Tag: برف

  • سیکڑوں دیہات برف سے ڈھک  گئے

    سیکڑوں دیہات برف سے ڈھک گئے

    اسکردو: بلتستان میں شدید برف باری سے نظام زندگی بدستور مفلوج ہے، سیکڑوں دیہات برف سے پوری طرح ڈھک چکے ہیں، زمینی رابطے معطل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے گلگت بلتستان ریجن میں سیکڑوں دیہات کو برف کی دبیز چادر نے ڈھک دیا ہے، شدید ترین برف باری کے باعث شہری علاقوں میں بھی ٹرانسپورٹ معطل ہے، خوب صورت ترین سیاحتی شہر اسکردو میں رن وے کلیئر نہ ہونے کے باعث فضائی سروس بھی بحال نہ ہو سکی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق اسلام آباد اور اسکردو کے درمیان 11 جنوری سے پروازیں معطل ہیں، گلگت اسکردو روڈ سے برفانی تودے اور لینڈ سلائیڈنگ ہٹا دی گئی ہے اور شاہراہ بحال ہو گئی ہے۔

    محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ اسکردو کا درجہ حرارت منفی 10 ریکارڈ کیا گیا، جب کہ بالائی علاقوں میں درجہ حرارت منفی 20 رہا، خون جما دینے والی سردی لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں، دوسری طرف جی بی ڈی ایم اے نے خبردار کیا ہے کہ دھوپ نکلنے سے برفانی تودے گرنے کا عمل تیز ہوگا، اس لیے بالائی علاقوں کے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔

    ادھر این ڈی ایم اے نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ برف باری اور بارش کے باعث نقصانات بڑھتے جا رہے ہیں، مختلف حادثات میں جاں بحق افراد کی تعداد 104 ہو گئی ہے، جب کہ 96 زخمی ہیں، بلوچستان میں برف باری سے 20 افراد جاں بحق ہوئے، کے پی میں 5 جب کہ آزاد کشمیر میں جاں بحق افراد کی تعداد 77 ہو گئی ہے، گلگت بلتستان میں 2 افراد جاں بحق ہوئے۔

    رپورٹ کے مطابق 236 مکانات کو بھی برف باری سے نقصان پہنچا، کے پی، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں رابطہ سڑکیں متاثر ہو چکی ہیں، متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ٹیمیں فیلڈ میں مصروف عمل ہیں، 2000 ٹینٹ، 1250 کمبل اور 2250 دیگر اشیا متاثرین تک پہنچائی جا چکی ہیں۔

  • سخت سردی میں جھیل میں کیا دکھائی دینے لگا؟

    سخت سردی میں جھیل میں کیا دکھائی دینے لگا؟

    موسم سرما میں آسمان سے گرتے برف کے گالے جہاں ایک طرف تو ٹھنڈ میں اضافہ کردیتے ہیں وہیں ہر شے کو برف کردیتے ہیں۔

    ایسا ہی کچھ حال دریاؤں اور جھیلوں کا بھی ہوجاتا ہے جن کا پانی جم کر برف بن جاتا ہے اور جمی ہوئی جھیلیں نہایت سحر انگیز منظر پیش کرتی ہیں۔

    منفی 35 ڈگری سینٹی گریڈ میں چین کے شہر موہا میں بھی ایک جھیل نہ صرف جم گئی بلکہ اس کے اندر موجود گیسیں بھی منجمد ہوکر انوکھا نظارہ پیش کرنے لگیں۔

    منجمد جھیل کے اندر ایک کے اوپر ایک چھوٹے بڑے جمے ہوئے میتھین گیس کے بلبلوں نے تجریدی آرٹ کے نمونے تخلیق کردیے۔

    یہ جمے ہوئے بلبلے جھیل کے اندر 60 میٹر گہرائی تک میں ایک کے اوپر ایک قطار بنائے چلے گئے ہیں۔ جھیل کا انوکھا نظارہ دیکھنے کے لیے دور دور سے سیاح اور مقامی افراد آنے لگے۔

  • کیا آپ نے برفانی سونامی کے بارے میں سنا ہے؟

    کیا آپ نے برفانی سونامی کے بارے میں سنا ہے؟

    ہماری زمین پر موجود برفانی علاقے اپنے علیحدہ جغرافیائی عوامل اور مظاہر رکھتے ہیں جو کم ہی دنیا کی سامنے آتے ہیں۔ ان ہی میں اسے ایک برف کا سونامی بھی ہے۔

    ہم نے اب تک سونامی کے بارے میں سنا ہے جو نہایت خوفناک قسم کا سیلاب ہے، یہ اپنی راہ میں آنے والی ہر شے کو بہا کر لے جاتا ہے اور میلوں تک تباہی و بربادی کی داستان چھوڑ دیتا ہے۔

    برفانی سونامی بھی کچھ ایسی ہی خصوصیات رکھتا ہے تاہم یہ کم رونما ہوتا ہے اور اس کے آگے بڑھنے کا دائرہ کار بھی کم ہوتا ہے۔

    برف کا سونامی اس وقت آسکتا ہے جب تیز ہوائیں چل رہی ہوں یا برفانی سمندر کے کرنٹ میں تبدیلی پیدا ہو۔ اس وقت سمندر پر موجود برف کے بڑے بڑے تودے تیزی سے ساحل کی طرف آنے لگتے ہیں۔

    برف تیزی سے زمین سے ٹکراتی ہے اور آگے بڑھتی چلی جاتی ہے، اس دوران اس کا دباؤ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ یہ سونامی اپنے راستے میں آنے والی چیزوں کو باآسانی تباہ کرسکتا ہے۔

    یہ سونامی ساحل پر برف کی 12 میٹر تک بلند دیواریں کھڑی کرسکتا ہے۔ برف کا یہ سونامی عموماً سخت سردی کے دوران آسکتا ہے جب تیز ہوائیں یا معمول سے زیادہ برف باری موسم کی شدت میں اضافہ کردیں۔

    برفانی سمندر کے علاوہ یہ ان علاقوں میں بھی رونما ہوسکتا ہے جہاں موسم سرما کے دوران شدید برف باری ہوتی ہو اور دریا اور سمندر برف بن جاتے ہوں۔

    زیر نظر ویڈیوز رواں برس موسم سرما کی ہیں جب یہ انوکھا منظر برفانی علاقوں کے شہریوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

  • اورحان پامک منزل ہے، باقی سب راستہ ہے

    اورحان پامک منزل ہے، باقی سب راستہ ہے

    قصبہ برف باری کی لپیٹ میں‌ ہے، رابطے منقطع، راستے منجمد ہوئے۔ اور  یہاں، قارص نامی قصبے میں ہمارا شاعر، جو عشق سے سرشار ہے، ایک طویل عرصے بعد ایک الوہی اطمینان کے ساتھ نظمیں‌ کہنے لگا ہے.

    ہمارا جلا وطن ترک شاعر، ہمارا پیارا "قا”، جرمنی سے اپنے وطن لوٹتا ہے، تو ترکی کے ایک دور افتادہ، تباہ حال، برف سے ڈھکے، انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں‌ جانے کو تیار شہر میں پہنچتا ہے۔ اور اس کا سبب وہ عورت ہے، جسے وہ دل دے بیٹھا ہے، آئپک.

    اس عہد کے بے بدل فکشن نگار، نوبیل انعام یافتہ اورحان پامک نے اپنے اس کردار کے حسن کو اس طرح بیان کیا ہے کہ پڑھنے والا انگشت بدنداں رہ جائے. ہر وہ شخص جو اس قصبے میں، اس ناول میں آئپک کے روبر آتا ہے، اس کے حسن کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا ہے.

    تو کیا اورحان پامک کا ناول "سنو” محبت کی کہانی ہے؟ ایک عاشق کی، جو برسوں بعد اپنے وطن لوٹا ہے، اور نظمیں کہنے لگا ہے، کیوں کہ وہ خوش ہے؟

    بے شک پلاٹ کے ساتھ چلتے قصوں میں، اس کی کلیدی تھیم کے متوازی ظاہر ہوتے تھیمز میں ہم محبت، رقابت، خوشی جیسے جذبات، ان جذبات کے تشکیل، ان کی شکست و ریخت سے بھی روبرو ہوتے ہیں، البتہ اصل مدعا تو وہ سیاسی تقسیم، وہ لسانی انتشار، جغرافیائی اختلاف، جمہوریت اور آمریت کے درمیان جاری کشمکش ہے، طاقت اور کمزور میں تلخ تعلق ہے، جو صرف ترکی کا موضوع نہیں، بلکہ ہر ترقی پذیر مسلم ملک میں ہم اس کا  عکس دیکھ سکتے ہیں.

    یوں‌ اورحان پامک کی یہ کتاب یک دم اپنا کینوس وسیع کرتے ہوئے ہمیں اپنا قصہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس ناول کو، جو ایک دل موہ لینے والی کہانی ہے، ٹکڑوں‌ میں بانٹ کر ہم شاید بہتر انداز میں سمجھ سکیں۔

    ناول کی Setting کیا ہے؟

    ناول کے واقعات ترکی کے ایک پس ماندہ قصبے قارص اور جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں رونما ہوتے ہیں۔ الگ الگ وقت میں۔ زمانہ نئے ہزارے سے کچھ پہلے کا ہے، جو لگ بھگ پانچ سال پر محیط ہے۔ ہمارے پیارے، جلا وطن شاعر کا ماں کے انتقال پر ترکی لوٹنا اور پھر اپنی محبت پانے کے لیے قارص کا رخ کرنا، یہ سب ان برسوں میں محیط ہے۔ البتہ بڑا حصہ تو قارص میں گزرے مرکزی کردار کے شب و روز کے گرد گھومتا ہے۔

    برف پر نقش چھوڑتے کردار:

    اورحان پامک ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر ہمیں ایسے کرداروں سے متعارف کرواتا ہے، جو دلیر ہیں، بزدل ہیں، متذبذب اور نیک ہیں، رقابت اور رشک محسوس کرتے ہیں۔

    کرداروں کی ایک کہکشاں ہے، جس کا ہر ستارہ روشن ہے۔ قا میں قاری خود کو دیکھتا ہے، ہیرو نہیں، ایک سچا Protagonist ۔ کہیں کمزور، کہیں اڑیل۔ اور آئپک، جو کہانی کی روح ہے۔ پراسرار  ہے۔ آئپک کی بہن کدیفے، جو ضدی ہے، اپنی بہن سے محبت رکھتی ہے، اور  اس سے حسد محسوس کرتی ہے۔ سونے زائم؛ ایک تھیٹر اداکار، جو قصبے میں فوجی بغاوت کے بعد سربراہ چن لیا جاتا ہے۔ اور پھر ہمارا دل عزیز، اورحان، جو خود ایک انتہائی اہم موڑ پر کہانی میں داخل ہوتا ہے۔ اور ہمارے دلوں میں برف باری شروع ہوجاتی ہے۔

    پوائنٹ آف ویو:

    آئیں ہم دیکھیں کہ اس کہانی کا Narrator کون ہے اور Narrative کی نوعیت کیا ہے؟

    یہ تھرڈ پرسن میں تخلیق کردہ بیانیہ ہے، گو اس میں مصنف ٹالسٹائی اور دوستوفسکی کی طرح کہیں آسمان پر موجود نہیں، جو سب جانتا ہے، یہ مصنف تو مرکزی کردار قا کا دوست اورحان ہے، ہمارا ناول نگار۔ البتہ اورحان نے یہ قصہ اتنی مہارت سے بیان کیا ہے کہ وہ آسمانوں سے کرداروں کے ذہنوں میں جھانکتے ہوئے ہمیں ساتھ ساتھ لیے چلتا ہے اور جہاں ضرورت پیش آتی ہے، قاری کی صف میں آن کھڑا ہوتا ہے،  کاندھے اچکا کر، ایک لاعلم شخص کی مانند۔

    کہانی ایک خاص مرحلے پر یک دم صیغہ واحد متکلم میں جست لگاتی ہے، اور ہمیں پلاٹ میں، مستقبل میں، رونما ہونے والے ایک اہم واقعے کی خبر دیتی ہے۔ ہمارے مصنف کی ناکامی اور موت۔ اور یوں اورحان ہمیں تجسس کو آسمان پر لے جاتا ہے۔ کہانی کے آخری چند ابواب میں کہانی پھر صغیہ واحد متکلم کی سمت پلٹ آتی ہے۔ اب اورحان ہمارے ساتھ ہے۔

    بے شک یہ ایک Non Liner Narrative ہے، مگر یہ یوں لکھا گیا ہے کہ اس کا بڑا حصہ سیدھے سبھاؤ، ایک لکیر کی صورت آگے بڑھتے ہوئے واقعات کو بیان کرتا ہے۔

    اورحان علامتیں تو تخلیق کرتا ہے، مگر تجرید اس کا میدان نہیں۔ وہ ماجرے کا آدمی ہے۔ یہ بھی ماجرائی بیانیہ ہے، البتہ برف اور خوشی کو معنویت عطا کرکے مصنف نے انھیں ذرا گہرا معاملہ بنا دیا ہے۔

    پلاٹ کا معاملہ

    قا، مرکزی کردار، قارص کے قصبے کیوں آتا ہے؟ بہ ظاہر قارص میں لڑکیوں میں بڑھتی خودکشیوں کے واقعات کے باعث، ان پر ایک رپورٹ لکھنے کے لیے، مگر دراصل آئپک نامی ایک حسین و جمیل عورت کی وجہ سے، جو کبھی اس کی ہم جماعت تھی، آئپک کون تھی؟ ایک ایسے شخص کی مطلقہ، جو اسلام پسند جماعت کے پرچم تلے میئر کے الیکشن میں کھڑا ہورہا ہے۔

    اور جب ہمارے ہیرو ہیروئن ملتے ہیں، تب ایک قتل ہوتا ہے۔ تعلیمی ادارے کے ڈائریکٹر کا قتل۔ (قتل اورحان کے پلاٹس میں کلیدی اہمیت رکھتے ہیں)۔ یہ پہلے ایکٹ کاInciting incident ہے۔ اور یوں اسکارف کے حق میں آواز اٹھاتی لڑکیوں پر رپورٹ مرتب کرنے والا ہمارا کردار یک دم اسلام پسندوں کے لیڈر لاجورت سے رابطہ میں آجاتا ہے، جو  ہے تو Antagonist ہے، مگر وجیہہ، متاثر کن اور دل موہ لینے والا شخص ہے۔

    اور تب ایک فوجی بغاوت ہوتی ہے۔ سمجھ لیجیے، دوسرے ایکٹ میں Turning Point.

    ایک طویل، ضخیم ناول میں، جس میں واقعات ایک محدود مدت میں رونما ہوتے ہیں، ایک مضبوط، مربوط پلاٹ کی وجہ سے ہمیں برف باری کی طرح لطیف اور دل پذیر لگتا ہے۔ اس کے باوجود کے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں، اور راستے مسدود ہیں۔

    موضوع یا Theme:

    کہیں اوپر تذکرہ آیا، اس کا مرکزی تھیم زرخیز، پرپیچ ہے۔ برف کے گالے کی طرح، جو ہشت پہلو ہوتا ہے۔ مصنف سیاست، انتہاپسندی، فوجی بغاوت، محبت اور رقابت جیسے جذبوں کو کام میں لاتے ہوئے بہ ظاہر اس جبر اور استحصال کو  منظر کرتا ہے، جس کا کمزور  طبقہ صدیوں سے سامنا کر رہا ہے،، جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے وہ عقائد اور نظریات کا سہارا لیتا ہے، مگر  گہرائی میں مصنف ہمیں یہ سوچنے پر بھی اکسانا چاہتا ہے کہ ہم کسی شے کی خوشی خیال کرتے ہیں، کیسے ہم محبت اور نفرت کرتے ہیں، اور کیوں کہ ہم جذبات سے مغلوب ہو کر ایسے فیصلے کرتے ہیں، جو ہماری زندگیاں بدل دیتے ہیں۔

    کتاب کا ایک Miner Theme یہ بھی ہے، گو اسے Miner Theme کہنے کو جی نہیں کرتا ہے، کہ تخلیق کار کیسے جمود کا شکار ہوتا ہے، پھر کیسے اس پر تخلیقات کی بارش ہونے لگتی ہے، وہ نظمیں ’’سننے‘‘ لگتا ہے، اور کیسے کتاب اس کے لیے اہم ترین شے بن جاتی ہے، عزیز ترین شے۔ زندگی کا حاصل۔

    شناخت کا بحران تو ایسا موضوع ہے، جو اورحان کو ہمیشہ عزیز رہا۔

    تصادم کا تذکرہ

    اورحان کے کرداروں کی تشکیل کے لیے ہر نوع کے تصادم (Conflict) کو استعمال کیا ہے۔ ایک سمت قا اپنی ذات سے برسرپیکار ہے، تذبذب، جذباتیت، خواہشات۔ اور دوسری طرف ایک Conflict اس کے اور Antagonist ، یعنی لاجورت کے درمیان ہے۔ یعنی رقابت۔ اور پھر وہ معاشرہ، جہاں اسے عقیدت سے دیکھا جارہا ہے کہ وہ استنبول سے آیا شاعر ہے، مگر قبول بھی نہیں کیا جارہا کہ وہ بے دین ہے۔

    اور قا ہی نہیں، آئپک، کدیفے، سونے زائم اور لاجورت جس نوع کے مسائل سے دور چار ہوتے ہیں، وہ قاری کے ذہن میں ان کرداروں کے تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

    حروف آخر

    ’’سنو‘‘ اورحان پامک کا ایک ماسٹر پیس ہے۔ایک خاص تھیم، جو اس کی ہر کتاب میں ہوتا ہے، اس میں بھی واضح دکھائی دیتا ہے۔ دو کرداروں کا مختلف ہونے کے باوجود یک ساں ہونا۔ حیران کن حد تک۔ یہاں تک کہ لوگ انھیں ایک دوسرے سے خلط ملط کر دیں۔

    یہی چیز ہم اورحان کے دو شاہ کار ’’دی بلیک بک‘‘ اور ’’سفید قلعہ ‘‘میں دیکھ چکے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے، پر اورحان کو خصوصی مہارت حاصل ہے۔

    مارکیز نے کہا تھا کہ ’’ادیب دراصل زندگی میں ایک ہی کتاب لکھتا ہے۔‘‘ مارکیز کے ہاں وہ تنہائی کی کتاب تھی، اور اورحان پامک کے ہاں وہ شناخت کی کتاب ہے۔ میں کون ہوں اور وہ کون ہے؟ میں کہاں پر ختم ہوتا ہوں اور وہ کہاں سے شروع ہوتا ہے؟

    ہما انور مبارک باد کی مستحق ہیں، جو اس سے قبل بھی اورحان کی تخلیق کو اردو روپ دے چکی ہیں۔ اور مستقبل میں اردو کے قارئین کو مزید حیرتوں سے دور چار کریں گی۔

    یہ اردو ترجمہ جناب فرخ سہیل گوئندی کے اشاعتی ادارے جمہوری پبلی کیشنز سے شایع ہوا ہے، جو اس سے قبل اورحان کے شاہ کار "سرخ میرا نام” بھی شایع کر چکے ہیں، اور ان کے ایک اور ناول پر کام کر رہے ہیں۔

    اگر آپ نے یہ کتاب نہیں پڑھی، تو  ہر لاحاصل کام چھوڑ کراس کی سمت پیش قدمی کریں۔

    اورحان ہی منزل ہے۔

    باقی سب راستے ہیں۔

  • برف کی چادر اوڑھے کوئٹہ کا حسن.. تصاویر دیکھیں

    برف کی چادر اوڑھے کوئٹہ کا حسن.. تصاویر دیکھیں

    بلوچستان ان دنوں تیز بارشوں اور برف باری کی تباہ کاریوں کی زد میں ہے لیکن دو سال بعد ہونے والی برف باری کے سبب کوئٹہ کے شہری بے پناہ خوش ہیں۔

    بلوچستان میں اب کی بار موسم سرما طوالت اختیار کرچکا ہے اور اب کی بار ہونے والی برف باری نے کئی دہائیوں کے ریکارڈ توڑے ہیں۔ خود کوئٹہ شہر میں دوسال بعد برف باری ہوئی ہے۔

    کوئٹہ شہر میں آخری بار جنوری 2017 میں برف باری ہوئی تھی اور اس کے بعد آنے والے سالوں میں بارش بھی انتہائی کم ہوئی تھی جس سے شہری بے پناہ تشویش میں مبتلا تھے۔

    برف باری نہ ہونے اور کم بارشوں کے سبب شہر کے زیر زمین پانی کی سطح نیچے جارہی تھی جبکہ کوئٹہ کی عالمی شہرت یافتہ ہنہ جھیل بھی تباہی کے کنارے پر پہنچ چکی تھی تاہم اس سال ہونے والی بارشوں نے اس جھیل کو لبالب بھر دیا ہے ، جس سے کوئٹہ میں ایک بار پھرسیاحت زور پکڑے گی۔

    کراچی کو پانی سپلائی کرنے والا حب ڈیم بھی بلوچستان میں ہونے والی بارشوں کا منتظر رہتا ہے اور اب کی بار صورتحال یہ ہے کہ ڈیم بھرنے والا ہے جبکہ میرانی ڈیم بھی پانی سے بھرچکا ہے اور بھی صوبے کے چھوٹے بڑے ذخیروں میں پانی کی صورتحال بہتر ہورہی ہے۔

    نہ صرف یہ بلکہ پہاڑوں پر پڑنے والے برف کے سبب امید ہے کہ اب کی بار موسمِ گرما میں بھی پانی بھرپور مقدار میں میسر ہوگا جس سے تباہی کے دہانے پر پہنچی بلوچستان کی زراعت ایک بار پھر زور پکڑے گی اور بلوچستان میں بھی کھیت لہرائیں گے۔

    کوئٹہ میں ہونے والی برف باری کے سبب ارد گرد کے علاقوں سے جوق دردجوق مقامی سیاح شہر کا رخ کررہے ہیں ۔ جس سے شہر میں سیاحت کا کاروبار زور و شور سےچل رہا ہے۔

     برف باری کے سبب گاڑیاں پھنسنے اور راستوں کی بندش کے واقعات بھی پیش آرہے ہیں تاہم پاک فوج کے جوان ایسی صورتحال میں متاثرین کی مدد کرنے کے لیے پہنچ رہے ہیں۔


    تصاویر بشکریہ : صادقہ خان ( کوئٹہ)۔

  • پہلی پاکستانی خاتون قطب شمالی کے سفر پر

    پہلی پاکستانی خاتون قطب شمالی کے سفر پر

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر طیبہ ظفر وہ پہلی پاکستانی خاتون بن گئی ہیں جو قطب شمالی پر کیے جانے والے ایک ریسرچ پروگرام کے لیے منتخب ہوئیں۔

    ڈاکٹر طیبہ ماہر فلکیات ہیں۔ کچھ عرصہ قبل وہ ہوم وارڈ باؤنڈ پروگرام کے لیے منتخب ہوئیں جس کے تحت انہیں 3 ہفتے انٹارکٹیکا میں گزارنے تھے۔

    اس پروگرام کا مقصد سائنس، ٹیکنالوجی، ریاضی، انجینیئرنگ اور طب کے شعبے سے منسلک دنیا بھر کی خواتین کی صلاحیتوں اور ان کے تجربات میں اضافہ کرنا تھا۔ 26 ممالک سے تعلق رکھنے والی 80 خواتین کی ٹیم میں وہ واحد پاکستانی خاتون تھیں۔

    اپنے پروگرام کے دوران انہوں نے ان مقامات کا دورہ کیا جو موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج سے متاثر ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر طیبہ نے پینگوئن کی کالونیاں، وہیل اور گلیشیئرز کا بھی مشاہدہ کیا جبکہ برف پر کشتی کا سفر بھی کیا۔

    ڈاکٹر طیبہ کہتی ہیں کہ یہ سفر ان کے لیے ایک خوشگوار تجربہ تھا جس نے ان کی صلاحیت اور کام کرنے کی لگن میں اضافہ کیا۔

    وہ بتاتی ہیں کہ انٹارکٹیکا میں قیام کے دوران ہم بیمار بھی ہوئے، ’چونکہ ہم اس ماحول کے عادی نہیں تھے لہٰذا ہمیں اس سے مطابقت کرنے میں تھوڑی مشکل پیش آئی‘۔

    ڈاکٹر طیبہ فزکس میں ماسٹرز کرچکی ہیں جبکہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھاتی بھی رہی ہیں۔ سنہ 2007 میں انہیں کوپن ہیگن نیل بوہر انسٹیٹیوٹ کے ڈارک کوسمولوجی سینٹر میں پی ایچ ڈی کے لیے داخلہ ملا۔

    وہ بتاتی ہیں کہ انہیں بچپن سے فلکیات کا شوق تھا تاہم اسکول میں اس سے متعلق کوئی مضمون نہیں تھا، انہوں نے فلکیات اور ستارہ شناسی کے بارے میں بے شمار کتابیں خرید کر اپنے علم میں اضافہ کیا۔

    ڈاکٹر طیبہ کہتی ہیں کہ ملک میں سائنس کے شعبے میں لڑکیوں کی تعداد نہایت کم ہے اور فلکیات میں تو بالکل نہیں، ’یہاں کی لڑکیاں بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں لیکن ثقافتی و سماجی پابندیاں ان کے آڑے آجاتی ہیں‘۔

    خود انہیں بھی اپنے پی ایچ ڈی کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت بہت مشکل سے ملی تھی۔

    ڈاکٹر طیبہ کا عزم ہے کہ وہ اس شعبے میں مزید کامیابیاں حاصل کریں تاکہ اپنے ملک کا نام روشن کرسکیں۔

  • برفانی بھالوؤں کا عالمی دن

    برفانی بھالوؤں کا عالمی دن

    برفانی علاقوں میں رہنے والے سفید برفانی بھالو کا آج عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد برفانی ریچھوں کی نسل کے تحفظ کا شعور اجاگر کرنا ہے۔

    عالمی درجہ حرارت میں تیز رفتار اضافے اور تبدیلیوں یعنی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا میں موجود برفانی علاقوں کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ برفانی بھالو چونکہ برف کے علاوہ کہیں اور زندہ نہیں رہ سکتا لہٰذا ماہرین کو ڈر ہے کہ برف پگھلنے کے ساتھ ساتھ اس جانور کی نسل میں بھی تیزی سے کمی واقع ہونی شروع ہوجائے گی اور ایک وقت آئے گا کہ برفانی ریچھوں کی نسل معدوم ہوجائے گی۔

    اس وقت دنیا بھر میں 20 سے 25 ہزار برفانی بھالو موجود ہیں۔ یہ قطب شمالی دائرے (آرکٹک سرکل) میں پائے جاتے ہیں۔ اس دائرے میں کینیڈا، روس اور امریکا کے برفانی علاقے جبکہ گرین لینڈ کا وسیع علاقہ شامل ہے۔

    مئی 2008 میں جنگلی حیات کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں نے برفانی بھالوؤں کو خطرے کا شکار جانور قرار دیا تھا۔ ان کے مطابق اگر موسموں میں تبدیلی اور برف پگھلنے کی رفتار یہی رہی تو ہم بہت جلد برفانی بھالوؤں سے محروم ہوجائیں گے۔

    برف پگھلنے کے علاوہ ان بھالوؤں کو ایک اور خطرہ برفانی سمندروں کے ساحلوں پر انسانوں کی نقل و حرکت اور شور شرابے سے بھی ہے جو انہیں منفی طور پر متاثر کرتی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل ماہرین نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں ان ریچھوں کو لاحق ایک اور خطرے کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق ان ریچھوں کو وہیل اور شارک مچھلیوں کے جان لیوا حملوں کا خطرہ ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ برفانی علاقوں کی برف پگھلنے سے سمندر میں موجود وہیل اور شارک مچھلیاں ان جگہوں پر آجائیں گی جہاں ان ریچھوں کی رہائش ہے۔

    مزید پڑھیں: اپنے گھر کی حفاظت کرنے والا بھالو گولی کا نشانہ بن گیا

    علاوہ ازیں ریچھوں کو اپنی خوراک کا بندوبست کرنے یعنی چھوٹی مچھلیوں کو شکار کرنے کے لیے مزید گہرے سمندر میں جانا پڑے گا جہاں شارک مچھلیاں موجود ہوں گی یوں ان بڑی مچھلیوں کے لیے ان ریچھوں کا شکار آسان ہوجائے گا۔

    ماہرین نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ایک شارک کے معدے میں برفانی ریچھ کے کچھ حصہ پائے گئے تھے جس کی بنیاد پر یہ خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ ماہرین یہ تعین کرنے میں ناکام رہے کہ آیا اس شارک نے ریچھ کو شکار کیا، یا پہلے سے مردہ پڑے ہوئے کسی ریچھ کو اپنی خوراک بنایا۔

    اب تک یہ برفانی حیات ان شکاری مچھلیوں سے اس لیے محفوظ تھی کیونکہ برف کی ایک موٹی تہہ ان کے اور سمندر کے درمیان حائل تھی جو بڑی مچھلیوں کے اوپر آنے میں بھی مزاحم تھی۔

    شارک مچھلیاں اس برف سے زور آزمائی سے بھی گریز کرتی تھیں کیونکہ اس صورت میں وہ انہیں زخمی کر دیتی تھی، تاہم اب جس تیزی سے قطب شمالی اور قطب جنوبی کی برف پگھل رہی ہے، اس سے یہاں بچھی ہوئی برف کمزور اور پتلی ہو رہی ہے۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر برف پگھلنے کی رفتار یہی رہی تو اگلے 15 سے 20 سالوں میں قطب شمالی سے برف کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے گا جس سے برفانی بھالوؤں سمیت دیگر برفانی جانوروں کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔

  • سوات میں برف باری کا پانچ سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا

    سوات میں برف باری کا پانچ سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا

    سوات: خیبر پختون خوا کی وادی سوات میں حالیہ برف باری نے برف باری کا پانچ سالہ ریکارڈ توڑ دیا، جنت نظیر وادی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سوات میں حالیہ برف باری نے 5 سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے، دوسرا سوئٹزرلینڈ سمجھی جانے والی وادی میں سیاحوں کا رش بڑھ گیا۔

    [bs-quote quote=”مالم جبہ میں تقریباً 4 فٹ تک، کالام میں 5 فٹ اور نواحی علاقوں میں دو دو فٹ برف پڑگئی۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    سوات کی پُر فضا اور بالائی علاقوں میں مختلف مقامات پر کافی برف پڑی ہوئی ہے، مالم جبہ میں تقریباً 4 فٹ تک، کالام میں 5 فٹ اور نواحی علاقوں میں دو دو فٹ برف پڑنے کے بعد سردی کی شدت میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے۔

    برف باری کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں سے بڑی تعداد میں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    بالائی علاقوں کی طرف جانے والی شاہ راہوں پر برف پڑنے کی وجہ سے مقامی لوگوں اور دیگر علاقوں سے آنے والے سیاحوں کو سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  سوات کو دوسرا سوئٹزر لینڈ کہا جاتا ہے: سوئس سفیر تھامس کولے

    سڑکوں پر برف پڑی ہونے کے باعث جگہ جگہ گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں، سیاحوں کو اپنی گاڑیاں نکالنے میں شدید پریشانی کا سامنا ہے۔

    شموزی سے آئے ایک نوجوان سیاح نے کہا کہ وہ کئی سال بعد یہاں تفریح کے لیے آیا ہے، اسے بہت لطف محسوس ہو رہا ہے، لیکن برف باری بہت زیادہ ہوئی جس کی وجہ سے گاڑی لانے میں بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔

  • برف کا پراسرارپہیہ، جس نے برطانیہ کو حیرت میں‌ مبتلا کر دیا

    برف کا پراسرارپہیہ، جس نے برطانیہ کو حیرت میں‌ مبتلا کر دیا

    لندن: کیا آپ نے کبھی برف سے بنا ایسا پہیہ دیکھا ہے، جسے  کسی انسان نے نہ بنایا ہو، بلکہ وہ خود بہ خود تشکیل پا گیا ہو۔

    بہ ظاہر یہ ناممکن ہے، مگر یہ حقیقت ہے، سیارہ زمین پر ایک ایسا پراسرار عمل بھی جاری ہے، جس کے ذریعے برف زاروں میں اچانک پہیے نما اشکال ظاہر ہو جاتی ہیں۔

    ان پہیوں کے پیچھے طویل لکیر یں نظر آتی ہیں، یہ وہ راستہ ہے، جس پر پہیہ سفر کرتے ہوئے وہاں تک پہنچا، مگر حیران کن بات یہ ہے کہ نہ تو کوئی اسے تشکیل دیتا ہے، نہ ہی کوئی اس پہیے یا گانٹھ کو حرکت دیتا ہے۔ یہ فطرت کے عجیب و غریب اصولوں کے تحت خود بہ خود حرکت کرتا ہے۔

    برف کی بڑی بڑی گانٹھیں بالکل قدرتی ہیں اور حالیہ دنوں میں یہ جنوبی انگلینڈ میں محکمہ جنگلات کے ایک اہل کار کو دکھائی دیں، جس نے ان کی فوری تصاویر بنا لیں۔

    سائنس دانوں کے مطابق ان کی تشکیل کے لیے مخصوص فطرتی حالات درکار ہوتے ہیں، ان میں پہلی شے تو برف ہی ہے، سخت برف پر گرنے والی نرم برف اسے تشکیل دیتی ہے، ایک ہموار بغیر سبزے والی پہاڑی پر اس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

    ٹھوس برف پر نرم برف  موجود ہوتی ہے، جو مناسب درجہ حرارت، نمی کے تناسب اور ہوا کی رفتار کے وسیلے دھیرے دھیرے حرکت کرنے لگتی ہے اور آخر ایک حیران کن پہیے کی شکل اختیار کر جاتی ہے، جسے عجوبہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

  • صدی کے آخر تک ہمالیہ کے پہاڑوں کی برف پگھل جانے کا خدشہ

    صدی کے آخر تک ہمالیہ کے پہاڑوں کی برف پگھل جانے کا خدشہ

    کھٹمنڈو: دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ کے باعث دنیا کے سب سے اونچے پہاڑی سلسلے ہمالیہ کی ایک تہائی برف سنہ 2100 تک پگھل جانے کا خدشہ ہے۔

    یہ انکشاف انٹرنیشنل سینٹر فار انٹگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (آئی سی آئی موڈ) کی جانب سے جاری کردہ تجزیاتی رپورٹ میں کیا گیا۔ یہ رپورٹ 5 سال کے اندر تیار کی گئی جس میں 22 ممالک اور 185 اداروں کے 350 سے زائد ماہرین کی مدد لی گئی۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 2100 تک ہمالیہ اور ہندو کش کی تقریباً ایک تہائی برف پگھل جائے گی جس کے نتیجے میں دریاؤں میں شدید طغیانی پیدا ہوجائے گی۔

    خیال رہے کہ کوہ ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول نیپال کی ماؤنٹ ایورسٹ موجود ہیں۔

    8 ہزار میٹر سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔

    اس سلسلے کی بلندی کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ اس میں 7 ہزار 2 سو میٹر سے بلند 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں جبکہ اس سے باہر دنیا کی بلند ترین چوٹی کوہ اینڈیز میں واقع اکونکا گوا ہے جس کی بلندی صرف 6 ہزار 9 سو 62 میٹر ہے۔

    سائنسدانوں کے مطابق وسیع برفانی تودوں پر مشتمل ہندو کش اور ہمالیہ کا یہ خطہ انٹار کٹیکا اور آرکٹک خطے کے بعد تیسرا قطب ہے۔ یہ خطہ 3 ہزار 5 سو کلو میٹر پر محیط ہے اور پہاڑوں کا یہ سلسلہ افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، بھارت، میانمار، نیپال اور پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اس پگھلاؤ کے سبب دریائے یانگزے، دریائے میکونگ، دریائے سندھ اور دریائے گنگا میں طغیانی آجائے گی جہاں کسان خشک سالی کے دوران برفانی تودوں کے پگھلنے سے حاصل ہونے والے پانی پر گزارا کرتے ہیں۔

    اس طغیانی سے زراعت کو شدید نقصان پہنچے گا جبکہ آس پاس موجود کئی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں۔ اس خطے میں تقریباً 25 کروڑ افراد پہاڑی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جبکہ میدانی علاقوں میں رہنے والوں کی تعداد ایک ارب 65 کروڑ ہے۔

    مذکورہ رپورٹ کی سربراہی کرنے والے فلپس ویسٹر کا کہنا ہے کہ یہ وہ ماحولیاتی بحران ہے جس کے بارے میں کسی نے نہیں سنا۔

    ان کا کہنا تھا کہ گلوبل وارمنگ 8 ممالک تک پھیلے ہوئے ہمالیہ ہندوکش کے سلسلے میں موجود برفانی تودوں سے ڈھکی ہوئی بہت سی چوٹیوں کو ایک صدی میں چٹانوں میں تبدیل کرچکی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر سنہ 2015 کے پیرس ماحولیاتی معاہدے کے تحت گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لیے سخت اقدامات بھی اٹھائے جائیں تب بھی سال 2100 تک خطے کی ایک تہائی سے زائد برف پگھل جائے گی، اور اگر ہم رواں صدی کے دوران گرین ہاؤس گیسز کی روک تھام کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو دو تہائی برف پگھل جائے گی۔