Tag: بلدیاتی الیکشن

  • کراچی میں بلدیاتی الیکشن نہ کرانے کا خط الیکشن کمیشن کو ارسال

    کراچی : سندھ کومت نے کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن نہ کرانے کا مراسلہ الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی، حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن نہ کرانے کے خط کی کاپی سامنے آگئی، سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کو مراسلہ ارسال کردیا ہے۔

    سندھ حکومت نے کراچی اور حیدرآباد کی حلقہ بندیوں کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا اور سیکشن ٹین اے کے تحت بلدیاتی ایکٹ دو ہزار تیرہ واپس کردیا۔

    محکمہ بلدیات کے مراسلے کے متن میں کہا گیا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد میں پرانی حلقہ بندیوں پر الیکشن نہیں ہوں گے۔

    مراسلے میں کہنا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد میں کابینہ ذیلی کمیٹی کی منظوری کے بعد ازسرنو حلقہ بندیاں ہوں گی، پندرہ جنوری کو بلدیاتی الیکشن اب ممکن نہیں۔

    محکمہ بلدیات نے کہا ہے کہ سندھ کابینہ نے سیکیورٹی صورتحال اور تھریٹ الرٹ پر بھی غور کیا، قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی سیکیورٹی نہ ملنے کے سبب خدشات میں اضافہ ہوا۔

    دوسری جانب سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کو دادو میں الیکشن نہ کرانے سے متعلق بھی مراسلہ ارسال کردیا ہے۔

    مراسلے میں کہا ہے کہ ضلع دادوکےتعلقہ میہڑ،خیرپورناتھن شاہ میں سیلابی صورتحال ہے، کئی ووٹرزاب بھی اپنے گھروں کو نہیں لوٹ سکے۔

    سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ دادومیں بلدیاتی الیکشن ممکن نہیں ، دادوکےعوام کوآئینی حق ووٹ سےمحروم نہیں کیاجاسکتا، دادومیں بلدیاتی الیکشن ممکن نہیں۔

    یاد رہے گذشتہ روز سندھ حکومت نے صوبے میں بلدیاتی الیکشن کا دوسرا مرحلہ ملتوی کرانے اور لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کا فیصلہ کیا تھا ، اور ساتھ میں دادو میں بھی بلدیاتی الیکشن15 جنوری کو نہ کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔

  • کراچی میں بلدیاتی الیکشن کی تفصیلات

    کراچی میں بلدیاتی الیکشن کی تفصیلات

    کراچی ڈویژن کے 7 اضلاع کے 25 ٹاونز کی 246 یوسیز میں 15 جنوری کو ووٹنگ ہوگی۔ 246 یوسیز میں 984 وارڈز ہیں۔

    ضلع وسطی کے 5 ٹاونز میں یوسیز کی تعداد 45 ہے جس میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 20 لاکھ 76 ہزار 73 ہے۔ ضلع کے 1263 پولنگ اسٹیشنز میں سے 360 انتہائی حساس جبکہ 903حساس قرار دیے گئے ہیں۔

    ضلع شرقی کے 5 ٹاونز میں 43 یونین کمیٹیز ہیں جس میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 14 لاکھ 54 ہزار 59 ہے۔ ضلع میں 799 پولنگ اسٹیشن میں 200 انتہائی حساس جبکہ 599حساس قرار دیے گئے ہیں۔ کورنگی کے 4 ٹاونز کی 37 یوسیز میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 1415091 ہے۔ کورنگی کے 765 پولنگ اسٹیشنز میں سے 318 انتہائی حساس جبکہ 447 حساس قرار دیئے گئے ہیں۔

    ضلع غربی میں تین ٹاونز کی 33 یوسیز میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 909187 ہے جس کے 639 پولنگ اسٹیشنز میں سے 111 انتہائی حساس جبکہ 528 حساس قرار دیئے گئے ہیں۔

    ضلع کیماڑی کے تین ٹاونز کی 32 یوسیز میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 8 لاکھ 44 ہزار 851 ہے۔ ضلع کیماڑی میں 547 پولنگ اسٹیشنز میں سے 164 انتہائی حساس جبکہ383حساس قرار دیئے گئے ہیں۔

    ضلع ملیر کے تین ٹاونز کی 30 یوسیز میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 7 لاکھ 43 ہزار 205 ہے۔ ضلع میں 497پولنگ اسٹیشنز میں 119انتہائی حساس جبکہ 378 حساس قرار دیئے گئے ہیں۔

    ضلع جنوبی کے دو ٹاونز کی 26 یوسیز میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 9 لاکھ 95 ہزار54 ہے جس میں 480 پولنگ اسٹیشنز میں 224 انتہائی حساس جبکہ 256حساس ہیں۔

    کراچی ڈویژن میں چیئرمین، وائس چیئرمین اور جنرل ممبر کی نشست کے لیے 9 ہزار اٹھاون امیدوار میدان میں ہوں گے۔ چیئرمین اور وائس چیئرمین کے پینل اور جنرل ممبر کی نشست پر مختلف یونین کمیٹیز سے 7 امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔

    کراچی ڈویژن کی جنرل ممبرز اور چیئرمین اور وائس چیئرمین کی 22 نشستوں پر امیدواروں کے انتقال کے باعث انتخابات 15 جنوری کو نہیں ہونگے۔ انتقال کرنے والے امیدواروں میں مختلف یونین کمیٹیز کی 9 چیئرمین اور وائس چیئرمین جبکہ 13 جنرل ممبر کی نشستوں کے امیدوار شامل ہیں۔

  • کراچی میں بلدیاتی الیکشن:  مختلف اضلاع سے پولیس فورس کراچی بھیجنے کی ہدایت

    کراچی میں بلدیاتی الیکشن: مختلف اضلاع سے پولیس فورس کراچی بھیجنے کی ہدایت

    کراچی : محکمہ داخلہ سندھ نے کراچی میں بلدیاتی الیکشن کا معاملے پر مختلف اضلاع سے پولیس فورس کراچی بھیجنے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق حساس اور انتہائی حساس پولنگ اسٹیشن پر فوج اور رینجرز کی تعیناتی کے معذرت بعد نیا پلان تیار کرلیا گیا۔

    کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن کا معاملے پر محکمہ داخلہ سندھ نے مختلف اضلاع سے پولیس فورس کراچی بھیجنے کی ہدایت کردی ، مختلف محکموں کے علمداروں کی ڈیوٹی بھی الیکشن کے دن پر لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    میرپورخاص سے 1 ہزار پولیس اہلکار اور 100ایس ایس یو کمانڈوز کیماڑی میں ڈیوٹی سرانجام دیں گے جبکہ عمرکوٹ کے 700 پولیس اہلکار اور ایس ایس یو کے 100 کمانڈوز ضلع جنوبی کی پولنگ اسٹیشن تعینات ہوں گے۔

    تھرپارکر کے 700 اہلکار اور 100 ایس ایس یو کمانڈوز ضلع سٹی کی پولنگ اسٹیشن، ضلع شرقی میں نوابشاہ کے 1500 پولیس اہلکار اور 100ایس ایس یو کمانڈوز پولنگ اسٹیشن پر تعینات ہوں گے۔

    شرقی میں آر ٹی سی جام نواز علی کے 866 پولیس اہلکار اور سی پی او 200 اہلکار تعینات کئے جائیں گے جبکہ محکمہ ایکسائیز کے 490عملدار فاریسٹ کے 81 عملدار بھی پولنگ اسٹیشن پر ڈیوٹی دیں گے۔

    محکمہ صحت کی 7 ہزار 815 لیڈی ہیلتھ ورکرز قانون نافد کرنے والے اداروں کے ڈیوٹی سرانجام دیں گی ، بلدیاتی الیکشن میں پولیس کے مجموعی طور پر 67684 اہکاروں کی ضرورت ہے۔

    محکمہ داخلہ سندھ کی رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت کے پاس مجموعی طور 63500 اہلکار موجود ہیں، سندھ میں مجموعی طور پر 2314 فورس کی کمی کا سامنا ہے۔

    ذرائع نے بتایا محکمہ داخلہ سندھ نے کراچی بلدیاتی الیکشن پولیس فورس مکمل کرلی ، پولیس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کراچی میں پولنگ اسٹیشن پر مجموعی طور 37690 کی ضرورت ہے اور کراچی میں مختلف رینج سے پولیس فورس بھیج ضرورت پوری کردی ہے۔

    محکمہ داخلہ سندھ نے وزیر اعلی ہاوٴس رپورٹ ارسال کردی ہے ، فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ لاڑکانہ ڈویڑن ، سکھر ڈویڑن اور شہید بینظیر آباد ڈویڑن کے اہکار حیدرآباد ڈویڑن میں ڈی پولیس فورس بھیجی جائے گی۔

  • بلاول بلدیاتی الیکشن کے خواہاں، زرداری کشمکش کے شکار

    کراچی: ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے آصف علی زرداری ایم کیو ایم اتحاد کے باعث کشمکش کے شکار ہو گئے ہیں، جب کہ ان کے صاحب زادے بلاول بلدیاتی الیکشن کے خواہاں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی الیکشن کے سلسلے میں آج کا دن اہمیت اختیار کر گیا ہے، ایم کیو ایم دھڑوں کی جانب سے کراچی میں حلقہ بندیوں پر الیکشن کمیشن کے خلاف احتجاج کے ساتھ پیپلز پارٹی نے قانونی سطح پر مشاورت شروع کر دی ہے۔

    ذرائع کے مطابق اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ الیکشن کے انعقاد کے حکم پر عدلیہ میں کیا جواب دیا جائے؟ اور اس کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کو بھی کیسے راضی رکھا جائے؟

    اس سلسلے میں مشترکہ دوستوں نے رابطے تیز کر دیے ہیں، اور بیچ کا راستہ نکالنے کے مشورے دیے جا رہے ہیں، سندھ حکومت کو بھی پارٹی قیادت کے حتمی جواب کا انتظار ہے۔

    ذرائع پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ عدالت میں جواب پارٹی قیادت کی ہدایت پر جمع کرایا جائے گا۔

    ذرائع نے بتایا کہ بلاول بھٹو زرداری بلدیاتی الیکشن چاہتے ہیں، جب کہ سابق صدر آصف زرداری ایم کیو ایم اتحاد کے باعث کشمکش کا شکار ہیں۔

    وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور صوبائی کابینہ کے اہم وزرا اس سلسلے میں مشاورت کر رہے ہیں کہ الیکشن میں جانا ہے یا کوئی اور راستہ اپنانا ہے، اس سلسلے میں آج ہی کوئی فیصلہ طے کر دیا جائے گا۔

  • کراچی اور حیدر آباد کے بلدیاتی الیکشن 15 جنوری کو پرانی ووٹر لسٹوں پر ہی ہوں گے، تفصیلی فیصلہ جاری

    کراچی اور حیدر آباد کے بلدیاتی الیکشن 15 جنوری کو پرانی ووٹر لسٹوں پر ہی ہوں گے، تفصیلی فیصلہ جاری

    اسلام آباد : الیکشن کمیشن نے کراچی اور حیدر آباد کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق درخواست پر تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ بلدیاتی الیکشن پرانی ووٹر لسٹوں پر ہی ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق دارخوستوں پرالیکشن کمیشن نے 8 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

    فیصلے پر چیف الیکشن کمشنر اور دس ممبران کے دستحط ہیں موجود ہیں،تفصیلی فیصلے کے مطابق کراچی،حیدر آباد اور ٹھٹھہ ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات شیڈول کے مطابق15جنوری کو ہوں گے۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی سندھ بلدیاتی انتخابات کے انتظامات کو یقینی بنائیں جبکہ سندھ میں صاف و شفاف بلدیاتی انتخابات کے لئے قانون نافذ کرنے والے ادارے پولنگ عملے کے ساتھ تعاون کریں۔

    الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ 29 اپریل کوانتخابی شیڈول کے اعلان کے وقت صرف پرانی ووٹرز فہرستیں موجود تھیں، پولنگ کی تاریخ میں تبدیلی سے نئی ووٹر لسٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔

    فیصلے کے مطابق ایم کیوایم کی نئی ووٹرز لسٹ پر انتخابات کرانے کی استدعا مسترد اور جماعت اسلامی کی بروقت انتخابات سے متعلق دارخوست منظور کی جاتی ہے جبکہ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ کی التواء کی دارخوست مسترد کی گئی۔

    تحریری فیصلے میں واضح کیا گیا ایم کیو ایم کو سننے کا تفصیل سے موقع دیا گیا، ایم کیو ایم کے وکیل نے تسلیم کیا کہ انتخابی فہرستوں کا معاملہ پہلی بار اٹھایا گیا ہے۔

    فیصلے میں مذید لکھا گیا انتخابات کا شیڈول جاری ہونے کے بعد انتخابی فہرستوں میں ردوبدل نہیں کی جاسکتا، بلدیاتی الیکشن پرانی ووٹر لسٹوں پر ہی ہوں گے۔

  • الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کراچی والوں کو اپنا میئر چننے کا حق مل گیا

    الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کراچی والوں کو اپنا میئر چننے کا حق مل گیا

    سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں 15 جنوری 2023 کو بلدیاتی الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلدیاتی الیکشن متعدد بار ملتوی کیے گئے اور عدالتی حکم نے حکومت سندھ اور اتحادیوں کی التوا کے لیے تدبیروں کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔

    سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں صوبے کے 16 اضلاع میں رواں سال مئی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے اور دوسرے مرحلے میں کراچی، حیدرآباد میں 24 جولائی کو الیکشن ہونا تھے۔ تاہم طوفانی بارشوں اور سیلاب کے باعث الیکشن ملتوی کر کے نئی تاریخ 28 اگست دی گئی لیکن پھر 23 اکتوبر کو بلدیاتی الیکشن کرانے کا اعلان کردیا گیا اور اس تاریخ سے قبل ہی ایک مرتبہ پھر الیکشن ملتوی کر دیے گئے۔

    اس دوران سندھ حکومت نے بھی کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے جان چھڑانے کیلیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ساتھ اپنے اتحادیوں کو ملا لیا اور یکے بعد دیگرے پی پی پی اور اتحادیوں (بشمول ایم کیو ایم) کے اقدامات سے ایسا لگا کہ ان میں چاہے اندرونی لاکھ اختلافات ہوں لیکن کراچی میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کے فیصلے پر یہ تمام جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔

    پہلے وفاقی حکومت نے کراچی کے بلدیاتی الیکشن کے لیے سیکیورٹی دینے سے معذرت کر لی جس کے بعد اکتوبر میں ہونے والے الیکشن ملتوی ہوئے لیکن پھر سندھ حکومت نے اپنے داؤ پیچ کھیلے۔ پی پی کی سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کی جانب سے لکھے گئے خط کے جواب میں تین ماہ تک الیکشن نہ کرانے کا جواب دیا اور جواز دیا کہ اس وقت سندھ پولیس کی نفری سیلاب زدہ علاقوں اور اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے حوالے سے وہاں مصروف ہے اور الیکشن کے لیے 37 ہزار نفری چاہیے جو دستیاب نہیں۔ جب کہ اسی دوران ایم کیو ایم بھی حلقہ بندیوں اور بلدیاتی قانون میں ترامیم اور با اختیار میئر کے نام پر میدان میں رہی اور اس کا موقف رہا کہ حلقہ بندیوں کی درستی اور بلدیاتی قوانین میں ترامیم کے بغیر الیکشن بے سود ہوں گے۔

    ایک طرف پی پی کی سندھ حکومت اور اس کے اتحادیوں کے تاخیری حربے جاری تھے تو اس کے خلاف جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کھڑی تھیں جو بلدیاتی انتخابات کے بار بار التوا پر سندھ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کے فیصلے کے خلاف عدالت پہنچ گئیں۔ اس میدان میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کو کامیابی ملی اور سندھ ہائیکورٹ نے ان کی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے کراچی، حیدرآباد ڈویژن میں الیکشن کمیشن کو 3 دسمبر تک بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا۔ عدالت کے حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے سندھ حکومت کی بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے 15 جنوری 2023 کو کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن کرانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سیکرٹری داخلہ اور آئی جی سندھ کو بلدیاتی انتخابات کیلئے سیکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے متعلقہ اداروں کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی مکمل ہدایت کردی۔

    سندھ حکومت نے تو اپنی پوری کوشش کی کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے جتنا دور رہا جائے وہی اس کے لیے سیاسی طور پر بہتر ہوگا۔ اسی لیے تو کبھی سیلاب اور کبھی انتظامات نہ ہونے کے جواز گھڑے۔ پولیس کی نفری میں کمی، اسلام آباد میں پولیس نفری بھیجے جانے کا بہانہ کیا اور جب اس کو اندازہ ہوا کہ مزید یہ بہانے نہیں چلیں گے تو ایک قدم اور آگے آتے ہوئے بلدیاتی الیکشن کے التوا کے حوالے سے بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کرکے الیکشن کمیشن کے ہاتھ باندھنے کی کوشش کی اور اس کی کابینہ سے منظوری بھی لے لی گئی۔ بلدیاتی ایکٹ کی شق 34 کے تحت 120 دن کے اندر الیکشن کرانا تھے، سندھ حکومت کی جانب سے نئی ترمیم کے بعد یہ شق ہی ختم کردی گئی۔

    پیپلز پارٹی کی جانب سے عدالت اور الیکشن کمیشن کے فیصلے پر من وعن عمل کا بیان تو سامنے آیا ہے لیکن یہ سیاست ہے جہاں سامنے کچھ اور پس پردہ کچھ ہوتا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ سندھ حکومت اپنے اعلان پر قائم رہتے ہوئے بلدیاتی الیکشن کراتی ہے یا پھر کچھ نئی تاویلیں، بہانے تراش کر اسے پھر ملتوی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر جہاں سندھ حکومت نے بظاہر سر تسلیم خم کیا ہے وہیں ایم کیو ایم نے حسب سابق تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے الیکشن ملتوی کیے جانے کی درخواست سندھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ پہلے ہی مسترد کرچکی ہیں تو اس معاملے پر ایم کیو ایم کا عدالت جانے کا پھر کیا جواز بنتا ہے؟

    یہ درست ہے کہ بلدیاتی قانون میں میئر با اختیار نہیں اور نہ ہی متعلقہ ادارے اس کے پاس ہیں جب کہ حلقہ بندیوں پر بھی ایم کیو ایم کا اعتراض جائز ہے کہ کہیں چند ہزار تو کہیں لاکھ کے لگ بھگ ووٹرز پر حلقہ بندیاں من پسند حلقوں میں کی گئی ہیں لیکن سوال تو یہی ہے کہ یہ حلقہ بندیاں کسی باہر والے نے تو نہیں کیں پی پی نے ہی کی ہیں میئر کے اختیارات کا گلا بھی پی پی نے گھونٹا ہے تو پھر ایم کیو ایم پی پی کے ساتھ کیوں بیٹھی ہے بے شک اس کے پاس سندھ کی وزارتیں نہیں لیکن کہلائے گی تو وہ اتحادی ہی۔ بلدیاتی معاملات پر روز مذاکرات اور روز ناکامی کے بعد ایم کیو ایم کی جانب سے حکومت سے نکلنے کے بیانات آئے روز دہرائے جاتے ہیں لیکن اس پر عمل ہوتا نہ دیکھ کر اب اس کے ووٹرز بھی ایم کیو ایم کے تحفظات پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے کیونکہ ایم کیو ایم کا ووٹرز چند ماہ قبل یہ تماشا بھی دیکھ چکا تھا کہ پی ڈی ایم حکومت کا حصہ بننے سے صرف چند روز قبل ہی ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے خلاف سخت سراپا احتجاج تھی اور یہاں کی پوری قیادت وہاں کی پوری قیادت کو ملامت کر رہی تھی پھر اچانک راتوں رات موقف کی تبدیلی اور یوٹرن نے عوام کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا۔

    الیکشن کے اعلان کے ساتھ ہی بلدیاتی میدان میں موجود جماعتوں نے اپنی تیاریاں شروع کردی ہیں اور آئندہ چند روز یا اگلے ماہ تک بلدیاتی الیکشن کے لیے شہر کا سیاسی ماحول گرم ہونے کی توقع ہے اب کس کے سر میئر کراچی کا تاج سجے گا یہ فیصلہ تو 15 جنوری کو ہی ہوگا لیکن اس سے پہلے جو شور مچے گا عوام کو اس کی تیاری کرنی چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتیں میدان میں ہوں گی اور عوام کو دینے کے لیے لالی پاپ ہوں گے۔ اس مرحلے پر شہر کراچی کے باسیوں کو بھی سیاسی نعروں کے فریب میں آنے کے بجائے دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنا ہوگا۔

    اس وقت کراچی بے شمار مسائل کا شکار ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ حکومتوں کی عدم توجہی، سیاسی منافرت اور بندر بانٹ نے روشنیوں کے شہر کو مسائلستان بنا دیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی شہ رگ کی یہ حالت ہے کہ شہر کی تقریباً ہر سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور کئی علاقے کھنڈر بنے ہوئے ہیں۔ شہریوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔ صفائی کا نظام تو لگتا ہے کہ یہاں سے ختم ہی کیا جاچکا ہے ہر سڑک اور گلی کچرا کنڈی کا منظر پیش کرتی نظر آتی ہے۔ ناقص سیوریج نظام سے آئے دن کوئی نہ کوئی سڑک یا علاقہ جوہڑ میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ پارکس، بچوں کے کھیل کے میدان، ٹریفک کے نظام بھی توجہ کے طالب ہیں۔

    کراچی کو درپیش مسائل اس وقت حل ہوں گے جب بلدیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ یہاں رہنے والے تمام شہری ذاتی غرض کے دائرے سے نکل کر اجتماعی بہبود کے لیے سوچیں گے اور اس شہر کو اپنا شہر سمجھیں گے۔ شہر کراچی کے باسی 15 جنوری کو پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے سے قبل اپنے شہر کے مذکورہ تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ کا حق استعمال کریں گے تب ہی وہ کراچی کو ایک بار پھر روشنیوں، رنگوں اور امنگوں کا شہر بنانے کی کوشش میں کامیاب ہوں گے۔

  • کراچی  میں بلدیاتی الیکشن ایک بار پھر ملتوی ہونے کے امکانات

    کراچی میں بلدیاتی الیکشن ایک بار پھر ملتوی ہونے کے امکانات

    کراچی : سندھ کابینہ نے کراچی ڈویژن میں بلدیاتی الیکشن مزید تین ماہ تاخیر کرانے کی تجویز منظور کرلی اور الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی ڈویڑن میں بلدیاتی الیکشن ایک بار پھر ملتوی ہونے کے امکانات ہیں ، سندھ کابینہ نے مزید نوے روز کی تاخیر سے الیکشن کرانے کی تجویز منظور کرلی۔

    کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے بلدیاتی ایکٹ 2013 کے اختیارات کے تحت 90 روز تاخیر کی تجویز کی منظوری دی۔

    سندھ کابینہ سے تجویز کی منظوری کے بعد سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا ہے۔

    یاد رہے سندھ میں بلدیاتی الیکشن ملتوی کرانے کے لیے سندھ حکومت کی جانب سے قانونی رکاوٹ بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم بھی کردی گئی تھی ، ایکٹ میں ترمیم سندھ کابینہ سے سرکولیشن سمری کے منظوری لی گئی۔

    بلدیاتی ایکٹ کی شق 34کے تحت 120 دن کے اندر الیکشن کرانا تھے، سندھ حکومت کی جانب سے نئی ترمیم کےبعد یہ شق ختم کردی۔

    آر آر وائی کے رپورٹر کے مطابق محکمہ داخلہ پولیس نے رپورٹ دی موجودہ حالات بلدیاتی الیکشن کیلئے سازگار نہیں ہے، جس کی وجہ سے شق 34 میں ترمیم کی سرکولیشن سمری کی منظور لی گئی۔

  • کراچی اور حیدرآباد  میں بلدیاتی الیکشن چھٹی دفعہ ملتوی کرنےکی راہ ہموار

    کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن چھٹی دفعہ ملتوی کرنےکی راہ ہموار

    کراچی: کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن چھٹی دفعہ بھی ملتوی ہونے کا امکان ہے۔

    سندھ میں بلدیاتی الیکشن ملتوی کرانے کے لیے سندھ حکومت کی جانب سے قانونی رکاوٹ بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کردی گئی، ایکٹ میں ترمیم سندھ کابینہ سے سرکولیشن سمری کے منظوری لے لی گئی ہے۔

    بلدیاتی ایکٹ کی شق 34کے تحت 120 دن کے اندر الیکشن کرانا تھے، سندھ حکومت کی جانب سے نئی ترمیم کےبعد یہ شق ختم کردی گئی۔

    آر آر وائی کے رپوٹر کے مطابق محکمہ داخلہ پولیس نے رپورٹ دی موجودہ حالات بلدیاتی الیکشن کیلئے سازگار نہیں ہے، جس کی وجہ سے شق 34 میں ترمیم کی سرکولیشن سمری کی منظور لی گئی۔

    محکمہ داخلہ کا کہنا ہے کہ کراچی میں بلدیاتی الیکشن کے لیے پولیس فورس کی مطلوبہ تعداد دستیاب نہیں ہیں، آئیڈیاز بین الاقوامی نمائش،کورونا ویکسی نیشن کیلئے پولیس فورس تعینات ہے۔

    محکمہ داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ حساس پولنگ اسٹیشن کے لیے اہلکار مطلوبہ تعداد میں موجودنہیں ہیں، جس کی وجہ سے شق میں ترمیم کی گئی۔

  • سندھ حکومت کی کراچی کے بلدیاتی الیکشن 2 مراحل میں کرانے کی تجویز

    سندھ حکومت کی کراچی کے بلدیاتی الیکشن 2 مراحل میں کرانے کی تجویز

    کراچی: سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کے بلدیاتی الیکشن 2 مراحل میں کرانے کی تجویز سامنے آ گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت کراچی کے بلدیاتی انتخابات دو مراحل میں کرانا چاہتی ہے، اس سلسلے میں الیکشن کمیشن تک تجاویز پہنچا کر رائے مانگی جائے گی۔

    یہ تجویز پولیس نفری کی سیلاب زدہ علاقوں میں موجودگی کے سبب سامنے آئی ہے، تجویز کے مطابق پہلے میسر اہل کار ایک مرحلے میں تعینات کیے جائیں گے، دوسرے مرحلے میں پھر انھی اہل کاروں کو تعینات کیا جائے گا۔

    تجویز میں کہا گیا ہے کہ 2 مراحل میں الیکشن کرانے سے سندھ حکومت کو سہولت ہوگی۔

    وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ نے اس سلسلے میں آج نئے گورنر سندھ کامران ٹیسوری سے ملاقات میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے احکامات پر سندھ حکومت کراچی اور حیدر آباد میں بلدیاتی الیکشن کے لیے تیار ہے۔

  • جامشورو اور دادو کے ڈپٹی کمشنرز نے بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ناممکن قرار دے دیا

    جامشورو اور دادو کے ڈپٹی کمشنرز نے بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ناممکن قرار دے دیا

    کراچی : جامشورو اور دادو کے ڈپٹی کمشنرز نے سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث ضلعوں میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ناممکن قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کے انعقاد کے حوالے سے ڈی سی جامشورو اور دادو نے الیکشن کمیشن کو آگاہ کردیا۔

    دونوں اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث ضلع جامشورو اور دادو میں الیکشن کا انعقاد ناممکن قرار دے دیا۔

    الیکشن کمیشن نے حیدرآباد ڈویژن میں بلدیاتی الیکشن سے متعلق رپورٹ طلب کی تھی ،ڈپٹی کمشنر دادو اور جامشورو نے صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا۔

    ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ ضلع دادو اور جامشورو سیلاب سے متاثر ہے ،دادو کی 66 یونین کونسل اس وقت پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں جبکہ سیلاب سے آٹھ ملین آبادی متاثر اور چار ملین دادو سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔

    رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انڈس ہائی وے سہیون ضلع جامشورو سے دادو ، کے این شاہ سے مہیڑ پر کئی فٹ پانی موجود ہے جبکہ تعلقہ دادو ، مہیڑ اور جوہی مکمل زیر آب ہیں جسکے باعث لوگوں اور انفرسٹکچر کی مکمل بحالی تک الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں۔

    ڈپٹی کمشنرز کا کہنا ہے کہ الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی جاسکتی تاہم چار مہینے بعد پھر صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔