Tag: بزم اطفال

  • دو چوہے…

    دو چوہے…

    دو چوہے تھے جو ایک دوسرے کے بہت گہرے دوست تھے۔ ایک چوہا شہر کی ایک حویلی میں بل بنا کر رہتا تھا اور دوسرا پہاڑوں کے درمیان ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ گاؤں اور شہر میں فاصلہ بہت تھا، اس لیے وہ کبھی کبھار ہی ایک دوسرے سے ملتے تھے۔

    ایک دن جو ملاقات ہوئی تو گاؤں کے چوہے نے اپنے دوست شہری چوہے سے کہا، ’’بھائی! ہم دونوں ایک دوسرے کے گہرے دوست ہیں۔ کسی دن میرے گھر تو آئیے اور ساتھ کھانا کھائیے۔‘‘

    شہری چوہے نے اس کی دعوت قبول کر لی اور مقررہ دن وہاں پہنچ گیا۔ گاؤں کا چوہا بہت عزّت سے پیش آیا اور اپنے دوست کی خاطر مدارات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ کھانے میں مٹر، گوشت کے ٹکڑے، آٹا اور پنیر اور میٹھے میں پکے ہوئے سیب کے تازہ ٹکڑے اس کے سامنے لا کر رکھے۔ شہری چوہا کھاتا رہا اور وہ خود اس کے پاس بیٹھا میٹھی میٹھی باتیں کرتا رہا۔ اس اندیشے سے کہ کہیں مہمان کو کھانا کم نہ پڑ جائے، وہ خود گیہوں کی بالی منہ میں لے کر آہستہ آہستہ چباتا رہا۔

    جب شہری چوہا کھانا کھا چکا تو اس نے کہا، ’’ارے یار جانی! اگر اجازت ہو تو میں کچھ کہوں؟‘‘

    گاؤں کے چوہے نے کہا، ’’کہو بھائی! ایسی کیا بات ہے؟‘‘

    شہری چوہے نے کہا، ’’تم ایسے خراب اور گندے بِل میں کیوں رہتے ہو؟ اس جگہ میں نہ صفائی ہے اور نہ رونق۔ چاروں طرف پہاڑ، ندی اور نالے ہیں۔ دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔ تم کیوں نہ شہر میں چل کر رہو۔ وہاں بڑی بڑی عمارتیں ہیں۔ سرکار دربار ہیں۔ صاف ستھری روشن سڑکیں ہیں۔ کھانے کے لیے طرح طرح کی چیزیں ہیں۔ آخر یہ دو دن کی زندگی ہے۔ جو وقت ہنسی خوشی اور آرام سے گزر جائے وہ غنیمت ہے۔ بس اب تم میرے ساتھ چلو۔ دونو ں پاس رہیں گے۔ باقی زندگی آرام سے گزرے گی۔‘‘

    گاؤں کے چوہے کو اپنے دوست کی باتیں اچھی لگیں اور وہ شہر چلنے پر راضی ہو گیا۔ شام کے وقت چل کر دونوں دوست آدھی رات کے قریب شہر کی اس حویلی میں جا پہنچے جہاں شہری چوہے کا بِل تھا۔ حویلی میں ایک ہی دن پہلے بڑی دعوت ہوئی تھی جس میں بڑے بڑے افسر، تاجر، زمین دار، وڈیرے اور وزیر شریک ہوئے تھے۔

    وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حویلی کے نوکروں نے اچھے اچھے کھانے کھڑکیوں کے پیچھے چھپا رکھے ہیں۔ شہری چوہے نے اپنے دوست، گاؤں کے چوہے کو ریشمی ایرانی قالین پر بٹھایا اور کھڑکیوں کے پیچھے چھپے ہوئے کھانوں میں سے طرح طرح کے کھانے اس کے سامنے لا کر رکھے۔ مہمان چوہا کھاتا جاتا اور خوش ہو کر کہتا جاتا، ‘’واہ یار! کیا مزیدار کھانے ہیں۔ ایسے کھانے تو میں نے خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے۔”

    ابھی وہ دونوں قالین پر بیٹھے کھانے کے مزے لوٹ ہی رہے تھے کہ یکایک کسی نے دروازہ کھولا۔ دروازے کے کھلنے کی آواز پر دونوں دوست گھبرا گئے اور جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ اتنے میں دو کتّے بھی زور زور سے بھونکنے لگے۔ یہ آواز سن کر گاؤں کا چوہا ایسا گھبرایا کہ اس کے ہوش و حواس اڑ گئے۔

    ابھی وہ دونوں ایک کونے میں دبکے ہوئے تھے کہ بلیوں کے غرانے کی آواز سنائی دی۔ گاؤں کے چوہے نے گھبرا کر اپنے دوست شہری چوہے سے کہا، ’’اے بھائی! اگر شہر میں ایسا مزہ اور یہ زندگی ہے تو یہ تم کو مبارک ہو۔ میں تو باز آیا۔ ایسی خوشی سے تو مجھے اپنا گاؤں، اپنا گندا بل اور مٹر کے دانے ہی خوب ہیں۔‘‘

    (ادبِ اطفال سے انتخاب، از قلم جمیل جالبی)

  • ایک حماقت ایک شرارت

    ایک حماقت ایک شرارت

    معلوم نہیں کہ بچپن کا دور ایسا ہی سہانا، حسین، دل فریب اور سنہرا ہوتا ہے یا وقت کی دبیز چادر کے جھروکے سے ایسا لگتا ہے۔

    اب میرے سامنے میرے خاندان کی تیسری نسل کے شگوفے پروان چڑھ رہے ہیں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آج کل کے بچوں کا بچپن اتنا پُر رونق، رنگین اور پُر جوش نہیں جیسا ہمارا بچپن تھا۔ دو تین گھنٹے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کارٹون دیکھنا، ویڈیو گیم، موبائل فون اور انٹرنیٹ میں غرق بچوں کی دنیا ایک کمرہ تک محدود ہوتی ہے جب کہ ہمارے کھیلوں اور شرارتوں کا دائرہ بہت وسیع تھا۔

    اکثر ہمارے کھیلوں کے شور اور ہنگاموں سے گھر والے اور کبھی کبھی اہلِ محلّہ بھی عاجز رہتے تھے۔

    ہمارے بچپن کے محبوب کھیل آنکھ مچولی، چور سپاہی، اندھا بھینسا، اونچ نیچ اور کوڑا جمال شاہی ہوتے تھے۔ جب کچھ اور بڑے ہوئے تو گلی ڈنڈا، کبڈی، گیند تڑی، گیند بلا، فٹ بال اور پتنگ بازی کی طرف راغب ہوئے۔ لُو کے گرم تھپیڑوں اور دانت کٹکٹانے والی سردی میں بھی ہم اسی طرح ان کھیلوں میں محو رہتے۔

    بچپن کی یادوں کی کہکشاں سے ایک شرارت کا احوال بھی سن لیں۔

    ہمارے جگری دوستوں میں ایک یونس کپاڈیا تھے جن کو ہم پیار سے کباڑیا کہتے تھے کیوں کہ حلیہ سے وہ لگتے بھی ایسے ہی تھے۔ کباڑیا کا شمار محلّے کے شریر ترین لڑکوں میں ہوتا تھا۔ وہ ہر روز کسی نئی شرارت کا پروگرام لے کر آتے اور کبھی کبھی ہم بھی ان کے ساتھ شامل ہوجاتے۔ اکثر وہ تو اپنی چالاکی کی وجہ سے بچ کر نکل جاتے اور ہم پھنس جاتے۔

    ایک بار ہمارا دل پلاؤ کھانے کے لیے بہت مچل رہا تھا۔ دبی دبی زبان سے اماں سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے خوب صورتی سے ٹال دیا۔ ایک دن دوپہر کو گلی ڈنڈا کھیلنے کے بعد ہم اور کباڑیا نیم کے نیچے بیٹھے سستا رہے تھے۔ جب ہم نے ان سے پلاؤکھانے کی خواہش کا ذکر کیا۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں کچھ دیر ہونٹ سکوڑ کر سوچتے رہے پھر بولے۔

    ’’یار ایک ترکیب ہے۔ تم کہہ رہے تھے کہ جب تمہارے ماموں موتی میاں حسن پور سے آتے ہیں تو تمہاری اماں پلاؤ ضرور بناتی ہیں۔‘‘

    ’’ہاں وہ تو ہے لیکن فی الحال تو ماموں کے آنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔‘‘ ہم نے لقمہ دیا۔

    ’’یار سنو تو۔ تم تو گاؤں کے گاؤدی ہو۔ ایسا کرو کہ ماموں کی طرف سے اپنے گھر کے پتے پر ایک خط لکھو جس میں یہ اطلاع ہو کہ تمہارے ماموں فلاں فلاں تاریخ کو تمہارے گھر پہنچ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی آمد کی خبر سن کر تمہاری امی ان کی پسند کے کھانے پکائیں گی۔ ماموں نے تو آنا نہیں ہے۔ کچھ دیر انتظار کر کے گھر کے لوگ ہی وہ کھانا کھائیں گے۔‘‘

    ’’یار کباڑیا! بات تو پتے کی ہے لیکن اگر پول کھل گیا تو شامت آجائے گی۔‘‘ ہم نے خدشہ ظاہر کیا۔

    ’’اماں کچھ نہیں ہوگا۔ کچھ دن بعد یہ بات پرانی ہوجائے گی۔ تمہارے ماموں کون سے روز روز آتے ہیں لیکن دوست! ہمیں بھی اس موقع پر یاد رکھنا۔‘‘ کباڑیا مسکرائے۔

    قصہ مختصر کہ دو پیسے کا پوسٹ کارڈ خریدا گیا۔ کباڑیا کی بیٹھک میں کواڑ بند کر کے ہم نے کانپتی انگلیوں سے قلم پکڑا۔ کباڑیا نے ڈانٹتے ہوئے قلم لے لیا۔

    ’’یار تم بالکل عقل سے پیدل ہو۔ ایک تو تمہارا خط اتنا خراب ہے کہ تم خود نہیں پڑھ سکتے۔ اس کے علاوہ گھر میں ہر کوئی تمہاری تحریر پہچانتا ہے۔ فوراً دھر لیے جاؤ گے۔‘‘ یوں خط لکھنے کے فرائض کباڑیا نے انجام دیے۔

    خط ماموں کی طرف سے ہماری اماں کے نام تھا جس میں یہ اطلاع تھی کہ ماموں ہفتہ کی شام تشریف لارہے ہیں۔ جب ہم وہ خط چوکی چوراہے کے لیٹر بکس میں پوسٹ کرنے جارہے تھے تو ڈر کے مارے پیر کانپ رہے تھے اور ایسا لگتا ہے کہ پورا شہر ہمیں گھور گھور کر دیکھ رہا ہے۔ بہت انتظار کے بعد جمعرات کے دن وہ تاریخی خط پہنچ گیا۔

    ہم نے دیکھا کہ دوسری ڈاک کے ساتھ وہ پوسٹ کارڈ ہمارے والد صاحب کے سرہانے رکھا تھا۔ خط پڑھنے کے بعد ہمارے والد صاحب نے ہماری اماں سے کہا:’’ارے بھئی سنتی نہیں ہو (قبلہ والد صاحب ہماری والدہ کو ’’سنتی نہیں ہو‘‘ یا ’’کہاں گئیں‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے) ہفتہ کی شام کو موتی میاں آرہے ہیں۔‘‘

    امّاں بہت خوش ہوئیں۔ ابھی تک ہماری اسکیم کام یاب جارہی تھی۔ ہفتہ کے دن تیسرے پہر پلاؤ کی یخنی چولھے پر چڑھ گئی۔ شامی کباب کے لیے چنے کی دال اور قیمہ سل پر پسنا شروع ہوا۔ کھانے کی خوش بُو سے شام ہی سے پیٹ میں چوہے دوڑنا شروع ہوگئے۔

    شام چار بجے ایک ایسا بم گرا کہ ہمارے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ ہم سائیکل پر دہی لے کر آرہے تھے۔ دیکھا کہ ہمارے گھر کے سامنے ایک سائیکل رکشے سے ہمارے موتی ماموں اپنا مخصوص خاکی رنگ کا تھیلا لیے اتر رہے ہیں۔ ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے گلے سے لگایا۔ ہماری ایسی سٹی گم تھی کہ ہمیں ان کو سلام کرنے کا خیال بھی نہیں آیا۔ رہ رہ کر خیال آرہا تھا کہ ماموں کے خط کا ذکر ضرور آئے گا اور ہماری شرافت کا سارا پھول کھل جائے گا۔

    ماموں کے گھر میں آتے ہی ہم ان سے چپک گئے کہ جیسے ہی خط کا ذکر آئے ہم بچاؤ کی کچھ ترکیب کریں۔ دو تین گھنٹے خیریت سے گزر گئے۔ مغرب کی نماز کے بعد ہم سب لوگ آنگن میں بیٹھے تھے۔ ماموں محفل سجائے شکار کے فرضی قصے سنا رہے تھے۔ ہماری امّاں ادھر سے گزریں اور کہنے لگیں۔

    ’’ارے بھیا! تُو نے تو لکھا۔۔۔‘‘ اتنا سنتے ہی ہم پیٹ دبا کر ایسے کراہے کہ سب گھبرا کر ہماری طرف متوجہ ہوگئے۔ ہم پیٹ پکڑ کرپلنگ پر لیٹ گئے۔ اماں کام چھوڑ کر ہماری طرف لپکیں۔ ہمیں فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا اور ڈاکٹر صاحب نے وہی مخصوص کڑوا لال شربت دے کر چکنی غذا سے پرہیز کی تاکید کردی۔

    رات کو سب لوگ دسترخوان کے گرد بیٹھے پلاؤ اور شامی کباب کے مزے لے رہے تھے اور ہم چمچے سے دلیا کھاتے ہوئے حسرت سے سب کو دیکھ رہے تھے۔ گلی میں سے کباڑیا کی مخصوص سیٹی کی آواز آرہی تھی۔ شاید وہ بھی بھوک سے تلملا رہے تھے۔