Tag: برفانی لومڑی

  • طاقتور بننے کے لیے لومڑی کے ننھے بچوں کی لڑائی

    طاقتور بننے کے لیے لومڑی کے ننھے بچوں کی لڑائی

    سرد علاقوں میں پائی جانے والی برفانی لومڑی کے ننھے منے بچے اپنے والدین کے زیر نگرانی اپنے بھٹ سے نکل آئے، ان بچوں کو اگر زندہ رہنا ہے تو آپس میں لڑ کر اپنی طاقت میں اضاف کرنا ہوگا۔

    برفانی لومڑی آرکٹک، الاسکا، کینیڈا، گرین لینڈ، روس، اور اسکینڈے نیوین ممالک کے برفانی حصوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ سفید، بھورے اور سیاہ رنگ کی ہوتی ہیں۔

    یہ لومڑی اپنے نرم و ملائم فر کی وجہ سے بے حد مشہور ہے اور اکثر اوقات ان لومڑیوں کو فر کے حصول کے لیے شکار کیا جاتا ہے جس کی داستان نہایت لرزہ خیز ہے۔

    لومڑی کے ننھے بچوں کی جسامت بلی کے جتنی ہوتی ہے، یہ بچے آپس میں لڑنے کا کھیل کھیلتے ہیں جس سے ایک تو ان کی طاقت اور قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے، دوسرا یہ تعین کرتا ہے کہ کون زیادہ طاقتور ہے جو بڑا ہو کر غول کی سربراہی کرے گا۔

    اس دوران نر لومڑی ان کی نگرانی کرتا ہے جبکہ مادہ لومڑی خوراک کی تلاش میں نکلتی ہے، یہ زیادہ تر پہاڑوں کے آس پاس اڑنے والے پرندوں کا شکار کرتی ہے۔

    سردیوں کے موسم میں ان لومڑیوں کو شکار کے لیے خاصے مشکل مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے، چونکہ ان لومڑیوں کی زندگی کا انحصار لڑائی بھڑائی اور شکار پر ہے لہٰذا ننھے بچے بچپن سے ہی اس کی تربیت پانا شروع کردیتے ہیں۔

  • برفانی لومڑی نے 3506 کلو میٹر کافاصلہ 76 روز میں طے  کرلیا، سائنسدان حیران

    برفانی لومڑی نے 3506 کلو میٹر کافاصلہ 76 روز میں طے کرلیا، سائنسدان حیران

    ٹورنٹو : برفانی لومڑی نے 3506 کلو میٹر کافاصلہ 76 روز میں طے کر کے سائنسدانوں کو حیران کر دیا، سائنسدانوں نے گزشتہ سال مارچ سوالبر کے جزیرے سپٹس برگن میں آزاد چھوڑا تھا، لومڑی کے سفر کا جائزہ لینے کیلئے اس پر جی پی ایس ٹریکر لگایا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق کینیڈا سے ایک حیران کن خبر سامنے آئی ہے، برفانی لومڑی نے ناروے سے کینیڈا تک 3506 کلو میٹر کا فاصلہ حیران کن طور پر صرف 76 دن میں طے کیا، لومڑی کے سفر پر سائنسدان حیران اور پریشان رہ گئے۔

    ناروے کے پولر انسٹیٹیوٹ میں موجود محقیقین نے لومڑی کے سفر کا جائزہ لینے کیلئے اس پر جی پی ایس ٹریکر لگایا تھا۔

    سائنسدانوں نے گزشتہ سال مارچ سوالبر کے جزیرے سپٹس برگن میں آزاد چھوڑا تھا، جب خوراک کی تلاش میں لومڑی مغرب کی جانب نکلی تب عمر ایک برس سے بھی کم تھی۔ اس نے گرین لینڈ کا 1512 کلومیٹر طویل سفر حیران کن طور پر 21 دنوں میں طے کیا اور اس کے فوراً بعد برفیلے علاقے میں پیدل چلتے ہوئے دوسرا حصہ شروع کر دیا۔

    خبر رساں ادارے کے مطابق جب یہ لومڑی سوالبر سے روانہ ہوئی تو سائنس دانوں نے 76 دن بعد کینیڈا کے ایلزمیر جزیرے پر پایا، لومڑی نے 3500 کلومیٹر کا سفر برف پر پیدل چل کر طے کیا تھا۔ فاصلے کی لمبائی سے زیادہ ماہرین لومڑی کی رفتار سے متاثر تھے۔

    سائنس دانوں کے اندازے کے مطابق لومڑی دن میں اوسطاً 46 کلومیٹر چلتی تھی اور بعض دنوں میں اوسطاً 155 کلومیٹر فاصلہ بھی طے کیا، ایوا فگلی نارویگن انسٹیٹیوٹ فار نیچر ریسرچ کے ارناڈ ٹیرکس کیساتھ ملکر کام کر رہی ہیں تاکہ پتا چلایا جاسکے کہ لومڑیاں قطبِ شمالی میں موسم کی تبدیلیوں کا سامنا کیسے کرتی ہیں۔

    انہوں نے ناروے کے سرکاری چینل کو بتایا کہ ہم شروع میں اپنے آنکھوں پر یقین نہیں کر رہے تھے، ہمیں لگا کہ لومڑی مر گئی ہوگی یا اسے کسی نے کشتی پر لاد دیا ہوگا لیکن مذکورہ علاقے میں کوئی بھی کشتی نہیں تھی جس پر سب ششدر رہ گئے، اس سے پہلے کسی لومڑی کو اتنا طویل سفر اتنی تیزی سے طے کرتے ہوئے ریکارڈ نہیں کیا گیا۔

    ایوا فگلی نے بتایا کہ گرمیوں میں کافی خوراک ہوتی ہے لیکن سردیوں میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں، اسی دوران برفانی لومڑی خوراک کی تلاش اور بقا کیلئے دوسرے علاقوں میں منتقل ہو جاتی ہے، لیکن مخصوص لومڑی نے ہماری تحقیق کا حصہ بنی دوسری لومڑیوں کے مقابلے میں کافی زیادہ سفر طے کرلیا ہے، یہاں سے اس چھوٹی سی مخلوق کی غیر معمولی صلاحیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

  • سفید لومڑی کے شکار کرنے کے دلچسپ انداز

    سفید لومڑی کے شکار کرنے کے دلچسپ انداز

    لومڑی اپنی چالاکی و عیاری کے لیے بے حد مشہور ہے، جب بھی عیاری کی مثال دینی ہو تو لومڑی کا نام لیا جاتا ہے۔

    تاہم شکلاً لومڑی نہایت بھولی بھالی سی نظر آتی ہے۔ خصوصاً لومڑی کی ایک نسل برفانی یا سفید لومڑی تو نہایت ہی خوبصورت، نرم و ملائم گھنے بالوں کی حامل اور معصوم سی لگتی ہے۔

    یہ لومڑی برفانی علاقوں کی رہنے والی ہے۔ برفیلی زمین پر یہ اپنے سفید بالوں کی وجہ سے خود کو باآسانی چھپا لیتی ہے اور یوں شکار ہونے سے محفوظ رہتی ہے۔

    یہ اپنے نرم و ملائم فر کی وجہ سے بھی بے حد مشہور ہے اور اکثر اوقات ان لومڑیوں کو فر کے حصول کے لیے شکار کیا جاتا ہے جس کی داستان نہایت لرزہ خیز ہے۔

    کیا آپ جانتے ہیں یہ خوبصورت سی لومڑی برفانی علاقوں میں اپنا شکار کیسے کرتی ہے؟

    برف کے نیچے مختلف آبی و زمینی حیات موجود ہوتے ہیں جو اس لومڑی کی خوراک ہوتے ہیں، انہیں ڈھونڈنے کے لیے اسے بے حد محنت کرنی پڑتی ہے۔

    وہ پہلے اندازہ لگاتی ہے کہ برف کے کس حصے کے نیچے شکار موجود ہوسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ننھی لومڑیاں معدومی کے خطرے سے باہر

    اس کے لیے وہ برف کے اوپر اچھلتی ہے، اس دوران وہ برف کے گہرے گڑھے میں پھنس جاتی ہے، کبھی کہیں سخت برف ہو تو اس سے بری طرح ٹکرا جاتی ہے۔

    اس طرح کی کئی کوششوں کے بعد بالآخر لومڑی اپنا شکار تلاش کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔

    بی بی سی ارتھ نے لومڑی کی اس جدوجہد کو عکس بند کیا جو آپ کو نہایت دلچسپ معلوم ہوگی۔

  • جدید ٹیکنالوجی سے جانوروں پر ظلم کے نئے طریقے دریافت

    جدید ٹیکنالوجی سے جانوروں پر ظلم کے نئے طریقے دریافت

    ذرا اس تصویر کو غور سے دیکھیئے۔

    یہ آپ کو کون سا جانور لگتا ہے؟ شاید اسے کوئی بیماری ہے، بیمار سا لگ رہا ہے، آنکھوں میں بھی بے بسی کے تاثرات ہیں۔

    یہ جانور برفانی لومڑی یا آرکٹک فاکس کہلاتا ہے۔ کیا آپ اس کی اصل تصاویر دیکھنا چاہیں گے؟ ذرا دیکھیئے۔

    اور اب اس بیمار لومڑی کی مکمل حالت ملاحظہ فرمائیں۔

    کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اس معصوم اور بے ضرر جانور کی یہ حالت کس نے اور کیوں کی؟ یقیناً جاننا چاہیں گے۔

    دعا دیجیئے ہماری جدید ٹیکنالوجی اور جدید تعلیم کو، جس نے حضرت انسان کو اپنے فائدے کے لیے جانوروں پر ظلم کے ایسے ایسے طریقے دریافت کروا دیے، کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

    دراصل اس لومڑی میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے جینیاتی تبدیلیاں کردی گئی ہیں، چنانچہ اس کے جسم پر موجود فر میں اضافہ ہوگیا جو عمر کے ساتھ ساتھ مزید جاری ہے۔

    اس اضافی فر نے ایک طرف تو اس جانور کو بد ہیئت بنا دیا، دوسری جانب اسے بے انتہا جسمانی تکلیف میں بھی مبتلا کردیا۔ غیر فطری تبدیلیوں سے گزرنے والی حیات یقیناً کسی صورت صحت مند نہیں رہ سکتی۔

    یہ کام یورپی ملک فن لینڈ میں سر انجام دیا گیا جہاں اس نرم فر کی خرید و فروخت نہایت منافع بخش صنعت ہے اور ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    جانوروں کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے چھپ کر ان کی ویڈیو بنائی جس کے بعد یہ لرزہ خیز ظلم سامنے آیا۔

    فن لینڈ یورپ میں فر کا سب سے بڑا پیداوار کنندہ ہے اور سنہ 2014 میں اس فر کے حصول کے لیے 18 لاکھ سے زائد لومڑیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

    گو کہ مختلف ممالک میں مختلف تنظیمیں فر کی مصنوعات خصوصاً لباسوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان خوبصورت لومڑیوں کا قتل عام رکوانے کی کوششیں کر رہی ہیں، تاہم یورپ کے کئی ممالک میں یہ کام قانونی یا غیر قانونی طور پر جاری ہے۔

    برطانیہ میں سنہ 2010 میں ان لومڑیوں کی اس ظالمانہ فارمنگ پر پابندی عائد کردی گئی، تاہم بیرون ملک سے فر کی درآمد تاحال جاری ہے۔

    تنظیم کے مطابق ایک عام آرکٹک لومڑی جو 3 سے 4 کلو وزنی ہوتی ہے، جینیاتی تبدیلی کے بعد اضافی فر کی وجہ سے 20 کلو وزنی ہوجاتی ہے۔

    یہ لومڑی اس قدر وزن اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی، چنانچہ اسے سانس لینے اور دیکھنے میں تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے نازک پاؤں بھی اس کا بوجھ اٹھانے سے انکاری ہوجاتے ہیں جس کے باعث یہ بہت کم اپنی جگہ سے حرکت کر پاتی ہے۔

    جینیاتی تبدیلیوں کرنے کے بعد لومڑی کی 3 سال تک اذیت ناک پرورش کرنے کے بعد بجلی کے کرنٹ کے ذریعے اس کے منہ یا بڑی آنت کے نچلے حصے (جہاں سے فضلے کا اخراج ہوتا ہے) سے ایک ہی جھٹکے میں سارا فر کھینچ لیا جاتا ہے تاکہ فر بے داغ رہے اور اس پر کوئی خراش نہ آئے۔

    اس لرزہ خیز اور درد ناک ظلم کی داستان سننے کے بعد کیا آپ کو اپنے انسان ہونے پر شرمندگی تو محسوس نہیں ہو رہی؟

    تصاویر بشکریہ: ڈیلی میل