Tag: برمودا ٹرائی اینگل

  • برمودا ٹرائی اینگل کا سفر، کمپنی نے مسافروں کو بڑی پیش کش کر دی

    برمودا ٹرائی اینگل کا سفر، کمپنی نے مسافروں کو بڑی پیش کش کر دی

    برمودا ٹرائی اینگل کے سفر کے لیے کروز کمپنی نے مسافروں کو بڑی پیش کش کر دی ہے، کمپنی کا کہنا ہے کہ اگر بحری جہاز برمودا کے تکون میں غائب ہو جاتا ہے تو تمام مسافروں کو ان کے ٹکٹس کی رقم پوری واپس کر دی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق برمودا ٹرائی اینگل کروز کمپنی نے جہاز سمندر میں غائب ہونے کی صورت میں تمام مسافروں کو مکمل رقم کی واپسی کی پیشکش کر دی ہے، جن مسافروں نے برمودا ٹرائی اینگل کے سفر کے لیے کروز بک کرایا ہے، ان سے کہا جا رہا ہے کہ اگر جہاز سمندر میں غائب ہو جاتا ہے تو انھیں ٹکٹ کی رقم واپس مل جائے گی۔

    واضح رہے کہ یہ کسی اور جگہ کی بات نہیں ہو رہی بلکہ برمودا ٹرائی اینگل ہی کی بات ہو رہی ہے، یہ تکونی علاقہ امریکا کے جنوب مشرقی ساحل پر بحر اوقیانوس میں برمودا، فلوریڈا اور پورٹو ریکو کے درمیان واقع ہے، یہ شیطان کی مثلث کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اس علاقے میں بہت سے بحری جہاز اور ہوائی جہاز پراسرار طور پر غائب ہونے کی اطلاع ہے۔

    کئی دہائیوں سے، برمودا تکون کے اسرار نے بحری جہازوں، ہوائی جہازوں اور لوگوں کی غیر واضح گمشدگی کے ساتھ انسانی تخیل کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، اس پس منظر میں کروز کی طرف سے یہ پیش کش بالکل عجیب لگتی ہے، لیکن ٹکٹ خریدنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔

    دی مرر کی رپورٹ کے مطابق نیو یارک سے برمودا جانے والی نارویجن پرائما لائنر کے ساتھ چھٹیاں منانے والے مسافر دو دن کے سفر پر کیبن کے لیے ایک ہزار 450 پاؤنڈز (سوا لاکھ روپے سے زائد) خرچ کر رہے ہیں، اور منتظمین نے ان سے کہا ہے کہ اگر یہ دیوہیکل جہاز ٹرائی اینگل میں غائب ہو جاتا ہے، جہاں سیکڑوں کشتیاں اور ہوائی جہاز غائب ہو چکے ہیں، تو انھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، انھیں ٹکٹ کی رقم پوری واپس کر دی جائے گی۔

  • کیا خلا میں بھی برمودا ٹرائی اینگل موجود ہے؟

    کیا خلا میں بھی برمودا ٹرائی اینگل موجود ہے؟

    آپ نے اب تک بحر اوقیانوس کی برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں سنا ہوگا جہاں متعدد طیارے اور بحری جہاز پراسرار حالات میں غائب ہوچکے ہیں، کیا آپ جانتے ہیں خلا میں بھی ایسا ہی ایک مقام ہے۔

    زمین کی مقناطیسی فیلڈ میں ایک جگہ ہے جسے ساؤتھ اٹلانٹک اینوملی (ایس اے اے) کہا جاتا ہے، کچھ خلا نوردوں نے وہاں ہونے والی عجیب و غریب چیزوں کی اطلاع دی ہے۔

    جب بین الاقوامی خلائی اسٹیشن اس علاقے سے گزرا تو کچھ خلا نوردوں نے تیز روشنی کا تجربہ کیا۔

    خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چمک اس علاقے میں ریڈی ایشن بیلٹ کی وجہ سے ہے جو خلا نوردوں کے ریٹینا میں رد عمل کا باعث بن سکتی ہیں۔

    ہبل خلائی دوربین تابکاری کی وجہ سے اس علاقے میں ڈیٹا اکٹھا کرنے سے قاصر ہے، ایس اے اے کے ارد گرد کے اسرار نے خلائی برمودا ٹرائی اینگل کا نام حاصل کرلیا ہے۔

  • برمودا ٹرائی اینگل سے بچ نکلنے والے پائلٹ نے کیا دیکھا؟

    برمودا ٹرائی اینگل سے بچ نکلنے والے پائلٹ نے کیا دیکھا؟

    جنگ عظیم دوئم کے زمانے سے برمودا ٹرائی اینگل ساری دنیا کی توجہ کا خصوصی مرکز رہا ہے اور اس کے بارے میں غیر ماورائی معاملات مشہور ہیں۔

    برمودا ٹرائی اینگل بحر اوقیانوس (اٹلانٹک) کے ایک مثلث کی طرح کے علاقے کو کہا جاتا ہے۔ اس علاقے کا ایک کونا برمودا میں، دوسرا پورٹوریکو میں اور تیسرا کونا میامی، فلوریڈا کے قریب ایک مقام میں واقع ہے۔ برمودا ٹرائی اینگل انہی تین کونوں کے درمیانی علاقے کو کہا جاتا ہے۔

    اس مقام سے وابستہ چند داستانیں ایسی ہیں جن کے باعث اس کو شیطانی مثلث بھی کہا گیا ہے، ان داستانوں میں انسانوں کا غائب ہوجانا اور بحری اور فضائی جہازوں کا کھو جانا جیسے غیر معمولی واقعات شامل ہیں۔

    اب تک اس مقام پر 2 ہزار بحری جہاز اور 200 طیارے لاپتہ ہوچکے ہیں۔

    اس علاقے میں پیش آنے والا ایک اور واقعہ ایسا ہے جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں، یہ واقعہ ایسا ہے جسے سن کر ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑ جاتی ہے۔

    4 دسمبر 1970 کی ایک روشن صبح بروس گارنن نامی ایک پائلٹ نے بہاماس کے جزیرے اینڈروس سے اڑان بھری، اس کے چھوٹے جہاز میں صرف 2 مسافر سوار تھے اور ان کی منزل فلوریڈا کا شہر میامی تھا۔

    یہ ایک معمول کی پرواز تھی جس پر بروس اس سے پہلے درجنوں بار جاچکا تھا۔

    جب طیارہ 1 ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچا تو طیارے کے سامنے ایک چھوٹا سا سیاہ بادل آگیا جو دیکھتے ہی دیکھتے ہی اپنا حجم بڑھانے لگا، بروس کو مجبوراً اس بادل کے اندر سے گزرنا پڑا۔

    آگے جا کر جب طیارہ 11 ہزار 500 فٹ کی بلندی پر پہنچا تو پائلٹ کے سامنے ایک اور پراسرار سیاہ بادل آگیا۔ یہ بادل بہت بڑا تھا اور طیارے کو اس کے اندر سے گزارنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔

    بروس نے طیارے کو بادل کے اندر داخل کردیا، اندر سیاہ گھپ اندھیرا تھا لیکن یہ طوفانی بادل نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد اچانک بادل کے اندر سفید روشنی کے جھماکے سے ہونے لگے۔ پائلٹ نے لمحے میں جان لیا کہ یہ روشنی آسمانی بجلی نہیں تھی، کچھ اور تھی۔

    بادل کے اندر طیارے کا سفر نصف گھنٹہ جاری رہا، اچانک بروس کو محسوس ہوا کہ یہ وہی بادل تھا جو 10 ہزار فٹ کی بلندی پر اس سے ٹکرایا تھا اور یہ احساس ہوتے ہی اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

    بادل اب ایک سرنگ کی سی شکل اختیار کرچکا تھا اور یوں لگتا تھا کہ اب یہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اچانک پائلٹ کو سامنے روشنی کی ہلکی سی کرن دکھائی دی جس کا مطلب تھا کہ بادل کی سرنگ ختم ہورہی ہے۔

    پائلٹ کے جسم میں نئی جان دوڑ گئی، لیکن جیسے جیسے روشنی قریب آنے لگی اچانک طیارے کے آلات ایک کے بعد ایک خرابی کا سگنل دینے لگے۔

    تمام انڈیکیٹرز جلنے بجھنے لگے اور کچھ دیر بعد پائلٹ طیارے پر سے اپنا کنٹرول کھو بیٹھا، لیکن طیارہ تب بھی اڑتا رہا۔

    بروس کا کہنا تھا کہ اس وقت ایسا لگ رہا تھا جیسے طیارے کو کوئی اور قوت چلا رہی ہو، یا آسمان میں کوئی کرنٹ ہو جس کے باعث طیارہ خود بخود اڑ رہا ہو۔

    کچھ دیر بعد طیارہ بالآخر بادل کی سرنگ سے نکل آیا، اور اس کے ساتھ ہی طیارے کے آلات ایسے کام کرنے لگے جیسے ان میں کبھی کوئی خرابی ہوئی ہی نہیں تھی۔

    بادل سے نکلنے کے بعد بھی طیارہ کچھ منٹ مزید گہری سفید دھند میں سفر کرتا رہا۔ اس دوران اس نے گراؤنڈ کنٹرول سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ اسے اس کی موجودہ لوکیشن بتائیں۔

    گراؤنڈ کنٹرول کی جانب سے جواب ملا کہ طیارہ ریڈار پر دکھائی نہیں دے رہا جس سے بروس پریشان ہوگیا۔ پھر اچانک دبیز دھند ختم ہوگئی اور بروس نے دیکھا کہ وہ عین میامی یعنی اپنی منزل کے اوپر تھا۔

    یہ ایک اور حیران کن بات تھی، یہ فاصلہ 217 میل تھا جسے ایک گھنٹہ 15 منٹ میں طے کیا جانا تھا، لیکن طیارے کو اپنا سفر شروع کیے صرف 47 منٹ ہی گزرے تھے۔

    بہرحال طیارہ بحفاظت میامی ایئرپورٹ پر لینڈ کر گیا۔

    لینڈ کرتے ہی بروس نے طیارے کا فیول چیک کیا تو وہ اتنا خرچ نہیں ہوا تھا جتنا طے شدہ فاصلے کے مطابق اسے خرچ ہونا چاہیئے تھا۔

    بروس نے سفر سے متعلق تمام دستیاب معلومات چیک کیں تو اس پر انکشاف ہوا کہ اس کا طیارہ سفر کے نصف وقت میں اپنی منزل پر پہنچا۔

    اس نے فوری طور پر ایوی ایشن ماہرین نے رابطہ کیا اور انہیں خود پر گزرنے والی صورتحال بتائی، لیکن کوئی بھی اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔

    بالآخر بروس نے خود ہی اس بارے میں معلومات جمع کیں اور ان سے ایک نتیجہ نکالا کہ بادل کے اندر روشنی کے سفید جھماکے دراصل الیکٹر ک فوگ تھی۔

    کچھ افراد نے ایک ممکنہ خیال پیش کیا کہ بروس ڈارک انرجی کی وجہ سے وقت کو جلدی طے کرنے میں کامیاب ہوا، یہ وہی توانائی ہے جس کی وجہ سے ہماری کائنات پھیلتی ہے۔

    یہ توانائی بلیک ہول کی طرح وقت اور مقام میں خلل (ٹائم ٹریول قسم کے حالات) پیدا کرسکتی ہے، اسی کی وجہ سے بادل کی ایک سرنگ پیدا ہوئی، بروس اتفاق سے اس سرنگ میں جا نکلا اور خوش قسمتی سے زندہ سلامت نکلنے میں کامیاب رہا۔

    کچھ ماہرین کے مطابق اس نوعیت کے بادل اس علاقے میں عام ہیں اور اکثر پائلٹس کو ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    تاہم اس کی وضاحت کوئی نہ دے سکا کہ بروس نے اپنے سفر کا نصف وقت کیسے پار کرلیا، بروس گارنن کی یہ فلائٹ آج بھی ایک راز ہے جو حل طلب ہے۔

  • پراسرار برمودا ٹرائی اینگل میں حیرت انگیز جزیرہ ابھر آیا

    پراسرار برمودا ٹرائی اینگل میں حیرت انگیز جزیرہ ابھر آیا

    جنوبی کیرولینا: برسوں سے پراسراریت کی دھند میں لپٹے اور بحری اور ہوائی جہازوں کو نگل لینے والے برمودا ٹرائی اینگل میں غیر معمولی طور پر جزیرہ ابھر آیا۔ حکام نے لوگوں کے وہاں جانے پر پابندی عائد کردی۔

    برمودا تکون جسے شیطانی تکون بھی کہا جاتا ہے بحر اوقیانوس میں واقع سمندر کا ایک مخصوص حصہ ہے۔ اس علاقے کا ایک کونا برمودا، دوسرا پورٹوریکو اور تیسرا میلبورن سے متصل ہے اور ان تینوں کونوں کے درمیانی حصے کو برمودا تکون یا مثلث کہا جاتا ہے۔

    برمودا تکون گزشتہ طویل عرصے سے دنیا کے لیے اسرار کے دبیز پردوں میں لپٹی ہے۔

    یہاں بے شمار بحری جہازوں کی گمشدگی کے واقعات پیش آچکے ہیں جنہیں ڈھونڈنے کے لیے جانے والے بحری و ہوائی جہاز بھی ایسے کھوئے کہ تمام تر ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود آج تک ان کا سراغ نہ مل سکا۔

    مزید پڑھیں: برمودا ٹرائی اینگل کی حقیقت کیا ہے؟

    یہ جہاز اور ان پر موجود افراد کہاں گئے، کیا اس تکون سے گزر کر وہ کسی دوسری دنیا میں پہنچ گئے، یا کسی شیطانی قوت نے انہیں دنیا کی نظروں سے پوشیدہ کردیا، یہ وہ افسانے ہیں جنہوں نے اس تکون کو خوف اور اسرار سے منسوب کردیا ہے۔

    تاہم اب اس تکون کے اسرار میں مزید اضافہ ہوگیا جب اچانک یہاں سے ایک جزیرہ ابھر آیا ہے۔

    جنوبی کیرولینا کے ساحل کے ساتھ ابھرنے والے اس جزیرے کو مقامی افراد نے شیلی یا سیپیائی جزیرے کا نام دیا ہے کیونکہ یہاں لاتعداد سیپیاں بکھری ہوئی ہیں۔

    ان کے مطابق یہ جزیرہ گزشتہ 2 سے 3 ماہ میں ابھرنا شروع ہوا ہے۔

    ابتدا میں لوگوں کی بڑی تعداد نے یہاں جانا شروع کردیا تاہم جلد ہی حکومت نے یہاں لوگوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔

    اس کی وجہ یہاں پائی جانے والی شارکس ہیں جو لوگوں کی ہلاکت کا سبب بن سکتی ہیں۔

    جزیرے کے مقام والا بحر اوقیانوس کا یہ حصہ خطرناک شارک مچھلیوں سے بھرا پڑا ہے اور حکومت کے مطابق اگر یہاں لوگوں کی آمد و رفت پر پابندی نہ عائد کی جاتی تو کوئی بڑا سانحہ رونما ہوسکتا تھا۔

    علاوہ ازیں نئے ابھرنے والے جزیرے کی زمین اور ساحل کی زمین کے درمیان زیر زمین کرنٹ بھی موجود ہیں جو خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔

    فی الحال اس جزیرے کا مستقبل واضح نہیں کہ آیا یہ جزیرہ بڑھ کر مستقل جگہ حاصل کرلے گا، یا کچھ عرصے بعد غائب ہوجائے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔