Tag: بزرگان دین

  • صوفی شاعر سچل سرمست ؒ  کا تذکرہ

    صوفی شاعر سچل سرمست ؒ کا تذکرہ

    وادیٔ سندھ میں جن بزرگانِ دین کی تعلیمات کے ماننے والوں اور صوفیا کے ارادت مندوں کی بڑی تعداد بستی ہے، ان میں سچل سرمست ؒ کا نام بھی نمایاں ہے۔ انھیں شاعرِ ہفت زبان بھی کہا جاتا ہے۔

    ان کے جدِ امجد میاں صاحب ڈنو فاروقی کی سندھ کی قدیم ریاست خیر پور میں اپنی خانقاہ سے رشد و ہدایت عام کرنے میں‌ مصروف تھے۔ اسی زمانے میں نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا اور بعد میں سندھ پر یورش کر دی۔ اس دورِ پرآشوب میں 1739ء میں ریاست خیر پور کے علاقے رانی پور کے قریب کے ایک چھوٹے سے گاؤں درازا شریف کے ایک مذہبی گھرانے میں سچل سرمست کی پیدائش ہوئی جن کا اصل نام عبد الوہاب تھا، جو بعد میں وہ اپنی صاف گوئی اور روشن کردار کی وجہ سے سچل یعنی سچ بولنے والے مشہور ہوگئے۔ انھیں تاریخ میں سندھی زبان کے مشہور صوفی شاعر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ سچل سرمست ؒ کے دادا میاں صاحب ڈنو عرف محمد حافظ بھی اپنے زمانے کے معروف بزرگ اور شاعر تھے۔

    سچل سرمست کے والد کے بعد ان کی پرورش چچا کے زیرِ سایہ ہوئی۔ سچل سرمست نے عربی، فارسی اور تصوف کے اسرارو رموز سے آگاہی حاصل کی اور بہت چھوٹی عمر میں قرآن بھی حفظ کرلیا۔ ابھی سچل سرمست کی عمر چھے سال ہی تھی کہ اپنے زمانے کے بزرگ اور صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ خیر پور تشریف لائے۔ کہتے ہیں کہ یہاں انھوں نے سچل سرمست کو دیکھا تو فرمایا کہ یہ لڑکا معرفت کی منازل طے کرے گا۔سچل سرمست اس کے بعد ظاہری اور باطنی علوم کی تحصیل میں مشغول ہوگئے۔ قرآن مجید حفظ کرنے کے ساتھ فقہ و تفسیر کی کتابیں پڑھیں اور پندرہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے شعر بھی کہنے لگے۔

    سچل سرمست اکثر تنہائی میں غور و فکر میں ڈوبے رہتے۔ جوانی ہی سے عبادت گزار اور روزے، نماز کے پابند تھے اور درود و وظائف میں وقت گزارتے تھے۔ ان کا کلام سات زبانوں عربی ، سندھی، سرائیکی، پنجابی، بلوچی، فارسی اور اردو میں ملتا ہے جس کی بنا پر وہ ہفت زبان شاعر بھی کہلائے۔ انھوں نے اپنے صوفیانہ کلام سے فقہی اختلافات دور کرنے اور درباری عالموں کو جواب دینے کی کوشش کی جو اس دور میں تفرقہ بازی کو ہوا دے رہے تھے۔ اسی وجہ سے انھیں لوگوں نے پسند کیا اور ان کی شاعری بہت جلد مقبولیت حاصل کرگئی۔ ان کے وحدت الوجود کے فلسفے نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا تھا اور وہ روحانی بزرگوں کی صف میں شامل ہوگئے۔

    سچل سرمست نے 11 اپریل 1827 عیسوی یعنی 14 رمضان 1242ھ میں وفات پائی اور اپنی آبائی خانقاہ درازا شریف میں مدفون ہوئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر نوے سال تھی۔ حضرت سچل سرمستؒ نے جس بی بی سے نکاح کیا تھا، وہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکیں جب کہ خدا نے اولاد بھی نہیں دی تھی۔

    مرزا علی قلی بیگ حضرت سچل سرمست کی شخصیت کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ’’وہ سفید ریش مبارک رکھتے تھے، جوتا کبھی پہنتے، کبھی ننگے پاؤں ہی گھر سے نکل جاتے، ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تھی، سواری استعمال نہیں کرتے تھے۔ زمین پر یا لکڑی کے صندل پر بیٹھتے اور سو جاتے، چارپائی استعمال نہیں کرتے تھے، اکثر طنبورہ بھی ساتھ رکھتے تھے۔‘‘

    انھوں نے سندھ کے کلہوڑا اور تالپور حکم رانوں‌ کا دور دیکھا اور تمام عمر اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں میں پیار محبّت، بھائی چارہ اور امن کا پیغام عام کرتے رہے۔

  • برصغیر میں صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی آمد اور قیام

    برصغیر میں صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی آمد اور قیام

    ہندوستان وہ خطّہ ہے جہاں بسنے والے قدیم دور میں بھی مختلف مذاہب کے پیرو کار موجود تھے جو اس زمانے کی مذہبی شخصیات اور اپنے بزرگوں کی تعلیمات کے زیرِ اثر زندگی گزارتے رہے۔ بعد میں برصغیر اور بالخصوص ہندوستان میں اسلام کی روشنی پھیلی تو یہاں کے لوگوں نے دینِ حق کو قبول کیا اور آج اس خطّے میں کروڑوں کی تعداد میں مسلمان بستے ہیں۔

    سرزمینِ حجاز اور ارضِ فلسطین جہاں اپنے مقدّس و متبرک مقامات اور آسمانی کتابوں کے نزول اور پیغمبروں کی آمد کی وجہ سے عالمِ اسلام میں ہر لحاظ سے اوّلیت اور امتیاز رکھتا ہے، وہیں مشہور ہے کہ اس خطّۂ ارضی یعنی ہندوستان کی خاک نے بھی انبیاء اور رسولوں کی قدم بوسی کی اور اسی کی برکتوں سے آج یہاں کے باسیوں کے دلوں میں ایمان راسخ ہے۔

    بعض روایات کے مطابق حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام کا ہبوط سرزمینِ ہند پر ہوا یا بیت اللہ کی تعمیر کے بعد یہاں تشریف لائے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اہلِ سرندیپ نے بھی نبی کریم صلّى الله عليه وسلم کی خدمت میں ایک عقل مند، ذی شعور اور ذکی الفطرت شخص کو تعلیماتِ نبویہ کے مشاہدے کے لیے عرب تاجروں کے ساتھ روانہ کیا تھا، لیکن وہ جب تک مدینہ پہنچا تو پیارے آقا اس دارِ فانی سے پردہ فرما چکے تھے اور وہ خلیفۂ وقت اور صحابہ سے مل کر اپنے وطن لوٹ آیا تھا۔

    ایک موٴرخِ اسلام علّامہ قاضی محمد اطہر مبارک پوری کی تحقیق کے مطابق سرزمینِ ہند کو 17 صحابہ کرام کی قدم بوسی کا شرف حاصل رہا ہے، جب کہ اسی موضوع پر تحقیق کے دوران دورِ حاضر میں محمد اسحاق بھٹی نے لکھا کہ 25 صحابہ مختلف ادوار میں ہندوستان تشریف لائے تھے۔

    قاضی اطہر مبارک پوری کی مؤلفہ ”خلافتِ راشدہ اور ہندوستان“ میں جو اسمائے صحابہ پیش کیے گئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں: حَکَم بن ابی العاص، حَکَم بن عمرو ثعلبی غفَاری، حضرت خریت بن راشد ناجی سامی، رُبَیَّع بن زیاد حارثی مَذْحَجِی، سنان بن سلمہ ہذَلی، حضرت سہل بن عدی خزرجی انصاری، حضرت صحّار بن عباس عبدی، حضرت عاصم بن عَمرو تمیمی، عبداللہ بن عبداللہ بن عِتبان انصاری اور عبداللہ بن عمیر اَشجعی۔ دوسری طرف محمد اسحاق بھٹی کی تالیف کردہ ”برصغیر میں اسلام کے اوّلین نقوش“ میں جو نام پیش کیے گئے ہیں ان میں شہاب بن مخارق بن شہاب تمیمی، نسیر بن دیسم بن ثور عجلی، حکیم بن جبلہ اسدی، کلیب ابووائل، مُہَلَّب بن ابوصفرہ ازدی عتکی، عبداللہ بن سوّار عبدی، یاسر بن سوّار عبدی، عبداللہ سُوَید تمیمی۔ مؤرخین میں ان اصحاب پر یہ اختلاف ضرور ہے کہ وہ صحابی ہیں یا تابعی تھے۔

    صحابہ کے بعد امّتِ مسلمہ کا بہترین طبقہ تابعین ہیں اور ان میں سے کئی ہندوستان بھی تشریف لائے تھے۔ اسی طرح حق و صداقت کا پرچم لہرانے اور دینِ مبین کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے سرزمینِ ہند کی جانب آنے والوں میں تبع تابعین کے نام بھی تاریخ کی کتابوں میں ملتے ہیں۔

  • بھوکا پڑوسی اور احمد بن اسکافؒ

    بھوکا پڑوسی اور احمد بن اسکافؒ

    اولیا اللہ، بزرگانِ‌ دین اور صوفیائے کرام کی زندگی کے حالات و واقعات، معتقدین اور پیرو کاروں کے لیے نصیحتیں اور سبق آموز باتیں سینہ بہ سینہ اور مختلف ادوار میں تحریر کی گئی کتابوں کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں اور ہماری ہدایت اور راہ نمائی کرتی ہیں۔

    یہاں ہم ایسا ہی ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو حقوقُ العباد اور پڑوسیوں کا خیال رکھنے کے حوالے سے دینی اور اخلاقی تعلیم کا متاثر کُن پہلو ہمارے سامنے اجاگر کرتا ہے۔ یہ واقعہ حکایاتِ صوفیہ نامی کتاب میں موجود ہے جو مختلف ادوار میں ترتیب و تدوین کے عمل سے گزرتی رہی ہے۔

    حضرت احمد بن اسکاف دمشقی رحمۃ اللہ علیہ نے حجِ بیتُ اللہ کے ارادے سے کئی سال میں ایک خطیر رقم جمع کی۔ حج سے چند دن پہلے انہوں نے ہمسایہ کے گھر میں اپنے بیٹے کو کسی کام سے بھیجا۔ تھوڑی دیر بعد وہ منہ بسورتا ہوا واپس آیا۔

    ابنِ اسکافؒ نے پوچھا، بیٹے خیر تو ہے، تم روتے کیوں ہو؟ اس نے کہا، ہمارے پڑوسی گوشت روٹی کھا رہے تھے، میں منہ دیکھتا رہا اور انہوں نے مجھے پوچھا تک نہیں۔ ابنِ اسکافؒ رنجیدہ ہو کر ہمسائے کے گھر گئے اور کہا سبحان اللہ، ہمسایوں کا یہی حق ہوتا ہے جو تم نے ادا کیا۔ میرا کمسن بچہ منہ تکتا رہا اور تم گوشت روٹی کھاتے رہے، اس معصوم کو ایک لقمہ ہی دے دیا ہوتا۔

    یہ سن کر پڑوسی زار زار رونے لگا اور کہنے لگا، ہائے افسوس اب ہمارا راز فاش ہوگیا۔ گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل۔ خدا کی قسم، پانچ دن تک میرے گھر والوں کے منہ میں ایک دانہ تک نہیں گیا، لیکن میری غیرت کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے روکتی تھی، جب نوبت ہلاکت تک پہنچی تو ناچار جنگل گیا، ایک جگہ مردہ بکری پڑی تھی، اس کا تھوڑا سا گوشت لے لیا اور اسی کو ابال کر ہم کھا رہے تھے، یہی سبب تھا کہ ہم نے آپ کے بچّے کو کچھ نہ دیا، ورنہ یہ کب ہوسکتا تھا کہ ہم گوشت روٹی کھائیں اور آپ کا بچّہ منہ تکتا رہے۔

    یہ سن کر احمد بن اسکافؒ پر رقّت طاری ہوگئی۔ بار بار کہتے کہ اے احمد تجھ پر افسوس ہے کہ تیرے گھر میں تو ہزاروں درہم و دینار پڑے ہوں اور تیرے ہمسایوں پر فاقے گزررہے ہوں۔ قیامت کے دن تو اللہ کو کیا منہ دکھائے گا اور تیرا حج کیسے قبول ہوگا؟ پھر وہ گھر گئے اور سب درہم و دینار جو حج کی نیت سے جمع کیے تھے، چپکے سے لا کر با اصرار ہمسائے کو دے دیے اور خود اپنے گھر میں بیٹھ کر یادِ الٰہی میں مشغول ہوگئے۔

    حج کا زمانہ آیا تو حجاج میں مشہور صوفی بزرگ حضرت ذوالنّون مصریؒ بھی شامل تھے۔انہوں نے جبلِ عرفات پر ایک غیبی آواز سنی کہ اس سال احمد بن اسکاف دمشقیؒ نے حج کی نیت کی، لیکن وہ نہ آسکا، ہم نے اسے حجِ اکبر کا ثواب عطا کیا ہے اور دوسرے بہت سے حجاج کا حج بھی اس کے سبب قبول فرمایا ہے۔ حضرت ذوالنّون مصریؒ بہت حیران ہوئے کہ نامعلوم احمد بن اسکافؒ کی کون سی ادا اللہ تعالیٰ کو بھا گئی ہے جو اس پر اس قدر فضل و کرم کیا گیا ہے۔

    حج سے فارغ ہو کر وہ سیدھے دمشق گئے اور احمد بن اسکافؒ سے ملاقات کر کے ان سے حج پر نہ جانے کا سبب دریافت کیا۔

    انہوں نے واقعہ بیان کیا تو ذوالنّونؒ نے فرمایا کہ مبارک ہو اللہ تعالیٰ نے تمہارا حج قبول فرما لیا، بلکہ حجِ اکبر کا ثواب عطا فرمایا۔ احمد بن اسکافؒ یہ سن کر رونے لگے اور بار بار اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہے۔ اگلے سال اللہ نے انہیں اس قدر مال دیا کہ خود فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے تشریف لے گئے۔

  • انسانی ذہن پر پوشیدہ حقیقت کیسے منکشف ہوسکتی ہے؟

    انسانی ذہن پر پوشیدہ حقیقت کیسے منکشف ہوسکتی ہے؟

    انسان کے مراتبِ استعداد بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی استعداد درجۂ حیوانیت سے متجاوز نہیں ہو پاتی اور وہ صرف حیات کی اساسی ضروریات تک ہی محدود رہتے ہیں، یہ انسانی استعداد کا سب سے کم مرتبہ ہے۔

    ان سے اونچا طبقہ ان اصحاب کا ہے جو ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اپنی استعداد کے رجحانات اور تقاضوں کی مناسبت سے بعض علوم و فنون سیکھ لیتے ہیں۔ اس طرح ان کا شمار تعلیم یافتہ اور اربابِ فن میں ہوتا ہے، یہ استعداد کا درجہ اوسط ہے۔

    آخری اور سب سے بلند طبقہ وہ ہے جس پر جامع الکمالات، نابغہ روزگار اور فطین کے القاب صادق آتے ہیں۔

    قدرت نے انہیں استعداد کے اُس نقطۂ عروج پر فائز کیا ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنی استعداد کو بروئے کار لائیں اور ذرا توجہ سے کام لیں تو کائنات کا کوئی علم اور فن ان کے دائرہ گرفت سے باہر نہیں جانے پاتا بلکہ جس موضوع کو ان کے آئینۂ استعداد کے روبرو پیش کیا جاتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ اس پر برجستہ محو گفتگو ہو جاتے ہیں بلکہ اس موضوع پر ایسے عالمانہ، محققانہ اور ناقابلِ تردید عقلی و نقلی دلائل کا ایک دریا بہاتے نظر آتے ہیں اور اپنے جوہرِ استعداد سے ایسی ایسی نادرہ زائیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ آیت "وحملھا الانسان” میں پوشیدہ حقیقتِ کبرٰی ذہن پر منکشف ہو جاتی ہے۔

    ان کے زیرِ بحث موضوع کا جو صحیح تجزیہ اور حتمی نتیجہ برآمد ہوتا ہے اس کے قبول کرنے میں سلیم الطبع، انصاف پسند، معقول اور ذی ہوش سامعین کبھی بھی تاخیر سے کام نہیں لیا کرتے۔

    مذکورہ بالا صفاتِ عالیہ، خصائص اور استعداد کے مالک غزالیؒ ، رازیؒ، رومیؒ اور امیر خسروؒ جیسے ذہن کے لوگ ہی ہو سکتے ہیں اور ایسے حضرات صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور جس خطۂ ارض کو ان کی قیام گاہ کا شرف مل جاتا ہے، وہ قیامت تک نہ صرف یہ کہ اپنے اس اعزاز پر فخر کرتا ہے، بلکہ دنیا اس خطہ کے باشندوں کو بھی اس نابغۂ روزگار سے قربت کے باعث چشمِ احترام سے دیکھتی ہے۔

    تیری محبت کے سبب مجھے اس قوم کے ساتھ بھی حسنِ سلوک اور مروت سے پیش آنا پڑا جو میرے دشمن تھے۔ دراصل بات یہ ہے کہ ایک آنکھ کی خاطر ہزار آنکھوں کی عزت کرنا پڑتی ہے۔

    سید نصیر الدین نصیر کی معطر فکر سے ایک ورق

  • دل شکستہ اور بادشاہ سے مایوس لوہار کی کہانی

    دل شکستہ اور بادشاہ سے مایوس لوہار کی کہانی

    وہ قفل بنانے کا کام کرتا تھا۔ اسے اپنے کام کا ماہر مانا جاتا تھا۔

    وہ ایسا شخص تھا کہ بادشاہ بھی اس کام میں اُس کی مہارت کا قائل اور کاری گری کا معترف ہو گیا۔ قفال کو اس بات پر بڑا فخر تھا کہ عام لوگ ہی نہیں بلکہ بادشاہ بھی اس کا قدر دان ہے۔

    وہ اکثر بادشاہ کے دربار میں حاضری دیتا اور اپنے تیار کردہ تالے اور مختلف قفل اس کے سامنے رکھتا اور بادشاہ سے اپنی تعریف سن کر خوشی سے پھولا نہ سماتا۔

    وہ قفال بہت محنتی تھا اور دل لگا کر اپنا کام کرتا تھا۔ بادشاہ کو معلوم تھا کہ وہ ایک محنتی اور صابر شخص ہے اور وہ بھی اس کی تعریف معاملے میں بخل سے کام نہ لیتا۔

    ایک روز دربار میں بادشاہ سب سے ملاقات کر رہا تھا۔ وہاں یہ قفال جسے سب لوگ قفال شاشی کہتے تھے، خاموشی سے بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کے پاس چند نہایت نفیس اور بناوٹ کے اعتبار سے شان دار قفل موجود تھے جو دراصل اس کی محنت اور صناعی کا نمونہ تھے۔ وہ یہ تالے بادشاہ کو دکھانا چاہتا تھا۔

    کچھ دیر بعد قفال شاشی کی باری آگئی۔ ابھی بادشاہ نے اس کی کاری گری کے نمونے دیکھنا شروع ہی کیا تھا کہ غلام نے کسی خاص ملاقاتی کی آمد کی اطلاع دے دی۔ غلام کی بات سنتے ہی بادشاہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑا وہ قفل ایک طرف رکھا اور اس شخصیت کی تعظیم میں کھڑا ہو گیا۔

    دربار میں آنے والی شخصیت کو بادشاہ نے اپنے برابر جگہ دی۔ یہ نہایت عزت اور احترام کی علامت تھا اور ظاہر ہوتا تھا کہ بادشاہ اس شخصیت سے مرعوب ہے اور اس کی تعظیم لازمی سمجھتا ہے۔

    ادھر قفال شاشی یہ سوچنے پر مجبور تھاکہ بادشاہ نے اس کی ہزار ہا تعریف کی مگر کسی کی یہ تکریم اور ایسی تعظیم تو اس نے کبھی نہیں دیکھی۔ قفال شاشی کے دل کو دھچکا لگا۔

    آخر وہ کون ہیں اور ان کے پاس ایسا کیا ہنر ہے جو بادشاہ نے انھیں اس قدر عزت دی ہے؟ قفال جو بادشاہ سے اپنی تعریفیں سن کر بہت فخر محسوس کرتا تھا، آج کچھ دل گرفتہ اور مایوس سا تھا۔

    معلوم ہوا کہ وہ شہر کے مشہور عالم ہیں۔

    اس روز ناشاد و مایوس قفال شاشی نے گھر لوٹ کر اپنے اوزار ایک طرف رکھے اور زندگی کا اہم ترین فیصلہ کیا جس کے بعد ان کا نام اور مقام ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔

    قفال شاشی نے لوہے کو پگھلانے، کوٹنے اور اوزاروں سے چھیل چھال کر اسے قفل کی شکل دینے کا کام چھوڑ دیا اور حصولِ علم میں جٹ گئے۔

    امام ابو بکر ابن علی ابن اسمٰعیل القفال الشاشی ایک متبحر عالم، اسلامی دنیا کی قابل شخصیت اور صرف و نحو کے ماہر مشہور ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ جنوبی عراق کے سب سے زیادہ علم رکھنے والے شخص تھے۔

    قفال شاشی نے ایک بادشاہ کا دنیاوی دربار مایوسی کے عالم میں چھوڑا تھا، لیکن جب اللہ ربُ العزت کی بارگاہ میں سَر جھکایا اور اس کے دین کو سیکھا سمجھا اور دوسروں تک پہنچایا تو ہر طرف ان کی عزت اور عظمت، مرتبہ و مقام بلند ہوا۔

  • فقہا اور اُمرا بھی اُس صاحبِ کرامات کے منتظر تھے!

    فقہا اور اُمرا بھی اُس صاحبِ کرامات کے منتظر تھے!

    آئیے ابنِ بطوطہ کی وساطت سے سلطنتِ فارس کے تاریخی شہر شیراز کے ایک بزرگ سے ملتے ہیں۔

    اس مشہور مسلمان سیاح کو نوجوانی میں ملکوں ملکوں گھومنے کا موقع ملا اور اپنے وقت کے بادشاہوں، باکمالوں، مشہور منصب داروں، علما اور بزرگان دین کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل ہوا. ابنِ بطوطہ نے اپنے اس سفر کو اپنی قابلیت اور مشاہدے کی قوت سے نہایت خوبی سے رقم کیا ہے۔

    اسی سفر نامے کے ایک ورق پر شیراز میں اسماعیل بن محمد خداداد کی زیارت کا احوال ابنِ بطوطہ نے کچھ یوں رقم کیا ہے۔

    "شیراز جانے کا قصد یوں کیا کہ میں وہاں وحیدُ الشیخ، القاضی الامام، صاحبِ کراماتِ ظاہرہ اسماعیل بن محمد خداداد کی زیارت سے مشرف یاب ہونا چاہتا تھا۔ جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے ساتھ تین شخص اور تھے۔

    ہم نے دیکھا کہ فقہا اور شہر کے بڑے لوگ آپ کا انتظار کرتے ہیں۔ چناں چہ جب آپ نمازِ عصر کے لیے باہر نکلے تو آپ کے ساتھ محبُ الدین اور علاءُ الدین آپ کے دونوں بھتیجے اور سگے بھائی روحُ الدین بھی تھے۔

    میں نے سلام کیا تو آپ نے معانقہ فرمایا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑے ہوئے اپنے مصلیٰ تک چلے گئے۔ پھر ہاتھ چھوڑ دیا اور اشارہ کیا کہ میں نماز ادا کروں۔ سب نے نماز ادا کی۔

    پھر آپ کے سامنے کتاب المصابیح اور صاغانی کی شوارقُ الانوار پڑھی گئی جس کے بعد قضا کے متعلق واقعات بیان ہوئے۔

    میں نے دیکھا کہ اس کے بعد شہر کے بڑے لوگ سلام کے لیے آگے بڑھے۔

    پھر آپ جیسے بزرگ بڑی شفقت فرمائی اور مجھے بلاکر میرے حالات دریافت فرمائے اور دیگر احوال سنا۔ میں نے خدمتِ عالی میں سب حالات بیان کیے۔”

    اس شہر کی تاریخ ہزاروں سال قدیم ہے اور اس نے مختلف ادوار میں قرار و یلغار سبھی کچھ دیکھا۔ فارسی کے مشہور شاعر حافظ شیرازی اور شیخ سعدی بھی اسی شہر کے تھے۔