Tag: برف

  • گرم موسم بھالو کو انسان کے لیے مزید خطرناک بنانے کا سبب

    گرم موسم بھالو کو انسان کے لیے مزید خطرناک بنانے کا سبب

    برفانی ریچھ انسانوں کے لیے کسی حد تک خطرناک جانور ہیں اور یہ اس وقت جان لیوا حملہ کرسکتے ہیں جب کوئی انسان ان کے ماحول میں مداخلت کرے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج ان بھالوؤں کی جارحیت میں مزید اضافہ کرسکتا ہے۔

    عام طور پر برفانی بھالو اس وقت انسانوں پر حملہ کرتے ہیں جب کوئی انسان ان کی رہائش گاہوں میں مداخلت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ ایسی صورت میں یہ نہایت خطرناک اور جارح ہوجاتے ہیں۔

    تاہم اب ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث بھالوؤں کی رہائش کے علاقوں اور خوراک میں کمی آرہی ہے جس سے یہ بھالو دباؤ کا شکار ہو کر انسانوں کے لیے مزید خطرناک بنتے جارہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث برف پگھلنے کی وجہ سے یہ انسانوں کی آبادیوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہوجائیں گے اور اصل خطرہ اس وقت سامنے آئے گا۔ ’یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ ہر وقت کسی خطرناک دشمن کے نشانے پر موجود رہیں‘۔

    ان بھالوؤں کے غصے میں اضافے کی ایک اور وجہ ان کی خوراک میں کمی آنا ہے۔ سمندری آلودگی کے باعث دنیا بھر کے سمندروں میں مچھلیوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے جو ان بھالوؤں کی اہم خوراک ہے۔

    مزید پڑھیں: غیر محفوظ برفانی ریچھوں کے لیے ایک اور خطرہ

    غذائی قلت اور بھوک ان بھالوؤں کو انسانوں پر حملہ کرنے پر مجبور کرے گی اور ماہرین کے مطابق ایک بھوکے بھالو کے حملے سے بچنا نہایت ہی مشکل عمل ہوگا۔

    امریکا کے جیولوجیکل سروے کے ماہر جنگلی حیات ٹوڈ ایٹوڈ کا کہنا ہے کہ سنہ 2000 کے بعد بھالوؤں کے انسانوں پر حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ایک جامع تحقیق کے مطابق سنہ 1870 سے لے کر 2014 تک اس نوعیت کے 73 واقعات سامنے آئے ہیں جن میں بھالوؤں نے برفانی علاقوں میں آنے والے اکیلے سیاحوں یا سیاحتی گروہوں پر حملہ کیا۔

    ان حملوں میں 20 افراد ہلاک جبکہ 63 زخمی ہوئے۔

    مئی 2008 میں جنگلی حیات کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں نے برفانی بھالوؤں کو خطرے کا شکار جانور قرار دیا تھا۔ ان کے مطابق اگر موسموں میں تبدیلی اور تیزی سے برف پگھلنے کی رفتار جاری رہی تو ہم بہت جلد برفانی بھالوؤں سے محروم ہوجائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دنیا کے سرد ترین مقام کی برف پگھلنا شروع

    دنیا کے سرد ترین مقام کی برف پگھلنا شروع

    جاپان کے شہر توکا ماچی کا شمار دنیا کے برفیلے ترین مقامات میں سے ایک ہوتا ہے۔ البتہ اس مقام کے قریب ایک اور چھوٹا سا گاؤں ہے جو اس شہر سے بلندی پر واقع ہے، اور وہاں کس قدر برف پڑتی ہے؟ آج تک اس کی پیمائش نہیں کی گئی۔

    جاپان کے شہر توکا ماچی سے 15 سو فٹ کی بلندی پر واقع یہ گاؤں تاکا کرا کہلاتا ہے۔

    توکا ماچی میں تو سالانہ 460 انچ برف پڑتی ہے، البتہ تاکا کرا میں کتنی برف پڑتی ہے اس کا تعین آج تک نہ کیا جاسکا، البتہ سطح سمندر سے مزید بلند ہونے کے باعث یہاں توکا ماچی سے کہیں زیادہ برف پڑتی ہے۔

    جاپان کے نوبل انعام یافتہ مصنف نے ایک بار اس جگہ کا دورہ کیا تو انہوں نے لکھا، ’تاروں بھری رات میں زمین سفید لبادہ اوڑھے لیٹی نظر آتی ہے‘۔

    تاہم اب ماہرین موسمیات و ماحولیات کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کو متاثر کرنے والا کلائمٹ چینج اس مقام پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہا ہے اور اب یہاں برفباری کی اوسط میں کمی آرہی ہے۔

    مزید پڑھیں: برفانی خطوں میں جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تاکا کرا کی آبادی صرف 14 افراد پر مشتمل ہے جبکہ توکا ماچی میں 54 ہزار کے قریب لوگ مقیم ہیں، یہ تمام لوگ اس برفانی موسم کے عادی ہیں اور اس کے مطابق اپنا طرز زندگی تشکیل دے چکے ہیں۔

    تاہم اب یہاں کا درجہ زیادہ ہونے کے باعث انہیں طبی مسائل پیش آسکتے ہیں جبکہ اس سخت موسم کے مطابق بنایا گیا ان کا ذریعہ روزگار بھی خطرات کا شکار ہے۔

    یاد رہے کہ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا کے برفانی مقامات شدید خطرات کا شکار ہیں اور یہاں رہنے والی جنگلی و آبی حیات کو بھی معدومی کا خدشہ ہے۔

    درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے دنیا بھر میں موجود گلیشیئرز بھی پگھل رہے ہیں جس کے باعث سمندروں کی سطح میں اضافے کا امکان ہے اور یوں تمام دنیا کے ساحلی شہروں کے ڈوبنے کا خطرہ دن بدن بڑھ رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: قطب شمالی کی برف گلابی کیوں ہو رہی ہے؟

    عالمی خلائی ادارے ناسا کے مطابق قطب شمالی کی برف بھی پگھل رہی ہے اور گزشتہ سال صرف مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    قطب شمالی کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے برفانی مقام گرین لینڈ کی برف پگھلنے میں بھی خطرناک اضافہ ہوگیا ہے۔

    جریدے سائنس ایڈوانس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گرین لینڈ میں سنہ 2003 سے 2013 تک 2 ہزار 700 ارب میٹرک ٹن برف پگھل چکی ہے۔

    مزید پڑھیں: برفانی سمندر کو بچانے کے لیے پیانو کی پرفارمنس

    برف کے اس قدر پگھلاؤ کے بعد اب ماہرین نے اس خطے کی برف کو نہایت ہی ناپائیدار قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس کے پگھلنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہوگا۔

    مضمون بشکریہ: نیشنل جیوگرافک

  • روس کا رنگا رنگ برفانی فیسٹیول

    روس کا رنگا رنگ برفانی فیسٹیول

    ماسکو: نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی روس میں سالانہ ونٹر فیسٹیول کا آغاز ہوگیا۔

    russia-2

    ماسکو میں ہونے والے ونٹر فیسٹیول میں دیوہیکل برفانی مجسمے سجا دیے گئے۔

    russia-5

    russia-3

    russia-9

    خوبصورت، رنگین اور حسین برفانی مجسمے روس میں سال نو کے آغاز کے موقع پر سجائے جاتے ہیں۔

    russia-8

    russia-4

    russia-6

    russia-7

    ماسکو کے وکٹری پارک میں روس کی تاریخی عمارتوں اور مقامات کے برف سے بنے ماڈلز نے خوب توجہ حاصل کی۔

    russia-10

    12

    11

    برف سے منعکس ہوتی خوبصورت روشنیوں سے سجا ونٹر فیسٹول 8 جنوری تک جاری رہے گا۔

  • برفانی علاقے تباہی کی جانب گامزن

    برفانی علاقے تباہی کی جانب گامزن

    قطب شمالی کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے برفانی مقام گرین لینڈ کی برف پگھلنے میں خطرناک اضافہ ہوگیا ہے جس نے ماہرین کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    جریدے سائنس ایڈوانس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گرین لینڈ میں سنہ 2003 سے 2013 تک 2 ہزار 700 ارب میٹرک ٹن برف پگھل چکی ہے۔ ماہرین نے اس خطے کی برف کو نہایت ہی ناپائیدار قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس کے پگھلنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہوگا۔

    greenland-4

    واضح رہے کہ اتنی بڑی مقدار میں برف پگھلنے کی وجہ گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرات میں اضافہ ہے۔

    اس سے قبل بھی عالمی سائنسی ادارے ناسا نے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں قطب شمالی کے سمندر میں پگھلتی ہوئی برف کو دکھایا گیا تھا۔ ناسا کے مطابق رواں برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    مزید پڑھیں:

    قطب شمالی کی برف گلابی کیوں ہو رہی ہے؟

    برفانی سمندر پر پیانو کی پرفارمنس

    برفانی خطوں میں جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف

    ناسا کے ماہرین کے مطابق سنہ 2016 ایک گرم سال تھا جس نے دنیا بھر میں اپنے منفی اثرات مرتب کیے۔ رواں برس مئی اور جولائی کے مہینہ میں درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کا اثر برفانی علاقوں پر پڑ رہا ہے۔ شدید گرمی کے باعث یہاں موجود گلیشیئرز کی برف پگھلنی شروع ہوگئی ہے جس سے ایک تو سطح سمندر میں اضافے کا خدشہ ہے، دوسری جانب یہاں پائی جانے والی جنگلی حیات جیسے برفانی ریچھ وغیرہ کی بقا کو بھی سخت خطرات لاحق ہیں۔

    bear-6

    رپورٹس کے مطابق سال 2016 میں گرمیوں کے موسم کے درجہ حرارت میں تو اضافہ ہوا ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ برس کا موسم سرما بھی اپنے اوسط درجہ حرارت سے گرم تھا۔

  • برفانی خطوں میں جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف

    برفانی خطوں میں جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف

    ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا کے برفانی خطے انٹارکٹیکا میں نیلے پانیوں کی جھیلیں بن رہی ہیں جس نے سائنسدانوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    برطانوی ماہرین نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں اور ڈیٹا کی بغور چھان بین کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ دنیا کے برفانی خطے قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: برفانی سمندر پر پیانو کی پرفارمنس

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہاں موجود برف پگھلنے کے باعث اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔ ماہرین نے اس کی وجہ کلائمٹ چینج کو قرار دیا۔

    ماہرین کے مطابق سنہ 2000 سے اس خطے کی برف نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔

    lake-2

    انہوں نے کہا کہ یہ ایک نہایت خطرناک صورتحال ہے کیونکہ اس طرح عالمی سمندروں میں پانی کے مقدار کا توازن بگڑ سکتا ہے اور مختلف سمندروں کی سطح غیر معمولی طور پر بلند ہوجائے گی جس سے کئی ساحلی شہروں کو ڈوبنے کا خدشہ ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے فیس بک اور گوگل کے دفاتر ڈوبنے کا خدشہ

    ماہرین نے بتایا کہ اس کی وجہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث ہونے والے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔ پچھلے ایک عشرے میں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو چکا ہے جس سے قطب شمالی اور قطب جنوبی کی برف پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور یہ تیزی سے پگھل رہی ہے۔

    حال ہی میں عالمی خلائی ادارے ناسا نے قطب شمالی میں تیزی سے پگھلتی برف کی ایک ویڈیو بھی جاری کی اور بتایا کہ رواں برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    دوسری جانب گلوبل وارمنگ ان برفانی خطوں کی برف کو گلابی بھی بنا رہی ہے۔ قطب شمالی کی برف گلابی اس وقت ہوتی ہے جب برف میں پرورش پانے والی کائی تابکار شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اس کا نتیجہ برفانی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

  • اوزون کی تہہ زمین کے لیے کیوں ضروری ہے؟

    اوزون کی تہہ زمین کے لیے کیوں ضروری ہے؟

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج کرہ ارض کو سورج کی تابکار شعاعوں سے بچانے والی اوزون تہہ کی حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ رواں برس یہ دن ’اوزون اور کلائمٹ‘ کے عنوان سے منایا جارہا ہے۔

    اوزون سورج کے گرد قائم آکسیجن کی وہ شفاف تہہ ہے جو سورج کی خطرناک تابکار شعاعوں کو نہ صرف زمین کی طرف آنے سے روکتی ہے بلکہ زمین پر اس کے نقصان دہ اثرات کا خاتمہ بھی کرتی ہے۔ اوزون کی تہہ کا 90 فیصد حصہ زمین کی سطح سے 15 تا 55 کلومیٹر اوپر بالائی فضا میں پایا جاتا ہے۔

    سنہ 1970 میں مختلف تحقیقات سے پتہ چلا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے مرکبات کی زہریلی گیسیں اوزون کی تہہ کو تباہ کر رہے ہیں۔ تباہی سے مراد اس کی موٹائی میں کمی ہونا یا اس میں شگاف پڑنا ہے۔ 1974 میں امریکی ماہرین ماحولیات نے اوزون کی تہہ کے تحفظ سے متعلق آگاہی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے واضح کیا کہ اوزون کی تہہ کو لاحق خطرات کے باعث اگلے 75 سالوں میں اس تہہ کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    انہوں نے بتایا کہ خاتمے کی صورت میں نہ صرف دنیا بھر کا درجہ حرارت انتہائی حد تک بڑھ جائے گا بلکہ قطب جنوبی میں برف پگھلنے سے چند سالوں میں دنیا کے ساحلی شہر تباہ ہو جائیں گے۔

    ozone-2

    دسمبر 1994 میں اقوام متحدہ نے آج کے دن کو اوزون کی حفاظت کے دن سے منسوب کیا جس کا مقصد اس تہہ کی اہمیت کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کرنا ہے۔


    اوزون کو کس چیز سے خطرہ لاحق ہے؟

    دنیا کی تیز رفتار ترقی نے جہاں کئی ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا وہیں اس ترقی نے ہماری زمین پر ناقابل تلافی خطرناک اثرات مرتب کیے۔

    ہماری فیکٹریوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیس کاربن مونو آکسائیڈ ہماری فضا میں موجود آکسیجن کے ساتھ مل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ کاربن کا اخراج ہماری اور ہماری زمین کی صحت کے لیے نہایت مضر ہے اور یہ اوزون پر بھی منفی طور سے اثر انداز ہو رہا ہے۔

    اس کا سب سے زیادہ اثر برف سے ڈھکے انٹار کٹیکا کے علاقے میں ہوا جہاں اوزون کی تہہ میں گہرا شگاف پیدا ہوچکا ہے۔ اوزون کو نقصان کی وجہ سے اس علاقہ میں سورج کی روشنی پہلے کے مقابلہ میں زیادہ آرہی ہے جس سے ایک تو اس علاقہ کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہوگیا دوسری جانب برف کے تیزی سے پگھلنے کے باعث سمندروں کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے دنیا بھر میں شدید سیلاب آنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

    مزید پڑھیں: قطب شمالی کی گلابی برف

    تاہم ماہرین نے تصدیق کی ہے کہ انٹار کٹیکا کے اوپر اوزون میں پڑنے والا شگاف اب مندمل ہورہا ہے اور 2050 تک یہ پہلے کی طرح مکمل ٹھیک ہوجائے گا۔

    اوزون کی تہہ کو ان چیزوں سے بھی نقصان پہنچتا ہے۔

    جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ۔

    سڑکوں پر دھواں دینے والی گاڑیوں اور ویگنوں کے استعمال میں اضافہ۔

    کوڑا کرکٹ کو جلانے کے بعد اس سے نکلنے والا زہریلا دھواں۔

    کلورو فلورو کاربن یعنی سی ایف سی مرکبات کا استعمال۔ یہ گیس انرجی سیور بلب، ڈیپ فریزر، ریفریجریٹرز، کار، ایئر کنڈیشنر، فوم، ڈرائی کلیننگ، آگ بجھانے والے آلات، صفائی کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکل اور فیومیگیشن میں ہوتا ہے۔

    واضح رہے کہ اس گیس کے استعمال کو کم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے زیر نگرانی 1989 میں 150 سے زائد ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جسے مونٹریال پروٹوکول کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے پر عمل کے بعد اب دنیا بھر میں ہائی سی ایف سی گیس کا استعمال کیا جاتا ہے۔


    اوزون تہہ کی تباہی کی صورت میں نقصانات

    اوزون کی تہہ تباہ ہونے یا اس کی موٹائی میں کمی ہونے کی صورت میں یہ نقصانات ہوں گے۔

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں شدید اضافہ۔

    عالمی سمندروں کی سطح میں اضافہ۔

    دنیا بھر میں سیلابوں کا خدشہ ۔ ساحلی شہروں کے مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا خدشہ۔

    سورج کی تابکار شعاعوں کا زمین پر براہ راست آنا جس سے انسانوں و جانوروں میں جلدی بیماریوں اور مختلف اقسام کے کینسر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    شدید گرمی سے درختوں اور پودوں کو نقصان۔

    گرم موسم کے باعث زراعت میں کمی جس سے کئی علاقوں میں قحط اور خشک سالی کا خدشہ ہے۔

    ٹھنڈے علاقوں میں رہنے والے جانوروں کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ۔
    ozone-4


    اوزون کو بچانے کے لیے کیا کیا جائے؟

    اوزون کی حفاظت ماحول دوست گیسوں کے حامل برقی آلات اور مشینری کے استعمال سے ممکن ہے۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں طویل المدتی شہری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کے تحت کھلے، ہوادار گھر بنائے جائیں اور ان میں سبزہ اگایا جائے تاکہ وہ ٹھنڈے رہیں اور ان میں رہائش پذیر افراد کم سے کم توانائی کا استعمال کریں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے ماحول دوست ممالک

    مزید پڑھیں: مراکش میں مساجد کو ماحول دوست بنانے کا آغاز

    واضح رہے کہ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ سے نمٹنے کے لیے گذشتہ برس پیرس میں ہونے والی کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں بھی ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔


     

  • قطب شمالی کی برف گلابی کیوں ہو رہی ہے؟

    قطب شمالی کی برف گلابی کیوں ہو رہی ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں قطب شمالی کی برف گلابی ہورہی ہے؟

    گلابی یا شربتی رنگ کی ’واٹر میلن سنو‘ کہلائی جانے والی یہ برف آنکھوں کو تو بے حد خوبصورت لگتی ہے لیکن درحقیقت یہ ایک بڑے خطرے کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔

    قطب شمالی کی برف گلابی اس وقت ہوتی ہے جب برف میں پرورش پانے والی کائی تابکار شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اس کا نتیجہ برفانی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

    pink-1

    یہ عمل اونچائی پر واقع علاقوں جیسے قطب شمالی اور گرین لینڈ میں پیش آتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ عمل ایک سنگین صورتحال کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ قطب شمالی کی برف کا گلابی ہونا ظاہر کرتا ہے کہ گلیشیئرز کا ’البیڈو‘ اثر اپنی صلاحیت کھو رہا ہے۔

    البیڈو افیکٹ کا مطلب گلیشیئرز کا سورج کی شعاعوں کو منعکس کرنا ہے۔ سخت برف سے بنے ہوئے گلیشیئرز پر جب سورج کی روشنی پڑتی ہے تو وہ اس سے ٹکرا کر واپس آسمان کی طرف پلٹتی ہے۔ اگر یہ عمل نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ گلیشیئر ان شعاعوں کو جذب کر رہا ہے۔

    pink-2

    اس کے کئی نقصانات ہیں۔ ایک یہ گلیشیئرز پگھل کر عالمی سمندروں کی سطح میں اضافہ کریں گے جس سے سیلابوں کا خطرہ ہے۔ دوسرا سورج کی روشنی   کے واپس آسمان میں نہ جانے سے زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا اور دنیا کے مختلف ممالک میں گرمی بڑھے گی۔

    دوسری جانب برف پگھلنے سے یہاں موجود جانور جیسے برفانی ریچھ، برفانی لومڑی وغیرہ کی بقا کو بھی خطرہ لاحق ہے۔

    یہ عمل گلیشیئر میں ’سرخ کائی‘ کی مقدار میں اضافہ کرتا ہے۔ گلیشیئر میں جتنی زیادہ سرخ الجی یا کائی موجود ہوگی اتنا ہی وہ گلیشیئر سورج کی روشنی جذب کرے گا۔

    اس کی مثال ہم یوں لیتے ہیں کہ گرمیوں کے موسم میں گہرے رنگ کے کپڑے پہننے سے منع کیا جاتا ہے کیونکہ گہرے رنگ سورج کی روشنی کو زیادہ جذب کرتے ہیں نتیجتاً پہننے والے کو شدید گرمی لگنے لگتی ہے۔

    arctic-3

    اس کے برعکس ہلکے رنگ کے کپڑے سورج کی شعاعوں کو روک کر اسے منعکس کرتے ہیں یعنی واپس پھینک دیتے ہیں۔

    اسے ہم ایک سائیکل بھی کہہ سکتے ہیں۔ سورج کی روشنی گلیشیئرز میں جذب ہوکر سرخ الجی پیدا کرے گی اور سرخ الجی سورج کی مزید روشنی کو اپنے اندر جذب کرے گی یوں گلیشیئر پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

    واضح رہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج کے باعث قطب شمالی کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ ناسا نے قطب شمالی میں تیزی سے پگھلتی برف کی ایک ویڈیو بھی جاری کی اور بتایا کہ رواں برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    pink-4

    پاکستان بھی کلائمٹ چینج کے شکار ممالک میں سے ایک ہے جہاں موجود 5000 گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کے باعث شمالی علاقوں کو شدید سیلابوں کا خطرہ لاحق ہے۔