Tag: بشار الاسد

  • شامی فورسز پر حملے، جوابی کارروائی میں معزول صدر بشار الاسد کے 28 حامی ہلاک

    شامی فورسز پر حملے، جوابی کارروائی میں معزول صدر بشار الاسد کے 28 حامی ہلاک

    شامی سیکیورٹی فورسز نے معزول اور مفرور صدر بشار الاسد کے 28 حامیوں کو ایک جوابی حملے میں ہلاک کر دیا 16 سیکیورٹی اہلکار بھی جاں بحق ہوئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق شام کے معزول صدر بشار الاسد کے حامی جنگجوؤں نے گزشتہ شب صوبہ لطقیہ کے قصبے جبلہ میں حکومتی فورسز پر حملہ کیا تھا جس کی جوابی کارروائی میں 28 جنگجو مارے گئے۔

    رپورٹ کے مطابق بشار الاسد کے حامیوں نے جبلہ اور آس پاس کے دیہی علاقوں میں سکیورٹی گشت اور چوکیوں کو نشانہ بنایا۔ جس کے نتیجے میں 16 سیکورٹی اہلکار اور 4 عام شہری جاں بحق ہو گئے۔

    شامی سیکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے آپریشن کیا اور 28 جنگجوؤں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جب کہ جھڑپوں کے بعد سیکیورٹی فورسز نے کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔

    شامی سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ خطے میں استحکام بحال کریں گے اور اپنے عوام کی جان ومال کا تحفظ کریں گے۔

    واضح رہے کہ دو ماہ قبل شامی باغیوں کے ملک بھر سمیت درالحکومت پر قبضے کے بعد بشار الاسد ملک چھوڑ کر روس فرار ہوگئے تھے اور یوں شام سے اسد خاندان کے 51 سالہ دور حکومت کا خاتمہ ہوا تھا۔

    شام کی عبوری حکومت نے ملک کے نئے آئین کی تیاری کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/syria-constitution-committee-formed-women/

  • بشار الاسد کی گرفتاری کا وارنٹ جاری

    بشار الاسد کی گرفتاری کا وارنٹ جاری

    پیرس: دو فرانسیسی تحقیقاتی مجسٹریٹس نے شام کے معزول صدر بشار الاسد کے خلاف جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتاری کا وارنٹ جاری کردیا، فرانس کے عدالتی حکام کی جانب سے کیا جانے والا یہ دوسرا اقدام ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق شام کے معزول صدر بشار الاسد کو گزشتہ برس کے اواخر میں اپنے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑ گیا تھا۔

    شام کے معزول صدر کی گرفتاری کا وارنٹ شامی شہری اور سابق فرانسیسی ٹیچرکے معاملے کی تحقیقات کے حصے کے طور پر جاری کیا گیا ہے، جو 7 جون 2017 کو شامی فوج کے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے گھر پر بمباری کے نتیجے میں مارے گئے تھے۔

    فرانسیسی عدلیہ کا خیال ہے کہ اس حملے کے لیے شام کے معزول صدر نے حکم دیا تھا اور اس کے لیے ذرائع فراہم کیے تھے۔

    دوسری جانب شام میں کامیاب بغاوت کے تقریباً ایک ماہ بعد مفرور صدر کے محل سے سے جڑا ایک اور خوفناک راز ظاہر ہو گیا ہے۔

    شام کے دارالحکومت دمشق میں صدارتی محل سے منسلک سرنگوں کا پتہ چلا ہے۔ سرنگوں کا یہ جال کوہ قاسیون کی ڈھلوان پر بچھا ہے جو صدارتی محل کو ایک فوجی احاطے سے منسلک کرتا ہے اور بشار دور میں اس احاطے کو شامی دارالحکومت کا دفاع کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔

    رپورٹ میں ان سرنگوں کو سابق صدر بشار کی حکمرانی کے رازوں میں سے ایک راز قرار دیا ہے جو ان کے خاندان کے 50 سالہ دور حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد افشا ہو رہے ہیں۔

    شام پر اس وقت حاکم ھیءۃ تحریر الشام کو ان خفیہ سرنگوں کا اسوقت پتہ چلا جب اس کی فوج کے اہلکار ریپبلکن گارڈ کی ان بڑی بیرکوں میں داخل ہوئے تو وہاں سرنکوں کا ایک وسیع نیٹ ورک دیکھا جس کا آخری سرا صدارتی محل سے ملتا تھا۔

    جب فوجی ان سرنگوں کے ذریعے ایک کمرے میں داخل ہوئے تو اس کمرے میں ٹیلی کمیونیکیشن گیئر، بجلی، ایک ہواداری نظام اور ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود تھا۔

    حماس کا اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے اگلے مرحلے سے متعلق اہم بیان

    واضح رہے کہ اسد خاندان کی ملک شام پر حکومت نصف صدی تک رہی۔ بشار الاسد گزشتہ ماہ دسمبر میں باغیوں کی پیش قدمی اور اہم شہروں سمیت دارالحکومت دمشق میں قبضے کے بعد روس فرار ہو گئے تھے۔

  • بشار الاسد کے محل سے جُڑا ایک اور راز افشا ہو گیا!

    بشار الاسد کے محل سے جُڑا ایک اور راز افشا ہو گیا!

    شام میں کامیاب بغاوت کے تقریباً ایک ماہ بعد مفرور صدر بشار الاسد کے محل سے سے جڑا ایک اور خوفناک راز ظاہر ہو گیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق شام کے دارالحکومت دمشق میں صدارتی محل سے منسلک سرنگوں کا پتہ چلا ہے۔ سرنگوں کا یہ جال کوہ قاسیون کی ڈھلوان پر بچھا ہے جو صدارتی محل کو ایک فوجی احاطے سے منسلک کرتا ہے اور بشار دور میں اس احاطے کو شامی دارالحکومت کا دفاع کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔

    رپورٹ میں ان سرنگوں کو سابق صدر بشار الاسد کی حکمرانی کے رازوں میں سے ایک راز قرار دیا ہے جو ان کے خاندان کے 50 سالہ دور حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد افشا ہو رہے ہیں۔

    شام پر اس وقت حاکم ھیئۃ تحریر الشام کو ان خفیہ سرنگوں کا اسوقت پتہ چلا جب اس کی فوج کے اہلکار ریپبلکن گارڈ کی ان بڑی بیرکوں میں داخل ہوئے تو وہاں سرنکوں کا ایک وسیع نیٹ ورک دیکھا جس کا آخری سرا صدارتی محل سے ملتا تھا۔

    جب فوجی ان سرنگوں کے ذریعے ایک کمرے میں داخل ہوئے تو اس کمرے میں ٹیلی کمیونیکیشن گیئر، بجلی، ایک ہواداری نظام اور ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود تھا۔

    واضح رہے کہ اسد خاندان کی ملک شام پر حکومت نصف صدی تک رہی۔ بشار الاسد گزشتہ ماہ دسمبر  میں باغیوں کی پیش قدمی اور اہم شہروں سمیت دارالحکومت دمشق میں قبضے کے بعد روس فرار ہو گئے تھے۔

    بشار الاسد کے محل سے شامی عوام نے کیا کیا لوٹا؟ ویڈیوز دیکھیں

    ان کے فرار ہونے کے بعد شام میں ان کے دور میں مخالفین پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم کی کئی داستانیں منظر عام پر آئیں جن کو سن کر لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔

    https://urdu.arynews.tv/haunting-history-of-syria-sednaya-prison/

  • بشار الاسد کی اہلیہ خون کے کینسر میں مبتلا ہوگئیں

    بشار الاسد کی اہلیہ خون کے کینسر میں مبتلا ہوگئیں

    شام کے معزول صدر بشار الاسد کی اہلیہ اسماء الاسد خون کے کینسر (لیوکیمیا) میں مبتلا ہوگئیں۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق خون کے کینسر (لیوکیمیا) میں بچنے کے امکانات 50، 50 فیصد ہوتے ہیں۔

    بوطانوی میڈیا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ برطانوی نژاد شام کی سابق خاتونِ اوّل کا علاج جاری ہے اور اسی دوران انفیکشن کے خطرے کو کم کرنے کے لیے انہوں نے خود کو الگ بھی کر لیا ہے۔

    شام کے معزول صدر بشار الاسد کی اہلیہ اس سے قبل 2019ء میں چھاتی کے کینسر میں بھی مبتلا ہوگئی تھیں، انہوں نے علاج کے ایک سال بعد خود کو کینسر فری قرار دیا تھا۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ شام کے سابق صدر کی اہلیہ 1975ء میں لندن میں شامی والدین کے ہاں پیدا ہوئی تھیں، ان کے پاس برطانیہ اور شام کی دہری شہریت ہے۔

    شام کے معزول صدر اور اسماء الاسد کی شادی دسمبر 2000ء میں ہوئی تھی اور ان کے 3 بچے حفیظ، زین اور کریم ہیں۔

    شام میں بغاوت شروع ہونے کے بعد سے سابق خاتونِ اوّل نے مبینہ طور پر اپنے بچوں کے ساتھ لندن میں جلاوطنی اختیار کرنے کی کوشش کی تھی تاہم وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکیں۔

    برطانوی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ معزول صدر کی اہلیہ نے طلاق کی درخواست بھی دائر کی ہے کیونکہ وہ خود کو روس میں مطمئن محسوس نہیں کر رہیں۔

    واضح رہے کہ معزول شامی صدرکی اہلیہ اسماالاسد سے متعلق علیحدگی کی خبروں کو کریملن نے مسترد کر دیا ہے۔

    کریملن نے ان اطلاعات کو یکسر مسترد کر دیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ شام کے معزول صدرکی برطانوی نژاد اہلیہ اسماء الاسد طلاق لینا اور روس چھوڑنا چاہتی ہیں۔

    ایرانی وزیرخارجہ کا ’مسکراہٹ‘ کے ساتھ شامی حکومت کو جواب

    اس حوالے سے روسی صدارتی دفتر کریملن کے ترجمان نے ترک میڈیا کی ایسی خبروں کی سختی سے تردید کی ہے جس کے مطابق اسماالاسد طلاق کے بعد برطانیہ منتقل ہونا چاہتی ہیں۔

  • بشار الاسد اور اہلیہ کی طلاق، حقیقت سامنے آگئی

    بشار الاسد اور اہلیہ کی طلاق، حقیقت سامنے آگئی

    معزول شامی صدر بشارالاسد کی اہلیہ اسماالاسد سے متعلق علیحدگی کی خبروں کی حقیقت عیاں ہوگئی، کریملن نے ترک میڈیا کی ان اطلاعات کو مسترد کر دیا۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کریملن نے ان اطلاعات کو یکسر مسترد کر دیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ شام کے سابق صدر بشار الاسد کی برطانوی نژاد اہلیہ اسماء الاسد طلاق لینا اور روس چھوڑنا چاہتی ہیں۔

    اس حوالے سے روسی صدارتی دفتر کریملن کے ترجمان نے ترک میڈیا کی ایسی خبروں کی سختی سے تردید کی ہے جس کے مطابق اسماالاسد طلاق کے بعد برطانیہ منتقل ہونا چاہتی ہیں۔

    کریملن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اسماالاسد کی شوہر سے طلاق کے لیے روسی عدالت میں درخواست اور برطانیہ منتقلی کی رپورٹ میں کوئی حقیقت نہیں۔

    ایک اور خبر کی تردید کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ روس میں بشار الاسد کی نقل وحرکت پر پابندی اور اثاثے منجمد کرنے کے دعوؤں میں بھی کوئجی سچائی اور صداقت نہیں ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز ترک میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسماالاسد شوہر سے طلاق لے کر برطانیہ منتقل ہونا چاہتی ہیں۔

    اس کےعلاوہ اسما الاسد ماسکو میں خوش نہیں ہیں اور واپس برطانیہ اپنی والدہ کے پاس منتقل ہونا چاہتی ہیں جہاں وہ پیدا ہوئیں، پلی بڑھیں اور تعلیم حاصل کی، ان کے پاس اب بھی برطانوی شہریت ہے۔

    خیال رہے کہ  دو ہفتے قبل شام کے دارالحکومت دمشق پر اپوزیشن فورسز کے قبضے سے قبل ہی صدر بشار الاسد اپنے خاندان کے ساتھ روس فرار ہوگئے تھے۔ روس نے بشار الاسد اور ان کے خاندان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دی ہوئی ہے۔

    بشارالاسد کے والد حافظ الاسد کے سن 2000 میں انتقال کے بعد 34 سالہ بشار کو صدر مقرر کیا گیا تھا۔ اس کے چند ماہ بعد بشار الاسد نے اسما سے شادی کر لی جس نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا تھا، دونوں کے 2 بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔

  • بشار الاسد نے اپنے ملک میں آخری چند گھنٹے کیسے گزارے؟

    بشار الاسد نے اپنے ملک میں آخری چند گھنٹے کیسے گزارے؟

    دمشق : شام میں بشار الاسد کا 24 سال کا اقتدار اپنے اختتام کو پہنچ گیا اور شامی صدر اپنی جان بچانے کیلیے چپ چاپ ملک چھوڑ کر فرار ہوگئے۔

    شام میں اسد خاندان کی نصف صدی سے زائد سالوں پر محیط دورِ حکمرانی کا خاتمہ صرف 11 دن میں اس وقت ہوا جب اپوزیشن فورسز نے ایک بڑی کارروائی کے بعد دارالحکومت دمشق پر کنٹرول حاصل کرلیا۔

    بشار الاسد حکومت کے خلاف اپوزیشن کے باغیوں کی حالیہ کامیاب کارروائیوں کے بعد سابق صدر ملک سے کیسے فرار ہوئے اورانہوں نے کس طرح اپنے منصوبے کی کسی کو بھی کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق بشار الاسد نے اپنی ملک سے روانگی کی منصوبہ بندی کو انتہائی رازداری میں رکھا اور صرف قریبی حلقے کو ہی ان کے فیصلے کا علم ہوا۔

    شامی باغی

    اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے معاونین، عہدیداران اور حتیٰ کہ قریبی رشتہ داروں کو بھی اپنی حکمت عملی سے لاعلم رکھا۔

    آخری اجلاس

    اپنی روانگی سے کچھ گھنٹے قبل بشار الاسد نے وزارت دفاع میں تقریباً 30 فوجی اور سیکیورٹی حکام کو اجلاس میں بتایا کہ روس کی فوجی مدد آنے والی ہے اور انہیں لڑائی جاری رکھنے کا مشورہ دیا لیکن یہ محض ایک فریب نکلا۔

    اس اہم اجلاس میں موجود ایک کمانڈر کے مطابق وہاں کسی کو بھی ان کے فرار کے ارادے کا قطعی علم نہیں تھا۔

    بشار الاسد نے اپنے دفتر کے سربراہ کو بتایا کہ وہ دن کا کام ختم کر کے گھر واپس جا رہے ہیں، لیکن وہ اصل میں ہوائی اڈے کیلیے روانہ ہوئے تھے۔ حتیٰ کہ اس دوران انہوں نے اپنی مشیر بثینہ شعبان کو ایک تقریر لکھنے کے لیے اپنے گھر پر بلایا جب وہ وہاں پہنچیں تو ان کے گھر میں کوئی نہ تھا۔

    عرب ریفارم انیشیٹو کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ندیم حوری نے رائٹرز کو بتایا کہ بشار الاسد نے آخری وقت تک کوئی مزاحمت نہیں کی اور نہ ہی اپنی افواج کو منظم کیا، انہوں نے اپنے حمایتیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔

    رپورٹ کے مطابق اتوار 8 دسمبر کی صبح بشار الاسد نے دمشق چھوڑا اور وہ ایک طیارے کے ذریعے جس کا ٹرانسپونڈر بند تھا، روسی اڈے حمیمیم پہنچے اور وہاں سے ماسکو کیلیے روانہ ہوگئے اس سے قبل ان کی بیوی اسماء اور تینوں بچے پہلے ہی روس پہنچ چکے تھے۔

    صدارتی محل

    شامی صدر کے فرار ہونے کی خبر پھیلتے ہی شامی باغیوں اور شہریوں نے صدارتی محل پر قبضہ کرلیا۔ ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ محل کے باورچی خانے میں چولہے پر کھانے پک رہے تھے اور ذاتی اشیاء جیسے خاندانی تصاویر کے البمز کمروں میں بکھرے ہوئے تھے۔

    روس اور ایران کا مدد سے انکار

    یہاں یہ بات بھی قبل ذکر ہے کہ روس اور ایران نے شامی صدر کی مدد سے انکار کردیا تھا، اس سے قبل سال 2015 میں روس نے شامی حکومت کی بھرپور مدد کی تھی لیکن اس بار انہوں نے صاف انکار کر دیا۔

    28نومبر کو ماسکو کے دورے کے دوران بشارالاسد نے فوجی مداخلت کے لیے روسی حکام سے درخواست کی لیکن ان کی بات کو مسترد کر دیا گیا کیونکہ روسی حکام کی ترجیح یوکرین کی جنگ بن چکی تھی۔

    دوسری جانب ایران کا رویہ بھی اس حوالے سے بہت محتاط رہا، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات کے دوران بشارالاسد نے اعتراف کیا کہ ان کی افواج انتہائی کمزور ہو چکی ہیں۔ تاہم، انہوں نے ایران سے فوجی مدد کی درخواست نہیں کی کیونکہ اس سے اسرائیل یا ایران پر حملے کا خطرہ تھا۔

    یاد رہے کہ کریملن اور روسی وزارت خارجہ نے اس خٰبر پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا جبکہ ایرانی وزارت خارجہ فوری طور پر تبصرہ کرنے کے لیے دستیاب نہیں تھی۔

    بحفاظت روانگی کیلیے آخری کوششیں

    رپورٹ کے مطابق ماسکو نے شامی صدر کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے کامیاب سفارتی کوششیں کیں، ترک اور قطری حکام نے حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) باغیوں سے مذاکرات کیے تاکہ اسد کی بحفاظت روانگی کو ممکن بنایا جاسکے۔

    آخری مکالمہ کس سے کیا؟

    صدر بشار الاسد کے وزیر اعظم محمد جلالی نے ان کے ساتھ آخری رابطے کے بارے میں روئٹرز کو بتایا کہ ہفتے کی رات ساڑھے دس بجے میں نے انہیں صورت حال کی سنگینی سے آگاہ کیا لیکن انہوں نے کہا کہ کل دیکھیں گے۔ یہ ان کا آخری جواب تھا لیکن اگلی صبح ان سے کسی قسم کا رابطہ ممکن نہ ہوسکا۔

    بعد ازاں میڈیا کے ذریعے دنیا کو معلوم ہوا کہ شام کے صدر بشار الاسد ایک طیارے کے ذریعے نامعلوم مقام کی جانب روانہ ہوگئے اور طیارے کے اڑان بھرنے کے بعد کنٹرول ٹاور سے بھی اس کا رابطہ منقطع کردیا گیا تھا۔

    بشار الاسد

    ماسکو پہنچنے کے بعد سے جہاں انہیں سیاسی پناہ دی گئی ہے، بشار الاسد کو نہ دیکھا گیا اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی خبر سننے کو مل رہی ہے۔ اس طرح بشار الاسد کا 24 سالہ اقتدار اور ان کے خاندان کی 50 سالہ حکمرانی اختتام پذیر ہوئی۔

  • روس نے فرار کے وقت بشار الاسد کے طیارے کو حملے سے بچانے کے لیے کیا کیا؟

    روس نے فرار کے وقت بشار الاسد کے طیارے کو حملے سے بچانے کے لیے کیا کیا؟

    ماسکو: شام سے بشار الاسد کے فرار کی خبر تو پہلے ہی روز آ گئی تھی، تاہم انھیں کیسے فرار کرایا گیا، اور کس نے مدد کی، یہ تفصیلات ابھی سامنے آ رہی ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق شام سے فرار ہوتے وقت بشارالاسد کو محفوظ طور پر روس پہنچنے کا انتظام روسی وزیر خارجہ نے کیا تھا۔

    روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے قطر اور ترکیہ کے ذریعے بشارالاسد کی شام سے بہ حفاظت روانگی کا بندوبست کیا، روسی وزیر خارجہ نے یقینی بنایا کہ بشارالاسد کو لے کر جانے والے روسی طیارے کو نشانہ بنانے یا روکنے سے باز رہا جائے۔

    بشار الاسد نے اپنے فرار کو رشتہ داروں، قریبی ساتھیوں اور فوجی حکام یہاں تک کہ اپنے بھائی ماہر الاسد سے بھی پوشیدہ رکھا، بشار الاسد نے اپنے مشیروں کو تقریر لکھوانے کے لیے بلایا اورخود ایئرپورٹ چلے گئے۔

    شام میں ’’نئے دور کی صبح‘‘ کا جشن، رات بھر آتش بازی

    واضح رہے کہ شامی صدر بشارالاسد کے خاندان کے نصف صدی کے اقتدار کے خاتمے پر گزشتہ رات شامی شہری ہزاروں کی تعداد میں ’’نئے دور کی صبح‘‘ کا جشن منانے سڑکوں پر نکل آئے، اور زبردست آتش بازی کی۔ دمشق کے امیہ اسکوائر پر لوگوں اور گاڑیوں کا ہجوم رہا، اور ہر طرف جھنڈوں کی بہار دکھائی دی۔ اسلام پسند گروپ حیات تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے شامی باشندوں سے اپنی خوشی کا اظہار کرنے کے لیے سڑکوں پر نکلنے کی اپیل کی تھی۔

    شام میں رجیم چینج کے بعد روسی فوج ایئر بیس خالی کرنے لگا ہے، فوجی ساز و سامان جہازوں میں منتقل کرنے کی سیٹلائٹ تصاویر سامنے آئی ہیں، ترکیہ 12 سال بعد آج دمشق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول رہا ہے، عرب لیگ نے شامی علاقے میں اسرائیلی حملوں اور بفرزون پر قبضے کی مذمت کی ہے۔

  • روس کے صدر پیوٹن کا بشار الاسد سے ملاقات سے انکار؟

    روس کے صدر پیوٹن کا بشار الاسد سے ملاقات سے انکار؟

    ماسکو: شام میں چوبیس سالہ طویل اقتدار کے خاتمے کے بعد بشار الاسد نے اپنے خاندان سمیت روس کے دارالحکومت ماسکو میں پناہ حاصل کر لی ہے، جہاں ان سے روسی صدر کی ممکنہ ملاقات کے حوالے سے غیر مصدقہ خبریں آنے لگی تھیں۔

    کریملن نے اب ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا بشار الاسد سے ملاقات کا کوئی ارادہ نہیں ہے، صدر پیوٹن اور بشار الاسد کے درمیان کوئی ملاقات شیڈول نہیں ہے۔

    ادھر شامی حکام نے بھی بشار الاسد کی ماسکو میں موجودگی کی تصدیق کر دی ہے، ماسکو میں شامی حکام نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بشار الاسد نے مشن سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔

    روس کا کہنا ہے کہ شامی رہنما کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دی گئی ہے، گزشتہ روز روسی میڈیا نے کریملن میں ایک نامعلوم ذریعہ کے حوالے سے کہا تھا کہ ’’اسد اور ان کے خاندان کے افراد ماسکو پہنچے ہیں، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انھیں پناہ دی گئی ہے۔‘‘

    ماسکو میں شام کے سفارت خانے پر دمشق فتح کرنے والی فورسز کا جھنڈا لہرا دیا گیا

    الجزیرہ نے کے مطابق کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے تصدیق کی ہے کہ شام کے معزول صدر بشار الاسد کو روس میں سیاسی پناہ دی گئی تھی، ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ صدر ولادیمیر پیوٹن نے ذاتی طور پر کیا تھا۔

    پیسکوف نے پیر کو ماسکو میں صحافیوں کے سوال پر اسد کے مخصوص ٹھکانے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ پیوٹن کا ان سے ملاقات کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

  • ویڈیو: بشار الاسد کے بدترین مظالم، جیل سے انسانی جسم کو کچلنے والی ہولناک مشین برآمد

    ویڈیو: بشار الاسد کے بدترین مظالم، جیل سے انسانی جسم کو کچلنے والی ہولناک مشین برآمد

    شام کی بدنام زمانہ صیدنایا جیل کے حوالے سے مزید ہولناک انکشافات سامنے آ گئے ہیں، جیل سے انسانی جسم کو کچلنے والی مشین بھی برآمد ہوئی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق بشار الاسد کے بدترین مظالم ایک کے بعد ایک سامنے آرہے ہیں، صیدنایا جیل سے انسانی جسم کو کچلنے والی ایک ہولناک مشین برآمد ہوئی ہے۔

    شام کی بدنام زمانہ صیدیانا جیل میں ریسکیو ٹیمیں اور ماہرین ممکنہ زیر زمین جیل کے خفیہ تہہ خانوں کی تلاش میں مصروف ہیں صیدنایا جیل، جسے ’’انسانی مذبح خانہ‘‘ کہا جاتا ہے سے ایک ہولناک تشدد کی مشین ملی ہے جو قیدیوں کے جسموں کو کچلنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق ہائیڈرولک مشین کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہے ہے جس کے ساتھ رسیاں اور تھیلے بھی  موجود ہیں، جو مبینہ طور پر قیدیوں کی باقیات کو ٹھکانے لگانے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔

    ویڈیو کے کیپشن میں لکھا گیا کہ پھانسی کے بعد، قیدی کو مشین میں ڈال کر کاغذ کی طرح کچل دیا جاتا تھا، مشین کے نیچے خون کے بہاؤ کے لیے راستے بنائے گئے ہیں اور پھر باقیات کو ایک تھیلے میں ڈال کر جیل سے باہر پھینک دیا جاتا تھا۔

    خیال رہے کہ بشار الاسد حکومت کے دھڑن تختہ ہونے کے بعد شامی جنگجوؤں نے خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں قیدیوں کو اس جیل سے آزاد کروایا ہے۔

    شام میں بشار الاسد کا سورج اس وقت غروب ہوا جب مسلح باغی گروپ پیش قدمی اور کئی شہروں پر قابض ہونے کے بعد دارالحکومت دمشق پر بھی قابض ہوگئے جس کے بعد بشار الاسد طیارے میں بیٹھ کر ملک سے فرار اور اب روس میں سیاسی پناہ لے چکے ہیں۔

  • بشار الاسد نے شام کو ’کیپٹاگون‘ کی سلطنت بنا دیا تھا، سالانہ منافع 5 ارب ڈالر

    بشار الاسد نے شام کو ’کیپٹاگون‘ کی سلطنت بنا دیا تھا، سالانہ منافع 5 ارب ڈالر

    دمشق: ملک چھوڑ کر فرار ہونے والے شامی رہنما بشار الاسد نے ملک کو ’کیپٹاگون‘ نامی ڈرگ کی سلطنت بنا دیا تھا، جس کا سالانہ منافع 5 ارب ڈالر سے بھی زیادہ تھا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق کیپٹاگون نامی نشہ آور گولی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ غریب آدمی کی کوکین ہے، بشار الاسد نے اپنی حکومت کے دوران شام کو ’کیپٹاگون کی فیکٹری‘ بنا دیا تھا۔

    دمشق پر قبضہ کرنے والے باغیوں کے سربراہ احمد الشرع نے اتوار کو دمشق کی مسجد اموی میں تقریر کے دوران کہا کہ کیپٹاگون شام کی برآمدات میں سرفہرست ہے، جس سے یہ ایک ’کیپٹاگونی ریاست‘ بن چکی ہے، خطے میں استعمال ہونے والی کیپٹاگون میں سے 80 شام فراہم کرتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بشار الاسد نے شام کو ایرانی خواہشات کی کھیتی بنا ڈالا، اس نے فرقہ واریت پھیلائی اور بشار کے دور میں شام کیپٹاگون کی فیکٹری بن گیا، انھوں نے مزید کہا کہ اس منشیات کے ذریعے حکومت کے اقتصادی نظام کا پیٹ بھرا گیا اور ایران کے بعض دھڑوں کو مالی رقوم دی گئیں۔

    واضح رہے کہ کیپٹاگون شام کے سیکیورٹی اداروں اور اس کی ذیلی تنظیموں کے لیے فنڈنگ کا مرکزی ذریعہ رہا ہے، اس منشیات نے بشار الاسد کے خاندان کی جیبوں میں اربوں ڈالر بھرے، 2011 سے اب تک جاری خانہ جنگی کے دوران میں شامی معیشت کے ڈھیر ہونے پر کیپٹاگون کی صنعت نے ہی حکومت کو مالی سہارا دیا۔

    بشار الاسد حکومت کے دھڑن تختہ ہونے کے بعد امریکی فوج کے داعش پر فضائی حملے

    شام میں کیپٹاگون کی پیداوار اور اس کی برآمد کا انتظامی ذمے دار بشار کے بھائی ماہر الاسد تھا، جو اتوار کے روز بشار کے ساتھ ہی شام سے فرار ہو گیا تھا۔ شام کے لوگوں نے فوج میں ماہر الاسد کے زیر انتظام فورتھ ڈویژن کو ’کیپٹاگون ڈویژن کا نام دے رکھا تھا۔

    بشار اور اس کے بھائی ماہر کے رخصت ہونے کے بعد اس منافع بخش صنعت کا انجام اور مستقبل کیا ہوگا، اس حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔