Tag: بریگزٹ ڈیل

  • وزیراعظم تھریسا مے نے بریگزٹ پر ووٹنگ موخر کردی

    وزیراعظم تھریسا مے نے بریگزٹ پر ووٹنگ موخر کردی

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ ڈیل سے متعلق پارلیمنٹ میں آئندہ ہفتے ہونے والی ووٹنگ موخر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم تھریسا مے نے بریگزٹ پر ووٹنگ موخر کردی، اس ڈیل سے متعلق حتمی ووٹنگ آیندہ ہفتے ہونی تھی لیکن اب رائے شماری 12 مارچ کو ہوگی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ سے بریگزٹ سے متعلق وہی نتائج سامنے آئیں گے جو اس سے قبل متعدد بار آچکے ہیں۔

    برطانیہ 29 مارچ کو یورپ سے نکلنے جارہا ہے۔ دوسری جانب تھریسا مے کا کہنا ہے کہ یورپی رہنماؤں سے اب بھی مذاکرات جاری ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ بریگزٹ ڈیل سے متعلق بنائی گئی حکومتی ٹیم عنقریب دوبارہ برسلز کا دورہ کرے گی، 12 مارچ کو برطانوی پارلیمنٹ میں غیر معمولی نتائج نہیں نکلیں گے، لیکن پھر بھی دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔

    بریگزٹ معاہدے میں پیش رفت؟ وقت بہت کم ہے

    برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے گذشتہ دنوں برسلز میں یورپی یونین کے سربراہ جین کلاؤ ڈ جنکر سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ معاہدے میں ایسی تبدیلی لانے کے معاملے پر پیش رفت ہوئی ہے جس پر ممبرانِ پارلیمنٹ راضی ہوجائیں۔

    خیال رہے کہ نومبر 2018 میں وزیر اعظم تھریسامے اور یورپی یونین کے سربراہوں کے درمیان بریگزٹ معاہدے پر اتفاق ہوا تھا لیکن ایم پیز نے 230 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے معاہدے کو مسترد کردیا تھا۔

    دریں اثنا ء کچھ روز قبل برطانیہ کے سابق چانسلر اوسبورن نے کہا تھا کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلا کو ملتوی کرنا ہی اس وقت سب سے بہتر آپشن ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کو اس خطرناک صورتحال کی جانب نہ لے کر جائے۔

  • بریگزٹ ڈیل: برطانوی وزیراعظم آج برسلز کا دورہ کریں گی

    بریگزٹ ڈیل: برطانوی وزیراعظم آج برسلز کا دورہ کریں گی

    لندن: بریگزٹ ڈیل کو بچانے کے لیے برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے کوششیں تیز کردیں، آج برسلز کا دورہ کریں گی۔

    تفصیلات کے مطابق بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں برطانوی وزیراعظم یورپی رہنماؤں سے اہم ملاقاتیں کریں گی اور بریگزٹ ڈیل پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ تھریسامے اس دوران یورپی یونین کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں بریگزٹ ڈیل پر توجہ مرکوز رکھیں گی۔

    برطانوی وزیراعظم بریگزٹ پر یکے بعد دیگرے شکست کے باوجود اپنی نظر ثانی شدہ بریگزٹ ڈیل کو منظور کرانے کیلئے کوشاں ہیں، برسلز کا دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

    آج تھریسامے کی یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود ینکر سے بھی ملاقات ہوگی، برطانوی پارلیمان نے ابھی تک مے کی یورپی یونین کے ساتھ بریگزٹ ڈیل کی منظوری نہیں دی۔

    واضح رہے کہ گذشتہ دنوں برطانیہ کے سابق چانسلر اوسبورن نے کہا تھا کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلا کو ملتوی کرنا ہی اس وقت سب سے بہتر آپشن ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کو اس خطرناک صورتحال کی جانب نہ لے کر جائے۔

    بریگزٹ کے منفی اثرات سے برطانیہ کی فلائی بی ایم آئی ایئرلائن بندش کا شکار

    خیال رہے کہ نومبر 2018 میں وزیر اعظم تھریسامے اور یورپی یونین کے سربراہوں کے درمیان بریگزٹ معاہدے پر اتفاق ہوا تھا لیکن ایم پیز نے 230 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے معاہدے کو مسترد کردیا تھا۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ اگر برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے نکلنے کےلیے بریگزٹ معاہدے کو منظور نہیں کیا تو 29 مارچ کو برطانیہ، یورپی یونین سے بغیر کسی ڈیل کے ہی نکلنے پر مجبور ہوگا۔

  • تھریسامے کی حکومت کو پارلیمنٹ میں ایک اور شکست

    تھریسامے کی حکومت کو پارلیمنٹ میں ایک اور شکست

    لندن: برطانوی حکومت کو پارلیمنٹ میں ایک اور شکست کا سامنا کرنا پڑا، بریگزٹ ڈیل سے متعلق حکومت کی پیش کی گئی ایک اور قرارداد مسترد کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین سے انخلا پر برطانیہ میں سیاسی بحران بدستور برقرار ہے، بریگزٹ ڈیل پر وزیراعظم تھریسامے کو ایک اور شکست اٹھانی پڑی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت نے بریگزیٹ ڈیل معاہدے میں تبدیلیوں کی قرارداد نامنظور کردی، قرارداد کے خلاف تین 303 اور حق میں 258 ووٹ ڈالے گئے۔

    وزیراعظم تھریسامے نے یورپی یونین ممالک کو یقین دلایا کہ وہ پارلیمنٹ سے بریگزٹ ڈیل منظور کرانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔

    برطانیہ کو 29 مارچ کو یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرنا ہے تاہم اب تک برطانیہ میں یورپی یونین سے کیے جانے والے معاہدے پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔

    تھریسامے اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان بریگزٹ سے متعلق رابطے تیز ہوگئے

    دوسری جانب برطانوی وزیر اعظم تھریسامے ہاؤس آف بریگزٹ معاہدے کے مسودے میں تبدیلی پر یورپی یونین رہنماؤں کی منظوری کے لیے کوشاں ہیں جبکہ یورپی یونین معاہدے کے مسودے میں بیک اسٹاپ سمیت کسی بھی تبدیلی سے انکاری ہے۔

    خیال رہے کہ بیک اسٹاپ (اوپن بارڈر) ایک معاہدہ ہے جس کے تحت شمالی آئرلینڈ اور جمہویہ آئرلینڈ کے درمیان سرحدی باڑ اور کسٹمز چیک پوسٹیں قائم کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان بریگزٹ ڈیل پر دسمبر 2017 میں دستخط ہوئے تھے لیکن اس کے بعد سے اب تک معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔

  • بریگزٹ ڈیل نہ ہونے پر برطانیہ میں مارشل لاء لگنے کا خطرہ

    بریگزٹ ڈیل نہ ہونے پر برطانیہ میں مارشل لاء لگنے کا خطرہ

    لندن: بریگزٹ ڈیل نہ ہونے پر برطانیہ میں مارشل لاء لگنے کا خدشہ پیدا ہوگیا، بریگزٹ پر پارلیمںٹ میں ووٹنگ منگل کو ہوگی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق بریگزٹ ڈیل نہ ہونے پر برطانیہ میں مارشل لاء لگ سکتا ہے، اندرونی خانہ جنگی ہوئی تو آپشن استعمال کیا جاسکتا ہے، ہنگاموں سے نمٹنے کے لیے فوج کی مدد کے ساتھ کرفیو کا آپشن بھی زیر غور ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق بریگزٹ ڈیل پر پارلیمنٹ میں ووٹنگ منگل کو ہوگی، امن و امان کی بگڑتی صورت حال پر مارشل لاء لگایا جاسکتا ہے۔

    برطانوی حکومت نے تمام امکانات سے نمٹنے کے لیے تیاری شروع کردی ہے، وزیراعظم تھریسامے نے کہا کہ ہر طرح کے حالات سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔

    برطانوی وزیر صحت میٹ ہین کوک نے کہا کہ مارشل لاء کا آپشن قانون میں موجود ہے تاہم ابھی تک ایسے کسی آپشن پر غور نہیں کیا جارہا ہے۔

    مزید پڑھیں: بریگزٹ کو ملتوی کرنا ہی سب سے بہتر آپشن ہے: سابق چانسلر

    واضح رہے کہ چند روز قبل برطانیہ کے سابق چانسلر اوسبورن نے کہا تھا کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلا کو ملتوی کرنا ہی اس وقت سب سے بہتر آپشن ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کو اس خطرناک صورتحال کی جانب نہ لے کر جائے۔

    جارج اوس بورن کا مزید کہنا تھا کہ نو ڈیل کی صورت میں بندوق برطانیہ کی کنپٹی پر ہوگی لہذا ایسی کسی صورتحال سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔

    دوسری جانب وزیراعظم تھریسا مے کا کہنا تھا کہ نو بریگزٹ کے نقصانات کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ کی گئی مجوزہ بریگزٹ ڈیل کو منظور کرلیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بغیر ڈیل کے یورپین یونین سے انخلا ناممکن ہے۔

  • بریگزٹ ڈیل، تھریسامے نئے جذبے سے میدان میں آگئیں

    بریگزٹ ڈیل، تھریسامے نئے جذبے سے میدان میں آگئیں

    لندن : برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے تحریک عدم اعتماد میں کامیابی کے بعد بریگزٹ کو آگے بڑھانے کےلیے ایم پیز سے ملاقاتیں شروع کردیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسامے کے خلاف گزشتہ روز عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی تھی، تھریسامے بریگزٹ ڈیل پاس نہ کرواسکی تھیں لیکن اپنی حکومت 306 ووٹوں کے مقابلے میں 325 ووٹوں سے اپنی حکومت بچالی تھی۔‌

    وزیر اعظم تھریسامے نے کہا ہے کہ وہ نئے جذبے کے ساتھ بریگزٹ معاہدے پر گفتگو کرتے ہوئے حکمران اور اپوزیشن جماعتوں پر بریگزٹ معاہدے کی منظوری کےلیے زور دیا۔

    تھریسامے نے ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایم پیز ’بریگزٹ کے معاملے پر اپنی دلچسپی دکھائیں‘ اس موقع پر حکمران جماعت کی اتحادی جماعتیں لیبریشن ڈیموکریٹ، ایس این پی اور پلیڈ کیمرو کے سربراہان بھی موجود تھی۔

    خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کو یورپی یونین سے نکلنے (بریگزٹ) کی منصوبہ بندی 21 جنوری کو لازمی پارلیمنٹ میں پیش کرنا ہوگی۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ نئی منصوبہ بندی پارلیمنٹ میں پیش کرنا کوئی آسان ہدف نہیں ہوگا، لیکن ایم پیز کو قومی دلچسپی اور مفاد کیلئے ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اتفاق رائے سے بریگزٹ معاہدے کو منظور کرنا چاہیے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ توقع کی جارہی ہے کہ وزیر اعظم تھریسامے بریگزٹ معاہدے کے حکومتی مخالفین اور ڈی یو پی سے ملاقات کریں گی۔

    مزید پڑھیں: بریگزٹ ڈیل مسترد، تھریسامے کو تاریخی شکست

    واضح رہے کہ گزشتہ سال 13 دسمبر کو بھی برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تھی جس کے بعد تھریسامے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے برسلز روانہ ہوگئی تھیں۔

    یاد رہے کہ 62 سالہ تھریسا مے نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں، اس کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

    مزید پڑھیں : برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام

    گزشتہ روز برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ کے معاملے پر پارلیمان کا اعتماد کھودیا، ہاؤس آف کامنزنے بریگزٹ ڈیل مسترد کردی۔

    پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے کی جانے والی بریگزٹ ڈیل کی مخالفت میں فیصلہ دے دیا، ڈیل کے حق میں 202 جبکہ مخالفت میں 432 ووٹ پڑے، 118 حکومتی ممبران نے بھی ڈیل کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

  • برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ کی اکثریت نے بتا دیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں: تھریسامے

    برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ کی اکثریت نے بتا دیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں: تھریسامے

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد میں کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ کی اکثریت نے بتا دیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی قوم سے خطاب کرتے ہوئے تھریسامے کا کہنا تھا کہ بطور وزیراعظم میری ذمےداری ہے کہ عوامی خواہش پرعمل کراؤں، تمام جماعتوں کو دعوت دیتی ہوں کہ آئیں مل کر مسئلے کا حل نکالیں۔

    انہوں نے کہا کہ بریگزٹ پر ریفرنڈم میں عوامی خواہشات کا احترام کیا جائے گا، اپوزیشن کے لیے بات چیت کے دروازے کھلے ہیں، آئیں بریگزٹ کا معاملہ ممکن بنائیں۔

    برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ قومی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھیں، کل سے مختلف جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوں گی، ہم متحد ہوکر برطانیہ کے مستقبل کے لیے کام کریں گے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ لیبر پارٹی کے رویئے سے مایوسی ہوئی، حالات سے کس طرح مقابلہ کرنا ہے اسی بابت سوچ رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ آج روز برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف عدم اعتماد پر پارلیمنٹ میں بحث ہوئی، تحریک عدم اعتماد پر اراکین پارلیمنٹ کی ووٹنگ میں تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی حمایت میں 325 اور مخالفت میں 306 ووٹ آئے۔

    واضح رہے کہ گذشتہ روز برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ کے معاملے پر پارلیمان کا اعتماد کھودیا، ہاؤس آف کامنزنے بریگزٹ ڈیل مسترد کردی، ڈیل کے حق میں 202 جبکہ مخالفت میں 432 ووٹ پڑے، 118 حکومتی ممبران نے بھی ڈیل کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

  • برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف عدم اعتماد ناکام ہوگئی‌، تھریسامے بریگزٹ ڈیل پاس نہ کرواسکیں لیکن حکومت بچانے میں‌ کامیاب ہوگئیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف عدم اعتماد پر پارلیمنٹ میں بحث ہوئی، تحریک عدم اعتماد پر اراکین پارلیمنٹ کی ووٹنگ میں تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی حمایت میں 325 اور مخالفت میں 306 ووٹ آئے۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے کام جاری رکھنے کا اعلان کردیا اور اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے اظہار اعتماد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

    تھریسامے بریگزٹ ڈیل پاس نہ کرواسکیں لیکن حکومت انہوں نے بچالی ہے، تھریسامے نے پارلیمانی جماعتوں کو دعوت دی ہے کہ مل کر مسئلے کا حل نکالتے ہیں۔

    اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ حکومت کو گزشتہ رات کے نتائج پر اقتدار سے الگ ہوجانا چاہئے تھا، بریگزٹ پر عوامی خواہشات کو مدنظر رکھا جائے۔

    مزید پڑھیں: بریگزٹ ڈیل مسترد، تھریسامے کو تاریخی شکست

    واضح رہے کہ گزشتہ سال 13 دسمبر کو بھی برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تھی جس کے بعد تھریسامے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے برسلز روانہ ہوگئی تھیں۔

    یاد رہے کہ 62 سالہ تھریسا مے نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں، اس کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

    گزشتہ روز برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بریگزٹ کے معاملے پر پارلیمان کا اعتماد کھودیا، ہاؤس آف کامنزنے بریگزٹ ڈیل مسترد کردی۔

    پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے کی جانے والی بریگزٹ ڈیل کی مخالفت میں فیصلہ دے دیا، ڈیل کے حق میں 202 جبکہ مخالفت میں 432 ووٹ پڑے، 118 حکومتی ممبران نے بھی ڈیل کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

    دوسری جانب تھریسامے کا کہنا تھا کہ غیریقینی میں گزرنے والا ہر دن برطانیہ کو نقصان دے رہا ہے، اب بھی حکومت کو پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل ہے۔

  • برطانوی پارلیمنٹ میں بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ آج ہوگی

    برطانوی پارلیمنٹ میں بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ آج ہوگی

    لندن: برطانوی پارلیمنٹ میں آج بریگزٹ پر ووٹنگ ہوگی، وزیراعظم تھریسامے آج ایک بار پھر برطانوی پارلیمان کو یورپ سے علیحدگی کے مجوزہ معاہدے کی حمایت کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کریں گی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ میں حکومت کی جانب سے تجویز کردہ بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ آج ہوگی، ووٹنگ کے بعد فیصلہ ہوگا کہ برطانیہ یورپی یونین سے علیحدگی کے وقت مجوزہ معاہدے پر عمل پیرا ہوگا یا نہیں۔

    سیاسی ماہرین کے مطابق پارلیمان میں بریگزٹ پر ووٹنگ کے حوالے سے برطانوی وزیراعظم تھریسامے پر سخت دباؤ ہے اور اگر تھریسامے ہار جاتی ہیں تو وہ یہ راستہ اپنا سکتی ہیں کہ ڈیل دوبارہ پاس کروائی جائے یا نو ڈیل کا راستہ اختیار کیا جائے، بریگزٹ کو روکنا بھی امکانات میں شامل ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق حکومت کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، 1945ء کے بعد سے یہ برطانیہ کا سب سے بڑا سیاسی بحران ہے۔

    واضح رہے کہ برطانوی ارکان پارلیمان نے رواں ماہ 9 تاریخ کو ہونے والی قرارداد کو 297 کے مقابلے میں 308 ووٹوں کی اکثریت سے مسترد کردیا تھا جس میں بریگزٹ ڈیل پر کل ہونے ہونے والی پارلیمانی ووٹنگ ممکنہ طور پر ناکام رہنے کے بعد پارلیمانی فیصلہ سازی کا طریقہ کار بدلنے کی بات کی گئی تھی۔

    مزید پڑھیں: نوڈیل بریگزٹ: یورپ میں مقیم 13 لاکھ برطانوی شہریوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

    یاد رہے کہ چند روز قبل برطانیہ میں پیلی جیکٹ پہنے مظاہرین سڑکوں پر آگئے تھے اور وزیراعظم ہاؤس کے باہر بریگزٹ کے خلاف مظاہرہ کیا گیا تھا۔

    دوسری جانب اپوزیشن رہنما جریمی کوربن کے حامی بھی احتجاج میں شریک ہوئے تھے اور برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

    خیال رہے کہ جون 2016 میں برطانوی عوام نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔

  • بریگزٹ بحران سے نکلنے کے لیے اپوزیشن کا انتخابات کا مطالبہ

    بریگزٹ بحران سے نکلنے کے لیے اپوزیشن کا انتخابات کا مطالبہ

    لندن: برطانوی پارلیمنٹ میں اپوزیشن رہنما جیریمی کوربن نے بریگزٹ بحران سے نکلنے کے لیے انتخابات کرانے کا مطالبہ کردیا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق لیبرپارٹی کے رہنما جیریمی کوربن کا کہنا ہے کہ بریگزٹ بحران سے نمٹنے کے لیے ملک میں قبل ازوقت انتخابات کرائے جائیں۔

    اپوزیشن رہنما نے کہا کہ نئے مینڈیٹ والی حکومت ہی یورپی یونین سے بہتر انداز میں مذاکرات کرسکتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیراعظم تھریسامے کو اپنی بریگزٹ ڈیل پر یقین ہے تو الیکشن کرالیں تاکہ عوام اپنا فیصلہ دے سکیں۔

    دوسری جانب برطانیہ میں حکمران کنزرویٹو پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ لیبر پارٹی بریگزٹ کے معاملے پر سیاست کھیل رہی ہے۔

    کنزرویٹو پارٹی کے رہنماؤں کے مطابق لیبر پارٹی کے پاس بریگزٹ ڈیل پر کوئی منصوبہ نہیں ہے، وہ برطانوی وزیراعظم کی بریگزٹ ڈیل کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔

    واضح رہے کہ برطانوی وزیراعظم تھریسامے بریگزٹ ڈیل پر دستخط کرچکی ہیں جبکہ یورپی پارلیمنٹ بھی برطانیہ کی یونین سے علیحدگی کی منظوری دے چکی ہے۔

    مزید پڑھیں: برطانیہ یورپی یونین سے مقررہ وقت پر نکل جائے گا، برطانوی وزیراعظم

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے گزشتہ برس دسمبر میں پارلیمنٹ میں بریگزٹ کے حوالے سے ووٹنگ کا اعلان کیا تھا تاہم شکست کے خوف سے انہوں نے بریگزٹ پر ووٹنگ موخر کردی تھی۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیر رچرڈ ہارنگٹن کا کہنا تھا کہ ایم پیز کو تھریسامے کے یورپی یونین سے انخلا سے متعلق معاہدے کی حمایت یا نوڈیل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

    خیال رہے کہ جون 2016 میں برطانوی عوام نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔

  • برطانیہ یورپی یونین سے مقررہ وقت پر نکل جائے گا، برطانوی وزیراعظم

    برطانیہ یورپی یونین سے مقررہ وقت پر نکل جائے گا، برطانوی وزیراعظم

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے کہا ہے کہ برطانیہ مقررہ وقت یعنی 29 مارچ کو یورپی یونین سے نکل جائے گا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ برسلز میٹنگ میں 27 یورپی رہنماؤں نے بریگزٹ ڈیل کی منظوری دے دی ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ سے بزیگزٹ کی توثیق ہونا باقی تھی، جبکہ وزیراعظم تھریسامے نے اپنے ملک کے قانون سازوں کو معاہدے کو قبول کرنے کی درخواست کی تھی۔

    برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے معاہدے کو اپنے ملک کے لیے روشن مستقبل قرار دیا تھا۔

    گزشتہ کئی ماہ سے جاری مذاکرات کے بعد اس معاہدے میں شہریوں کے حقوق سمیت مستقبل میں سلامتی اور تجارتی تعلقات کے فروغ کے لیے معاملات طے کیے گئے تھے۔

    مزید پڑھیں: ایم پیزکو بریگزٹ معاہدے کی حمایت یا نوڈیل میں سےایک کو چننا ہوگا‘ رچرڈ ہارنگٹن

    برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بریگزٹ کے متعلق معاہدہ پوری طرح ہمارے ہاتھ میں ہے لیکن برطانیہ کے ساتھ بریگزٹ سیکریٹری ڈومینک راب نے کہا تھا کہ مذکورہ پیش کش یورپی یونین کی رکنیت سے کمتر ہے۔

    واضح رہے کہ ایک ماہ قبل 18 ماہ کی طویل بات چیت کے بعد بزیگزٹ ڈیل پر برطانیہ اور یورپی یونین میں اتفاق ہوگیا تھا۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیر رچرڈ ہارنگٹن کا کہنا تھا کہ ایم پیز کو تھریسامے کے یورپی یونین سے انخلا سے متعلق معاہدے کی حمایت یا نوڈیل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

    یاد رہے کہ جون 2016 میں برطانوی عوام نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کے خلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔