Tag: بریگزٹ

  • برطانیہ 31 جنوری 2020 کو پورپی یونین سے علیحدہ ہوجائے گا

    برطانیہ 31 جنوری 2020 کو پورپی یونین سے علیحدہ ہوجائے گا

    لندن: برطانوی ممبران پارلیمنٹ نے بریگزٹ ڈیل پر وزیراعظم بورس جانسن کے حق کے میں فیصلہ سنا دیا، جس کے بعد اگلے سال 31 جنوری 2020 کو برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی الیکشن میں کامیابی کے بعد نئی پارلیمنٹ میں وزیراعظم بورس جانسن کی پہلی کامیابی بریگزٹ بل کے حوالے سے کی جانے والی ووٹنگ کی صورت میں سامنے آئی ہے، بورس جانسن کی حمایت میں 358 اور مخالفت میں 234 ووٹ ڈالے گئے۔

    نئی پارلیمنٹ میں آج ہونے والی ووٹنگ نے بورس جانسن کے انتخابات کرانے کے فیصلے کو درست ثابت کر دیا۔ برطانوی وزیراعظم کی اس کامیابی کے بعد برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوگئیں۔ برطانیہ اب اگلے سال 31 جنوری 2020 کو یورپی یونین سے علیحدہ ہو جائے گا۔

    بریگزٹ بل کے حوالے سے کی جانے والی ووٹنگ میں کامیابی کے بعد وزیراعظم بورس جانسن نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اپنے ملک کو دوبارہ متحد کریں۔

    اس سے قبل بورس جانسن نے برطانوی ممبران پارلیمنٹ سے درخواست کی تھی کہ وہ بریگزٹ بل کے حوالے اکٹھے ہوجائیں اور ان کی حمایت کریں۔

    دوسری جانب اپوزیشن لیڈر جیرمی کوربن نے کہا کہ بریگزٹ کے بعد امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدے کو یقینی بنانے کے لیے برطانیہ کو کھانے کے معیاروں میں کمی کرنا ہوگی۔

    برطانیہ میں پارلیمانی انتخابات، کنزرویٹو پارٹی نے میدان مار لیا

    یاد رہے کہ 13 دسمبر کو برطانیہ کے پارلیمانی انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی نے واضح اکثریت کے ساتھ میدان مارا تھا، جب کہ اپوزیشن لیڈر جیرمی کوربن نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے نتائج کو پارٹی کے لیے مایوس کن قرار دیا تھا۔

    کنزرویٹو پارٹی 650 میں سے 365 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہی جب کہ لیبر پارٹی 203 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔

  • بریگزٹ، بلجئیم سے 42 ہزار افراد کے بےروزگار ہونے کا خدشہ

    بریگزٹ، بلجئیم سے 42 ہزار افراد کے بےروزگار ہونے کا خدشہ

    لندن/ برسلز : برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے نتیجے میں بلجئیم کے 42 ہزار افراد اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق بلجئیم کی معروف لیون یونیورسٹی اور فلامش گورنمنٹ کی جانب سے کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی (بریگزٹ) کے نتیجے میں بلجئیم کے 42 ہزار افراد اپنے روزگار سے محروم ہوجائیں گے۔

    تحقیق کے مطابق بلجئیم کا فلامش بولنے والا علاقہ جو کہ فلاندرز کہلاتا ہے وہاں سے 28 ہزار، فرانسیسی زبان بولنے والوں کے علاقے سے 10 ہزار اور دارالحکومت برسلز سے 4 ہزار نوکریاں ختم ہوجائیں گی۔

    بلجئیم کا دوسرا بڑا اور ساحلی شہر اینٹورپن اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوگا، جہاں سے 7 ہزار 900 افراد بے روزگار ہوں گے۔

    حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بریگزٹ کے نتیجے میں جو شعبے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے، ان میں خوراک اور ٹیکسٹائل شامل ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق بریگزیٹ کے بعد اگر یورپ اور برطانیہ کے درمیان تجارت کا کوئی قابل عمل فارمولا نکل آتا ہے تو اس کے ذریعے ان 42 ہزار میں سے 6 ہزار ملازمتوں کو بچایا جاسکتا ہے۔

  • بورس جانسن کی کامیابی پر ہزاروں افراد کا لندن میں احتجاج، بریگزٹ پر کام کا اعلان

    بورس جانسن کی کامیابی پر ہزاروں افراد کا لندن میں احتجاج، بریگزٹ پر کام کا اعلان

    لندن: برطانوی انتخابات میں بورس جانسن کی ایک بار پھر کام یابی پر لندن میں ہزاروں افراد سراپا احتجاج بن گئے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی انتخابات میں بورس جانسن کی کام یابی کے بعد ہزاروں افراد نے لندن میں احتجاج کیا اور بورس جانسن کے خلاف نعرے لگائے، انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی نے تاریخی فتح حاصل کی ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم میں متعدد افراد زخمی ہوئے، ادھر اسکاٹ لینڈ میں برطانیہ سے علیحدگی کی تحریک زور پکڑنے لگی ہے.

    بورس جانسن کی جماعت نے برطانیہ میں پانچ سال کے عرصے میں تیسرے عام انتخابات میں 365 نشستیں جیتیں، کام یابی کے بعد وزیر اعظم بورس جانسن نے ملکہ الزبتھ سے ملاقات کی اور حکومت بنانے کی اجازت لی۔

    یہ بھی پڑھیں:  برطانیہ میں پارلیمانی انتخابات، کنزرویٹو پارٹی نے میدان مار لیا

    وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ عوام کا مینڈیٹ ملنے کے بعد بریگزٹ پر تیزی سے کام کریں گے، اب بریگزٹ کی بحث اپنے خاتمے تک پہنچ جائے گی۔

    واضح رہے کہ برطانیہ کے پارلیمانی انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی نے واضح اکثریت کے ساتھ میدان مار لیا ہے، جب کہ اپوزیشن لیڈر جیرمی کوربن نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے نتائج کو پارٹی کے لیے مایوس کن قرار دیا۔

    کنزرویٹو پارٹی 650 میں سے 365 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہی جب کہ لیبر پارٹی 203 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ ایس این پی 48، ایس ایف 7، ایل ڈی 11، ڈی یو پی 8، پی سی کو 4، ایس ڈی ایل پی کو 2 جب کہ گرین پارٹی اور الائنس پارٹی کو ایک ایک نشست ملی ہے۔

  • بریگزٹ ڈیل: یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان مذاکرات بےسود

    بریگزٹ ڈیل: یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان مذاکرات بےسود

    لندن: بریگزٹ ڈیل سے متعلق یوپین یونین اور برطانیہ کے درمیان مذاکرات ناکام رہے، کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین اور برطانوی رہنماؤں نے وفود کی سطح پر مذاکرات کیے جس میں کوئی خاطرخواہ پیش رفت سامنے نہیں آئی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے برطانيہ کے انخلاء کے لیے جاری بریگزٹ مذاکرات بےسود ثابت ہوئے، فریقین کے درمیان پیچیدہ اختلافات ہیں۔

    یورپی یونین کے بریگزٹ کے لیے مقرر خصوصی مذاکرات کار مشیل بارنیئر نے برطانیہ کے ساتھ رواں ہفتے کے دوران بریگزٹ ڈیل طے پانے کو مناسب برطانوی حکومتی تجاویز سے جوڑا تھا۔

    آج سے یورپی یونین کی سمٹ شروع ہوگی اس کے باوجود کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آسکا، ابھی تک برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑ دینے کی تاریخ اکتیس اکتوبر طے ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں بریگزٹ معاہدے پر صورت حال واضح ہوسکتی ہے یا کم ازکم برطانیہ کی یونین سے علیحدگی کے التوا کی وجوہات بھی سامنے آجائیں گی۔

    بریگزٹ ڈیل کی ممکنہ ناکامی پر برطانیہ نے اپنا ہی منصوبہ پیش کردیا

    یورپی یونین کے ایک عہدیدار نے کہا کہ کمیشن طے کرے گا کہ ممکنہ طور پر راستہ کیا ہوگا کیونکہ یہ ایک اچھا موقع ہے، تاہم مذاکرات میں کیا طے پایا اس حوالے سے دونوں فریقین نے کچھ نہیں بتایا۔

    واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں برطانیہ کے وزیرا عظم بورس جانسن نے آئرلینڈ کی سرحد کو کھولے رکھنے سے متعلق اپنا ہی بریگزٹ منصوبہ پیش کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ متبادل راستہ صرف یہ ہی ہے کہ معاہدے کے بغیر یورپی یونین سے 31 اکتوبر تک علیحدہ ہوجائیں گے۔

  • سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بریگزٹ تقسیم پر معذرت کرلی

    سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بریگزٹ تقسیم پر معذرت کرلی

    لندن: برطانیہ کے سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بریگزٹ تقسیم پر معذرت کرلی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ بریگزٹ کے لیے ریفرنڈم کے بعد ہونے والی تقسیم پر انہیں افسوس ہے جہاں عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ووٹ دیا تھا۔

    ڈیوڈ کیمرون کا کہنا ہے کہ میں بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج کے حوالے سے سوچتا ہوں کہ اگلے قدم پر کیا ہوگا اس پر بہت پریشان ہوتا ہوں۔

    واضح رہے کہ ڈیوڈ کیمرون نے جون 2016 میں وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیا تھا کیونکہ وہ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے مخالف تھے جبکہ ان کی حکمراں جماعت کے دیگر رہنما بریگزٹ کے حق میں تھے۔

    کیمرون کے سابق اتحادی موجودہ وزیراعظم بورس جانسن اور مائیکل گوو نے یورپی یونین سے علیحدگی کی بھرپور مہم چلائی تھی اور کیمرون کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

    مزید پڑھیں: برطانوی وزیراعظم کا پارلیمنٹ معطل کرنا غیرقانونی قرار

    بورس جانسن اور مائیکل گوو کے حوالے سے کیمرون کا کہنا تھا کہ جب وہ مہم چلارہے تھے تو سچ کو گھر میں چھوڑ کر نکلے تھے۔

    خیال رہے کہ کیمرون کے استعفے کے بعد تھریسامے برطانیہ کی وزیراعظم منتخب ہوگئی تھیں تاہم وہ بریگزٹ کے معاہدے کو حتمی شکل دینے میں ناکام رہی تھیں اور انہیں دو سال بعد ہی استعفیٰ دینا پڑا تھا۔

    تھریسامے نے جولائی میں استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد بورس جانسن برطانیہ کے نئے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے لیکن بریگزٹ کے معاملے پر بورس جانسن کو بھی مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑر ہا ہے۔

    بورس جانسن نے گزشتہ ماہ ملکہ ایلزبتھ سے پارلیمنٹ معطل کرنے کی درخواست کی تھی جس کی منظوری دی گئی تھی تاہم اسکاٹ لینڈ کی عدالت نے پارلیمنٹ معطلی کو غیرقانونی قرار دیا تھا جس سے بورس جانسن کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔

  • بریگزٹ ڈیل: سنیئر وزیر امبر رُڈ احتجاجاً مستعفی

    بریگزٹ ڈیل: سنیئر وزیر امبر رُڈ احتجاجاً مستعفی

    لندن: بریگزٹ ڈیل ایک اور برطانوی وزیر اعظم کے لیے خطرہ بن گئی ہے، سنیئر وزیر امبر رُڈ نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا، پارٹی بھی چھوڑ دی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے لیے بھی بریگزٹ ڈیل نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، سینئر وزیر امبر رُڈ نے استعفیٰ دے کر پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔

    امبر رُڈ نے کہا کہ پارٹی سے وفادار لوگوں کو نکالنے پر میں خاموش نہیں رہ سکتی، نہ بورس جانسن کی سیاسی غارت گری کی حمایت کر سکتی ہوں۔

    سینئر وزیر نے وزیر اعظم کو بھیجے اپنے استعفے میں کہا کہ وہ کنزرویٹو پارٹی ارکان کے ساتھ ان کے برتاؤ اور بریگزٹ کے طریقہ کار کو سپورٹ نہیں کر سکتی، یہ سیاسی غارت گری کا ایک عمل ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  بریگزٹ میں تاخیر پر مجبور کیا گیا تو قبل از وقت انتخابات ہوں گے، بورس جانسن

    واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے بورس جانسن نے پارلیمنٹ میں ناکامی پر 21 باغی اراکین کو پارٹی سے نکال دیا تھا، جن کے بارے میں امبر رُڈ کا کہنا تھا کہ یہ پارٹی کے وفادار اراکین تھے۔

    امبر رڈ کا استعفیٰ وزیر اعظم کے بھائی جو جانسن کے استعفے کے بعد آیا ہے، جنھوں نے پارلیمنٹ سے مستعفی ہوتے ہوئے کہا کہ وہ خاندان کی وفاداری اور قومی مفاد کے درمیان بٹ گئے ہیں۔

    سینئر وزیر کا کہنا تھا کہ انھوں نے جانسن گورنمنٹ میں شمولیت اس لیے قبول کی تھی کہ ’نو ڈیل‘ میز پر تھی کیوں کہ اس کے ذریعے ہمیں 31 اکتوبر کو یورپ سے نکلنے کے لیے ایک نئی ڈیل کرنے کا بہترین موقع حاصل ہو رہا تھا۔

    انھوں نے کہا کہ اب انھیں ذرا بھی یقین نہیں رہا کہ ایسی کوئی ڈیل حکومت کا مرکزی مقصد ہے۔

  • بریگزٹ ڈیل، برطانوی پارلیمنٹ آج حتمی فیصلہ کرے گی

    بریگزٹ ڈیل، برطانوی پارلیمنٹ آج حتمی فیصلہ کرے گی

    لندن: یورپ سے انخلا سے متعلق برطانوی پارلیمنٹ آج حتمی فیصلہ سنائے گی، وزیراعظم بورس جانسن کو پارلیمنٹ میں بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ یورپ سے انخلا ڈیل یا بغیر ڈیل کے کرے گا اس کا فیصلہ آج برطانوی پارلیمنٹ کرے گی، یورپی یونین کو برطانوی فیصلے کا انتظار ہے۔

    برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو پارلیمنٹ میں بڑی شکست ہوئی، پارلیمنٹ نے بریگزٹ ڈیل پر فیصلے کا حق حاصل کرلیا۔

    پارلیمنٹ نے 301کے مقابلے میں 328ووٹس سے ڈیل پر فیصلے کا حق حاصل کیا۔ اس موقع پر برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ نوڈیل بریگزٹ روکنے پر ووٹ دیا گیا تو نئے الیکشن کا اعلان کروں گا۔

    برطانیہ کے بریگزٹ وزیرکا یورپی یونین پرعدم تعاون کا الزام

    ادھر بریگزٹ امور کے برطانوی وزیر اسٹیفن بارکلے نے اپنے ایک اخباری انٹرویو میں یورپی یونین پر عدم تعاون کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ برسلز میں یورپی حکام لندن حکومت کے ساتھ کسی مصالحتی حل کے لیے زیادہ رضا مندی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔

    وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے برطانوی پارلیمان سے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ یورپی یونین بریگزٹ ڈیل پر نظر ثانی کرے۔

    تین سال قبل 2016 میں 43سال بعد تاریخی ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 52 فیصد برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی ہونے کے حق میں جبکہ 48 فیصد نے یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

  • برطانیہ کے بریگزٹ وزیرکا یورپی یونین پرعدم تعاون کا الزام

    برطانیہ کے بریگزٹ وزیرکا یورپی یونین پرعدم تعاون کا الزام

    لندن: بریگزٹ امور کے برطانوی وزیر اسٹیفن بارکلے نے اپنے ایک اخباری انٹرویو میں یورپی یونین پر عدم تعاون کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ برسلز میں یورپی حکام لندن حکومت کے ساتھ کسی مصالحتی حل کے لیے زیادہ رضا مندی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کا بیک سٹاپ پر اصرار خود یونین کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بیک سٹاپ سے مراد جمہوریہ آئرلینڈ اور برطانیہ کے صوبے شمالی آئرلینڈ کی درمیانی سرحد ہے، جو آئندہ یونین کی بیرونی سرحد بن جائے گی۔

    بارکلے نے کہا کہ اگر اکتیس اکتوبر کو برطانیہ بغیر کسی ڈیل کے یونین سے نکلا، تو یونین کی خواہشات کے برعکس مطابق آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے درمیان بین الاقوامی سرحد پر نگرانی کا عمل دربارہ شروع نہ کرنے سے متعلق اتفاق رائے پر عمل درآمد تقریبا ناممکن ہو جائے گا۔

    خیال رہے کہ بیک اسٹاپ کے معاملے پر برطانوی حکومت مشکلات کا شکا رہے اور پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے ، اسی سبب سابق وزیر اعظم تھریسا مے استعفیٰ دے چکی ہیں جبکہ موجودہ وزیر اعظم بورس جانسن بھی اکتوبر میں انتخابات کرانے کا عندیہ دے رہے ہیں۔

    یا درہے کہ تین سال قبل 2016 میں 43سال بعد تاریخی ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 52 فیصد برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی ہونے کے حق میں جبکہ 48 فیصد نے یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

    اس وقت ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کے وزیراعظم تھے اور وہ بریگزٹ کے حق میں نہیں تھے جس کے سبب انہوں نے عوامی رائے کے احترام میں اپنے منصب سے استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا تھا۔

    استعفیٰ دیتے وقت ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ ریفرنڈم کا انعقاد پارلیمانی نظام کا حصہ ہے، چھ سال تک برطانیہ کا وزیر اعظم بنے رہنے پر فخر ہے۔

  • برطانوی وزیراعظم نے قبل از وقت انتخابات کا عندیہ دے دیا

    برطانوی وزیراعظم نے قبل از وقت انتخابات کا عندیہ دے دیا

    لندن: برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے برطانیہ میں قبل از وقت انتخابات کا عندیہ دے دیا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے ملک میں 14 اکتوبر پر جنرل الیکشن کرانے کا عندیہ دے دیا، انہوں نے کہا کہ اگر ممبران پارلیمنٹ میں بریگزٹ کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی تو قبل از وقت انتخابات کراسکتے ہیں۔

    بورس جانسن نے کہا کہ ممبران پارلیمنٹ بریگزٹ میں تعطل پیدا نہ کریں، نہیں چاہتا کہ برطانیہ میں نئے الیکشن ہوں۔

    برطانوی وزیراعظم نے کہا کہ ایسے حالات نہیں کہ یورپ سے انخلا ملتوی کیا جائے۔

    واضح رہے سابق وزیراعظم تھریسامے نے کہ دو سال قبل کہا تھا کہ فوری انتخابات سے بریگزٹ میں آسانی پیدا ہوگی۔

    مزید پڑھیں: نومنتخب برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے مشہور تنازعات

    یاد رہے کہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے برطانوی پارلیمان سے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ یورپی یونین بریگزٹ ڈیل پر نظر ثانی کرے۔

    تین سال قبل 2016 میں 43سال بعد تاریخی ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 52 فیصد برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی ہونے کے حق میں جبکہ 48 فیصد نے یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

    اس وقت ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کے وزیراعظم تھے اور وہ بریگزٹ کے حق میں نہیں تھے جس کے سبب انہوں نے عوامی رائے کے احترام میں اپنے منصب سے استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا تھا۔

    استعفیٰ دیتے وقت ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ ریفرنڈم کا انعقاد پارلیمانی نظام کا حصہ ہے، چھ سال تک برطانیہ کا وزیر اعظم بنے رہنے پر فخر ہے۔

  • بریگزٹ کے بعد برطانیہ میں اشیا خورد ونوش کی قلت کا انتباہ جاری

    بریگزٹ کے بعد برطانیہ میں اشیا خورد ونوش کی قلت کا انتباہ جاری

    لندن:برطانیہ نے اگر کسی سمجھوتے کے بغیر یورپی یونین کو خیرباد کہا تو اس کو خوراک ، ایندھن اور ادویہ کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا،اس کی بندرگاہیں اور زمینی گذرگاہیں جام ہوجائیں گی اور آئرلینڈ کے ساتھ سخت سرحدکا نظام لاگو کرنے کی ضرورت ہوگی۔ان خدشات کا اظہاربرطانوی حکومت کی افشا ہونے والی خفیہ دستاویزات میں کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کابینہ دفتر نے ان دستاویزات میں کسی ڈیل کے بغیر بریگزٹ کی صورت میں تمام امکانی حالات کا احاطہ کیا ہے، ان میں کہا گیا ہے کہ بڑی گذرگاہوں سے گذرنے والی 85 فی صد لاریاں شاید فرانسیسی کسٹمز کے لیے تیار نہ ہوں۔اس طرح پورٹس پر درہم برہم ہونے والے نظام کے سدھار میں کم سے کم تین ماہ لگیں گے۔

    اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت اس بات میں بھی یقین رکھتی ہے کہ برطانوی صوبے شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کے درمیان سخت سرحد کا نظام نافذ ہوگا۔

    اسی لیے حزب اختلاف کی جماعتیں کسی ممکنہ اتھل پتھل اور بڑے بحران سے بچنے کے لیے یورپی یونین سے کسی سمجھوتے کے تحت انخلا پر زور دے دہی ہیں،کابینہ دفتر نے اسی ماہ ”آپریشن زرد ہتھوڑا“ کے نام سے یہ رپورٹ مرتب کی ہے۔

    اس میں حکومت کی بریگزٹ کے بعد ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کے لیے خفیہ جامع منصوبہ بندی کی مکمل تفصیل بیان کی گئی ہے تاکہ قومی ڈھانچے کے دھڑم تختے سے بچا جاسکے۔

    رپورٹ کے مطابق ”اس فائل کو ”سرکاری حساس“ کا نام دیا گیا ہے،یہ بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس میں کسی ڈیل کے بغیر بریگزٹ کے بعد برطانیہ کی تیاریوں کا ایک جامع جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن ایک سے زیادہ مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر یورپی یونین کے ساتھ بریگزٹ کا کوئی سمجھوتا طے نہیں پاتا تو وہ اکتیس اکتوبر کو اس کے بغیر بھی تنظیم کو خیرباد کہہ دیں گے جبکہ یورپی یونین برطانیہ کے ساتھ انخلا کے سمجھوتے کو دوبارہ کھولنے اور اس پر مذاکرات سے انکار کرچکی ہے۔

    بورس جانسن کی پیش رو برطانوی وزیراعظم تھریزا مے نے گذشتہ سال نومبر میں یورپی یونین سے انخلا کا یہ سمجھوتا طے کیا تھا لیکن آئرلینڈ اور برطانیہ کے درمیان واقع سرحد کے انتظام اور کسٹم سمیت دیگر محصولات کے بارے میں ابھی تک کوئی سمجھوتا طے نہیں پاسکا ہے۔

    برطانیہ اور یورپی یونین کے باقی رکن ممالک کے درمیان آئرلینڈ کے ذریعے ہی زمینی رابطہ ہوسکتا ہے۔

    برطانوی وزیراعظم کا یورپی یونین سے بڑا مطالبہ یہی ہے کہ آئرش بارڈر کا معاملہ برطانیہ کے انخلا کے سمجھوتے سے باہر ایک اور ڈیل کے تحت طے کیا جائے لیکن آئرلینڈ اور یورپی یونین کے رکن ممالک اس تجویز پر نالاں ہیں اور وہ اس کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں جبکہ برطانیہ خود بھی سخت بارڈر نہیں چاہتا ہے۔

    یورپی یونین کے لیڈروں نے حالیہ دنوں میں کہا ہے کہ وہ برطانیہ کے نئے لیڈر کے ساتھ بریگزٹ پر بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن وہ بالاصرار یہ بھی کہہ رہے کہ وہ برطانیہ کے ساتھ پہلے سے طے شدہ انخلا کے سمجھوتے کو دوبارہ نہیں کھولیں گے اور وہ ا س پرمزید بات چیت کے لیے ہرگز بھی تیار نہیں۔

    تاہم جانسن کا کہنا تھا کہ وہ کسی ڈیل کے بغیر برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلا نہیں چاہتے ہیں لیکن برطانیہ کو نو ڈیل بریگزٹ کی تیاری کرنا ہوگی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس صورت میں سرمایہ کار اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ اس سے عالمی مارکیٹ میں ’جھٹکے کی لہریں‘ دوڑ جائیں گی اور دنیا کی معیشت متاثر ہوگی،اس تناظر میں آئرلینڈ سرحد کو بریگزٹ کے کسی بھی حل میں بڑی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔

    یادرہے کہ بیک اسٹاپ ایک انشورنس پالیسی تھی جو آئر لینڈ اور برطانیہ کے صوبے شمالی آئرلینڈ کے درمیان پانچ سو کلومیٹر طویل سرحد پر کنٹرول سے بچنے کے لیے وضع کی گئی تھی۔

    یہ پالیسی 1998 میں گڈ فرائیڈے امن سمجھوتے کے تحت ختم کردی گئی تھی لیکن یورپی یونین نے بعد میں اسی بیک اسٹاپ کے نام سے اس کو جاری رکھا تھا اور اس کے تحت’سخت سرحد‘ کے قواعد وضوابط سے بچنے کے لیے یورپی یونین کی کسٹم یونین کے بعض پہلووں کا نفاذ کیا گیاتھا۔

    آئرش وزیراعظم لیو واردکر کا کہنا ہے کہ اگر برطانیہ اکتیس اکتوبر کو طلاق کےکسی سمجھوتے کے بغیر ہی یورپی یونین کو خیرباد کہہ دیتا ہے تو پھر آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے درمیان ادغام کا ایک مرتبہ پھر سوال پیدا ہوگا لیکن ہم دوستی اور تعاون کے جذبے سے اس مسئلے کوحل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

    برطانیہ کی تمام سیاسی جماعتیں وزیراعظم بورس جانسن پر یہ زور دے رہی ہیں کہ وہ یورپی یونین کو کسی سمجھوتے کے بعد ہی خیرباد کہیں۔

    بالخصوص حزب اختلاف کے لیڈر جیریمی کاربائن نے اسی ہفتے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ بریگزٹ میں تاخیر کے لیے ستمبر کے اوائل میں بورس جانسن کی حکومت کو گرادیں گے۔