Tag: بریگزٹ کی خبریں

  • بریگزٹ ڈیل: برطانوی کابینہ کے چاروزراء مستعفی

    بریگزٹ ڈیل: برطانوی کابینہ کے چاروزراء مستعفی

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کے بریگزٹ سیکرٹری سمیت  کابینہ کے چار وزراء نے استعفیٰ دے دیا،  کابینہ نے گزشتہ روز  ڈیل کی منظوری دی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق بریگزٹ ڈیل کے منصوبےپر برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کی حکومت شدید مشکلات کا شکار ہے ، جہاں ایک جانب  اپوزیشن کی جانب سے اسے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے وہیں  حکومتی وزراء کے استعفوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    برطانوی حکومت کے بریگزٹ سیکرٹری ڈومینک راب نے اپنی استعفیٰ پیش کردیا ہے جبکہ ان کے ہمراہ ورک اور پنشن کی وزیر  یستھر میکووے بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئیں ہیں۔

    اس کے علاوہ جونیئر ناردرن آئرلینڈ منسٹر شائلیش وارہ ، جونئیر بریگزٹ  مسٹر سویلا بریور مین اور پارلیمنٹ کی  پرائیویٹ سیکرٹری این میری ٹریولیان نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔

    بریگزٹ سیکرٹری ڈومینک راب نے ٹویٹر پر اپنے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ  ’آج میں بطور بریگزٹ سیکریٹری مستعفی ہو گیا ہوں۔ میں یورپی یونین کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی حمایت نہیں کر سکتا، یہ میرے ضمیر پر بوجھ ہو گا۔ وزیراعظم کو خط لکھا ہے جس میں تمام تر وجوہات کی وضاحت کی گئی ہے‘۔

    دو سری جانب ایستھر میکووے نے اپنے استعفے میں وزیراعظم کو مخاطب کر کے لکھا ہے کہ ’آپ نے گذشتہ روز کابینہ کے سامنے جو معاہدہ رکھا وہ ریفرینڈم کے نتائج کی لاج نہیں رکھتا۔ درحقیقت یہ ان عزائم سے بھی مطابقت نہیں رکھتا جو آپ نے اپنی وزارتِ عظمیٰ آغاز پر متعین کیے تھے۔‘

    گزشتہ روز برطانوی کابینہ نے بریگزٹ ڈیل کی منظوری 5 گھنٹےطویل اجلاس کے بعد دی تھی ۔ اس  موقع پر برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کا کہنا  تھا  کہ آنے والا وقت مشکل ہے، اس مشکل سے نکلیں گے، بریگزٹ ڈیل کا مسودہ آئندہ ماہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بریگزٹ ڈیل کی پارلیمنٹ سے منظوری میں مشکلات آسکتی ہیں، چاہتے ہیں جلد بریگزٹ کا معاملہ حل کرلیا جائے، امید ہے یورپی یونین کی جانب سے مثبت فیصلے کیے جائیں گے۔

    یاد رہے کہ حالیہ پیش رفت سے قبل یورپی یونین کے مرکزی مذاکرات کار میشیل بارنیے نے کہا تھا کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے معاہدے میں ’فیصلہ کن‘ پیش رفت ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ  بدھ کو شائع ہونے والا معاہدے کا 585 صفحات کا مسودہ ’مذاکرات کو انجام تک لے جانے والا کلیدی قدم‘ ہے۔

    اس حوالے سے سب سے اہم بیان اپوزیشن لیڈر جیریمی کاربائن کی جانب سے  سامنے آیا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ یہ وہ ڈیل نہیں جس کا اس ملک کے عوام سے وعدہ کیا گیا تھا، انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ پارلیمنٹ کسی ایسے برے معاہدے کو تسلیم نہیں کرے گی ، ایسا معاہدہ ہونے سے کوئی معاہدہ نہ ہونا بہتر ہے۔

  • بریگزٹ: آئرلینڈ کسی بھی صورت باقاعدہ سرحد قبول نہیں کرے گا

    بریگزٹ: آئرلینڈ کسی بھی صورت باقاعدہ سرحد قبول نہیں کرے گا

    برطانیہ: آئرلینڈ کی جانب سے برطانیہ کو کہا گیا ہے کہ وہ بریگزٹ پر عمل درآمد کی صورت میں شمالی آئرلینڈ اور برطانیہ کے درمیان بارڈر پر سختی نہ کرنے کی اپنےوعدے پر قائم رہے۔

    تفصیلات کے مطابق آئرش وزیر ِخارجہ سائمن کووینے کا کہنا ہے برطانیہ کی جانب سے کسی بھی جز وقتی انتظام جسے کسی بھی وقت کنگ ڈم ختم کرسکے ، کبھی بھی یورپین یونین کئی جانب سے قبول نہیں کیا جائے گا۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ شمالی آئرلینڈ کے ساتھ سرحدی تنازعہ بریگزٹ کی راہ میں موجود رکاوٹوں میں سے سب سے اہم ہے۔ اس کا جلد حل نکالنا ہوگا کہ وقت تیزی سے گزررہا ہے۔

    برطانیہ کی جانب سے مارچ 2019 میں یورپین یونین سے علیحدگی طے ہے اور کہا جارہا ہے کہ اس معاملے کے 95 فیصد عوامل مکمل کیے جاچکے ہیں ، تاہم بارطانیہ نے اس سلسلے میں جو وعدہ کیا تھا کہ آئر لینڈ کے ساتھ سرحد پر سخت انتظامات نہیں کیے جائیں گے ، یہ مسئلہ تاحال تصفیہ طلب ہے۔

    یہ معاملہ اہم بھی ہے کیونکہ بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور یورپین یونین کے درمیان یہی زمینی سرحد ہوگی جس پر فی الحال کسی بھی قسم کی سختی نہیں کی جاتی ہے اور اشیا بغیر کسی جانچ پڑتال کے آتی جاتی رہتی ہیں۔

    وزیر ِخارجہ سائمن کا کہنا ہے کہ کسی بھی قسم کے باضابطہ بارڈر کی صورت میں شمالی آئرلینڈ میں جاری امن عمل کو شدید نقصان پہنچے گا لہذا جب تک اس معاملے پر حتمی فیصلے نہ لے لیے جائیں اس وقت تک یورپین یونین سے برطانیہ کا انخلا ممکن نہیں ہوسکے گا۔

  • بریگزٹ: کیا برطانوی پارلیمنٹ عوامی ریفرنڈم کے خلاف فیصلہ کرسکتی ہے؟

    بریگزٹ: کیا برطانوی پارلیمنٹ عوامی ریفرنڈم کے خلاف فیصلہ کرسکتی ہے؟

    برطانیہ کے سیکرٹری برائے بریگزٹ ڈیویڈ ڈیس نے قدامت پسند پارٹی کے ممبرانِ پارلیمنٹ کو متنبہ کیا ہے کہ بریگزٹ بل میں کی جانے والے ترامیم سے یورپین یونین سے اس معاملے پر ہونے والے مذاکرات کو نقصان پہنچے گا۔

    برطانیہ ان دنوں یورپ سے علیحدگی کے عمل سے گزر رہا ہے ، 2016 کے عوامی ریفرنڈم میں برطانیہ کی عوام نے یورپ سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیا تھا ۔ ہاؤس آف کامن اس بات پر ووٹنگ کرے گا کہ آیا ممبرانِ پارلیمنٹ کو یورپ سے آئندہ موسمِ خزاں میں ہونے والی حتمی ڈیل میں فیصلہ کن پوزیشن دی جائے یا نہیں۔

    ڈیوڈ ڈیوس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اس عمل میں شامل ہوگی لیکن وہ سنہ 2016 میں ہونے والے ریفرنڈم کو کالعدم نہیں کرسکتی۔

    خیال رہے کہ بریگزٹ پر حکومت کو شدید دباؤ کا سامنا ہے ۔ جسٹس منسٹر فلپ لی نے اس معاملے پر استعفیٰ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو ایک جانب کردیا گیا ہے۔انہوں نے اعلان کیا کہ وہ بریگزٹ کی حکمت عملی کے سبب مستعفی ہورہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جس طرح سے ہمارا ملک یورپین یونین سے نکل رہا ہے یہ عمل مناسب نہیں ۔

    ممبران پارلیمنٹ آئندہ دوروز تک ہاؤس آف لارڈز کی جانب سے یورپین یونین سے انخلا کے بل میں کی گئی تبدیلیوں پر ووٹنگ کریں گے۔ ان میں سب سے زیادہ مقابلہ پارلیمنٹ کے اس اختیار پر ہوگا کہ اگر یوکے ای یو بریگزٹ ڈیل عمل پذیر نہیں ہوتی تو آگے کیا ہوگا ؟ اس کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے۔

    دوسری جانب برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے متنبہ کیا ہے کہ اگر اس اہم قانون سازی میں شکست ہوتی ہے تو اس سے یورپین یونین کے ہیڈکوارٹر برسلز میں انتہائی غلط پیغام جائے گا۔

    برطانیہ کی آبادی کم ہوگی


    برطانیہ کے سرکاری سطح پر شماریات کرنے والے ادارے کے مطابق اگر یورپی ممالک سے لوگوں کے آنے پر پابندی عائد کردی گئی تو آئندہ 20سالوں میں اسکاٹ لینڈ، ویلز، اور شمالی آئرلینڈ کی آبادی میں واضح کمی واقع ہوگی۔

    برطانوی کمپنیوں کے مالکان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین سے ملازمت کی غرض سے آئے ہوئے افراد ملازمت کے لیے زیادہ اہل اور مناسب ہوتے ہیں جو کم اجرت میں زیادہ کام کرنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔

    جبرالٹر کا تنازعہ


    جبرالٹر کے علاقے پر اسپین طویل عرصے سے ملکیت کا دعویٰ کرتا آرہا ہے۔ فی الحال یہ برطانیہ کے زیر تسلط ہے، اسپین جبرالٹر ائیرپورٹ کے مشترکہ انتظام کا خواہاں ہے، جو کہ ایک متنازعہ پٹی پر واقع ہے اور جبرالٹرکو اسپین کی مرکزی سرزمین سے جوڑتا ہے۔

    برطانیہ اور اسپین اس علاقے بالخصوص یہاں کے ایئرپورٹ کے مشترکہ انتظام کے معاہدے پر کام کررہے ہیں، معاہدہ اکتوبر سے قبل ہونے کی امید ہے، جب برطانیہ اور یورپ کے درمیان بریگزٹ ڈیل ہونے کا امکان ہوگا۔

    اسپینی وزیر خارجہ  کا کہنا ہے کہ ’’ ہم اپنی پوزیشن کا دفاع کرنے کے لیے پرعزم ہیں لیکن ہم اکتوبر سے قبل باہمی معاہدے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔

    الفانسو داسٹس نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ صرف ہم ہی نہیں یقیناً برطانیہ کی جانب سے بھی معاہدے تک پہنچنے کے لیے کام ہورہا ہے اور رواں برس دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام کے درمیان تین یا چار بار ملاقاتیں ہوچکی ہیں اور باہمی گفتگو خاصی تعمیری رہی۔

    بریگزٹ کیا ہے؟


    خیال رہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے عمل کا آغاز مارچ 2019 سے ہوگا اور دسمبر 2020 تک جاری رہے گا، اس دوران برطانیہ میں رہنے والے 45 لاکھ یورپی شہریوں کو برطانیہ جبکہ 12 لاکھ برطانوی شہریوں کو یورپی یونین میں آنے کی اجازت ہوگی۔

    یاد رہے کہ برطانیہ میں 23 جون 2016 کو یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ریفرنڈم ہوا تھا جس میں 52 فیصد برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

    یورپی یونین سے علیحدگی کے حوالے سے ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج کے بعد اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا اور تھریسامے برطانیہ کی وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں۔