Tag: بغداد

  • بغداد ایئر پورٹ پر امریکی فضائی حملہ، ایرانی جنرل سمیت 9 افراد ہلاک

    بغداد ایئر پورٹ پر امریکی فضائی حملہ، ایرانی جنرل سمیت 9 افراد ہلاک

    بغداد: عراق کے شہر بغداد کے ایئر پورٹ پر امریکی فضائی حملے میں ایرانی جنرل سمیت 9 افراد ہلاک ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق بغداد ایئر پورٹ پر امریکی فضائی حملے میں ایرانی جنرل سمیت 9 افراد ہلاک ہو گئے، فضائی حملے میں ہلاک جنرل قاسم سلیمانی القدس فورس کے سربراہ تھے، عراقی میڈیا کا کہنا ہے کہ دیگر ہلاک شدگان میں ایران نواز ملیشیا الحشد الشعبی کا رہنما بھی شامل ہے۔

    ادھر واشنگٹن میں پینٹاگون نے بھی جنرل سلیمانی کی امریکی حملے میں ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے، پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات پر ایرانی جنرل کو نشانہ بنایا گیا، یہ کارروائی ایران کو مستقبل میں حملوں سے روکنے کے لیے کی گئی ہے۔

    امریکی صدر ٹرمپ نے ایرانی جنرل کی بغداد ایئر پورٹ حملے میں ہلاکت کے بعد ٹویٹ بھی کیا، جس میں انھوں نے امریکی جھنڈے کی تصویر لگائی۔

    خبر ایجنسی کے مطابق بغداد انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر 3 راکٹ کارگو ٹرمنل کے قریب گرے جس سے 2 گاڑیوں میں آگ لگی، حملے کے بعد بغداد انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر تمام پروازیں منسوخ کر دی گئیں، ایئر پورٹ پر امریکی ہیلی کاپٹروں کا فضائی گشت بھی جاری ہے۔ امریکا نے الحشد الشعبی پر گزشتہ دنوں سفارت خانے کے گھیراؤ کا الزام لگایا تھا، الحشد الشعبی کی جانب سے ایک رہنما کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے۔

    امریکی فوج کے عراق اور شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا پر فضائی حملے

    خیال رہے کہ 30 دسمبر کو بھی امریکی فوج نے عراق اور شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا پر فضائی حملے کیے تھے، امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کے مطابق کتیب حزب اللہ کے اسلحہ ڈپو سمیت 5 ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے گئے۔ ایران کے خلاف مزید اقدامات کا عندیہ دیتے ہوئے مارک ایسپر نے کہا تھا کہ امریکا ایران کے خلاف مزید کارروائیوں کے لیے بھی تیار ہے۔

  • عراق: عوام کا احتجاج جاری، پارلیمنٹ میں نئے انتخابی قوانین کی منظوری

    عراق: عوام کا احتجاج جاری، پارلیمنٹ میں نئے انتخابی قوانین کی منظوری

    عراق میں پارلیمنٹ نے نئے انتخابی قوانین متعارف کروانے کے لیے منظوری دے دی ہے جس کے بعد اب امیدوار انفرادی حیثیت میں بھی انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔ اس سے قبل قانون کے مطابق ووٹرز صرف سیاسی جماعتوں کی فہرستوں میں سے کسی ایک کو چننے کا اختیار رکھتے تھے۔
    عراق میں پارلیمان کے اسپیکر محمد الحلبوسی نے اس سلسلے میں رائے دہی کے بعد بتایا کہ اب انتخابی اضلاع بھی بنائے جائیں گے۔

    نئے انتخابی قوانین متعارف کروانے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟
    عراق کے دارالحکومت بغداد اور ملک کے جنوبی حصے ميں لگ بھگ دو ماہ سے عوام سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ملک میں انتخابی اصلاحات اور سیاسی تبدیلیاں کی جائیں جب کہ ملک میں ہر سطح پر نظام میں تبدیلی اور خاص طور پر بدعنوانی کا خاتمہ کیا جائے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ حکومت کی جانب سے نوکریاں دی جائیں اور عراقیوں کو بہتر شہری سہولیات فراہم کرنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔

    احتجاج سے کیا حاصل ہوا؟
    عراق میں حکومت مخالف مظاہروں کے بعد وزیرِاعظم عبدالمہدی نے استعفیٰ دے دیا جسے منظور کر لیا گیا۔
    گزشتہ روز پارلیمان نے انتخابی قوانین میں تبدیلی کی منظوری دی ہے۔

    مظاہروں کے دوران کیا ہوا؟
    ان مظاہروں میں اب تک 450 سے زائد قیمتی انسانی جانیں ضایع ہو چکی ہیں۔
    پُرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچا ہے جب کہ احتجاج کا راستہ روکنے اور مظاہرین کو پیچھے دھکیلنے کے لیے فورسز کی جانب سے طاقت کا استعمال بھی کیا گیا۔ اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کی مذمت کی ہے۔

  • اقوام متحدہ نے عراق میں سیکڑوں ہلاکتوں کی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا

    اقوام متحدہ نے عراق میں سیکڑوں ہلاکتوں کی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا

    بغداد: اقوام متحدہ نے عراق میں حکام سے سیکڑوں ہلاکتوں کی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے عراق میں حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مظاہرین کے خلاف پر تشدد واقعات اور کریک ڈاؤن کے حوالے سے تحقیقات کرائیں۔

    انسانی حقوق کمیشن عراق کا کہنا ہے کہ عوامی مظاہروں کے دوران سیکڑوں افراد جانیں کھو چکے ہیں، سماجی کارکنوں کو اغوا کر کے قتل کیا جا رہا ہے، سلامتی کونسل نے بھی مظاہرین کی ہلاکتوں کی بڑھتی تعداد پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

    سلامتی کونسل کا کہنا تھا کہ احتجاج کرنے والوں کے قتل میں مسلح جماعتیں ملوث ہیں، یہ صورت حال باعث تشویش ہے، حکام ان واقعات کی تحقیقات کرے اور پرتشدد واقعات کو روکے۔

    یہ بھی پڑھیں:  عراقی وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑنے کا اعلان

    عراق میں پرتشدد واقعات کا آغاز یکم اکتوبر کو دارالحکومت بغداد اور جنوبی صوبوں میں حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہونے کے بعد ہوا ہے، غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر براہ راست فائرنگ کی گئی۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق عراق میں مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد 400 سے زیادہ ہو چکی ہے۔ دوسری طرف 29 نومبر کو عراق کے وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے ملک بھر میں جاری مظاہروں کے پیش نظر اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ جس کے بعد 2 دسمبر کو ان کا استعفیٰ عراقی کابینہ نے منظور کر لیا۔ عراقی عوام نے استعفے کا خیر مقدم کرتے ہوئے سارے سیاسی نظام کو مکمل بدلنے کا مطالبہ کیا۔

  • بغداد دھماکوں سے لرز اٹھا، 6 افراد جاں بحق

    بغداد دھماکوں سے لرز اٹھا، 6 افراد جاں بحق

    بغداد: عراق کے دارالحکومت بغداد میں تین بم دھماکوں میں 6 افراد جاں بحق جبکہ 15 افراد زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی بغداد میں الشعب کالونی میں موٹرسائیکل میں نصب بم پھٹنے سے 3 افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ 5 افراد زخمی ہوگئے۔ بغداد کے علاقے البیاع میں بھی موٹرسائیکل میں نصب بم پھٹ گیا جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق جبکہ 6 افراد زخمی ہوگئے۔

    دوسری جانب عراقی داالحکومت کے مشرقی بلدیہ محلے میں بم پھٹنے سے ایک شخص جان کی بازی ہار گیا جبکہ 4 افراد زخمی ہوگئے۔ بغداد میں ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری فی الحال کسی گروپ نے قبول نہیں کی۔

    اس سے قبل گزشتہ ہفتے بغداد میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق جبکہ 20 افراد زخمی ہوگئے تھے۔

    عراق میں حکومت مخالف مظاہرے، ہلاکتوں کی تعداد 339 ہوگئی

    واضح رہے کہ عراق کے مختلف شہروں میں کرپشن اور مہنگائی کے خلاف شہری سراپا احتجاج ہیں، گزشتہ دنوں جنوبی شہر بصریٰ اور نصیریہ میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں 6 افراد ہلاک ہوئے تھے، جبکہ عراقی شہر ام قصر میں پولیس کی فائرنگ سے 9 مظاہرین جان کی بازی ہار گئے تھے۔

    اس طرح اکتوبر سے جاری مظاہروں میں اموات کی تعداد 340 ہوگئی، اقوام متحدہ نے سنگین صورت حال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے فریقین کو معاملہ حل کرنے پر زور دیا ہے۔

  • عراق میں حکومت مخالف مظاہرے، ہلاکتوں کی تعداد 339 ہوگئی

    عراق میں حکومت مخالف مظاہرے، ہلاکتوں کی تعداد 339 ہوگئی

    بغداد: عراق کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف پرتشدد مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 339 ہوگئی اور ہزاروں افراد زخمی ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق عراق کے مختلف شہروں میں کرپشن اور مہنگائی کے خلاف شہری سراپا احتجاج ہیں، گزشتہ روز جنوبی شہر بصریٰ اور نصیریہ میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں 6 افراد ہلاک ہوگئے۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کا کہنا ہے کہ عراقی شہر ام قصر میں پولیس کی فائرنگ سے 9 مظاہرین جان کی بازی ہار گئے، اس طرح اکتوبر سے جاری مظاہروں میں اموات کی تعداد 339 ہوگئی، اقوام متحدہ نے سنگین صورت حال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے فریقین کو معاملہ حل کرنے پر زور دیا ہے۔

    ملکی وزیرداخلہ خلیل المحنہ کے مطابق چوبیس گھنٹوں کے دوران تین مظاہرین بغداد میں مارے گئے، جلاؤ گھراؤ اور احتجاج کی آڑ میں مظاہرین نے سیکیورٹی اہلکاروں پر بھی حملہ کیا جس کے باعث 33 اہلکار ہلاک ہوئے۔

    یاد رہے کہ عراق کے مختلف علاقوں میں یکم اکتوبر سے حکومت مخالف مظاہروں کا آغاز ہوا جو ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتے جارہے ہیں، مظاہرین نے حکومت پر کرپشن کا الزام عائد کرتے ہوئے وزیراعظم عادل عبدالمہدی سے فوری عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کیا ہوا ہے۔

    خیال رہے کہ 9 نومبر کو عراقی صدر برہم صالح نے اپنے سرکاری خطاب میں ملک بھر میں نئے انتخابات کرانے کا عندیہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ وزیر اعظم عادل عبدالمہدی عہدہ مشروط طور پر چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔

  • کربلا میں حکومت مخالف مظاہرے، 18 افراد جاں بحق

    کربلا میں حکومت مخالف مظاہرے، 18 افراد جاں بحق

    کربلا: عراق کے جنوبی شہر کربلا میں ابتر معاشی حالات ، بے روزگاری اور حکومت کی معاشی پالیسوں کے خلاف ہونے احتجاج کے دوران فورسز کی فائرنگ سے 18 افراد جاں بحق ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ منگل کے روز ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کو کچلنے کے لیے فورسز نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا اور مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلائیں۔

    عراقی حکام نے رات گئے سے ہونے والے ان مظاہروں میں جھڑپوں کے دوران 18 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے تاہم عالمی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اموات کی تعداد 20 سے زائد ہے۔

    گزشتہ ایک ماہ سے جاری ان پرتشدد مظاہروں میں جاں بحق افراد کی تعداد 250 سے تجاوز کر چکی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: عراق میں حکومت مخالف مظاہروں میں 30 افراد جاں بحق

    طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ جھڑپوں کے دوران زخمی ہونے والوں کی تعداد 800 سے بھی زائد ہے جن میں بعض کی حالت تشویشناک ہے جس کے باعث اموات میں اضافےکا خدشہ ہے۔

    رپورٹس کے مطابق ملک کے دیگر حصوں میں بھی پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

    دوسری جانب دارالحکومت بغداد میں گزشتہ شام نافذ کیے گئے کرفیو کو توڑ کر مظاہرین شہر کے مرکز میں واقع تحریر اسکوائر میں جمع ہوگئے اور بعض مظاہرین نے حکومتی تنصیبات اور امریکی سفاتخانے والے علاقے ’گرین زون‘ میں داخلے کی کوشش کی۔

  • عراق میں حکومت مخالف مظاہروں میں 30 افراد جاں بحق

    عراق میں حکومت مخالف مظاہروں میں 30 افراد جاں بحق

    بغداد: عراق میں معاشی بد حالی، بے روز گاری اور حکومتی بدعنوانیوں کے خلاف احتجاج کے دوران کم از کم 30 افراد جاں‌ بحق اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے ابتر معاشی بدحالی کے خلاف 15 روز کے وقفے کے بعد احتجاج کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، دارالحکومت بغداد سمیت ملک کے بڑے شہروں میں حکومت مخالف احتجاجی ریلیاں نکالی گئی ہیں۔

    عراق میں انسانی حقوق کے مبصر ادارے کا کہنا ہے کہ پولیس نےاحتجاج کو طاقت کے ذریعے کچلنے کے لیے وحشیانہ کارروائیاں کی ہیں جس کے نتیجے میں کم ازکم 30 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

    مبصر ادارے کا کہنا ہے کہ دارالحکومت بغداد سمیت ملک کے بڑے شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی، پولیس نے مظاہرین کے خلاف طاقت بے دریغ استعمال کیا۔

    یہ بھی پڑھیں: عراق: حکومت مخالف احتجاج، 100 سے زائد افراد جاں بحق

    عراق کے نیم سرکاری انسانی حقوق کمیشن کے مطابق حکومت مخالف مظاہروں میں پولیس سے جھڑپوں کے دوران اب تک 2 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔

    واضح رہے کہ عراق میں بے روز گاری، ناقص عوامی سہولیات، غربت ، صاف پانی اور کرپشن سے تنگ آکر چند روز قبل شہریوں نے احتجاجی تحریک شروع کی تھی جس کے دوران 150 کے قریب افراد اپنی جان سے گئے تھے۔

    حکومتی یقین دہانیوں کے بعد احتجاج چند دن کے لیے رک گیا تاہم تعطل کے بعد ایک بار پھر عوام سڑکوں پرنکل آئے ہیں۔

  • عراق: حکومت مخالف احتجاج، 100 سے زائد افراد جاں بحق، وزیر اعظم کا اصلاحات کا اعلان

    عراق: حکومت مخالف احتجاج، 100 سے زائد افراد جاں بحق، وزیر اعظم کا اصلاحات کا اعلان

    بغداد: عراق میں حکومت مخالف احتجاج شدت اختیار کر گیا، مظاہرین اور سیکورٹی اہل کاروں میں جھڑپوں کے دوران اب تک 100 سے زاید افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق عراق میں کرپشن اور بے روز گاری کے خلاف عوامی احتجا ج 5 روز سے جاری ہے، غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے اس دوران پر تشدد واقعات میں سو سے زاید افراد جاں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔

    عراقی پارلیمنٹ کے انسانی حقوق کمیشن کے مطابق ملکی دارالحکومت اور جنوبی حصے میں مظاہروں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 93 ہے، جب کہ زخمیوں کی تعداد 4 ہزار کے قریب ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ آج کئی روز سے نافذ کرفیو جزوی طور پر اٹھا دیا گیا تھا، اس دوران اہم شاہراہوں تک رسائی محدود رکھی گئی تھی۔

    یہ بھی پڑھیں:  ایران، عراق میں جاری عوامی احتجاج کو فسادات کا رنگ دے رہا ہے، عرب میڈیا

    ادھر عراق میں احتجاجی مظاہروں کے بعد وزیر اعظم عادل عبد الہمدی نے ملک میں قانونی اور مالیاتی اصلاحات کا اعلان کر دیا ہے۔

    وزیر اعظم نے بے روزگار نوجوانوں کو ملازمتیں دینے، کم آمدن والے شہریوں کو رہایشی اراضی الاٹ کرنے کے اعلانات کیے، اور سیاسی قوتوں سے اپیل کی کہ اس سلسلے میں حکومت سے تعاون کیا جائے۔

    اعلان کردہ اصلاحات کے تحت عراقی شہری ملک بھر سے رہایشی اراضی کے لیے درخواست دے سکیں گے، اور مستحقین میں اقامتی پلاٹ تقسیم کیے جائیں گے، سود سے پاک قرضے کا پروگرام بھی شروع کیا جائے گا۔

  • بغداد کی جیل سے 15 انتہائی مطلوب قیدی فرار، 8 گرفتار

    بغداد کی جیل سے 15 انتہائی مطلوب قیدی فرار، 8 گرفتار

    بغدا د:عراقی وزارت داخلہ نے کہاہے کہ بغداد کے ایک پولیس اسٹیشن سے فرار ہونے والے افراد میں سے آٹھ کو پکڑ لیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزارت داخلہ کے ترجمان میجر جنرل سعد معن نے کہاکہ القنات پولیس اسٹیشن کی جیل سے 15 افراد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ۔

    عراقی میڈیا نے ایک وڈیو نشر کی ہے جس میں مذکورہ افراد کے فرار کا منظر نظر آ رہا ہے، فرار کی کارروائی کے دوران پولیس اسٹیشن کی حفاظتی فورس کے ساتھ کوئی جھڑپ نہیں ہوئی اور اسٹیشن بنا پہرے کے نظر آیا۔فرارہونے والے تمام افراد کو منشیات سے متعلق مقدمات کے سلسلے میں حراست میں لیا گیا تھا۔

    عراقی وزیر داخلہ یاسین الیاسری نے جیل سے فرار ہونے کے واقعے کے بعد تین ذمے داران کو برطرف کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔ ان میں بغداد پولیس کے سربراہ ، الرصافہ ضلع کے پولیس ڈائریکٹر اور باب الشیخ علاقے کے پولیس سربراہ شامل ہیں۔

    الیاسری نے مذکورہ ذمے داران، القنات پولیس اسٹیشن کے پولیس افسران اور ان تمام اہل کاروں کو وزارت داخلہ کے صدر دفتر میں زیر حراست رکھنے کا فیصلہ بھی کیا جو اس واقعے کے دوران فرائض کی انجام دہی کے ذمے دار تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ فرار کے واقعے کے فوری بعد بغداد میں سخت ناکا بندی کر دی گئی اور مفرور افراد کو پکڑنے کے لیے وسیع پیمانے پر تلاشی کی کارروائیاں بھی شروع کر دی گئیں۔

    دنیا بھر میں بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں 12 ویں پوزیشن رکھنے والے عراق میں جیلوں کی سیکورٹی ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے۔سال 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے بعد گزرے کئی برسوں کے دوران القاعدہ کے سیکڑوں جنگجو جیلوں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ان میں تنظیم کے غیر ملکی ارکان بھی شامل ہیں۔

  • بغداد میں اجتماعی قبر سے 141 لاشیں برآمد

    بغداد میں اجتماعی قبر سے 141 لاشیں برآمد

    بغداد : عراقی حکام نے واضح کیا ہے کہ اجتماعی قبر سے برآمد ہونے والی سینکڑوں لاشوں کے ڈی این اے کے نمونے لے کر ان کا متعلقہ خاندانوں سے جمع کیے گئے ڈیٹا بینک کے ساتھ موازنہ کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق عراق کے دارلحکومت بغداد میں فارنزک کے ذریعے 141 لاشوں کی شناخت عمل میں لائی جا رہی ہے، یہ لاشیں شمالی عراق میں یزیدی اقلیت کے مرکزی گڑھ سنجار میں اجتماعی قبروں سے نکالی گئی تھیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس سلسلے میں عراقی عہدے دار زید الیوسف نے بتایا کہ ابتدا میں انسانی باقیات کا معائنہ کیا جائے گا اور اس کے بعد ڈی این اے کے نمونے لے کر ان کا متعلقہ خاندانوں سے جمع کیے گئے ڈیٹا بینک کے ساتھ موازنہ کیا جائے گا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ سال 2014 میں داعش تنظیم نے نینوی صوبے کے علاقے سنجار میں یزیدیوں کی ایک بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    اس دوران ہزاروں افراد نے راہ فرار اختیار کی جب کہ ہزاروں لڑکیوں اور خواتین کو "سبایا” (جنگ میں قید ہو کر ملنے والی عورت) کے طور پر یرغمال بنا لیا گیا۔

    داعش کے ہاتھوں 6400 سے زیادہ یزیدیوں کو اغوا کیا گیا جن میں 3200 فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ان میں سے بعض کو بچا لیا گیا اور دیگر بہت سوں کو انجام نا معلوم ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ سنجار کے گاؤں کوجو میں مقامی آبادی کے سیکڑوں افراد داعش تنظیم کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے جب کہ 700 سے زیادہ عورتوں اور بچوں کو اغوا کر لیا گیا۔

    زید الیوسف کے مطابق سنجار کے خاندانوں کے ڈی این اے کے 1280 کے قریب نمونے لیے گئے ہیں تاہم مشکل یہ ہے کہ بہت سے خاندان ایسے ہیں جن میں صرف ایک شخص باقی رہ گیا ہے اور باقی تمام لوگ لا پتہ ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق داعش تنظیم کے ہاتھوں اغوا ہونے والی یزیدی خواتین میں سے بہت سی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں مگر اب بھی ایسی ہزاروں خواتین کا انجام معلوم نہیں۔