Tag: بریگزٹ

  • برطانیہ پر بریگزٹ کے ہولناک اثرات پڑنا شروع

    برطانیہ پر بریگزٹ کے ہولناک اثرات پڑنا شروع

    لندن: برطانیہ پر بریگزٹ کے بعد کے منفی اثرات پڑنا شروع ہو گئے ہیں۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق بریگزٹ کے بعد برطانوی امیگریشن، تجارت اور سیاحت پر بے تحاشا منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، اور کہا جا رہا ہے کہ بہت سے طویل المدتی نتائج ابھی تک مکمل طور پر سامنے نہیں آئے، جو ممکن ہے آنے والے برسوں میں مزید واضح ہو جائیں۔

    23 جون، 2016 کو برطانوی ووٹرز نے ایک خصوصی ریفرنڈم میں برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں فیصلہ دیا تھا، جس پر 31 جنوری 2020 عمل درآمد ہوا۔

    یورپی یونین سے علیحدگی کے اس فیصلے سے امیگریشن، تجارت اور سیاحت سمیت مختلف شعبوں پر دور رس اثرات پڑنے لگے ہیں۔

    برطانیہ میں داخلہ

    یورپی یونین کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے برطانیہ میں اب چھٹیاں گزارنا قدرے مشکل ہو گیا ہے، کیوں کہ بریگزٹ سے قبل یورپی یونین میں شامل کسی بھی ملک کا قومی شناختی کارڈ رکھنے والا کوئی بھی فرد آزادانہ طور پر برطانیہ میں داخل ہو سکتا تھا، اب پاسپورٹ رکھنے والوں کو یہ سہولت حاصل ہے۔

    سیاحوں کی تعداد میں کمی

    برطانوی سیاحتی اتھارٹی کے مطابق یورپی شہریوں سے 2022 میں برطانیہ کے دوروں کی تعداد میں 2019 کے مقابلے میں تقریباً ایک تہائی کمی آ گئی ہے-

    ہوٹلوں کی بڑھتی قیمتیں

    برطانیہ کے شعبہ مہمان نوازی کی جانب سے ہوٹلوں کے اخراجات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے سیاحوں کوخاصی مشکل کا سامنا ہے، مہمان نوازی کے اخراجات بڑھنے کی وجہ سے دیگر اشیا بھی مہنگی ہو گئی ہیں۔ چار پانچ سال پہلے اگر دو لوگوں کو 10 دن کی رہائش پر چھ سے آٹھ ہزار یورو خرچ کرنا پڑتے تھے تو اب اسی ٹور پیکج کے لیے انھیں دوگنا زیادہ رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔

    عملے کی کمی

    ہوٹلوں، بارز اور ریستوراںوں میں عملے کی کمی کا سامنا ہے، آکسفورڈ یونیورسٹی کی مائیگریشن آبزرویٹری کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق جون 2019 اور جون 2021 کے درمیان برطانوی مہمان نوازی کے شعبے میں کام کرنے والے یورپی یونین کے ملازمین کی تعداد میں 25 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔

    ماضی میں برطانوی سیاحتی شعبے کا زیادہ تر انحصار یورپی یونین کے ممالک سے آئے کم اجرت والے ورکرز پر ہوا کرتا تھا مگر اب ایسا نہیں رہا۔

    نئے امیگریشن قوانین

    بریگزٹ کے بعد لاگو ہونے والے امیگریشن کے نئے قوانین نے یورپی یونین کے کم ہنر مند شہریوں کے لیے برطانوی لیبر مارکیٹ میں داخل ہونا بہت مشکل بنا دیا ہے۔

  • برطانوی اور آسٹریلوی وزرائے اعظم میں خوشی کے موقع پر بسکٹ کا تبادلہ

    برطانوی اور آسٹریلوی وزرائے اعظم میں خوشی کے موقع پر بسکٹ کا تبادلہ

    لندن: بریگزٹ کے بعد برطانیہ کی آسٹریلیا سے پہلی فری ٹریڈ ڈیل ہو گئی۔

    برطانیو ی میڈیا کے مطابق برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان بریگزٹ کے بعد پہلی آزاد تجارت کا معاہدہ ہو گیا ہے، دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے ڈیل پر خوشی میں بسکٹ کا تبادلہ کیا۔

    برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے ٹوئٹ میں بھی خبر دی کہ آسٹریلیا کے ساتھ ڈیل ہو گئی ہے، جب کہ برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک ٹیکنالوجی، سیکیورٹی، سائنس، اور موسمیاتی تبدیلیوں پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔

    برطانوی حکومت نے منگل کو کہا کہ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کا مطلب ہے کہ برطانوی کمپنیوں کو آسٹریلیا میں کاریں، سرامکس، بسکٹ اور مٹھائیوں جیسی مصنوعات کی فروخت پر کم لاگت اٹھانی پڑے گی۔

    اس ڈیل کے سبب برطانوی صنعتوں کو فروغ ملے گا جہاں ملک بھر میں 35 لاکھ افراد کام کر رہے ہیں، بورس جانسن نے کہا کہ یہ ڈیل برطانیہ اور آسٹریلیا کے تعلقات میں ایک نئی صبح کی طرح ہے۔

    برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ یہ نیا فری ٹریڈ ایگریمنٹ برطانوی کاروبار اور صارفین کے لیے شان دار مواقع فراہم کرے گا۔

    یہ معاہدہ پیر کو رات گئے کیا گیا تھا، آسٹریلیا کے وزیر تجارت نے کہا تھا کہ بورس جانسن اور آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے لندن میں ڈاؤننگ اسٹریٹ میں ایک عشائیے کے موقع پر معاہدے کی وسیع شرائط پر اتفاق کر لیا ہے۔

  • بریگزٹ مذاکرات کا نتیجہ: مذاکرات کار مشل بارنیئر کا ٹویٹر پر اہم پیغام

    بریگزٹ مذاکرات کا نتیجہ: مذاکرات کار مشل بارنیئر کا ٹویٹر پر اہم پیغام

    لندن: برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین بریگزٹ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان تجارت اور مستقبل کے تعلقات کو شکل دینے والے معاہدے بریگزٹ سے متعلق مذاکرات میں اتفاق رائے نہ ہو سکا۔

    اس سلسلے میں آج برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور یورپی یونین کمیشن کے سربراہ اُرسلا وون دی لیین موجودہ پیش رفت پر اپنے جائزے پیش کریں گے۔

    بریگزٹ کے مذاکرات کار مشل بارنیئر نے ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں لندن میں ایک ہفتے سے جاری وسیع سطح کے مذاکرات کے حوالے سے بتایا کہ فریقین میں منصفانہ تقسیم، گورننس اور فشریز کے معاملات میں نمایاں اختلاف کے سبب مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔

    مشل بارنیئر نے کہا کہ بریگزٹ امور کے مذاکرات کار ڈیو فراسٹ کے ساتھ وہ فی الوقت مذاکرات کے سلسلے کو روکنے پر رضامند ہو گئے ہیں، مذاکرات سے متعلق اب حکام بالا کو بریفنگ دی جائے گی۔

    یاد رہے کہ یورپی یونین سے 31 جنوری 2020 سے علیحدگی اختیار کرنے والے برطانیہ اور یونین کے مابین تجارتی اور دو طرفہ تعلقات پر وسیع پیمانے پر مذاکرات ہو رہے ہیں۔

    ان مذاکرات کے دوران اگر کسی نتیجے تک نہ پہنچا گیا تو فریقین تجارتی تعلقات کو 31 دسمبر کے بعد عالمی تجارتی تنظیم کے اصولوں کے مطابق سر انجام دیں گے۔

  • برطانیہ کی نئی ویزا پالیسی، ہنر مند افراد کے لیے اہم فیصلہ

    برطانیہ کی نئی ویزا پالیسی، ہنر مند افراد کے لیے اہم فیصلہ

    لندن: یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد نئی برطانوی ویزا پالیسی میں دنیا بھر کے ہنرمندوں کے لیے خوش خبری دی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بریگزٹ کے بعد برطانیہ نے نئی امیگریشن پالیسی جاری کرنے کا اعلان کیا ہے، برطانیہ نے نئی پالیسی کے تحت یورپ سے سسستی لیبر پر انحصار کو کم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

    نئی امیگریشن پالیسی کے تحت اب ویزوں کے لیے دنیا بھر سے ہنرمند افراد کو ترجیح دی جائے گی۔

    2016 میں بریگزٹ کے ریفرنڈم میں یورپی تارکین وطن کے مسئلے نے اہم کردار ادا کیا تھا، ریفرنڈم میں ملازمت دینے والوں سے کہا گیا تھا کہ یورپ سے سستی مزدوری پر انحصار نہ کریں۔

    نئے ’پوائنٹس بیسڈ سسٹم‘ میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ برطانیہ آنے کے لیے ویزا ان افراد کو ملے جن کے پاس برطانوی معیشت کو درکار مہارت ہو۔ دوسری طرف کاروباری فرمز نے خبردار کیا ہے کہ برطانیہ میں گھریلو ملازمین، مریضوں کی تیمارداری اور کھیتوں میں کام کرنے والے کارکنوں کی قلت ہے، یہی وجہ ہے یہ کاروباری فرمز یورپی تارکین وطن کی سستی لیبر پر انحصار کرتے ہیں۔

    ادھر برطانوی محکمہ داخلہ نے کہا ہے کہ کم سے کم تنخواہ کے مشورے پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ مائیگریشن ایڈوائزری کمیٹی ( ایم اے سی) نے ہنر مند تارکین وطن کی کم سے کم تنخواہ 30 ہزار پاؤنڈز سے کم کر کے 26 ہزار 600 پاؤنڈز کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

    نئی برطانوی پالیسی میں ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری اور آٹومیشن پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، برطانیہ چاہتا ہے کہ تارکین وطن کی تعداد کو زیادہ سے زیادہ کم کیا جائے، اس لیے برطانوی ویزے کے حصول کے لیے مقرر کردہ معیار کی شرط برقرار رکھی گئی ہے، جس میں انگریزی بولنے کی صلاحیت اور آفر لیٹر شامل ہیں۔

  • بریگزیٹ کے بعد برطانیہ میں نسل پرستی کے واقعات کا آغاز

    بریگزیٹ کے بعد برطانیہ میں نسل پرستی کے واقعات کا آغاز

    لندن: یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد برطانیہ میں پہلے ہی دن نسل پرستی پر مبنی واقعہ پیش آ گیا جس سے خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ برطانیہ میں نسل پرستانہ واقعات میں اچانک اضافہ ہو سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بریگزٹ کے پہلے ہی دن نسل پرستوں نے برطانیہ کے نارفوک کاؤنٹی کے شہر ناروچ میں رہایشی ٹاور میں انگریزی نہ بولنے والوں سے نفرت کے نوٹس چسپاں کر دیے جس سے غیر مقامی لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جس کے بعد فلیٹس کے مکینوں نے نسل پرستی کے خلاف مظاہرہ بھی کیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق نسل پرستی پر مبنی نوٹس ناروچ کونسل کی عمارت کے اندر مختلف مقامات پر چسپاں کیا گیا، جس میں لکھا گیا کہ اگر آپ انگلش نہیں بول سکتے تو یہاں نہ رہیں، برطانیہ ہمارا ملک ہے جو ہمیں واپس مل گیا ہے اور انگریزی ہماری زبان ہے، اگر آپ ہماری زبان نہیں بول سکتے تو واپس وہیں چلے جائیں جہاں سے آئے ہیں۔

    نئی تاریخ رقم، برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو گیا، ملک بھر میں‌ جشن

    نسل پرستی پر مبنی نوٹس کے بعد عمارت کے مکینوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، پولیس نے واقعے کی تفتیش نسل پرستی کے طور پر شروع کر دی ہے، لوکل کونسلرز نے بھی واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔

    واضح رہے کہ یکم فروری کو برطانیہ باضابطہ طور پر یورپی یونین سےعلیحدہ ہو گیا ہے، تاہم علیحدگی کا یہ عمل 11 ماہ کے عبوری دور کے بعد اپنی تکمیل تک پہنچے گا۔ برطانیہ یورپ سے نئے سرے سے تعلقات کے لیے مذاکرات کرے گا، 11 ماہ کی عبوری مدت میں موجودہ قوانین پر معاملات جاری رکھے جائیں گے، بریگزٹ کے نفاذ کے بعد اب 31 دسمبرتک کا دور عبوری گا۔ اس دوران برطانیہ میں یورپی قوانین لاگو رہیں گے اور یورپی یونین سے تعلقات کے بارے میں تفصیلات طے کی جائیں گی۔

  • نئی تاریخ رقم، برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو گیا، ملک بھر میں‌ جشن

    نئی تاریخ رقم، برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو گیا، ملک بھر میں‌ جشن

    لندن: برطانیہ باضابطہ طور پر یورپی یونین سےعلیحدہ ہو گیا، تاہم علیحدگی کا یہ عمل 11 ماہ کے عبوری دور کے بعد اپنی تکمیل تک پہنچے گا۔

    تفصیلات کے مطابق بریگزٹ کے لیے کی جانے والی کوششیں رنگ لے آئیں، برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو گیا، ملک بھر میں برطانوی جشن منانے لگے ہیں، بریگزٹ کے حامی اور مخالف پارلیمنٹ اسکوائر پر جمع ہو گئے ہیں، خواتین اور بچے بھی پارلیمنٹ اسکوائر پر جھنڈے اٹھائے نکل آئے ہیں۔

    برطانیہ یورپ سے نئے سرے سے تعلقات کے لیے مذاکرات کرے گا، 11 ماہ کی عبوری مدت میں موجودہ قوانین پر معاملات جاری رکھے جائیں گے، بریگزٹ کے نفاذ کے بعد اب 31 دسمبرتک کا دور عبوری گا۔ اس دوران برطانیہ میں یورپی قوانین لاگو رہیں گے اور یورپی یونین سے تعلقات کے بارے میں تفصیلات طے کی جائیں گی۔

    یورپی یونین سے نکلنے والا برطانیہ پہلا ملک

    خیال رہے کہ برطانیہ یورپی یونین کا 47 برس تک ممبر رہا، اور بریگزٹ کی جدوجہد میں تین سال لگے، برطانیہ کو یورپ سے نکالنے کی ڈیل کے حق میں 621 اور مخالفت میں 49 ووٹ آئے تھے، یورپی پارلیمنٹ نے بریگزیٹ ڈیل کی بھاری اکثریت سے منظوری دی تھی جب کہ برطانوی پارلیمنٹ اور دارالامرا بھی یورپی یونین سے علیحدگی کی قرارداد منظور کر چکے تھے اور ملکہ برطانیہ بھی یورپی یونین سے علیحدگی کی منظوری دے چکی تھیں۔

    بریگزٹ کے بعد ایک طرف اس کے حامی جشن منا رہے ہیں تو دوسری طرف بریگزٹ کے مخالفین احتجاج کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم برطانیہ بورس جانسن نے یورپ سے برطانوی علیحدگی کے بعد کہا کہ اب برطانیہ میں نئے دور کا سورج طلوع ہوگا، اکثر لوگوں کے لیے یہ امید کا شان دار لمحہ ہے، ایسا لمحہ جو پھر کبھی نہیں آئے گا۔ وہ بھی بہت سارے ہیں جو اس لمحے پریشانی اور نقصان محسوس کر رہے ہیں۔

  • یورپی یونین سے نکلنے والا برطانیہ پہلا ملک

    یورپی یونین سے نکلنے والا برطانیہ پہلا ملک

    برطانیہ آج یورپی یونین سے الگ ہو جائے گا، جس کے بعد وہ قانونی طور پر یورپی یونین کا حصہ نہیں رہے گا، برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کے بعد اس کے 73 اراکین پر مشتمل یورپی پارلیمنٹ کا کردار بھی ختم ہو جائے گا۔

    بریگزٹ عمل میں آتے ہی یورپی پارلیمنٹ کے اراکین بھی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے، تاہم برطانیہ کے یورپ سے مکمل انخلا کا عمل اس سال کے آخر تک جاری رہے گا اور دونوں فریقین موجودہ شرائط اور قوانین کی بنا اپنے تمام معاملات جاری رکھیں گے۔ اس دوران برطانیہ یورپ کے ساتھ کاروباری، داخلی اور سفارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ دیگر اہم امور پر نتیجہ خیز مذاکرات بھی جاری رکھے گا۔

    برطانیہ 1973 میں یورپی یونین کا حصہ بنا تھا اور ایک اہم رکن کے طور پر اپنا کردار ادا کرتا رہا، اور اس یونین کا پہلا ملک ہے جو اس سے باہر نکل رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ 2016 میں ہونے والے عوامی ریفرنڈم میں عوام کی اکثریت کی جانب سے یورپ سے نکلنے کے حق میں رائے دہی تھی، ان نتائج کے بعد برطانوی اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی تھی اور اُس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا تھا جس کے بعد وزارتِ عظمی کا تاج ٹریسامے کے سر پر سجا تھا جنھوں نے بریگزیٹ کے لیے 29 مارچ 2019 کی تاریخ طے کی اور قانون سازی کے لیے بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے عام انتخابات کا اعلان کیا۔

    تاریخی دن ، برطانیہ آج یورپی یونین سے الگ ہوجائے گا

    8 جون 2017 کو برطانیہ میں ہونے والے انتخابات میں ان کی پارٹی جیت تو گئی مگر سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکی اور ایک کم زور حکومت قیام عمل میں آئی۔ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ٹریسامے تین بار پارلیمنٹ میں ڈیل لے کر آئیں مگر تینوں بار انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور مقررہ تاریخ پر بریگزیٹ کا عمل پورا نہ ہو سکا۔ یوں برطانوی حکومت کو یورپی یونین سے مزید مہلت مانگنی پڑی جس کے بعد 2 بار بریگزٹ کی تاریخ میں تبدیلی ہوئی مگر نتیجہ جوں کا توں ہی رہا اور ٹریسامے کو مجبوراً گھر جانا پڑا۔

    پھر 24 جولائی 2019 کو وزراتِ عظمیٰ موجودہ وزیر اعظم بورس جانسن کے حصے میں آئی جنھوں نے ڈیل فیل ہونے کے بعد زبردستی پارلیمنٹ کو معطل کر کے بریگزیٹ کا عمل پورا کرنے کی کوشش کی جسے عدالتِ عظمیٰ نے روک دیا، جس کے بعد وزیر اعظم بورس جانسن نے یورپی یونین کو خط لکھ کر بریگزیٹ کے لیے آج کی تاریخ تک کی مہلت مانگی۔

    12 دسمبر 2019 کے لیے عام انتخابات کا اعلان کیا گیا تھا جن میں ان کی جماعت نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور 31 جنوری کو بریگزیٹ کا عمل مکمل کرنے کا وعدہ کیا گیا جسے آج انھوں نے پورا کر دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ بات واضح ہو جائے گی کہ حکومت برطانیہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ملک کی سمت کا تعین کیسے کرتی ہے۔

  • انتخابات جیتنے کے باوجود بورس جانسن کی مشکلات کم نہ ہو سکیں

    انتخابات جیتنے کے باوجود بورس جانسن کی مشکلات کم نہ ہو سکیں

    لندن: انتخابات جیتنے کے باوجود برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی مشکلات کم نہ ہو سکیں، ہاؤس آف لارڈز میں ان کی خواہشات کے برعکس ایک ڈیل طے ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالنا تو ایک طرف بورس جانسن کو برطانیہ میں یورپی باشندوں کے رہایشی حقوق کے حوالے سے تجویز بھی برطانوی امرا کو پسند نہ آئی اور انھوں نے دارالامرا میں یورپی باشندوں کو برطانیہ میں رہایشی برقرار رکھنے کے حق میں ووٹ دے دیا۔

    بورس جانسن کی قرارداد میں اپوزیشن کی ترمیم کے حق میں 270، جب کہ مخالفت میں 229 ووٹ پڑ گئے، اس ترمیم کی منظوری کے بعد یورپی باشندے بریگزٹ کے بعد بھی برطانیہ میں رہ سکیں گے، خیال رہے کہ بورس جانسن کی جماعت کو ہاؤس آف لارڈز میں اکثریت حاصل نہیں۔

    برطانوی پارلیمنٹ نے وزیراعظم کی بریگزٹ ڈیل منظور کرلی

    یاد رہے کہ دس جنوری کو برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے وزیر اعظم بورس جانسن کی بریگزٹ ڈیل منظور کر لی تھی جس کے بعد برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کی راہ ہموار ہو گئی۔ بریگزٹ ڈیل کی حمایت میں 330 ارکان نے ووٹ دیے جب کہ 231 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیے، جس کے بعد اسپیکر نے ڈیل کی منظوری کا اعلان کیا۔

    واضح رہے کہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے انتخابات میں کام یابی کے بعد کہا تھا کہ عوام نے یہ مینڈیٹ یورپی یونین سے نکلنے کے لیے دیا ہے، برطانیہ آیندہ ماہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو جائے گا۔

  • پاکستان کے لیے برطانیہ کے ساتھ تجارت کے مزید مواقع میسر ہوں گے: رکن یورپی پارلیمنٹ

    پاکستان کے لیے برطانیہ کے ساتھ تجارت کے مزید مواقع میسر ہوں گے: رکن یورپی پارلیمنٹ

    لندن: رکن یورپی پارلیمنٹ شفق محمد نے کہا ہے کہ بریگزٹ کے بعد برطانوی معیشیت کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تاہم پاکستان کے لیے برطانیہ کے ساتھ براہ راست تجارت کے مزید مواقع میسر ہوں گے۔

    برطانیہ 31 جنوری کو یورپی یونین سے انخلا کرے گا، برطانوی معیشت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، پاکستان کے لیے کون سے نئے کاروباری مواقع پیدا ہوں گے اور حکومت پاکستان کو کیا اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے اس حوالے سے رکن یورپی پارلیمنٹ شفق محمد نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کی۔

    انھوں نے کہا کہ یورپی یونین سے انخلا کے بعد برطانوی معیشت کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، ڈیل یا نو ڈیل دونوں صورتوں میں معیشت کو دھچکا لگے گا، 31 جنوری کے بعد کاروباری، سفارتی اور داخلی امور پر مذاکرات جاری رہیں گے جس پر ایک برس سے زائد کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔

    شفق محمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے برطانیہ کے ساتھ براہ راست تجارت کے مزید مواقع میسر ہوں گے، پاکستان کو یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات کے لیے نئے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

    شفق محمد اے آر وائی نیوز سے گفتگو کر رہے ہیں

    انھوں نے یہ بھی کہا کہ یورپی یونین میں پاکستانی نژاد اراکین پارلیمنٹ کی کوششوں سے مسئلہ کشمیر متعدد بار زیر بحث آیا مگر بریگزٹ کے بعد اس طرح کی حمایت حاصل نہیں کی جا سکے گی، حکومت پاکستان کو ان تمام معاملات کی بہتری کے لیے اب نئے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

    یورپی رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ جی ایس پی پلس پاکستان کے لیے ایک سنہری موقع ہے مگر پاکستان اس سے اتنا زیادہ فائدہ نہیں اٹھا رہا جتنا بنگلہ دیش اور دیگر ممالک اٹھا رہے ہیں، پاکستان میں ٹیکنالوجی کے فروغ سے بہت سے مواقع پیدا کر کے یورپ کے ساتھ کاروبار کیا جا سکتا ہے، بہ طور رکن یورپی پارلیمنٹ میں حکومت پاکستان کی ہر طرح کی معاونت کے لیے حاضر ہوں۔

  • بریگزٹ میں چند ہفتے باقی، تارکین وطن کی برطانیہ آنے کی کوششیں تیز

    بریگزٹ میں چند ہفتے باقی، تارکین وطن کی برطانیہ آنے کی کوششیں تیز

    لندن: برطانوی انتخابات میں بورس جانسن کی ایک بار پھر کام یابی کے بعد بریگزٹ میں اب چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں، مختلف ممالک سے تارکین وطن نے برطانیہ آنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق 4 ہزار کے قریب تارکین وطن یورپ کے مہاجر کیمپوں میں موجود ہیں، جنھوں نے برطانیہ میں داخلے کی کوششیں تیز کر دی ہیں، تارکین وطن بریگزٹ سے قبل برطانیہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔

    رپورٹس کے مطابق سینکڑوں تارکین وطن ہر روز یورپ سے برطانیہ داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، رواں سال 1500 افراد نے غیر قانونی طور پر برطانیہ میں داخل ہونے کی کوشش کی، خیال رہے کہ برطانیہ 31 جنوری سے قبل یورپ سے نکل جائے گا۔

    برٹش ٹرک ایسوسی ایشن کی جانب سے ڈرائیورز کو تنبیہہ کی گئی ہے کہ وہ یورپ برطانیہ بارڈر پر اسٹاپ نہ کریں، یاد رہے کہ اکتوبر میں 39 ویت نامی باشندے برطانیہ آنے کی کوشش میں ہلاک ہوگئے تھے۔

    یہ بھی پڑھیں:  بریگزٹ، بلجئیم سے 42 ہزار افراد کے بےروزگار ہونے کا خدشہ

    ادھر غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق بیلجئیم کی معروف لیون یونی ورسٹی اور فلامش گورنمنٹ کی جانب سے کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی (بریگزٹ) کے نتیجے میں بیلجئیم کے 42 ہزار افراد اپنے روزگار سے محروم ہو جائیں گے۔

    برطانوی انتخابات میں بورس جانسن کی کام یابی کے بعد ہزاروں افراد نے لندن میں احتجاج کیا تھا، انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی نے تاریخی فتح حاصل کی تھی۔ اسکاٹ لینڈ میں برطانیہ سے علیحدگی کی تحریک بھی زور پکڑنے لگی ہے۔