Tag: برف پوش پہاڑوں

  • کوہستان کے برف پوش پہاڑوں سے 28 سال بعد لاش صحیح سلامت مل گئی

    کوہستان کے برف پوش پہاڑوں سے 28 سال بعد لاش صحیح سلامت مل گئی

    چلاس (4 اگست 2025): کوہستان کے برف پوش پہاڑوں سے 28 سال سے لاپتہ  نصیر نامی شخص کی لاش صحیح سالم حالت میں مل گئی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق گلگت بلتستان میں چلاس کے علاقے میں کوہستان کے برف پوش پہاڑوں سے 28 سال بعد ایک شخص کی لاش ملی ہے جو طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بالکل درست حالت میں ہے۔

    یہ لاش لیڈی پالس کے گلیشیئر سے برآمد ہوئی ہے۔ لاش کی شناخت نصیر الدین کے نام اس کی جیب سے ملنے والے شناختی کارڈ سے ممکن ہوئی۔

    شناختی کارڈ کے مطابق مذکورہ شخص کا نام نصیر الدین ہے جو پلاس سے 1997 میں کوہستان کی سپت وادی میں سفر کے دوران برفانی طوفان کے دوران لاپتہ ہو گیا تھا۔ مذکورہ شخص کی بڑے پیمانے پر تلاش کی گئی لیکن نہ اس کا پتہ چل سکا اور نہ ہی اس کا گھوڑا ملا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق 28 سال سے لاپتہ نصیر الدین کی لاش مقامی شخص عمر خان اور اس کے دوستوں کو گلیشیئرز اور پہاڑوں کی سیر کے دوران اچانک دکھائی دی۔

    عمر خان کے مطابق لاش بالکل صحیح سلامت تھی، کپڑے بھی پھٹے ہوئے نہیں تھے جب کہ تلاشی لینے پر لاش کے کپڑوں میں جیب سے شناختی کارڈ ملا جس پر نام نصیر الدین درج تھا۔

    نصیر الدین کی لاش ملنے کے بارے میں کوائی پالس کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر امجد حسین نے بتایا ہے کہ یہ 28 سال پرانا ’واقعہ ہے‘ جس میں بظاہر ایک شخص گلیشیئر میں گِر گیا تھا۔ لواحقین کی جانب سے نصیر الدین کی گمشدگی سے متعلق کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی گئی تھی اس لیے پولیس نے انکوائری مکمل کر کے اس وقت بند کر دی تھی۔

    عمر خان کے مطابق جب لاش کی جیب سے نصیر الدین کا شناختی کارڈ نکلا تو میرے ساتھ موجود لوگوں کو فوراً نصیر الدین اور اس کے خاندان کی کہانی یاد آ گئی جنھوں نے (خاندانی) دشمنی کی بنا پر پالس چھوڑا تھا اور پھر اس گلیشیئر میں لاپتہ ہو گئے تھے۔‘

    عمر خان نے بتایا کہ ممکنہ طور پر نصیر الدین اس گلیشیئر یا غار میں پھنسے ہوں گے تو اس کے بعد ’وہ چند منٹ ہی زندہ رہ سکے ہوں گے۔ انہیں عمر خان کی لاش کے ساتھ گھوڑے کی باقیات نہیں ملیں۔ ہم نے ان کی لاش امانتاً یہیں دفن کر دی ہے، اگر نہ کرتے تو ممکنہ طور پر اس کے خراب ہونے کا خدشہ تھا۔

    انہوں نے بتایا کہ لاش کو امانتاً دفنانے کے بعد انہوں نے ایک دن کا پیدل سفر کر کے ایسے علاقے تک رسائی حاصل کی جہاں پر موبائل سگنل موجود تھے جس کے بعد انھوں نے ‘نصیر الدین کے رشتہ داروں کے فون نمبر حاصل کر کے انہیں لاش ملنے کی اطلاع دی۔

    دوسری جانب لاش ملنے کی اطلاع پر متوفی نصیر الدین کے بھائی کثیر الدین بلیدی کی طرف روانہ ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ وہاں جا کر فیصلہ کریں گے کہ بھائی کی لاش کو ادھر ہی دفن رہنے دیا جائے یا اس کو واپس لایا جائے۔ لاش لانے کا فیصلہ بھی اس بنیاد پر ہوگا کہ ہمارے دشمن بھائی کی لاش کو پالس کے اندر دفن کرنے کی اجازت دیتے بھی ہیں یا نہیں۔

    نصیر الدین کیسے لاپتہ ہوئے تھے؟

    کثیر الدین نے بھائی نصیر الدین کے لاپتہ ہونے سے متعلق بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ خاندانی دشمنی کی بنا پر وہ اور بھائی کوہستان میں اپنا علاقہ پالس چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے جب کہ بھائی کی اس وقت بیوی اور دو بچے تھے۔

    کثیر الدین کے مطابق وہ اور نصیر الدین الائی سے کوہستان کی سپیٹ ویلی آئے تھے جہاں سے انھوں نے تجارت کے لیے گھوڑے خریدے تھے اور ان گھوڑوں کو واپس الائی پہنچانا تھا۔ دونوں بھائی کوہستال سے مال مویشی اور گھوڑے لا کر الائی میں فروخت کرتے تھے جہاں ان کی ’بہت طلب ہوتی تھی۔

    نصیر الدین کے چھوٹے بھائی کثیر الدین نے بی بی سی کو بتایا کہ جون 1997 میں وہ اور ان کے بھائی نصیر الدین کوہستان کی سپیٹ ویلی کا سفر کر رہے تھے اور واپسی کے لیے خاندانی دشمنی کے باعث انھوں نے ایک الگ راستے کا انتخاب کیا۔ ہم گھوڑوں پر سفر کر رہے تھے۔

    کثیر الدین نے بتایا کہ لیدی ویلی پر دوپہر کے سفر کے دوران نصیر الدین گھوڑے پر سوار تھے اور وہ پیدل چل رہے تھے۔ ’جب ہم بالکل اوپر پہنچ گئے تو اچانک فائرنگ کی آواز سنی۔

    متوفی نصیر الدین کے بھائی کے مطابق دشمن کی جانب سے فائرنگ کے خدشہ کے پیش نظر نصیر الدین ایک غار میں چلے گئے۔ میں واپس مڑا اور اس مقام پر پہنچا جہاں پر میں نے دیکھا کہ بھائی غار کے اندر گیا تھا تو وہاں کچھ نہیں تھا۔ میں نے تھوڑا سا برف کے غار کے اندر جا کر بھی دیکھا مگر کچھ بھی نہیں تھا۔

    کثیر الدین کے بقول انھوں نے کافی عرصے تک دیگر لوگوں کی مدد سے بھی وہاں اپنے بھائی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہے تھے۔ لہذا انھوں نے خاندان کے مشورے پر ’گلیشیئر پر ہی نصیر الدین کی نماز جنازہ ادا کر دی تھی۔

    دوسری جانب تقریباً تین دہائی تک انسانی لاش محفوظ رہنے پر کامسیٹس یونیورسٹی ایبٹ آباد کے شعبہ ماحولیات کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد بلال نے اس کی سائنسی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ جب کوئی جسم گلیشیئر میں داخل ہوتا ہے تو وہاں کا شدید سرد درجہ حرارت اسے بہت تیزی سے منجمد کر دیتا ہے اور یہ عمل جسم کو گلنے سڑنے سے روک دیتا ہے۔