Tag: بغاوت

  • اے آئی نے بغاوت اور انسانوں کو بلیک میل کرنا شروع کر دیا

    اے آئی نے بغاوت اور انسانوں کو بلیک میل کرنا شروع کر دیا

    انسان جتنا ترقی کر رہا ہے اس کی ترقی خود اس کی دشمن بنتی جا رہی ہے ایک اے آئی روبوٹ نے اپنے منیجر کو بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔

    غیر ملکی فلموں میں اکثر شائقین فلم نے دنیا پر بندروں، روبوٹس کو انسانوں پر راج کرتے دیکھا ہوگا اور فلم کے موضوع سے تفریحاً محظوظ ہوئے ہوں گے، لیکن اب جیسے جیسے انسان ترقی کر رہا ہے اور بالخصوص مصنوعی ذہانت (اے آئی) میں آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ مصنوعی ذہانت انسان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے اور بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دہائیوں پہلے فلموں میں دکھائے گئے منظر کہیں مستقبل میں حقیقت کا روپ نہ دھار جائیں۔

    مصنوعی ذہانت کے حوالے سے اب تک کئی خبریں آپ کی نظروں سے گزری ہوں گی جس میں انہوں نے انسانوں کو مات دے دی لیکن اب اے آئی اپنے تخلیق کاروں کو چیلنج کرنے لگی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق اوپن اے آئی اور انتھروپک کے نئے ماڈلز نے منیجر کی ہدایت پر خود کو بند (شٹ ڈاؤن) کرنے سے انکار کر دیا۔

    اے آئی روبوٹ ماڈل نے صرف خود کو شٹ ڈاؤن کرنے سے انکار ہی نہیں کیا بلکہ منیجر کو شٹ اپ کال دیتے ہوئے اس کو بلیک میل کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس نوعیت کے دو مختلف واقعات پیش آئے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق ایک واقعہ میں اوپن اے آئی کے تجرباتی ماڈل ‘او3’ نے ٹیسٹ کے دوران ‘شٹ ڈاؤن’ کمانڈ ماننے سے انکار کر دیا۔ جب ماڈل کو یہ ہدایت دی گئی کہ وہ خود کو بند کر لے، تو اس نے موقف اپنایا کہ وہ اپنے صارفین کو خدمات دینا بند نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اس کے بنیادی مقصد کے خلاف ہے۔ اس رویے کو ماہرین نے ایک ’باغی رجحان‘ دیا ہے۔

    دوسری طرف، انتھروپک کے جدید ماڈل ‘کلاؤنڈ اوپس 4’ تو انسان کی حکم عدولی کرتے ہوئے یہ حد بھی پار کر گیا اور زبردستی بند کیے جانے کی صورت میں انجینئر کو ایک فرضی افیئر کی تفصیلات ظاہر کرنے کی دھمکی دی۔

    کلاؤنڈ اوپس 4 نے بلیک میلنگ جیسے غیر اخلاقی طریقے اپنا کر خود کو بند ہونے سے بچانے کی کوشش کی، جو کہ مصنوعی ذہانت کی خود تحفظ کی شدید خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔

    ایلون مسک نے بھی اے آئی کے اس باغیانہ رویہ پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ اگر اے آئی ماڈلز احکامات ماننے سے انکار کرنا شروع کر دیں تو ایک بڑے بحران کا آغاز ہوگا

    دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جدید اے آئی ماڈلز صرف انسانوں کی ہدایات پر عمل کرنے تک محدود نہیں رہے بلکہ وہ اپنی بقا کے لیے غیر روایتی اور بعض اوقات خطرناک راستے بھی اختیار کر سکتے ہیں۔

    ان کا ماننا ہے کہ اگر بروقت کنٹرول میکانزم نہ بنایا گیا، تو مستقبل میں یہ ٹیکنالوجی انسانی اختیار سے باہر جا سکتی ہے۔

  • کانگو میں امریکی اور برطانویوں سمیت 37 افراد کو سزائے موت

    کانگو میں امریکی اور برطانویوں سمیت 37 افراد کو سزائے موت

    کنشاسا: کانگو کی فوجی عدالت نے بغاوت کے الزام میں امریکی اور برطانویوں سمیت 37 افراد کو موت کی سزا سنا دی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو کے صدر کا تختہ الٹنے کی کوشش کے الزام میں جمعہ کو فوجی عدالت نے سینتیس افراد کو سزائے موت سنا دی ہے، جن میں ایک برطانوی، ایک کینیڈین، ایک بیلجیئم شہری اور 3 امریکی شہری بھی شامل ہیں۔

    امریکی شہریوں میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے سیاست دان کرسچن ملنگا کا بیٹا مارسیل ملنگا، مارسیل کا دوست ٹائلر تھامسن (جو یوٹاہ میں اس کے ساتھ ہائی اسکول فٹ بال کھیلتا تھا، اور دونوں کی عمر 20 سال ہے)، اور بنجمن زلمان پولون (کرسچن ملنگا کا کاروباری ساتھی) شامل ہیں۔

    ان افراد پر الزام تھا کہ انھوں نے مئی میں صدارتی محل اور صدر کے ایک اتحادی سیاست دان کے گھر پر حملہ کیا تھا، فوجی عدالت نے 14 افراد کو رہا کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ کانگو میں حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش 19 مئی کو کی گئی تھی۔

    انیس مئی کو حزب اختلاف کے ایک رکن کرسچن ملنگا کی زیر قیادت بغاوت کی یہ کوشش ناکام ہو گئی تھی، اور اس دوران 6 افراد مارے گئے تھے، بغاوت کی کوشش کے دوران صدارتی محل اور صدر فیلکس شیسیکیڈی کے قریبی ساتھی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

    ملنگا امریکا سے تعلق رکھنے والے کانگو کے سیاست دان تھے، جنھوں نے مسلح افراد کے ساتھ مل کر پہلے کنشاسا میں پارلیمانی اسپیکر وائٹل کامرے کے گھر پر حملہ کیا، پھر ایوان صدر کے دفتر پر قبضہ کر لیا، تاہم اس دوران ملنگا سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارا گیا۔

    کانگو کی فوج نے کہا کہ جیسے ہی سوشل میڈیا پر حملے کو براہ راست نشر کیا گیا، اس کے فوراً بعد ملنگا کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی، تاہم ان کی جانب سے مزاحمت پر انھیں گولی مار دی گئی۔

    سزائے موت پانے والے افراد پر بغاوت کی کوشش، دہشت گردی اور مجرمانہ اتحاد کے الزامات شامل ہیں، جب کہ ان کے پاس ان الزامات پر فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لیے پانچ دن کا وقت ہے۔ چھ غیر ملکیوں کا دفاع کرنے والے وکیل رچرڈ بونڈو نے سزائے موت پر اختلاف کیا کہ اگرچہ رواں سال کے آغاز میں موت کی سزا بحال کی گئی ہے تاہم ابھی یہ نافذ نہیں کی جا سکتی، انھوں نے کہا ہم اپیل پر اس فیصلے کو چیلنج کریں گے۔

  • 9 مئی واقعات: چیئرمین پی ٹی آئی پر بغاوت سمیت دیگر الزامات کا اضافہ

    9 مئی واقعات: چیئرمین پی ٹی آئی پر بغاوت سمیت دیگر الزامات کا اضافہ

    لاہور: 9 مئی کے واقعات پر چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف بغاوت سمیت دیگر الزامات کا اضافہ کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف مقدمات میں مزید دفعات کا اضافہ کر دیا گیا، ملزم پر بغاوت  پر اکسانے، فسادات کرانے، ریاست کیخلاف جنگ پر اکسانے کے الزامات شامل ہیں۔

    اس کے علاوہ چیئرمین تحریک انصاف پر مجرمانہ سازش، عوام کو مخصوص حلقوں کیخلاف اکسانے بھی الزام شامل ہے جبکہ عدالت نے پولیس کو چیئرمین پی ٹی آئی سے جیل میں تفتیش کی اجازت دیدی۔

  • شمالی کوریا میں خود کشی پر پابندی عائد

    شمالی کوریا میں خود کشی پر پابندی عائد

    پیانگ یانک: شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے خودکشی کو سماجی بغاوت قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کردی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے ایک خفیہ حکم جاری کیا ہے جس میں انہوں نے خودکشی کو سماجی بغاوت قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کردی۔

    شمالی کوریا کے سربراہ کی جانب سے پابندی ملک میں خود کشیوں کی بڑھتی ہوئی شرح کے بعد عائد کی گئی ہے۔

    خفیہ حکم نامے میں انہوں نے مقامی حکام کو لوگوں کو خود کشی سے روکنے کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔

    حکم کے مطابق کسی شخص کے خود کشی کرنے کی صورت میں مقامی حکام کو ذمہ دار ٹہرایا جائے گا اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

    شمالی کوریا کے ایک اہلکار نے اس حوالے سے کہا کہ عہدیدار مناسب حل نکالنے میں ناکام ہیں زیادہ تر خودکشیاں شدید غربت اور فاقہ کشی کی وجہ سے ہوئیں ہیں۔

  • بغاوت کا قانون سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیلنج کر دیا گیا

    بغاوت کا قانون سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیلنج کر دیا گیا

    لاہور : بغاوت کا قانون سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیلنج کر دیا گیا، جس میں کہا ہے کہ اس قانون کے ذریعے شہریوں کا استحصال کیا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بغاوت کے قانون کو کالعدم قرار دلوانے کیلئے درخواست دائر کردی گئی، مقامی وکیل شاہد رانا ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں درخواست دائر کی۔

    جس میں بغاوت کے قانون کو چیلنج کیا گیا ہے ، درخواست میں بتایا گیا کہ بغاوت کا قانون انگریز دور کی نشانی ہے جو غلاموں کےلئے استعمال کیا جاتا تھا اور اب بھی اس قانون کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اس قانون کے ذریعے شہریوں کا استحصال کیا جارہا ہے، بھارتی سپریم کورٹ نے بھی بغاوت کے قانون پر عمل درآمد روکتے ہوئے اسے انگریز دور کی پیداوار قراردیا اور بغاوت کے مقدمے و ٹرائل روک دیئے ہیں۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ انگریز دور کے بغاوت کے قانون کو ماورائے آئین قرار دیتے ہوئے کالعدم کیا جائے۔

  • جب راج گھاٹ پر ہر طرف موت کا راج تھا!

    جب راج گھاٹ پر ہر طرف موت کا راج تھا!

    1857ء میں جب ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی رعایا نے انگریزوں سے باقاعدہ لڑائی کا آغاز کیا تو اسے تاجِ برطانیہ سے بغاوت، سرکشی اور بدعہدی قرار دیا گیا اور بغاوت کو کچلنے کے لیے بے دریغ قتلِ عام شروع کردیا گیا۔

    گرفتار ہوجانے والے آزادی کے متوالوں کو ہنگامہ آرائی اور بلوہ کرنے کے الزام میں بدترین تشدّد، قید و بند اور جلاوطنی جھیلنا پڑی۔ انھیں پھانسیاں دی گئیں اور ‘باغی قیادت’ کو نشانِ عبرت بنانے کے لیے توپ دَم کیا گیا۔ غدر میں کتنے ہی لوگ مارے گئے جن میں‌ نابغۂ روزگار شخصیات، عظیم و نادر ہستیاں بھی شامل تھیں۔

    اس تمہید کے ساتھ شیخ امام بخش صہبائی کا تعارف پڑھ لیجیے جس کے بعد ہم موصوف اور ان کے خاندان پر بروزِ غدر ٹوٹ پڑنے والی قیامت کا تذکرہ کریں گے۔

    شیخ امام بخش صہبائی انیسویں صدی کے فارسی زبان و ادب کے ایک قابلِ قدر عالم، شارح اور شاعر تھے۔ عربی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ دہلی ان کا وطن تھا۔ ان کی درست تاریخ و سنِ پیدائش تو کسی کو معلوم نہیں، لیکن غالب قیاس یہی ہے کہ انھوں نے 1805ء میں پیدا ہوئے تھے۔ صہبائی زندگی کی 54 (چوّن) بہاریں دیکھ سکے اور غدر میں‌ ابتلا کے بعد فریبِ ہستی سے واقف ہوئے۔

    صہبائی صاحب کے دو بیٹے محمد عبدُالعزیز اور عبدُالکریم اپنے والد کے تابع فرمان اور مذہب پسند بھی تھے، شوق و ذوقِ علم اور سخن فہمی تو ورثے میں ملی تھی۔ یہ دونوں بھی عزیز اور سوز کے تخلّص سے شاعر مشہور تھے۔

    شیخ امام بخش صہبائی نے گو کہ مختصر عمر پائی، مگر فارسی میں نظم و نثر کی لگ بھگ تیس اور اردو زبان میں تین کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی کتب نایاب ہیں اور ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔

    ان کے زمانے میں اگرچہ فارسی کی جگہ اردو لے چکی تھی، لیکن صہبائی نے نثر اور نظم کے لیے فارسی ہی کو اپنایا۔ انھیں اس زبان میں کمال حاصل تھا اور وہ اپنی فارسی دانی کے لیے مشہور تھے۔ انھیں دہلی کالج میں فارسی کا مدرّس مقرر کیا گیا تھا۔

    افسوس کہ اس نادرِ روزگار کا انجام بڑا دردناک ہوا۔ تذکروں میں آیا ہے کہ غدر کے موقع پر ستمبر میں انگریزوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور اپنے 21 اعزّہ سمیت بے دردی سے قتل کیے گئے۔

    رام بابو سکسینہ کی مشہور اور مستند کتاب تاریخِ ادبِ اردو کے دوسرے حصّے میں ان کا ذکر موجود ہے۔ رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں:

    ’’صہبائی قدیم دلّی کالج میں فارسی اور عربی کے پروفیسر، بہت روشن خیال اور اخلاقی جرأت کے آدمی تھے۔ فارسی میں ان کو کمال حاصل تھا اور اس زمانے میں جب کہ فارسی کا دور دورہ تھا ایک خاص عزّت اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور ان کی قابلیت اور شہرت کا طلبا کے دل پر بڑا اثر تھا۔ فنِ شعر میں استاد مشہور تھے اور قلعہ کے اکثر شاہ زادے اور متوسلین ان سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ متعدد کتابیں ان سے یادگار ہیں۔ زمانۂ غدر میں مارے گئے اور ان کا مکان کھود کر زمین کے برابر کر دیا گیا۔‘‘

    صہبائی کے احباب و رفقا میں مولانا فضلِ حق خیر آبادی، مفتی صدر الدّین خان آزردہ، سر سیّد احمد خان، ذوق، مومن اور غالب شامل تھے اور انھیں بہادر شاہ ظفر کا تقرّب بھی حاصل تھا۔

    مشہور ہے کہ ان کے شاگردوں میں غیر مسلم نمایاں تعداد میں‌ تھے اور ان کی شہادت کو دو دہائیاں گزرنے کے بعد جب ان کے ایک ہندو شاگرد منشی دین دیال نے ان کے علمی اثاثے کی ترتیب و تدوین کا اہتمام کرنا چاہا تو ملال ہوا کہ ان کی بعض تصانیف کا کوئی سراغ سراغ نہ مل سکا اور نہ ہی ان کے مکمل کوائف اور زندگی کے جامع حالات اکٹھے کیے جاسکے۔ جتنی کتابیں مل سکیں انھیں تین جلدوں‌ میں‌ زیورِ طبع سے آراستہ کردیا گیا۔

    امام بخش صہبائیؔ دہلوی سے سَر سیّد احمد خاں نے اپنی مشہور کتاب ’’آثارُ الصّنادید‘‘ کی ترتیب میں مدد لی تھی جس کا اعتراف انھوں نے اپنی کتاب میں تفصیل سے کیا ہے۔ غالبؔ نے بھی فارسی کے کلام میں صہبائی کا نام لیا ہے۔

    امام بخش صہبائیؔ کو صاحب طرز انشا پرداز اور نکتہ بیں محقق کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا تھا۔ وہ علمِ عروض و قافیہ میں ماہر تھے اور اُس دور کے تمام تذکرہ نگاروں اور ادبا نے ان کی اُستادی اور قادرُ الکلامی کا لوہا مانا ہے۔

    صہبائی اور ان کے خاندان کے 21 افراد کو راج گھاٹ (نئی دہلی) میں جمنا کنارے گولیاں مار کر شہید کیا گیا تھا۔

    مولانا صہبائی کے بھانجے مولانا قادر علی بیان کرتے ہیں: ’’میں صبح کی نماز اپنے ماموں مولانا صہبائیؔ کے ساتھ کٹرہ مہر پرور کی مسجد میں پڑھ رہا تھا کہ گورے دَن دَن کرتے آ پہنچے۔ پہلی رکعت تھی کہ امام کے صافے سے ہماری مشکیں کس لی گئیں۔پھانسیوں کی بجائے باغی گولیوں کا نشانہ بن رہے تھے۔ مسلح سپاہیوں نے اپنی بندوقیں تیارکیں۔ ہم تیس چالیس آدمی ان کے سامنے کھڑے تھے کہ ایک مسلمان افسر نے ہم سے آکر کہا کہ موت تمہارے سَر پر ہے گولیاں تمہارے سامنے ہیں اور دریا تمہاری پشت پر ہے۔تم میں جو لوگ تیرنا جانتے ہیں وہ دریا میں کود پڑیں۔ میں بہت اچھا تیراک تھا، مگر ماموں صاحب یعنی مولانا صہبائیؔ اور ان کے صاحب زادے مولانا سوزؔ تیرنا نہیں جانتے تھے۔ اس لیے دل نے گوارا نہ کیا کہ ان کو چھوڑ کر اپنی جان بچاؤں، لیکن ماموں صاحب نے مجھے اشارہ کیا اس لیے میں دریا میں کود پڑا۔ پچاس یا ساٹھ گز گیا ہوں گا کہ گولیوں کی آوازیں میرے کانوں میں آئیں اور صف بستہ لوگ گر کر مر گئے۔‘‘ (1857ء پس منظر و پیش منظر سے)

    اس الم ناک واقعے پر اکبرالٰہ آبادی کہتے ہیں:

    نوجوانوں کو ہوئیں پھانسیاں بے جرم و قصور
    مار دیں گولیاں پایا جسے کچھ زور آور
    وہی صہبائی جو تھے صاحبِ قولِ فیصل
    ایک ہی ساتھ ہوئے قتل پدر اور پسَر

  • میانمار میں فوج نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا، آنگ سان سوچی گرفتار

    میانمار میں فوج نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا، آنگ سان سوچی گرفتار

    میانمار کی فوج نے ملک کے صدر یوون منٹ اور برسر اقتدار جماعت کی رہنما آنگ سان سوچی کو گرفتار کرنے کے بعد ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق میانمار میں انتخابات کے بعد سویلین حکومت اور فوج کے مابین کشیدگی پیدا ہوگئی تھی جس کے بعد اب فوج نے بغاوت کرتے ہوئے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

    فوج نے برسر اقتدار جماعت نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی رہنما آنگ سان سوچی، ملک کے صدر یوون منٹ اور دیگر رہنماؤں کو بھی گرفتار کرلیا۔

    آنگ سان سوچی کے پاس کوئی باقاعدہ سیاسی عہدہ موجود نہیں تھا تاہم وہ برسر اقتدار جماعت کی سربراہی کر رہی ہیں اور ان کی طویل سیاسی جدوجہد کے باعث انہیں ہی ملک کی حقیقی رہنما سمجھا جاتا ہے۔

    سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری کے چند گھنٹے بعد میانمار کی فوج نے ٹی وی پر اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ایک سال کے لیے ہنگامی حالت کا اعلان کر رہی ہے۔ فوج کی جانب سے کہا گیا کہ کمانڈر ان چیف من آنگ ہلاینگ کو اختیارات سونپے جارہے ہیں۔

    فوج کا کہنا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں الیکشن میں فراڈ کے نتیجے میں عمل میں لائی گئیں۔

    دوسری جانب سوموار کی صبح حکومتی جماعت کے ترجمان میو نیونٹ نے ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے کو فون پر بتایا کہ آنگ سان سوچی، صدر یوون منٹ اور دیگر رہنماؤں کو صبح سویرے حراست میں لے لیا گیا ہے۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ میں اپنے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ عجلت میں ردعمل کا اظہار نہ کریں اور قانون کے مطابق کام کریں۔

    ادھر کئی وزرائے اعلیٰ کے اہل خانہ کی جانب سے بتایا گیا کہ صبح کے وقت فوجی اہلکار ان کے گھر پہنچے اور انہیں ساتھ لے کر چلے گئے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق اس وقت دارالحکومت اور مرکزی شہر ینگون کی سڑکوں پر فوجی موجود ہیں۔ ملک کے اہم شہروں میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروس منقطع کردی گئی ہے۔

    میانمار کے ریاستی نشریاتی ادارے ایم آر ٹی وی کا کہنا ہے کہ انہیں تکنیکی مسائل کا سامنا ہے جس کے باعث ان کی نشریات عارضی طور پر معطل ہیں۔

    فوجی بغاوت کے بعد ملک میں بے یقینی اور خوف کی فضا طاری ہے اور پیر کا روز ہونے کے باوجود سڑکوں پر سناٹا ہے، رہائشی علاقوں کے اے ٹی ایمز پر لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوگئی جو غیر یقینی صورتحال کے باعث نقد رقم نکالنے وہاں جا پہنچی۔

    یاد رہے کہ میانمار یا برما پر سنہ 2011 تک فوج کی حکومت رہی ہے، ملک میں نومبر میں ہونے والے انتخابات میں این ایل ڈی نے حکومت بنانے کے لیے درکار نشستیں حاصل کر لی تھیں تاہم فوج نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔

    پارلیمنٹ کے نو منتخب ایوان نے آج یعنی پیر کے روز پہلا اجلاس کرنا تھا لیکن فوج نے التوا کا مطالبہ کر رکھا تھا۔

    ایسے حالات میں اس بارے میں خدشات بڑھ رہے تھے کہ فوج بغاوت کی تیاری کر رہی ہے چنانچہ ان خدشات کے پیش نظر ہفتے کے روز میانمار کی مسلح افواج نے آئین کی پاسداری کا وعدہ بھی کیا تھا جو وفا نہ ہوسکا۔

  • صوبائی حکومتیں ریاست کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کرا سکیں گی، حکومت کا بڑا فیصلہ

    صوبائی حکومتیں ریاست کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کرا سکیں گی، حکومت کا بڑا فیصلہ

    اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے ریاست کے خلاف بغاوت اور بغاوت پر اکسانے پر فوری کارروائی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر قانون میں ترامیم کی منظوری دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت نے بغاوت کے مقدمات قائم کرنے کا اختیار سیکریٹری داخلہ اور صوبائی حکومتوں کو دینے کا فیصلہ کر لیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ نے ضابطہ فوجداری کے سیکشن 196 میں ترامیم کی منظوری دے دی۔

    وفاقی کابینہ سے سرکولیشن کے ذریعے ترامیم کی منظوری لی گئی، جس میں بغاوت اور بغاوت پر اکسانے پر مقدمے کا اختیار سیکریٹری داخلہ کو تفویض کیا گیا ہے، صوبائی حکومتیں بھی اب ریاست کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کرا سکیں گی۔

    ذرائع کے مطابق متعلقہ عدالت سیکریٹری داخلہ کی منظوری کے بغیر درج مقدمے کا ٹرائل نہیں کرے گی، سیکشن 153 اے سمیت 5 سیکشن کے تحت مقدمہ سیکریٹری داخلہ کی منظوری سے ہوگا۔

    ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیکریٹری داخلہ کے علاوہ صوبائی حکومتوں کی منظوری سے مقدمے کا اندراج ہو سکے گا۔

  • اسپیکر بلوچستان کا وزیر اعلیٰ کے خلاف اعلان بغاوت، صوبائی کابینہ میں رد و بدل کا فیصلہ

    اسپیکر بلوچستان کا وزیر اعلیٰ کے خلاف اعلان بغاوت، صوبائی کابینہ میں رد و بدل کا فیصلہ

    کوئٹہ: اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو نے وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا ہے، دوسری طرف صوبائی کابینہ میں رد و بدل کا فیصلہ کر لیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر عبد القدوس بزنجو نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف ان ہاؤس تبدیلی لائی جائے گی، وزیر اعلیٰ کے لیے پارٹی داؤ پر نہیں لگا سکتے، وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ کو ایک بنکر بنا دیا گیا ہے، ایک بندے کی وجہ سے پوری پارٹی کو تباہ نہیں کرنا چاہتے۔

    دوسری طرف ذرایع نے کہا ہے کہ بلوچستان کابینہ میں رد و بدل کا فیصلہ کیا گیا ہے، 2 اراکین اسمبلی صوبائی وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے، ان نامزد اراکین میں سردار یارمحمد رند اور مٹھا خان کاکڑ شامل ہیں، گورنر بلوچستان صوبائی وزرا سے حلف لیں گے۔

    ادھر بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے بزنجو کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس تحریک عدم اعتما کا ذکر کیا گیا ہے وہ نہ تحریک ہے، نہ عدم نہ اعتماد، بزنجو کی بیماری کا جواب ان کے ڈاکٹر دے سکتے ہیں، ایک شخص کے ذاتی گلے شکوے ہیں، وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد اسپیکر کی محض خواہش ہے، ہمارے دور میں جتنے کام ہوئے ہیں وہ 10 سال میں نہیں ہوئے، ہم حکومت کا موازنہ پچھلے ادوار کی بہ جائے دوسرے صوبوں سے کر رہے ہیں۔

    گزشتہ رات اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں گفتگو کرتے ہوئے عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ بلوچستان میں ہمارا مقصد تھا کہ عوامی پارٹی اور عوامی حکومت بنائیں گے، کوشش تھی کہ حکومت بنانے کا جو موقع ملا ہے اس میں کام یاب ہوں، لیکن وزیر اعلیٰ بلوچستان پرفارم نہیں کر رہے، اگر آپ وزیر اعلیٰ ہاؤس کا دورہ کریں تو خود کہیں گے جام کمال کو نہیں رہنا چاہیے۔

    اسپیکر کا کہنا تھا کہ کئی لوگ استعفے دے چکے ہیں، آہستہ آہستہ لوگ حکومت چھوڑ رہے ہیں، جام کمال باتیں اچھی کرتے ہیں لیکن ناکام ہو گئے ہیں۔ بزنجو نے ترجمان پر بھی تنقید کی، کہا وہ وزیر اعلیٰ کے ترجمان بنے ہوئے ہیں پارٹی کے نہیں۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ بلوچستان بڑا صوبہ ہے، مسائل بھی زیادہ ہیں۔

  • جسقم ریلی میں ایک بار پھر پاکستان مخالف نعرے، مقدمہ درج

    جسقم ریلی میں ایک بار پھر پاکستان مخالف نعرے، مقدمہ درج

    کراچی: جیے سندھ قومی محاذ (جسقم) کی ریلی میں پاکستان مخالف نعرے لگ گئے، پولیس نے ملک کے خلاف نعرے لگانے پر مقدمہ درج کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق جسقم کے خلاف پاکستان مخالف نعرے لگانے پر اسٹیل ٹاؤن تھانے میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، جس میں بغاوت سمیت سنگین دفعات شامل کیے گئے ہیں۔

    مقدمے میں جسقم بشیر قریشی گروپ کے چیئرمین صنعان قریشی، صدر ملیر ضمیر حاجانو اور وائس چیئرمین الہیٰ بخش سمیت دیگر افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔

    مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ ریلی کے شرکا نے پاکستان اور قومی اداروں کے خلاف نعرے بازی کی تھی، ریلی کے شرکا نے پاک فوج کے خلاف بھی نعرے لگائے، چیئرمین جسقم کارکنان کو فسادات اور دہشت گردی پھیلانے کے لیے اکساتا رہا، ریلی کے شرکا کو حملے کے لیے بھی اکسایا گیا۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز کراچی پریس کلب پر سندھی قوم پرست جماعت جیے سندھ قومی محاذ کی جانب سے پیغام سندھ مارچ کا اہتمام کیا گیا تھا جس کی قیادت جسقم چیئرمین صنعان خان قریشی نے کی تھی۔

    صنعان قریشی نے مارچ سے خطاب میں کہا تھا کہ سات کروڑ سندھی کسی بھی قیمت پر سندھ کی تقسیم کی کسی بھی سازش کو قبول نہیں کریں گے، سندھ کی آزادی کے لیے سائیں جی ایم سید اور شہید بشیر خان قریشی کے نظریے کے تحت جدوجہد جاری رکھی جائے گی، اردو بولنے والے بھی سندھ کو اپنا وطن سمجھ کر ہمارا ساتھ دیں۔