Tag: بری کردیا

  • چیف جسٹس نے خودکش دھماکوں کے الزام میں عمرقید کاٹنے والے کوبری کردیا

    چیف جسٹس نے خودکش دھماکوں کے الزام میں عمرقید کاٹنے والے کوبری کردیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے خودکش دھماکوں عمر قید سزا یافتہ ملزم کوبری کردیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے استغاثہ کے پاس ملزم کے خلاف  کوئی ٹھوس ثبوت نہیں، اتنا بڑا دھماکا ہوگیا اس لیے سزا دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں بینچ نے خودکش دھماکوں میں ملوث ملزم کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ افسوس کی بات ہےنچلی عدالتوں نےیہ چیزیں کیوں نہیں دیکھتیں ،اتنا بڑا دهماکہ ہو گیا اس لیے سزا دے دی، ہائی کورٹ اتنی بڑی عدالت ہےاس نےبھی شواہد کونہیں دیکھا۔

    وکیل نے عدالت میں بتایا کہ 2008میں پاکستان نیول وارکالج لاہورکے باہردوخودکش دھماکے ہوئے، دھماکے میں 3 افراد جاں بحق اور 18 زخمی ہوئے تھے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا اتنا بڑا واقعہ ہوگیا ، 2 دھماکے ہوئے لیکن کوئی ثبوت ہی نہیں، ثبوت صرف دھماکاہی ہے؟ آپ کے پاس ملزم کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں؟ ایسا لگ رہا ہے ملزم کو ویسے ہی کیس میں گھسیٹاگیا، ملزم کانام ایف آئی آرمیں بھی موجود نہیں تھا۔

    عدالت نے خودکش دهماکوں میں ملوث عمرقید کے ملزم کو عدم شواہد پر شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرنےکاحکم دیا۔

    خیال رہے ٹرائل کورٹ نے ملزم ندیم حسین کو عمرقید کی سزاسنائی تھی ، جسے ہائی کورٹ نے برقرار رکھا تھا ، بعد ازاں ملزم نے ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

  • چیف جسٹس نے 52 مرتبہ سزائےموت پانے والے ملزم  کو بری کردیا

    چیف جسٹس نے 52 مرتبہ سزائےموت پانے والے ملزم کو بری کردیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے 52 مرتبہ سزائےموت پانے والے ملزم صوفی بابا کو بری کردیا، ملزم بہرام عرف صوفی بابا پر خودکش بمبار تیار کرنے کا الزام تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سزائے موت کے ملزم کی اپیل پر سماعت کی، چیف جسٹس نے ریمارکس  میں کہا صوفی بابا لوگوں کو جنت بھیجتا ہے خود کیوں نہیں جاتا ؟عجیب بات ہے بچوں کو تیار کرنےوالے کےخلاف ثبوت نہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا خود کش حملہ کرنے والا بچہ درحقیقت خود نشانہ بنتا ہے ، ملزم کے بیان کے مدنظر پولیس نے کوئی ثبوت نہیں دیا، ملزم خود کش حملےکے موقع پر موجود نہیں تھا، ملزم کے خلاف پراسیکوشن نے کوئی ثبوت نہیں دیے

    جسٹس آصف کھوسہ نے شک کا فائد ہ دیتے ہوئے 52 مرتبہ سزائےموت پانے والے ملزم صوفی بابا کو بری کردیا۔

    مزید پڑھیں : اغوابرائے تاوان کیس : چیف جسٹس نے 10 سال بعد ملزمان کو بری کردیا

    ٹرائل کورٹ نے ملزم کو52 مرتبہ سزائے موت اور73 بارعمر قید کی سزا سنائی تھی اور ہائی کورٹ نے بھی ملزم کی سزا برقرار رکھتے ہوئے اپیل مسترد کردی تھی۔

    ملزم بہرام عرف صوفی بابا پر سخی سروردربارحملےکےلیے خودکش بمبار تیار کرنے کا الزام تھا، دربار سخی سرور پر حملے میں 52 افراد ہلاک اور 73 زخمی ہوئے تھے

    یاد رہے چند روز قبل چیف جسٹس آصف کھوسہ نے اغوابرائے تاوان کیس میں 10 سال بعد حتمی فیصلہ سناتے ہوئے تینوں ملزمان کو بری کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ پراسیکیویشن کیس ثابت کرنےمیں ناکام رہا۔

  • چیف جسٹس کا جھوٹےگواہوں کے بعد غفلت برتنے والے مجسٹریٹ کیخلاف کارروائی کافیصلہ

    چیف جسٹس کا جھوٹےگواہوں کے بعد غفلت برتنے والے مجسٹریٹ کیخلاف کارروائی کافیصلہ

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم اسفندیار کو 10 سال بعد بری کردیا اور کہا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا، اس لیے ملزم کو بری کیا جاتا ہے، چیف جسٹس نےغفلت برتنے والے مجسٹریٹ کیخلاف کارروائی کافیصلہ کیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے قتل کے ملزم اسفندیار کی درخواست ضمانت پر سماعت کی، عدالت نے کہا استغاثہ مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا، اس لیے ملزم کو بری کیا جاتا ہے، مجسٹریٹ نے شناخت پریڈ درست نہیں کی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کیے۔

    چیف جسٹس نے جھوٹےگواہوں کے بعد غفلت برتنے والے مجسٹریٹ کیخلاف کارروائی کافیصلہ کرتے ہوئے ایگزیکٹیواسٹیشن مجسٹریٹ کوطلب کرلیا، شناخت پریڈمیں غفلت پرایگزیکٹواسٹیشن مجسٹریٹ کنورانور علی کو طلب کیا گیا۔

    چیف جسٹس کا جھوٹےگواہوں کے بعد غفلت برتنے والے مجسٹریٹ کیخلاف کارروائی کافیصلہ

    عدالت نے کہا ایگزیکٹواسٹیشن مجسٹریٹ 22فروری کوسپریم کورٹ میں پیش ہوں اور رجسٹرار لاہورہائی کورٹ مجسٹریٹ کوتلاش کرکے حاضری یقینی بنائیں، مجسٹریٹ پیش ہوکروضاحت کریں،غفلت پرکارروائی کیوں نہ کریں۔

    سپریم کورٹ نےمجسٹریٹ کی ذاتی حیثیت میں طلبی کاحکم شہری کی اپیل پرکیا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ایسا سلوک کیوں کیا جاتا ہے، ایسے کیس دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، ایک بچہ قتل ہوگیا اور مجسٹریٹ کی جانب سے غلط شناخت پریڈ کرائی گئی، قانونی تقاضے پورے نہ ہونے کی وجہ سے ملزم کو سزا ہوگئی، جنہوں نے قانون پر عمل کرنا ہے، ان سے پوچھنا تو چاہیے۔

    قانونی تقاضے پورے نہ ہونے کی وجہ سےملزم کوسزاہوگئی، چیف جسٹس

    ،چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا مجسٹریٹ لگانے سے پہلے ان کی ٹریننگ نہیں ہوتی، جس پر وکیل نے بتایا مجسٹریٹ کو تعیناتی کے پہلے کورسز کرائے جاتے ہیں تو چیف جسٹس نے کہا ہم عدالتی قانون سے ہٹ کر فیصلہ نہیں دے سکتے، ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے قانون کو کیوں نہیں دیکھا۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہا یہ ملک ہماراہےاس میں ہمارے بچوں نے رہنا ہے، کسی نے تو شروعات کرنی ہے، روز قتل کیسز دیکھتے ہیں، ملزم اصلی اور شہادتیں سب نقلی ہوتی ہیں، اگر ہم بھی آنکھیں بند کردیں تو قانون کہاں جائےگا، ایسا لگتا ہے ملزم گرفتار ہوا پھر شہادتیں بنائی گئی ہیں۔

    ہم عدالتی قانون سےہٹ کرفیصلہ نہیں دےسکتے، ٹرائل کورٹ اورہائیکورٹ نےقانون کوکیوں نہیں دیکھا، اگرہم بھی آنکھیں بندکردیں توقانون کہاں جائےگا

    چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا پولیس ملزم تک کیسے پہنچی، جس پر وکیل نے جواب دیا انفارمر کی اطلاع پر پولیس نے ملزم کو گرفتار کیا، ملزم کی گرفتاری کے بعد پتہ چلا اس نے لاش نہر میں پھینکی ہے۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس میں کہا ایک گواہ کہتا ہے اس نے 4 بندوں کو نہر میں لاش پھیکتے دیکھا، دوسرےگواہ کےمطابق 2 بندوں نے لاش کو نہر میں پھینکا۔

    دوران سماعت مقتول عادل بٹ کے والد نے چیف جسٹس کے درمیان مکالمے میں کہا میرے بیٹے کا قاتل کہاں گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا پولیس سے جاکر پوچھیں، پولیس کو ٹھیک کرناہمارا کام نہیں تو والد مقتول کا کہنا تھا کہ ہر پولیس اسٹیشن میں ایک جج بٹھا دیں۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا یہ حکومت کاکام ہے، جس پر والد نے کہ سپریم کورٹ تک آتے آتے 3 کروڑ روپے لگ گئے، قاتل نہیں پکڑا گیا۔

    بعد ازاں عدالت نےملزم اسفندیارخان کو10 سال بعدبری کرنےکاحکم دے دیا۔

    خیال رہے ٹرائل کورٹ نےملزم اسفندیارکوسزائےموت سنائی تھی جبکہ ہائی کورٹ نےملزم کی سزائےموت کوعمرقیدمیں تبدیل کردیاتھا۔