Tag: برٹرینڈ رسل

  • برٹرینڈ رسل: ایک فلسفی اور مفکر

    برٹرینڈ رسل: ایک فلسفی اور مفکر

    برٹرینڈ رسل کے افکار و خیالات اور ان کے مضامین کو آج بھی اسکول اور جامعات کی سطح پر طلباء میں سوجھ بوجھ کو پروان چڑھانے اور ان میں صلاحیتیں اجاگر کرنے کے لیے پڑھایا جاتا ہے۔ برٹرینڈ رسل ایک معلّم، مؤرخ، فلسفی، ادیب اور ماہرِ منطق کی حیثیت سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔

    1970ء میں آج ہی کے روز برٹرینڈ رسل برطانیہ میں وفات پا گئے تھے۔ ان کی وجہِ شہرت وہ فلسفہ اور خیالات تھے جو روایتی تعلیم کے بجائے طالبِ علموں کو اختراع اور ایجاد کی جانب متوجہ کرنے پر زور دیتے ہیں۔ برٹرینڈ رسل دراصل تدریسی و تعلیمی نظام میں جدّت اور آزادیٔ اظہار کو اہمیت اور فروغ دینے کے قائل تھے۔ ان کا خیال تھاکہ اس طرح ننھّے ذہنوں میں تخیّل اور اختراع کو بلا رکاوٹ پنپنے کا موقع دیا جاسکتا ہے۔

    رسل شروع ہی سے علم و فنون کے شیدائی رہے تھے۔ وہ ریاضی کے مضمون میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ تعلیمی میدان میں‌ ان کی مہارت صرف اسی مضمون تک محدود نہ رہی بلکہ بعد میں وہ متعدد علوم پر دسترس رکھنے والے قابل و باصلاحیت فرد کے طور پر سامنے آئے۔ 18 مئی 1876ء کو انگلستان کے مشہور علاقے ویلز میں رسل نے آنکھ کھولی۔ وہ کسی معمولی خاندان کا فرد نہیں‌ تھے بلکہ ان کے والد سر جان رسل انگلستان کے وزیرِ اعظم رہے تھے۔ ان کا گھرانہ کٹّر مذہبی اور طبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھتا تھا۔ ابتدائی تعلیم ویلز سے ہی حاصل کی۔ دولت مند والدین کی زندگی مصروف تھی جس نے انھیں بچپن میں خاصا وقت تنہائی میں‌ کھیل کود کے ساتھ غور و فکر اور سیکھنے سمجھنے کا موقع دیا۔ ان کی ذاتی زندگی کچھ تلخ یادوں اور مشکلات سے بھی گزری، مگر اس نے ان میں‌ وہ شوق اور لگن بھر دی جس کے باعث وہ دنیا میں‌ ممتاز ہوئے۔

    برٹرینڈ رسل بچپن سے ہی نہایت ذہین طالب علم تھے۔ 1890ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے ریاضی کی اعلیٰ سند حاصل کی۔ پھر اسی یونیورسٹی میں مدرّس کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اس کے علاوہ نیشنل یونیورسٹی آف پیکنگ (چین)، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور دوسرے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تدریسی مشغلہ ساری عمر رہا۔

    اس فلسفی اور ماہر تدریس کی علمی کاوشوں اور مفید فلسفیانہ کام کی بات کی جائے تو برٹرینڈ رسل نے سائنس، تاریخ، سیاست، معاشرت، جنگ، امن، قانون اور انسانی حقوق سے متعلق کئی کتب اور مضامین تحریر کیے جو ہر ایک کے لیے معلومات کا خزانہ ثابت ہوئے۔ انھوں نے ایک باشعور اور بیدار مغز فرد کے طور پر ویتنام کی جنگ میں واشگاف الفاظ میں امریکا کو بھی مطعون کیا۔ برٹرینڈ رسل اپنی انسان دوستی کی پاداش میں‌ پابندِ سلاسل بھی رہے۔

    برٹرینڈ رسل تادمِ آخر تصنیف و تالیف کے ساتھ اپنے افکار و خیالات کا پرچار کرتے رہے۔ وہ ایک کہانی کار بھی تھے، جن کے افسانوں کے دو مجموعے بھی شائع ہوئے۔

    1950ء میں برٹرینڈ رسل کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ 1967ء میں ان کی آپ بیتی شائع ہوئی جس کا شمار دنیا کی مقبول آپ بیتیوں میں ہوتا ہے۔ اس فلسفی نے 1970ء میں عرب اسرائیل جنگ میں کھلم کھلا اسرائیل کی مخالفت کی اور اسے غاصب قرار دیا۔ انھیں مغرب میں انسان دوست شخصیت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔

  • کشمیر اور برٹرینڈ رسل کا احساسِ نامرادی

    کشمیر اور برٹرینڈ رسل کا احساسِ نامرادی

    نوبیل انعام یافتہ فلسفی برٹرینڈ رسل نے دنیا کو تدبّر اور فہم و فراست کا درس دیتے ہوئے کئی خرد افروز مضامین یادگار چھوڑے ہیں جنھیں بہت سراہا گیا۔

    برٹرینڈ رسل کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کا بھی زبردست حامی تھا۔ اس نے پنڈت نہرو کے کشمیر کے مسئلے پر دھاندلی کے مؤقف کی مذمت کی اور وہ بارہا بھارت کے سامراجی عزائم کے خلاف بولا۔

    اس نے کہا، ’’بھارتی حکومت بین الاقوامی معاملات میں بلند نظری کی پرچارک ہے لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ اپنی اس بلند نظری کو بھارت نے کشمیر کے معاملے میں خاک میں ملا دیا ہے تو دل پر ایک احساس نامرادی چھا جاتا ہے۔‘‘ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں اس نے بھارتی حملے کو ’’ننگی جارحیت‘‘ قرار دیا۔ رسل کو پاکستان اور اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹوسے بھی محبت تھی۔ اس نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو سراہتے ہوئے کہا:’’میں عرصے سے حکومتِ پاکستان کی پالیسی کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہا ہوں، کیونکہ یہ ایک آزاد پالیسی ہے۔‘‘

    1965ء کے بعد ویت نام کا مسئلہ رسل کی توجہ کا مرکز بنا۔ یہ معاملہ سیاہ رخ امریکہ کی درندگی اور بربریت کی شرمناک مثال ہے۔ چورانوے سالہ زرد رو بوڑھا فلسفی اپنے وطن سے ہزاروں میل دور اس ظلم و تشدد کے خلاف آہنی دیوار بن کر ڈٹ گیا۔ اس نے ویت نام کے قومی محاذ آزادی کے ریڈیو سے ویت نام میں لڑنے والے امریکی فوجیوں سے مخاطب ہو کر کہا: ’’اگر یہ سب کچھ امریکہ میں آپ کے والدین، بیویوں اور بچوں کے ساتھ ہوتا، تو آپ کیا محسوس کرتے؟ میں یہ سوال اس لیے پوچھتا ہوں کیونکہ اس کی ذمہ داری آپ پر ہے، اس بات کا فیصلہ بھی آپ نے کرنا ہے کہ یہ مجرمانہ جنگ جاری رہے گی یا نہیں۔‘‘

    ویت نام کی جنگ میں ’’مہذب‘‘ برطانیہ، امریکہ کا حواری رہا تھا۔ اس صورتِ حال میں رسل جو لیبر پارٹی کا ممتاز رکن تھا، یہ کہنے پر مجبور ہو گیا: ’’میں خود کو عہدِ حاضر کی سب سے زیادہ شرم ناک غداری کا مرتکب پاتا ہوں۔ ہٹلر کم از کم انسانیت کا دعویٰ تو نہیں کرتا تھا، لیکن یہ لوگ جو حکومت کی کرسیوں کو ناپاک کر رہے ہیں، انتخابات سے پہلے انسانیت کے اعلیٰ ترین نظریات کا پرچار کرتے تھے۔‘‘

    اس تقریر کے فوراً بعد اس نے لیبر پارٹی کی رکنیت کا کارڈ پھاڑ دیا۔ بعد ازاں اس نے ویت نام میں جنگی جرائم کی تفتیش اور جنگی مجرموں کو انسانی ضمیر کے روبرو پیش کرنے کی خاطر دنیا بھر کے ممتاز دانشوروں اور قانون دانوں پر مشتمل ایک ٹریبونل قائم کیا۔ جس میں پاکستان کے قانون دان محمود علی قصوری، فرانسیسی فلسفی سارتر، فرانسیسی دانشور سمون دی بوار کے علاوہ امریکہ، جاپان اور فرانس کے جنگ دشمن تحریک کے علم بردار شامل تھے۔ ٹریبونل کی باقاعدہ کارروائی کا آغاز2 مئی 1967ء کو اسٹاک ہوم میں ہوا۔ رسل خرابی صحت کی وجہ سے شرکت نہ کر سکا اور سارتر نے اس اجلاس کی صدارت کی۔ ٹریبونل نے حاصل شدہ شہادتوں کی بنا پر 10 مئی 1967ء کو امریکہ اور اس کے اتحادی آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی کوریا کو مجرم قرار دیا اور اس وقت کے امریکی صدر جانسن اور جنرل مورلینڈ کو ’’سزائے موت‘‘ کا حکم سنایا۔ بلاشبہ ان قومی مجرموں کو جسمانی طور پر سزا دینا ممکن نہ تھا۔ تاہم ایسی گہری ملامت انصاف پسند عالمی ضمیر کی آوازیں بن کر ضرور گونجیں۔ آخری ایام میں وہ اسرائیل کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائی کا ارادہ رکھتا تھا۔

    رسل کی زندگی جنگ، ظلم ، ناانصافی اور ایٹمی ہتھیاروں کیخلاف جدوجہد میں بسر ہوئی۔اسے جولائی 1955ء میں تخفیفِ اسلحہ کے مسئلہ پر جنیوا سربراہ کانفرنس سے پر امن مستقبل کی کرن نظر آنے لگی تھی، لیکن جب روس نے ایٹمی ہتھیاروں پر بین الاقوامی کنٹرول کے بارے میں امریکی تجاویز مسترد کردیں تو بوڑھا امن پسند فلسفی مایوس ہوا۔

    رسل جب تک زندہ رہا، ظلم کے خلاف سینہ سپر رہا۔ اٹھانوے برس کی عمر میں موت نے اس جری سپاہی کی تلوار اس سے چھین لی۔ 2 فروری 1970ء کو وہ انتقال کر گیا۔ 5 فروری کو اس کی وصیت کے مطابق اس کی نعش کو نذرِ آتش کیا گیا۔ اس موقع پر کوئی مذہبی تقریب نہیں ہوئی۔ کسی شخص نے کوئی لفظ نہیں کہا اور نہ ہی موسیقی کی دھنیں بجائی گئیں۔ آخری رسوم کی ادائیگی کے وقت اس کی بیوی اور ایک بیٹے کے علاوہ کوئی درجن بھر سوگوار موجود تھے۔

    (ظفر سپل فلسفی، ادیب اور متعدد کتب کے مصنف ہیں، یہ اقتباس ان کی کتاب ’’فلسفۂ مغرب‘‘ سے لیا گیا ہے)

  • نوبیل انعام یافتہ فلسفی اور ماہرِ‌تعلیم برٹرینڈ رسل

    نوبیل انعام یافتہ فلسفی اور ماہرِ‌تعلیم برٹرینڈ رسل

    دنیا برٹرینڈ رسل کو ایک فلسفی، ماہرِ تعلیم اور مؤرخ کے طور پر جانتی ہے۔ نوبیل انعام یافتہ برطانوی رسل کے کئی فکری مباحث اور اقوال بھی مشہور ہیں۔

    برٹرینڈ رسل 2 فروری 1970ء کو چل بسا تھا۔ برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل کا فلسفۂ تعلیم بہت مشہور ہے۔ ایک بہترین معلّم اور ماہرِ تدریس کے طور پر رسل نے روایتی طریقہ ہائے تدریس اور رسمی تعلیم کے بجائے طالبِ علموں میں اختراع اور ایجاد کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر زور دیا۔ رسل نے تدریسی و تعلیمی نظام میں جدّت اور آزادیٔ اظہار کو اہمیت اور فروغ دینے پر اصرار کیا اور اس کا خیال تھا کہ اس طرح ننھّے اور ناپختہ ذہنوں کے تخیّل کو وسعت اور اختراع کو بلا رکاوٹ پنپنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ مذہب اور خدا کے وجود پر اپنے مباحث اور دلائل کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔

    برٹرینڈ رسل کو علم کا شیدائی کہتے ہیں جس کا اوّلین عشق ریاضی کا مضمون تھا۔ لیکن اس کی استعداد اور قابلیت صرف اسی مضمون تک محدود نہ رہی بلکہ عمر اور تعلیم کے مدارج طے کرتے ہوئے رسل دوسرے مضامین میں بھی طاق ہوا۔

    ذہین اور باصلاحیت برٹرینڈ رسل 18 مئی 1876ء کو انگلستان کے مشہور علاقے ویلز میں پیدا ہوا۔ وہ کسی معمولی خاندان کا فرد نہیں‌ تھا بلکہ اس کے والد کا نام سَر جان رسل تھا جو انگلستان کے وزیرِ اعظم رہے۔ وہ کٹّر مذہبی گھرانے کا فرد تھا اور اس کا شمار برطانوی طبقۂ اشرافیہ میں ہوتا تھا۔ رسل کی ابتدائی تعلیم ویلز میں ہوئی۔ والدین کی مصروفیات بہت زیادہ تھیں جس کے باعث وہ اپنے بیٹے کو بچپن میں وقت نہیں‌ دے پاتے تھے اور یوں رسل کا خاصا وقت تنہائی میں‌ کھیل کود اور سیکھنے سمجھنے میں گزرتا تھا۔ اسے شروع ہی سے غور و فکر کی عادت پڑ گئی تھی۔ رسل کی ذاتی زندگی میں کچھ تلخ یادیں اور مختلف مشکلات بھی شامل رہیں، مگر اس نے اپنی پڑھائی اور سیکھنے کے شوق کو اہمیت دی اور آگے بڑھتا چلا گیا۔

    1890ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے ریاضی کی اعلیٰ سند حاصل کرنے کے بعد رسل نے اسی یونیورسٹی میں تدریسی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ بعد کے برسوں میں‌ وہ دنیا بھر کی جامعات میں لیکچرز دینے اور اساتذہ کی تربیت کا کام انجام دیتا رہا۔ برٹرینڈ رسل نے نیشنل یونیورسٹی آف پیکنگ (چین)، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور دوسرے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بطور مدرّس اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔

    برٹرینڈ رسل کی علمی و ادبی خدمات اور فلسفے کے میدان میں کارناموں کی بات کی جائے تو اس نے سائنس، تاریخ، سیاست، معاشرت، جنگ، امن، قانون اور انسانی حقوق سے متعلق کئی کتب اور مضامین تحریر کیے جو بہت مفید اور معلوماتی ہیں۔ وہ ایک ایسا بیدار مغز استاد، ادیب اور فلسفی تھا جس نے ویتنام کی جنگ کے زمانے میں امریکا کو ظالم کہا اور حکومت کو مطعون کیا۔ رسل کو اسی انسان دوستی کی پاداش میں‌ پابندِ سلاسل بھی رہنا پڑا۔

    1950ء میں اسے ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ برٹرینڈ رسل کی آپ بیتی 1967ء میں شائع ہوئی تھی اور اسے دنیا کی مقبول ترین آپ بیتیوں‌ میں شمار کیا جاتا ہے۔ رسل ان دانش وروں میں شامل تھا جس نے 1970ء میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران کھلم کھلا اسرائیل کی مخالفت کی تھی اور اسے غاصب قرار دیا تھا۔

    برٹرینڈ رسل کا نظریہ تعلیم طالبِ علموں میں اختراعی اور ایجادی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر زور دیتا ہے‌ نسلِ نو کی تعلیم و تربیت اور ان کی ذہنی صلاحیتوں‌ کو اجالنے کے ضمن میں برٹرینڈ رسل کے یہ آٹھ اقوال بہت مشہور ہیں جو طلبا ہی نہیں اساتذہ کی بھی راہ نمائی کرتے ہیں۔

    1- کسی چیز کے حوالے سے حتمی اور یقینی رویّہ مت اپنائیے۔

    2- کسی تجرباتی مرحلے پر ہرگز نہ کہیے کہ کوئی بہت اہم انکشاف ہوا ہے، کیوں‌ کہ اس کا ثبوت تجرباتی حقائق کی روشنی میں ازخود سامنے آجائے گا۔

    3- کام یابی کا یقین ہوجانے کے بعد بھی غور و فکر ترک نہ کیجیے اور اپنے تخیّل کی حوصلہ شکنی سے بچیے۔

    4- علمی اختلاف کی صورت میں‌ زور زبردستی کے بجائے دلیل سے کام لیجیے، کیوں کہ اصرار اور زور زبردستی سے کسی مباحثے میں جیت، غیر حقیقی اور فریب کے سوا کچھ نہیں‌ ہوتی۔

    5- کسی کی رائے کو طاقت سے کچلنے کی کوشش نہ کریں ورنہ خود آپ کی رائے اور بیان کو دبا دیا جائے گا۔ اگر آپ اپنی رائے کا احترام کروانا چاہتے ہیں تو دوسروں کی آرا کو عزت و احترام دیں، تبھی آپ کی بات سنی جائے گی۔

    6- اپنی رائے کے منفرد اور خارج از بحث ہونے سے مت گھبرائیں‌، کیوں کہ آج جس فک اور رائے کو قبول کر لیا گیا ہے، کبھی اسے بھی خارج از امکان تصوّر کیا گیا تھا۔

    7- اپنی ذہانت کا ادراک کرنے کے جتن کیے بغیر لطف اندوز ہونا سیکھیے، کیوں کہ جب ذہانت کو عقل کے پیمانوں کی مدد سے جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ مدھم پڑجاتی ہے۔

    8- محتاط انداز سے ہمیشہ صداقت کا ساتھ دیجیے۔ اس لیے کہ اگر سچ پریشان کُن بھی ہو تو یہ اس سے کم ہوگا، جسے آپ منکشف کرنا چاہتے ہیں۔

    برٹرینڈ رسل زندگی بھر تحریر اور تقریر میں‌ مصروف رہا۔ ایک ادیب اور کہانی کار کے طور پر رسل کا بہت کم ہی ذکر ہوتا ہے، لیکن اس کے افسانوں پر مشتمل دو کتابیں‌ بھی شایع ہوئی تھیں۔

  • علم کا شیدائی، تدریس کا ماہر برٹرینڈ رسل جسے پابندِ سلاسل کیا گیا

    علم کا شیدائی، تدریس کا ماہر برٹرینڈ رسل جسے پابندِ سلاسل کیا گیا

    برٹرینڈ رسل ایک معلّم، مؤرخ، فلسفی، ادیب اور ماہرِ منطق تھے جو 2 فروری 1970ء کو برطانیہ میں وفات پا گئے تھے۔ برٹرینڈ رسل کی وجہِ شہرت ان کا وہ فلسفہ تھا جس کے مطابق وہ روایتی تعلیم کے بجائے طالبِ علموں کو اختراع اور ایجاد کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر زور دیتے ہیں۔

    وہ تدریسی و تعلیمی نظام میں جدّت اور آزادیٔ اظہار کو اہمیت اور فروغ دینے کے قائل تھے جس کے ذریعے ان کی نظر میں ننھّے ذہنوں میں تخیّل اور اختراع کو بلا رکاوٹ پنپنے کا موقع دیا جاسکتا تھا۔

    علم کے شیدائی اور تدریس کے اس ماہر کا اوّلین عشق ریاضی کا مضمون تھا۔ تعلیمی میدان میں‌ ان کی مہارت صرف اسی مضمون تک محدود نہ تھی بلکہ وہ متعدد علوم پر دسترس رکھتے تھے۔ برٹرینڈ رسل نے 18 مئی 1876ء انگلستان کے مشہور علاقے ویلز میں آنکھ کھولی۔ وہ کسی معمولی خاندان کا فرد نہیں‌ تھے بلکہ ان کے والد سر جان رسل انگلستان کے وزیرِ اعظم رہے ہیں۔ ان کا گھرانہ کٹّر مذہبی اور طبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھتا تھا۔ ابتدائی تعلیم ویلز سے ہی حاصل کی۔ دولت مند والدین کی زندگی مصروف تھی جس نے انھیں بچپن میں خاصا وقت تنہائی میں‌ کھیل کود کے ساتھ غور و فکر اور سیکھنے سمجھنے کا موقع دیا۔ ان کی ذاتی زندگی کچھ تلخ یادوں اور مشکلات سے بھی گزری، مگر اس نے ان میں‌ وہ شوق اور لگن بھر دی جس کے باعث وہ دنیا میں‌ ممتاز ہوئے۔

    وہ بچپن سے ہی نہایت ذہین طالب علم تھے۔ 1890ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے ریاضی کی اعلیٰ سند حاصل کی۔ پھر اسی یونیورسٹی میں مدرّس کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اس کے علاوہ نیشنل یونیورسٹی آف پیکنگ (چین)، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور دوسرے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تدریسی مشغلہ ساری عمر رہا۔

    برٹرینڈ رسل کی علمی، ادبی اور فلسفیانہ خدمات کی بات کی جائے تو ان کے غور و فکر، مشاہدات اور تجربات نے ان سے فلسفہ، سائنس، تاریخ، سیاست، معاشرت، جنگ، امن، قانون اور انسانی حقوق سے متعلق کئی کتب اور مضامین تحریر کروائے جو آج بھی ان کی یاد دلاتے ہیں اور ہر ایک کے لیے مفید اور معلومات کا خزانہ ہیں۔ وہ ایسے بیدار مغز تھے جنھوں نے ویتنام کی جنگ میں واشگاف الفاظ میں امریکا کو مطعون کیا۔ انھیں اپنی انسان دوستی کی پاداش میں‌ پابندِ سلاسل بھی رہنا پڑا۔

    برٹرینڈ رسل کو 1950ء میں ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ 1967ء میں ان کی آپ بیتی شائع ہوئی جس کا شمار دنیا کی مقبول آپ بیتیوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے 1970ء میں عرب اسرائیل جنگ میں کھلم کھلا اسرائیل کی مخالفت کی اور اسے غاصب قرار دیتے ہوئے مغرب میں انسانیت کا پرچار کرنے والوں میں شمار کیے گئے۔

    وہ دمِ آخر تک لکھنے لکھانے اور اپنے افکار و خیالات کا اظہار کرنے میں‌ مصروف رہے۔ وہ کہانی کار بھی تھے، جن کے افسانوں کے دو مجموعے شائع ہوئے۔

  • مشہور فلسفی برٹرینڈ رسل کی فکر سے جگمگاتے 8 اصول

    مشہور فلسفی برٹرینڈ رسل کی فکر سے جگمگاتے 8 اصول

    معروف فلسفی، ادیب اور مدرّس برٹرینڈ رسل دنیا بھر میں‌ علم و فنون اور درس و تدریس کے شعبے میں اپنے علمی و تحقیقی کاموں کے لیے منفرد پہچان رکھتے ہیں‌ اور اپنی غیرروایتی طرزِ‌ فکر کے لیے مشہور ہیں۔ تعلیم ان کا اوّلین شوق اور تدریس جنون تھا۔

    برٹرینڈ رسل 18 مئی 1876ء کو ویلز(انگلستان) میں پیدا ہوئے۔ جدید دنیا نے تعلیم کے شعبے میں‌ ان کی بیش بہا خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں‌ ایک ذہین، قابل اور باصلاحیت انسان قرار دیا‌۔ 1970 میں‌ برٹرینڈ رسل اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے‌۔

    برٹرینڈ رسل کا نظریہ تعلیم طالبِ علموں میں اختراعی اور ایجادی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر زور دیتا ہے‌ نسلِ نو کی تعلیم و تربیت اور ان کی ذہنی صلاحیتوں‌ کو اجالنے کے ضمن میں برٹرینڈ رسل کے یہ آٹھ اقوال بہت مشہور ہیں جو طلبا ہی نہیں اساتذہ کی بھی راہ نمائی کرتے ہیں۔

    کسی چیز کے حوالے سے حتمی اور یقینی رویّہ مت اپنائیے۔

    کسی تجرباتی مرحلے پر ہرگز نہ کہیے کہ کوئی بہت اہم انکشاف ہوا ہے، کیوں‌ کہ اس کا ثبوت تجرباتی حقائق کی روشنی میں ازخود سامنے آجائے گا۔

    کام یابی کا یقین ہوجانے کے بعد بھی غور و فکر ترک نہ کیجیے اور اپنے تخیّل کی حوصلہ شکنی سے بچیے۔

    علمی اختلاف کی صورت میں‌ زور زبردستی کے بجائے دلیل سے کام لیجیے، کیوں کہ اصرار اور زور زبردستی سے کسی مباحثے میں جیت، غیر حقیقی اور فریب کے سوا کچھ نہیں‌ ہوتی۔

    رائے کو طاقت سے کچلنے کی کوشش نہ کریں ورنہ آپ کی رائے اور اظہار کو دبا دیا جائے گا۔ اگر آپ اپنی رائے کا احترام کروانا چاہتے ہیں تو دوسروں کی آرا کو عزت و احترام دیں، تبھی آپ کی بات سنی جائے گی۔

    اپنی رائے کے منفرد اور خارج از بحث ہونے سے مت گھبرائیں‌، کیوں کہ آج جس فک اور رائے کو قبول کر لیا گیا ہے، کبھی اسے بھی خارج از امکان تصوّر کیا گیا تھا۔

    اپنی ذہانت کا ادراک کرنے کے جتن کیے بغیر لطف اندوز ہونا سیکھیے، کیوں کہ جب ذہانت کو عقل کے پیمانوں کی مدد سے جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ مدھم پڑجاتی ہے۔

    محتاط انداز سے ہمیشہ صداقت کا ساتھ دیجیے۔ اس لیے کہ اگر سچ پریشان کُن بھی ہو تو یہ اس سے کم ہوگا، جسے آپ منکشف کرنا چاہتے ہیں۔