Tag: بزگان دین

  • ہرار: ایتھوپیا کا قدیم شہر جس کی بنیاد ایک مسلمان بزرگ نے رکھی تھی

    ہرار: ایتھوپیا کا قدیم شہر جس کی بنیاد ایک مسلمان بزرگ نے رکھی تھی

    دنیا کے نقشے پر موجود ایتھوپیا کا نام افریقہ کی قدیم تاریخ میں بھی پڑھنے کو ملتا ہے اور جب یہاں اسلام کی روشنی پھیلی اور لوگوں نے دینِ حق کو قبول کیا تو نہ صرف اس سَر زمین سے کئی عالم فاضل شخصیات نے جنم لیا بلکہ آج بھی یہاں قدیم دور کی مساجد اور بزرگانِ دین کے مزارات موجود ہیں۔ ایتھوپیا کا علاقہ قدیم تہذیبوں اور ثقافتوں کا مرکز بھی رہا ہے۔

    اسی ایتھوپیا کا شہر ہرار (Harar) بھی مسلمانوں کے مقدّس مقامات اور اپنی زیارت گاہوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس شہر کی بنیاد دسویں سے تیرہویں صدی کے درمیان رکھی گئی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب یہاں عرب نقل مکانی کر کے آرہے تھے۔ آج بھی اس شہر کے قدیم ترین حصّے تک رسائی دینے کے لیے پانچ بڑے دروازے موجود ہیں۔ یہ شہر ایک صوبائی دارُالحکومت کا درجہ بھی رکھتا ہے۔ ہرار کی بڑی آبادی اُورومو نسل سے تعلق رکھتی ہے۔ اس شہر کو 2006ء میں عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا گیا تھا۔

    ہرار میں چھوٹی بڑی مساجد کی تعداد 82 ہے جب کہ ایک سو سے زائد مزارات بھی موجود ہیں جہاں بڑی تعداد میں‌ عقیدت مند حاضری دیتے ہیں۔ یوں تو ایتھوپیا کی ایک تہائی آبادی اسلام کی پیروکار ہے، لیکن اس شہر کی بات کی جائے تو یہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔

    شہر کی سب سے بڑی اور جامع مسجد کا اختصاص یہ ہے کہ اس میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی ادائیگیِ نماز کے لیے آتی ہیں۔ ہرار کی مسلمان عورتیں جامع مسجد کے صحن یا اس کی بیرونی حدود میں بھی نماز ادا کرتی نظر آتی ہیں۔

    آج ہرار جدید و قدیم آبادی پر مشتمل ہے اور جب سیّاح قدیم علاقے کی سیر کو جاتے ہیں‌ تو اندرونِ شہر انھیں دو چرچ بھی نظر آتے ہیں۔ ہرار کے باشندوں کو فخر ہے کہ انھوں نے یہاں آج بھی مذہبی ہم آہنگی قائم رکھی ہے۔ اس کی ایک وجہ صوفی ازم اور بزرگوں کی وہ تعلیمات ہیں جنھیں آج بھی یہاں کے لوگ مانتے ہیں۔ یہاں شیخ ابادر کا مزار سب سے بڑی زیارت گاہ ہے جن کا شمار اس شہر کے بانیوں میں بھی ہوتا ہے۔

    ہرار کی معیشت کپڑوں کی صنعت سے جڑی ہوئی ہے۔ یہاں کا مرکزی بازار لوگوں میں‌ ’مکینا گِر گِر‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ہرار سے 40 کلومیٹر دور اونٹوں کی مشہور مارکیٹ واقع ہے جہاں ہفتے میں دو مرتبہ گلہ بان تاجر آتے ہیں اور اونٹوں کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔ یہ جانور ایتھوپیا اور قریبی ممالک میں بھی سفر اور خوراک کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

  • مولانا روم کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مولانا روم کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    برصغیر پاک و ہند میں حضرت جلال الدین رومی کو صرف شاعر نہیں بلکہ عظیم صوفی اور بزرگ کی حیثیت سے نہایت عقیدت اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    دنیا انھیں تیرھویں صدی عیسوی کا ایک بڑا صوفی اور مفکر مانتی ہے اور جلال الدین رومی کو بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔

    مولانا رومی کی شہرۂ آفاق تصنیف ان کی ایک مثنوی ہے جسے نہایت دیگر کتب کے مقابلے میں نہایت معتبر اور قابلِ احترام سمجھا جاتا ہے اور برصغیر پاک و ہند کے علاوہ ترکی، ایران کے باشندے رومی کی اس تصنیف سے خاص لگاؤ اور گہری عقیدت رکھتے ہیں۔

    مولانا جلال الدین رومی کو صرف اس خطے میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں عظیم صوفی بزرگ مانا جاتا ہے اور ان مثنوی کو شاہ کار کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی رباعیات، حکایات اور دیگر کلام آج بھی نہایت ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔

    مولانا رومی مذہب اور فقہ کے بڑے عالم اور حضرت شمس تبریز کے ارادت مند تھے۔ مسلمان دانش ور، درگاہوں اور خانقاہوں سے وابستہ شخصیات ان کے افکار کو روحانیت اور دانائی کا راستہ سمجھتے اور اسے اپنانے کی تلقین کرتے ہیں۔

    مولانا کی مثنوی اور ان کی شاعری کا دنیا کی بیش تر زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ مختلف تاریخی کتب اور تذکروں کے مطابق ان کا اصل نام محمد ابن محمد ابن حسین حسینی خطیبی بکری بلخی تھا۔

    آپ کا لقب جلال الدین اور شہرت مولانا روم سے ہوئی۔ کہتے ہیں ان کا وطن بلخ تھا جہاں 1207 عیسوی میں آپ نے آنکھ کھولی۔ تعلیم اور تدریس کی غرض سے مختلف ملکوں کا سفر کیا اور 66 سال کی عمر میں 1273 عیسوی میں دنیا سے رخصت ہوئے اور ترکی میں دفن کیے گئے۔