Tag: برقی گاڑیوں

  • مسجد الحرام میں عازمین حج کی سہولت کے لیے برقی گاڑیوں کی سہولت

    مسجد الحرام میں عازمین حج کی سہولت کے لیے برقی گاڑیوں کی سہولت

    سعودی عرب میں حرمین شریفین انتظامیہ کی جانب سے مسجد الحرام میں بڑی برقی گاڑیوں کی سہولت کا آغاز کر دیا ہے۔

    سعودی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مسجد الحرام میں یہ سہولت بزرگ اور معذور افراد کے علاوہ تمام عازمین کے مناسک کی ادائیگی کو آسان بنانے کے لیے ہے۔

    رپورٹس کے مطابق برقی گاڑیوں کی سہولت یکساں نقل و حمل پلیٹ فارم کے ذریعے فراہم کی جا رہی ہے، جہاں طواف کے لیے برقی گاڑی 100 ریال میں دستیاب ہے اور اسی قیمت پر سعی کے لیے بھی جبکہ معذور افراد کے لیے یہ خدمت مفت فراہم کی جاتی ہے۔

    نئی گاڑیاں جدید طرز کے ڈیزائن کی حامل ہیں جو سلامتی اور راحت کو مدنظر رکھتی ہیں اور محفوظ و منظم نقل و حرکت کا ماحول فراہم کرتی ہیں جو مسجد الحرام میں حاجیوں کے تجربے کو مزید بہتر بناتی ہیں۔

    دوسری جانب سعودی عرب میں ڈیٹا اینڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اتھارٹی ’سدایا‘ کی جانب سے مدینہ منورہ کے شہزادہ محمد بن عبدالعزیز انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر عازمین کی سہولت کیلیے 20 ’ای گیٹس‘ نصب کردیئے گئے ہیں۔

    سدایا اتھارٹی کی جانب سے ایئرپورٹ پر عازمین حج کو بہتر اور تیز ترین سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے امیگریشن اور دیگر اداروں کے تعاون سے مصنوعی ذہانت کے استعمال کو فروغ دیا جارہا ہے۔

    رپورٹس کے مطابق سدایا نے عازمین کے امیگریشن کی کارروائی کو تیز اور آسان بنانے کے لیے مدینہ منورہ کے شہزادہ محمد بن عبدالعزیزبین الاقوامی ہوائی اڈے پر ای گیٹس کے علاوہ 30 سے زائد ’پاسپورٹ ریڈر‘ ڈیوائسز کا بھی اہتمام کیا ہے تاکہ امیگریشن کی کارروائی میں عازمین کو کسی قسم کی تاخیر کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

    رپورٹس کے مطابق ایئرپورٹ پر سدایا سینٹر کی ٹیموں کو بھی مستقل بنیادوں پر تعینات کیا گیا ہے تاکہ کسی بھی مشکل یا سسٹم ڈاون ہونے کی صورت میں فوری طور پراسے درست کیا جاسکے۔

    حج کے ایام میں مشاعر مقدسہ کا موسم کیسا رہے گا؟

    مدینہ منورہ ایئرپورٹ پر مسافروں کی آمد کے ٹرمنل پر اضافی عملے کو تعینات کیا گیا ہے، جبکہ فنگر پرنٹ اسکینگ کے لیے جدید ترین سسٹم پر مشتمل 4 حساس یونٹس بھی فراہم کیے گئے ہیں۔

  • جاپانی کمپنیاں برقی گاڑیوں کی تیاری کیلئے کوشاں

    جاپانی کمپنیاں برقی گاڑیوں کی تیاری کیلئے کوشاں

    مضبوط اور پائیدار گاڑیوں میں جاپانی گاڑیاں اپنی مثال آپ سمجھی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ کار سازی کی عالمی صنعت پر جاپانی کمپنیوں کا نصف صدی تک راج رہا۔

    تاہم دور جدید میں الیکٹرک کاریں تیار کرنے کیلئے جاپانی کار ساز کمپنیوں کو کچھ مشکلات درپیش ہیں، اس لیے وہ اب امریکی اور چینی مدمقابل کمپنیوں کے ہم پلہ آنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

    سال 2022کے دوران 62 مارکیٹوں میں برقی گاڑیوں کی فروخت کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ12 لاکھ سے زائد گاڑیاں فروخت کرتے ہوئے امریکی کمپنی ٹیسلا پہلے نمبر پر جبکہ آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار گاڑیاں فروخت کرتے ہوئے چین کی بی وائی ڈی دوسرے نمبر پر رہی۔

    جاپان کی صرف دو گاڑی ساز کمپنیوں یعنی نسان موٹر اور مِتسوبیشی موٹرز نے چوٹی کی دس کمپنیوں کی فہرست میں جگہ بنائی لیکن پھر بھی انہوں نے فرانس کی کمپنی رینالٹ کے ساتھ تین رکنی اتحاد قائم کرتے ہوئے محض ساتویں پوزیشن حاصل کی۔

    nissan

    یہ مایوس کن کارکردگی جاپان کی چوٹی کی گاڑی ساز کمپنیوں کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ بالخصوص اس لیے بھی کہ وہ ایک دہائی پہلے تک بیٹری سے چلنے والی گاڑیاں بنانے والوں میں سب سے آگے تھیں۔

    سال 2010میں نسان نے مارکیٹ میں وسیع پیمانے پر برقی گاڑیاں فروخت کے لیے پیش کرنے والی پہلی کمپنی ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا، جس سے عالمی سطح پر جاپانی کمپنیوں کے تسلط کا ایک اور دور یقینی نظر آنے لگا تھا لیکن آنے والے سالوں میں صورتحال نے الگ رخ اختیار کرلیا۔

    اس حوالے سے ایتوچُو تحقیقی انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو فُوکاؤ سان شِیرو اِس کی وجہ "اختراع کار کا مخمصے میں ہونا” قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماحول دوست گاڑیوں کے معاملے میں جاپانی کمپنیوں نے روایتی انجنوں سے چلنے والی ہائبرڈ گاڑیاں بنائیں، جاپانی اور دیگر روایتی گاڑی سازوں کو اِنجن بنانے میں دوسروں پر فوقیت حاصل رہی ہے لیکن بیٹری سے چلنے والی گاڑیوں میں انجن استعمال ہی نہیں ہوتا۔

    فُوکاؤ کا کہنا ہے کہ ایک اور مسئلہ سپلائی کا ہے، برقی گاڑیوں کی بیٹریاں نایاب معدنیات سے بنتی ہیں، مارکیٹ میں قدم جمانے میں دوسروں سے پیچھے جاپانی کمپنیوں کو درکار وسائل حاصل کرنے میں اب دشواری محسوس ہو رہی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ہونڈا کے انجینئروں نے بدلی جا سکنے والی بیٹریوں کا ایک ایسا نظام تیار کر لیا ہے جس کے ذریعے صارفین چارج ختم ہونے والی بیٹریوں کو مکمل چارج شدہ بیٹریوں کے ساتھ با آسانی اور فوری طور پر تبدیل کرسکتے ہیں۔

    اس منصوبے کے نگران ایواتا کازُویُوکی کا کہنا ہے کہ یہ بیٹریاں عام سائز کی گاڑی چلانے کے لیے مناسب توانائی تو فراہم نہیں کرسکتیں، لیکن موٹر بائیک یا مائیکرو ڈیلیوری وین جیسی چھوٹی گاڑیوں کے لیے کارآمد ہیں۔

    electric

    کئی دیگر صنعت کاروں نے بھی اس ٹیکنالوجی میں موجود امکانات کو بھانپ لیا ہے۔ بھاری آلات بنانے والی کمپنی کوماتسُو نے ہونڈا کے ساتھ مل کر وزن اٹھانے والی مشین شاول لوڈر کی ایک سیریز میں یہ ٹیکنالوجی متعارف کرائی ہے۔ بھارت میں تین پہیوں کی سواری رکشہ بنانے والوں نے بھی اس ٹیکنالوجی کو اپنا لیا ہے۔

    ایواتا کہتے ہیں کہ اگر آپ ایسی برقی گاڑیاں بنانے کا ارادہ کریں گے جن کی ڈرائیونگ رینج روایتی انجن سے چلنے والی گاڑیوں جیسی ہو تو آپ کو بڑی، بھاری اور زیادہ مہنگی بیٹریاں درکار ہوں گی۔

    جاپان میں صدیوں سے یہ تصور رائج ہے کہ اِختصار میں حُسن ہے، یہ ایک طرزِ فکر ہے جس کی ضرورت بالآخر ملکی کمپنیوں کو گاڑی سازی کے شعبے میں دوبارہ آگے نکلنے کے لیے پڑسکتی ہے۔