بڑی کامیابی، پانی سے مشابہ برف بنالی

    سائنس دان برف کی نئی قسم بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو کہ نہ ہی تیر سکتی ہے اور نہ ہی ڈوب سکتی ہے۔

    سائنسدانوں نے برف کی اس نئی قسم کو درمیانی کثافت والی بے شکل برف (میڈیم ڈینسٹی ایمورفس آئس) کا نام دیاہے،انہوں نے کہا کہ اس کی ہیئت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمومی کرسٹل کی شکل والی برف نہیں بلکہ اس کے مالیکیول میں ترتیب کی بے قاعدگی اس کی شکل مائع پانی جیسی کردیتی ہے۔

    سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مشتری جیسے سیاروں سے آنے والی سمندری قوتوں کی وجہ سے عام برف بھی اس طرح کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔

    تجربے کیلئے سائنسدانوں نے ’بال مائننگ‘ نامی ایک عمل کا استعمال کیا جس میں عام برف کو اسٹیل کی گیندوں کے ساتھ ملا کر ایک جار میں ہلایا گیا جو کہ منفی 200 ڈگری تک ٹھنڈا تھا۔

    تجربے کے نتیجے میں بننے والی برف کی شکل بے ساختہ تھی اور مائع حالت میں پانی سے مماثلت رکھتی تھی،اس کو میڈیم ڈینسٹی ایمورفوس آئس (ایم ڈے اے ) کا نام دیا گیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  نظام شمسی میں نئے چاند دریافت، کس سیارے کے چاندوں کی تعداد زیادہ ہوگئی؟

    تجربہ کرنے والی ٹیم کا مزید کہنا ہے کہ ایم ڈی اے بیرونی نظام شمسی کے برفیلے چاندوں کے اندر موجود ہو سکتا ہے۔

    یونیورسٹی کالج لندن سے تعلق کھنے والے سینئر مصنف پروفیسر کرسٹوف سیلزمن کا کہنا تھا کہ پانی زندگی کی بنیاد ہے، ہمارا وجود اس پر انحصار رکھتا ہے، اس کی تلاش کے لیے خلائی مشن روانہ کیے گئے لیکن سائنسی نقطہ نظر سے اس کو صحیح نہیں سمجھا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ سائنس دان برف کی بیس کرسٹل اقسام جانتے ہیں لیکن بے شکل برف کی اب تک صرف دو اقسام ہی معلوم ہوسکی تھیں جن کو زیادہ کثافت اور کم کثافت والی برف کے طور پر جانا جاتا ہے۔

  • روس نے برف توڑنے والا طاقتور بحری جہاز سمندر میں اتار دیا

    روس نے برف توڑنے والا طاقتور بحری جہاز سمندر میں اتار دیا

    ماسکو: روس نے برف توڑنے والے طاقتور بحری جہاز کو سمندر میں اتار دیا، یہ جہاز یوکرین پر پابندیوں کے درمیان توانائی کی نئی منڈیوں کی تلاش میں مدد دے گا۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق روس نے توانائی کی منڈیوں کے لیے ایک نئے آئس بریکر بحری جہاز کو سمندر میں اتار دیا ہے۔

    روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے نیوکلیئر پاور سے چلنے والے ایک نئے آئس بریکر بحری جہاز کو سمندر میں اتارنے کی تقریب میں ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔

    یہ بحری جہاز روس کو آرکٹیکا کو ترقی دینے اور یوکرین پر پابندیوں کے درمیان توانائی کی نئی منڈیوں کی تلاش میں مدد دے گا۔

    ولادی میر پیوٹن نے ویڈیو لنک کے ذریعے یاکوتیا نامی آئس بریکر بحری جہاز کو سمندر میں اتارنے کی تقریب سے خطاب کیا جو سینٹ پیٹرزبرگ میں منعقد کی گئی تھی۔

    روسی صدر کا کہنا تھا کہ یاکوتیا نامی یہ بحری جہاز روس کے لیے اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔

    واضح رہے کہ یاکوتیا نامی یہ بحری جہاز آرکٹیکا کی سمندری برف کو راستے سے ہٹانے کا کام کرے گا جو جوہری طاقت سے چلتا ہے۔

    کریملن کے سربراہ نے روس کی معیشت اور پیداوار میں موجودہ مشکلات کے باوجود یوکرین میں ماسکو کے حملے پر مغربی پابندیوں کے واضح حوالے سے اپنے ملک کے جوہری بیڑے کو تیار کرنے کا عزم کیا۔

    روسی صدر کا کہنا تھا کہ ہم اپنے جوہری آئس بریکر بیڑے کی صلاحیتوں میں اضافہ کریں گے۔

    صدر پیوٹن نے کہا کہ یورال نامی بحری جہاز کے بھی دسمبر میں آپریشنل ہونے کی امید ہے، جبکہ یاکوتیا 2024 کے آخر میں بیڑے میں شامل ہو جائے گا۔

    یہ دونوں بحری جہاز شمال بعید میں انتہائی سخت موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں، ان کی لمبائی 173 میٹر (568 فٹ) ہے اور یہ 2.8 میٹر تک موٹی برف کو توڑ سکتے ہیں۔

    روسی رہنما نے کہا کہ یہ جہاز ماسکو کی ایک عظیم آرکٹک طاقت کے طور پر روس کی حیثیت کو مستحکم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔

    انہوں نے ایک بار پھر نام نہاد شمالی بحری روٹ کو بحری جہازوں کی آمد و رفت کے لیے تیار کرنے کی اہمیت پر زور دیا، جو بحری جہازوں کو روایتی سوئز نہر کے مقابلے میں صرف 15 دن تک ایشیائی بندرگاہوں تک تیزی سے رسائی فراہم کر سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ مشرقی آرکٹک میں موسم سرما میں بحری جہازوں کی آمد و رفت نومبر میں بند ہو جاتی ہے، لیکن ماسکو کو امید ہے کہ برف توڑنے والے بحری جہاز یورال اور یاکوتیا اس راستے کو قابل استعمال بنانے میں مدد کریں گے۔

  • فریزر میں جمی برف کیسے صاف کی جائے؟

    فریزر میں جمی برف کیسے صاف کی جائے؟

    فریزر کے اوپر کے خانے میں برف حد سے زیادہ جم جاتی ہے اور سردیوں میں یہ زیادہ ہوتا ہے۔

    برف جمنے کے بعد اندر رکھا سامان بالکل برف کے اندر چپک جاتا ہے اور پھر آئس پلیٹ سے کھرچ کھرچ کر برف کو نکالا جاتا ہے جس سے فریزر کی پلیٹ میں سوراخ یا نشان ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

    تاہم فریزر میں جمی برف کو نہایت آسانی سے صاف کیا جاسکتا ہے۔

    سب سے پہلے تمام چیزیں فریج سے نکال کر باہر رکھ دیں اوراس کو بند کردیں۔

    فریج میں موجود تمام شیلوز بھی نکال لیں اور انہیں اچھی طرح دھو لیں۔

    5 منٹ تک نمک اور سوڈے کا پانی لگا کر فریج کو بند رہنے دیں۔

    اگر گھر میں ہیئر ڈرائر موجود ہے تو اس سے جمی ہوئی برف پر ہیٹ دیں، ایسا کرنے سے فوری طور پر فریزر سے جمی برف پگھلنے لگے گی۔

    بہت زیادہ برف جمنے کے باعث کچھ حصے سخت ہو جائیں تو پلاسٹک کے چمچ کی مدد سے اکھاڑ سکتے ہیں۔

    جب پوری طرح برف پگھل جائے تو کسی صاف کپڑے کی مدد سے صاف کرلیں۔

    جب یہ تمام کام ہوجائیں تو فریج کو چلا دیں اور ایک پیالے میں 4 چمچ بیکنگ سوڈا ڈال کر فریج میں رکھ دیں۔

    جب فریج کولنگ کرنے لگے تو بیکنگ سوڈا نکال دیں اور سامان رکھ دیں۔

    فریج کو باقاعدگی سے صاف کرتے رہا کریں تاکہ اندر موجود سامان کی خوشبو فریج کے اندر ناگوار مہک نہ پیدا کرے۔

  • شدید گرمی سے ایک اور خطرناک نقصان

    شدید گرمی سے ایک اور خطرناک نقصان

    دنیا بھر میں تیزی سے موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور اس کی وجہ سے زمین کو بے شمار خطرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ کی برفانی چادر پگھلنے سے اس صدی کے اختتام تک عالمی سطح پر سمندروں کی سطح میں لگ بھگ ایک فٹ کا اضافہ ہوسکتا ہے اور ایسا موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہوگا۔

    جرنل نیچر کلائمٹ چینج میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ آنے والے برسوں میں گرین لینڈ کی 3.3 فیصد برفانی چادر پگھل جائے گی جو کہ 110 ٹریلین میٹرک ٹن برف کے برابر ہے۔

    اس برف کے پگھلنے سے 2022 سے 2100 کے درمیان سمندروں کی سطح میں 10 انچ کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسز کا اخراج فوری طور پر روک دیا جائے تو بھی گرین لینڈ کی برف کو پگھلنے سے روکنا اب ممکن نہیں۔

    گرین لینڈ کی برفانی چادر انٹار کٹیکا کے بعد سب سے بڑی ہے اور اس جزیرے کے 80 فیصد حصے پر پھیلی ہوئی ہے۔

    ماضی میں ہونے والے تحقیقی کام میں بتایا گیا تھا کہ اگر گرین لینڈ کی تمام برف پگھل جائے تو عالمی سطح پر سمندروں کی سطح میں 23 فٹ تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے سائنسدانوں نے 2000 سے 2019 تک کے سیٹلائیٹ ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی تھی۔

    انہوں نے گرین لینڈ کی برفانی چادر پگھلنے کی شرح کا اندازہ برفباری کی مقدار سے کیا اور تخمینہ لگایا کہ اس صدی کے اختتام تک 3.3 فیصد برف پگھل جائے گی۔

    ماہرین نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گرین لینڈ میں موسم گرما کا دورانیہ بڑھ گیا ہے جس سے برفانی چادر زیادہ تیزی سے پگھلنے لگی ہے۔

    سمندری سطح میں ایک فٹ کا اضافہ ساحلی علاقوں کے لگ بھگ 20 کروڑ افراد کے بے گھر ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔

  • سانحہ مری: شہریوں نے چندہ کر کے برف صاف کرنے والی مشینوں میں ڈیزل ڈلوایا

    سانحہ مری: شہریوں نے چندہ کر کے برف صاف کرنے والی مشینوں میں ڈیزل ڈلوایا

    اسلام آباد: سانحہ مری کے حوالے سے ایک اور فون کال منظر عام پر آگئی جس سے علم ہوتا ہے کہ برف ہٹانے والی مشینوں میں شہریوں نے خود چندہ کر کے ڈیزل ڈلوایا تاکہ برف صاف ہوسکے۔

    7 اور 8 جنوری کی رات مری میں ہونے والے اندوہناک سانحے کے حوالے سے تاحال انکشافات کا سلسلہ جاری ہے۔

    ایک اور آڈیو کال منظر عام پر آئی ہے جس میں ڈیزل ڈیپو کے عملے کا ایک شخص بتا رہا ہے کہ برف صاف کرنے والی مشینوں میں ڈیزل نہیں ہے اور شہریوں نے چندہ کر کے ڈیزل ڈلوایا ہے۔

    یاد رہے کہ 7 اور 8 جنوری کی درمیانی رات کو برفانی طوفان کے باعث ہزاروں افراد مری کی سڑکوں پر گاڑیوں میں پھنس گئے تھے اور اس دوران 22 افراد جاں بحق ہوگئے۔

    مری میں حادثے کی رات مختلف ہوٹلوں نے ایک کمرے کے لیے اضافی ہزاروں روپے وصول کیے اور اس کے باوجود ہیٹر اور گرم پانی کی سہولیات نہیں دیں، اب تک ایسے 17 ہوٹلوں کو سیل کیا جاچکا ہے۔

    مقامی افراد کے مطابق برفانی طوفان کی رات جب پورا مری ٹریفک کے باعث بلاک تھا اور بچے، بوڑھے اور خواتین گاڑیوں میں پھنسے ہوئے تھے، مقامی افراد نے 15 سو کے قریب افراد کو ریسکیو کیا۔

    اس کے اگلے روز تک بھی انتظامیہ غائب تھی، شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر مقامی افراد برف میں پھنسے لوگوں کو ریسکیو نہ کرتے تو ہلاکتیں 1 ہزار سے اوپر ہوسکتی تھیں۔

  • برف کا گولہ چھت توڑتا ہوا گھر کے اندر آگرا

    برف کا گولہ چھت توڑتا ہوا گھر کے اندر آگرا

    امریکا کی مختلف ریاستوں میں برفباری کا سلسلہ جاری ہے، ریاست نیو جرسی میں ایک خاندان کے ساتھ برفباری کے دوران انوکھا واقعہ پیش آیا۔

    امریکی میڈیا کے مطابق نیو جرسی میں ایک گھر میں اچانک برف کا ایک گولہ چھت توڑتا ہوا گھر کے اندر آگرا جس سے گھر والے خوفزدہ ہوگئے۔

    گھر میں رہائشی کم نامی خاتون کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بیمار بیٹے کو دوا کھلا رہی تھیں جب انہوں نے دوسرے کمرے سے ایک زوردار آواز سنی۔

    انہوں نے کچن میں جا کر دیکھا تو برف کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے جبکہ چھت میں ایک بڑا سا سوراخ تھا۔

    کم کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتیں کہ یہ برف کیسے گری، اب ان کے گھر کے باہر اور چھت پر تو برف موجود ہی ہے، لیکن گھر کے اندر بھی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ واقعے میں خوش قسمتی سے گھر کا کوئی شخص زخمی نہیں ہوا۔

  • آسٹریا کے باشندے نے برف میں دیر تک کھڑے رہنے کا عالمی ریکارڈ توڑ دیا

    آسٹریا کے باشندے نے برف میں دیر تک کھڑے رہنے کا عالمی ریکارڈ توڑ دیا

    میلک: آسٹریا کے شہر میلک میں ایک شخص نے برف میں دیر تک کھڑے رہنے کا عالمی ریکارڈ توڑ دیا۔

    تفصیلات کے مطابق آج آسٹریا کے شہر میلک میں ایک شخص نے برف کے ٹکڑوں سے بھرے ہوئے باکس میں دیر تک کھڑے رہنے کا نیا ریکارڈ قائم کر لیا۔

    یہ ریکارڈ 42 سالہ جوزف کوبرل نے بنایا ہے، جوزف آئس کیوبز سے بھرے باکس میں 2 گھنٹے 30 منٹ اور 57 سیکنڈز تک کھڑا رہنے میں کامیاب رہا، ڈھائی گھنٹے تک قلفی جما دینے والی سردی برداشت کر کے آسٹریائی باشندے نے پچھلا ریکارڈ توڑ ڈالا۔

    جوزف کوبرل نے اس دوران جسم پر صرف تیراکی والا شارٹس پہنا ہوا تھا، آئس باکس میں وہ کندھوں تک برف میں ڈوبا ہوا تھا، جس باکس میں وہ کھڑا تھا وہ بھی شفاف (ٹرانسپیرنٹ) تھا، ریکارڈ بنانے کے دوران جوزف کے ہاتھ سینے پر کراس کی صورت میں رکھے ہوئے تھے۔

    دل چسپ بات ہے کہ جوزف نے جو ریکارڈ توڑا ہے، وہ بھی اسی کا بنایا ہوا تھا، گزشتہ برس وہ 2 گھنٹے، 8 منٹ اور 47 سیکنڈز تک آئس باکس میں کھڑا رہا تھا۔

    ریکارڈ بنانے کے بعد جب جوزف آئس باکس سے باہر نکلا تو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس نے کہا کہ سورج کی گرم روشنی بہت اچھی لگ رہی ہے۔

    دریائے ڈینوب کے کنارے واقع شہر میلک میں دوپہر کے وقت یہ نظارہ دیکھنے کے لیے شہر کے کافی لوگ مرکزی اسکوائر پر جمع ہو گئے تھے۔

    جوزف کوبرل نے بتایا کہ برف میں اتنی دیر کھڑے رہنے کے بعد آپ کے جسم کو جو سب سے پہلی چیز گرم کرتی ہے وہ ہے آپ کے پیر، اس لیے میں ابھی فوراً جرابیں پہنوں گا۔

  • برف کی سل سے چھپکلی برآمد ہو گئی

    برف کی سل سے چھپکلی برآمد ہو گئی

    ظاہر پیر: پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے شہر ظاہر پیر میں ایک برف فیکٹری سے نکلی برف کی سِل سے چھپکلی برآمد ہو گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ظاہر پیر کے علاقے سردار گڑھ میں صفائی ستھرائی کے ناقص انتظام کی بد ترین مثال سامنے آئی ہے، ایک مقامی برف فیکٹری کی سل سے چھپکلی برآمد ہو گئی، جس سے اہل علاقہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

    رپورٹس کے مطابق برف کی سل المدینہ آئس نامی مقامی فیکٹری میں تیار کی گئی تھی، سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیوز بھی گردش کرنے لگی ہیں، اہل علاقہ نے صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے رحیم یار خان فوڈ اتھارٹی سے فیکٹری سیل کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    ظاہر پیر کے علاقے سردار گڑھ میں واقع آئس فیکٹری

    برف کی سل سے چھپکلی برآمد ہونا نہ صرف فیکٹری میں صفائی ستھرائی کے ناقص انتظام کی طرف اشارہ کر رہا ہے بلکہ فیکٹری کے ورکرز کی سنگین غفلت کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے، لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا برف فیکٹری موت بانٹنے لگی ہے۔

    سردار گڑھ اور مضافاتی علاقوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں لیکن فوڈ اتھارٹی کا عملہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔

    علاقہ مکینوں نے مطالبہ کیا کہ اس سے قبل کہ کسی قیمتی جان کا نقصان ہو، ڈی سی رحیم یار اور فوڈ اتھارٹی کے حکام آئس فیکٹری کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے اسے سیل کر دیں۔

  • مشتری ہوشیار باش! وائرسز اور بیماریوں کا پنڈورا بکس کھلنے کو ہے

    مشتری ہوشیار باش! وائرسز اور بیماریوں کا پنڈورا بکس کھلنے کو ہے

    پہلا منظر: یہ سنہ 1901 کی ایک اداس سی شام ہے، دلی کے گلی کوچوں میں ہو کا عالم ہے، لوگ اپنے گھروں میں یوں دبکے پڑے ہیں جیسے نامعلوم سمت سے آتی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ باہر جانا گویا اس موت سے گلے ملنے جیسا ہے۔

    ہندوستان میں پھیلی طاعون کی وبا نے لوگوں کو خوف کے حصار میں جکڑ رکھا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ یہ وبا کتنے لوگوں کو اپنے ساتھ لے جائے گی اور کتنے زندہ بچیں گے۔

    دوسرا منظر: جولائی 2020 کا ایک دن، جب کرونا وائرس نے پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں، اب تک دنیا بھر میں 5 لاکھ سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں جبکہ اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 1 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔

    ایسے میں چین کے خود مختار علاقے منگولیا میں گلٹی دار طاعون کے مصدقہ کیس نے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ حکام نے الرٹ جاری کردیا ہے جس کے تحت اس خطرناک مرض کے پھیلاؤ کا سبب بننے والے جانوروں کے شکار پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

    بیکٹیریا سے پھیلنے والی یہ بیماری ہر صدی میں وقفے وقفے سے ظاہر ہوتی رہی ہے اور عالمی ادارہ صحت نے اسے دوبارہ سر اٹھانے والی بیماری قرار دیا ہے۔


    سنہ 2011 میں رشین اکیڈمی آف سائنس سے منسلک ماہرین نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرارت بڑھنے کا عمل (جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے) جہاں ایک طرف تو زمینی حیات کے لیے کئی خطرات کو جنم دے رہا ہے، وہاں وہ ان جراثیم اور وائرسز کو پھر سے زندہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے جنہوں نے کئی صدیوں قبل لاکھوں کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    یہ تحقیق برفانی خطے آرکٹک میں کی گئی تھی جہاں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ٹنوں برف پگھل رہی تھی، ایسے میں برف کے نیچے دبے صدیوں پرانے وائرس اور جراثیم جلد یا بدیر ظاہر ہونے کے قریب تھے۔

    اس کی ایک مثال اگست 2016 میں دیکھنے میں آئی جب سائبریا کے ایک دور دراز علاقے میں ایک 12 سالہ لڑکا جانوروں کو ہونے والی ایک بیماری انتھراکس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا جبکہ 20 کے قریب افراد اس مرض کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ گئے۔

    ماہرین نے جب اس وبا کے اچانک پھیلاؤ کے عوامل پر تحقیق کی تو انہیں علم ہوا کہ تقریباً 75 سال قبل اس مرض سے متاثر ایک بارہ سنگھا اسی مقام پر ہلاک ہوگیا تھا۔

    سال گزرتے گئے اور بارہ سنگھے کے مردہ جسم پر منوں برف کی تہہ جمتی گئی، لیکن سنہ 2016 میں جب گرمی کی شدید لہر یعنی ہیٹ ویو نے سائبریا کے برفانی خطے کو متاثر کیا اور برف پگھلنا شروع ہوئی تو برف میں دبے ہوئے اس بارہ سنگھے کی باقیات ظاہر ہوگئیں اور اس میں تاحال موجود بیماری کا وائرس پھر سے فعال ہوگیا۔

    اس وائرس نے قریب موجود فراہمی آب کے ذرائع اور گھاس پر اپنا ڈیرا جمایا جس سے وہاں چرنے کے لیے آنے والے 2 ہزار کے قریب بارہ سنگھے بھی اس بیماری کا شکار ہوگئے۔

    بعد ازاں اس وائرس نے محدود طور پر انسانوں کو بھی متاثر کیا جن میں سے ایک 12 سالہ لڑکا اس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا۔

    یہ صرف ایک مثال تھی، ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت بڑھنے کے باعث جیسے جیسے زمین کے مختلف مقامات کی برف پگھلتی جائے گی، ویسے ویسے مزید مہلک اور خطرناک بیماریاں پیدا کرنے والے وائرسز پھر سے نمودار ہو جائیں گے۔

    یہاں یہ یاد رہے کہ برف میں جم جانے سے کوئی جسم بغیر کسی نقصان کے صدیوں تک اسی حالت میں موجود رہ سکتا ہے، جبکہ اس طرح جم جانا کسی وائرس یا بیکٹیریا کے لیے بہترین صورتحال ہے کیونکہ وہاں آکسیجن نہیں ہوتی اور ماحول سرد اور اندھیرا ہوتا ہے چنانچہ اس طرح وہ لاکھوں سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ لاکھوں سال پرانے وائرس اور جراثیم، جن کے نام بھی ہم نہ جانتے ہوں گے، ہم پر پھر سے حملہ آور ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پرانے زمانوں میں سرد علاقوں میں رہنے والے لوگ وبائی امراض کا شکار اپنے پیاروں اور جانوروں کو برف کے نیچے دفن کردیتے تھے، ہم نہیں جانتے کہ ہزاروں سال پہلے کس دور میں، کس وائرس نے انسانوں پر حملہ کیا اور انہیں کن امراض کا شکار بنایا۔

    چنانچہ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس ڈھیروں برف کے نیچے کیا کیا ہے جو ہمارے لیے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے؟

    وائرس کو جگانے کے تجربات

    اگر برف کے نیچے دبے ہوئے ہزاروں لاکھوں سال قدیم وائرس اور جراثیم پھر سے زندہ ہوگئے تو وہ کس حد تک فعال ہوں گے؟ آیا وہ پہلے کی نسبت کمزور ہوچکے ہوں گے یا پھر ماحول کے مطابق خود کو مزید طاقتور بنا لیں گے؟

    یہ جاننے کے لیے دنیا بھر کے ماہرین وائرسز پر مختلف تجربات کر چکے ہیں۔

    سنہ 2014 میں ایک تجربے کے تحت امریکی ماہرین برف میں دبے 30 ہزار سال قدیم ایسے وائرس کو جگانے میں کامیاب رہے جس کی خاص بات یہ تھی کہ عام وائرسز کے برعکس یہ اتنا بڑا تھا کہ ایک عام مائیکرو اسکوپ سے دیکھا جاسکتا تھا۔

    ماہرین نے دیکھا کہ جیسے ہی وائرس حیات نو حاصل کرتا ہے، وہ اسی لمحے سے فعال ہوجاتا ہے اور خود کو ملٹی پلائی کرنا شروع کردیتا ہے۔ اپنی نئی زندگی کے اگلے لمحے سے ہی وہ اپنے میزبان (انسان یا جانور) کو بیماری کا شکار بنا دینے کے قابل ہوتا ہے۔

    سنہ 2005 میں امریکی خلائی ادارے ناسا کی لیبارٹری میں الاسکا کی برفوں میں دبے ایسے جرثوموں کو جگایا گیا جو اندازاً اس وقت فعال تھے جب زمین پر فیل پیکر (میمتھ) رہا کرتے تھے۔ ہاتھی جیسے قوی الجثہ یہ جانور اب سے 1 لاکھ 20 ہزار سال قبل موجود تھے اور ان کی آخری نسل اب سے 4 ہزار سال قبل تک موجود رہی۔

    فیل پیکر

    اس کے 2 سال بعد یعنی سنہ 2007 میں انہی سائنسدانوں نے 80 لاکھ سال قدیم ایسے جراثیم کو حیات نو دی جو انٹارکٹیکا کے گلیشیئرز میں دبے ہوئے تھے۔ جس برف سے ان جراثیم کو حاصل کیا گیا وہ برف بھی 1 لاکھ سال قدیم تھی۔

    فروری 2017 میں ناسا کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمالی میکسیکو میں کرسٹل کے ایک غار میں انہیں 10 سے 50 ہزار سال قدیم جرثومے ملے ہیں۔

    شمالی میکسیکو کا غار

    یہ جرثومے کرسٹل کے اندر موجود اس کے مائع میں تھے تاہم جیسے ہی انہیں مائع سے الگ کیا گیا اور انہیں سازگار ماحول ملا، یہ خود کو ضرب دینا شروع ہوگئے۔ یہ غار ایسا تھا جہاں ہزاروں سال سے سورج کی روشنی نہیں پہنچی تھی، چناچہ یہ جرثومے جوں کے توں موجود رہے۔

    بیماریوں کا پنڈورا بکس

    فرنچ نیشنل ریسرچ سینٹر سے تعلق رکھنے والے جین مائیکل کلیویئر کا کہنا ہے کہ برفانی خطے میں بسنے والے اولین انسان (جن کی زندگی کے قدیم ترین معلوم آثار 30 سے 40 ہزار سال قدیم ہیں) بھی جن وائرسز سے متاثر ہوئے، وہ وائرس اب بھی وہیں برف میں موجود ہوسکتے ہیں اور اگر یہی صورتحال رہی تو وہ قدیم وائرس بھی زندہ ہوسکتے ہیں۔

    وہ کہتے ہیں کہ یہ کہنا کہ فلاں وائرس زمین سے ختم ہوچکا، ایک گمراہ کن بات ہے اور یہ گمراہ کن بیان ہمیں ایک جھوٹا احساس تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    مائیکل کلیویئر کے مطابق صرف ایک کلائمٹ چینج ہی نہیں، کان کنی اور تیل و گیس کی تلاش کے لیے زمین میں کی جانے والی گہری کھدائیاں بھی سوئے ہوئے جراثیم کو پھر سے سطح پر لا کر انہیں جگا سکتی ہیں۔ البتہ گلوبل وارمنگ کا مستقل عمل مختلف بیماریوں کا پنڈورا بکس کھول دے گا۔

    کرونا وائرس سے نڈھال پاکستان کی حکمت عملی کیا ہوگی؟

    پاکستان واٹر پارٹنر شپ پروگرام سے منسلک کلائمٹ چینج سائنٹسٹ ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وبا کو سائنسی طریقے سے ڈیل کیا جارہا ہے جبکہ پاکستان میں اسے سیاسی بنا دیا گیا ہے۔

    ڈاکٹر پرویز امیر کے مطابق جب ہم آگے آنے والے خطرات کو دیکھتے ہیں تو پھر اس بات کی ضرورت کو محسوس کرلینا چاہیئے کہ ہمیں سائنسی شعبے میں اپنی رفتار کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

    ان کے مطابق کاربن اخراج کو کم کرنا اور ایسے ماحول دوست اقدامات اٹھانا جن سے کلائمٹ چینج اور اس کے اثرات میں کمی ہو، یہ تو طویل المدتی منصوبے ہیں تاہم تب تک ان خطرات کی مانیٹرنگ ضروری ہے۔

    ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا تھا کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پرانے وائرسز کے جاگنے کا خطرہ ہے، وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہاں سائنسی بنیادوں پر سخت نگرانی اور ریسرچ کی جائے تاکہ کسی ممکنہ خطرے کو ابتدا میں ہی پکڑا جاسکے اور اس کا سدباب کیا جاسکے۔

    انہوں نے کہا کہ پرانے وائرسز کے جاگنے سے صرف انسان ہی متاثر نہیں ہوں گے، بلکہ یہ ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو ہمارے آبی ذخائر کو متاثر کریں، ہماری نباتات کو نقصان پہنچائیں یا پھر ہمارے مویشیوں کے لیے خطرہ ثابت ہوں۔ ایسے میں لائیو اسٹاک اور ماہی گیری سے منسلک پاکستان کی ایک بڑی آبادی خطرے میں ہوگی بلکہ ہمارے پانی کے ذخائر بھی غیر محفوظ ہوں گے۔

    ڈاکٹر پرویز امیر کا مزید کہنا تھا کہ ایسی وباؤں کے دور میں ماہرین طب اور سائنسدانوں کی تجاویز کو ترجیح دے کر اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، مذکورہ بالا منظر نامے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک میں میڈیکل سائنس اور ماحولیات کا شعبہ مشترکہ طور پر سائنسی بنیادوں پر کام کرے اور اس طرح کے خطرات سے نمٹنے کی تیاری کرے۔