Tag: بلدیاتی انتخابات

  • کراچی میں بلدیاتی انتخابات : وزارت داخلہ کی حساس پولنگ اسٹیشنز پر ایف سی تعینات کرنےکی ہدایت

    اسلام آباد : وزارت داخلہ نے کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں حساس پولنگ اسٹیشنز پر ایف سی تعینات کرنے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر وزارت داخلہ نے حساس پولنگ اسٹیشنز پر ایف سی تعینات کرنے کی ہدایت کردی۔

    وزارت داخلہ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے فرنٹیئر کانسٹبلری کی اسٹیٹک تعیناتی کی درخواست کی تھی ، تعیناتی کی تاریخ اور علاقے پر مشاورت کی جائے گی۔

    وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت الیکشن کمیشن ، فرنٹیر کانسٹیبلری سے مشاورت کریں گے ، ایف سی اہلکاروں کی پولنگ اسٹیشنز کے باہر اسٹیٹک تعیناتی کی جائے گی۔

    الیکشن کمیشن نے 2 ہزار 3 سو سے زائد پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا ہے۔

    وزارت داخلہ نے بلدیاتی انتخابات میں فوج اور رینجرز اہلکاروں کی اسٹیٹک تعیناتی سے معذرت کی تھی اور سیکریٹری الیکشن کمیشن کووزارت داخلہ نے خط لکھ کر آگاہ کیا تھا۔

    وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ فوج اوررینجرزکی تعیناتی کامعاملہ جی ایچ کیوکےساتھ اٹھایا، اتنی بڑی تعدادمیں اسٹیٹک تعیناتی ممکن نہیں۔

    خط میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن 500 حساس پولنگ اسٹیشنزکی نشاندہی کرے، 500حساس پولنگ اسٹیشن کے باہر رینجرز کی اسٹیٹک تعیناتی کی جاسکتی ہے۔

  • بلدیاتی انتخابات : کراچی میں انتخابی سامان کی ترسیل الیکشن کمیشن کے فیصلے سے مشروط

    کراچی : کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کے لئے انتخابی سامان کی ترسیل الیکشن کمیشن کے فیصلے سے مشروط کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابنق سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لئے انتخابی مواد کی پولنگ اسٹیشنز پر ترسیل میں تاخیر کا امکان ہے۔

    کراچی اور حیدرآباد میں انتخابی سامان کی ترسیل الیکشن کمیشن کے فیصلے سے مشروط کردی گئی ہے۔

    حکومت کی جانب سے سیکیورٹی کی فراہمی کی معذرت کے بعد کمیشن کا اجلاس ایک بجے ہوگا، اجلاس کے بعد کراچی کے 7اضلاع میں انتخابات کا حتمی فیصلہ ہوگا۔

    ذرائع کے مطابق سینئر افسران کی مصروفیت کے باعث فیلڈ افسران تذبذب کا شکار ہے ، انتخابی مواد ترسیلی مراکز پر پہنچا دیا گیا تاہم عملے کو اجلاس کے فیصلے تک سینٹر چھوڑنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ انتخابی مواد حساس ہے، اسے پولنگ اسٹیشنز پر محفوظ طریقے سے پہنچانے کیلیے بھاری سیکیورٹی کی ضرورت ہے۔

  • بلدیاتی انتخابات: ایم کیو ایم نے رابطہ کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا

    کراچی اور حیدرآباد میں کل ہونے والے بلدیاتی انتخابات اور موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر کے حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے اجلاس طلب کر لیا۔

    ذرائع کے مطابق رابطہ کمیٹی اجلاس کی صدارت ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کریں گے، اجلاس میں سیاسی صورتحال، بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سندھ حکومت کے لکھے گئے خط سمیت دیگر امور پر غور ہوگا۔

    ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں گذشتہ روز خالد مقبول سے کیے گئے وزیراعظم، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے رابطوں اور یقین دہانی پر مشاورت ہوگی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں خالد مقبول رات گئے گورنر ہائوس میں گورنر سندھ سے ہونے والی ملاقات پر بھی رابطہ کمیٹی کو اعتماد میں لیں گے۔

    آج شام ایم کیو ایم قیادت شہر کے دورے پر نکلے گی،  وسیم اختر، ڈاکٹر فاروق ستار  مصطفی کمال، انیس قائم خانی اور عبدالوسیم شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کریں گے اور عوام سے ملاقات کریں گے۔

  • سندھ حکومت کی الیکشن کمیشن سے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی پھر سفارش

    کراچی: سندھ حکومت نے کل بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے سفارش کیلئے الیکشن کمشنر کو ایک اور خط لکھ دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کو ایک اور خط لکھ دیا جس میں حیدرآباد اور کراچی میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی پھر سفارش کی ہے۔

    سندھ حکومت نے خط میں لکھا کہ ممکنہ دہشت گردحملے کے خدشات کو رد نہیں کیا جاسکتا، آرمی اور رینجرز کی مطلوبہ تعداد میسر نہیں ہوگی اس لیے بلدیاتی الیکشن ملتوی کی جائے۔

    سندھ حکومت کے خط کا جائزہ لینے کیلئے الیکشن کمیشن نے اعلیٰ سطح اجلاس طلب کرلیا ہے جس میں سندھ حکومت کے خدشات پر غور کیا جائے گا۔

    حکومت سندھ نے 16 میں سے 8 اضلاع میں انتخابات کے التوا کی تجویز دی ہے، جس میں کراچی کے 7 اور حیدر آبادکے ایک ضلع میں الیکشن ملتوی کرنےکی سفارش کی گئی ہے۔

  • ’آئین میں سپریم کورٹ کی زیادہ اہمیت ہے یا الیکشن کمیشن کی؟‘ فاروق ستار

    کراچی: ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار کا کہنا ہے کہ آئین میں سپریم کورٹ کی زیادہ اہمیت ہے یا الیکشن کمیشن کی، سندھ بلدیاتی الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں فاروق ستار اور فیصل سبزواری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت خود اعتراف کررہی اور حلقہ بندیاں ٹھیک کرنے کے لیے تیار ہے، یہ پریس کانفرنس نہ توہین الیکشن کمیشن ہے اور نہ ہی توہین عدالت ہے۔

    سیکشن 9 کو الیکشن کمیشن نے استعمال کیا ہے جو لاگو نہیں

    ہوتا، فروغ نسیم

     فروغ نسیم نے کہا کہ سیکشن 9 کو الیکشن کمیشن نے استعمال کیا ہے جو لاگو نہیں ہوتا پھر بھی بلدیاتی الیکشن ہوتے ہیں تو اس کی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔

    انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ہماری درخواست کو کاپی پیسٹ کیا ہے ہم بات کراچی کے حقوق کی کررہے ہیں، سندھ حکومت کے آرڈر کا مطلب ہے آج کی تاریخ میں کوئی حلقہ بندی نہیں سپریم کورٹ کے کہنے پر سندھ حکومت کو ہم نے قائل کرنے کی کوشش کی جب قائل کیا تو سندھ حکومت نے ٹین ون کا آرڈر پاس کیا۔

    فروغ نسیم نے کہا کہ 31 دسمبر 2021 کو سندھ حکومت نے بہت سی یوسیز بنائی تھیں ان بنائی گئی یوسیز کی آبادی صحیح نہیں تھی، حلقہ بندیوں میں ایم کیو ایم کے ووٹرز کو ڈاؤن سائز کیا گیا جہاں ہمارا ایک ووٹر تھا دوسرے حلقے میں وہاں تین ووٹر تھے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مہاجر آبادی کے ووٹ کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی ہم نے عدالتوں میں بروقت درخواست دائر کی تھی سپریم کورٹ میں جب ہم گئے اور ہماری بات سنی، سپریم کورٹ نے سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کہا تھا۔

    الیکشن کمیشن سے ایم کیو ایم بھاگ نہیں رہی بلکہ کراچی سے آپ کو بھگائے گی، فیصل سبزواری

    فیصل سبزواری نے کہا کہ الیکشن کمیشن سے ایم کیو ایم بھاگ نہیں رہی بلکہ کراچی سے آپ کو بھگائے گی امیدواروں کے کارناموں کے سبب صرف عمران خان کی تصاویر لگا رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ دوسری جماعت کراچی میں اپنے امیر تک کی تصاویر نہیں لگا پارہی ہے موجودہ حلقہ بندیوں میں آئین کی خلاف ورزی ہورہی تھی۔

    ایم کیو ایم رہنما نے کہا کہ متنازع حلقہ بندیوں کے خلاف جنگ کو آخری سطح تک لے کر جائیں گے۔

  • کراچی کے بلدیاتی انتخابات: حکومت کی حساس پولنگ اسٹیشنز پر فوج اور رینجرز تعینات کرنے سے معذرت

    اسلام آباد : وزارتِ داخلہ نے کراچی اور حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات میں حساس پولنگ اسٹیشنوں پر فوج اور رینجرز کی تعیناتی سے معذرت کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ بلدیاتی انتخابات سے متعلق وزارت داخلہ نے سیکرٹری الیکشن کمیشن کو خط کا جواب دے دیا ہے، جس میں 15 جنوری کو حساس پولنگ اسٹیشنز کے باہر پاک فوج اور ریجنرز تعیناتی کی درخواست کی گئی ہے۔

    جواب میں کہا گیا کہ پولنگ اسٹیشنز کے باہر پاک فوج اور رینجرز کی اسٹیٹک تعیناتی کے معاملہ حکومت کی جانب سے جی ایچ کیو کے ساتھ اٹھایا گیا کہ حساس ترین پولنگ اسٹیشنوں پر تعیناتی کیلئےبیس ہزاراہلکار درکار ہوں گے۔

    وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ جی ایچ کیو نے کہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اہلکار فراہم نہیں کرسکتے، صوبائی محکمہ داخلہ ، پولنگ اسٹیشن پر پہلے درجے یا اسٹیٹک تعیناتی پر پولیس/ مطلوبہ دستے فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے، سول ارمڈ فورسز اور پاک فوج صرف دوسرے یا تیسرے مرحلے پر بطور کوئیک رسپانس فورس تعینات کی جا سکتی ہے۔

    وزارت داخلہ کے خط میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے ہی 8 ہزار 924 پولنگ اسٹیشنز کو حساس یا انتہائی حساس ڈکلیئر کیا ہے۔ کسی پولنگ اسٹیشن کو نارمل ڈکلیر نہیں کیا گیا۔

    خط میں بتایا گیا کہ اس وقت فوج سرحدوں اور اندرونی سیکیورٹی پر تعینات ہے، 2ہزار 395 انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنز کے باہر اسٹیٹک تعیناتی کے لیے 20 ہزار فوج اور رینجرز کو فراہم نہیں کیا جا سکتا، آرمی اور رینجرز بطور دوسرے اور تیسرے درجے تعیناتی کے لیے دستیاب ہوں گی، جس کا نوٹیفیکشن وزارت داخلہ پہلے ہی کر چکی ہے۔

  • کراچی میں بلدیاتی انتخابات 15 جنوری کو ہی ہوں گے ، ایم کیو ایم کی درخواست مسترد

    اسلام‌ آباد : الیکشن کمیشن نے کراچی اور حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق ایم کیو ایم کی درخواست مسترد کردی اور کہا بلدیاتی انتخابات 15 جنوری کو ہی ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن نے کراچی اور حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنا دیا۔

    فیصلے میں الیکشن کمیشن نے ایم کیو ایم کی درخواست مسترد کرتے ہوئے جماعت اسلامی کی استدعا منظور کرلی جبکہ انتخابات کے التوا کےلئے سندھ حکومت کا مؤقف بھی مسترد کردیا۔

    الیکشن کمیشن کا 15 جنوری کو کراچی اور حیدرآبادکےبلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا بلدیاتی انتخابات پرانی ووٹرز لسٹوں پر ہی ہوں گے۔

    ایم کیو ایم نے بلدیاتی الیکشن روکنے کیلئے سندھ ہائی کورٹ میں حکم امتناع کی درخواست دائر کی تھی ، جس پر عدالت نے حکم امتناع جاری کرنے سے انکار کردیا۔

    خیال رہے جماعت اسلامی نے ہر صورت 15 جنوری کو انتخابات کرانے کی استدعا کی تھی۔

  • کراچی میں 15  جنوری کو بلدیاتی انتخابات ہوں گے یا نہیں؟   فیصلہ آج ہوگا

    کراچی میں 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات ہوں گے یا نہیں؟ فیصلہ آج ہوگا

    اسلام آباد : الیکشن کمیشن کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق درخواستوں پر آج فیصلہ سنائے گا، جمعہ کو درخواستوں پر سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے کراچی میں بلدیاتی انتخابات سےمتعلق ایم کیوایم، جماعت اسلامی اور سندھ حکومت کی درخواستوں پرآج فیصلہ سنایا جائے گا۔

    چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت 3رکنی کمیشن صبح 10بجے محفوظ فیصلہ سنائے گا۔

    الیکشن کمیشن نے کاز لسٹ جاری کردی ، جس کے مطابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی سینیٹ کی خالی نشست سےمتعلق بھی آج فیصلہ سنایا جائے گا۔

    یاد رہے سندھ حکومت اور ایم کیو ایم کی جانب سے بلدیاتی الیکشن کے التوا جب کہ جماعت اسلامی نے انتخابات طے شدہ تاریخ پر کرانے کی درخواستیں دائر کی تھیں، جس پر الیکشن کمیشن نےجمعہ کو درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    اس موقع پر چیف الیکشن کمشنر سلطان سکندر راجا نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات وقت پر کرانے کیلئے حکومتوں کو خط لکھے ہیں۔ لیکن سیاسی جماعتوں کی بلدیاتی انتخابات وقت پر کرانے پر توجہ نہیں اور بلدیاتی انتخابات سے قبل قوانین تبدیل کرکے ہاتھ باندھے جاتے ہیں۔ اس پر اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ اور وفاق کو بھی وضاحت کیلیے خط لکھے ہیں۔

    واضح رہے الیکشن کمیشن کی جانب سے کراچی میں 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا جا چکا ہے۔

  • بلدیاتی انتخابات:  روایتی گہماگہمی کا فقدان،’ منقسم’ ایم کیو ایم کے اتحاد کی کوششیں

    بلدیاتی انتخابات: روایتی گہماگہمی کا فقدان،’ منقسم’ ایم کیو ایم کے اتحاد کی کوششیں

    سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق 15 جنوری یعنی آئندہ اتوار کو ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن ہو رہے ہیں تاہم اس مرتبہ انتخابی سیاست کے لیے روایتی گہما گہمی نظر نہیں‌ آرہی ہے۔

    بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں گزشتہ سال جون میں اندرون سندھ الیکشن ہوچکے اور دوسرے مرحلے میں کراچی اور حیدرآباد میں گزشتہ سال 24 جولائی کو الیکشن ہونے تھے۔ تاہم طوفانی بارشوں اور سیلاب کے باعث انہیں ملتوی کرکے نئی تاریخ 28 اگست دی گئی اور اس کے بعد پھر متعدد بار الیکشن ملتوی کیے گئے۔ حکومت سندھ کے اس اقدام کے خلاف جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی عدالت گئیں اور عدالتی حکم پر اب 15 جنوری کو الیکشن متوقع ہے۔ لیکن اب بھی ایم کیو ایم کی جانب سے التوا کی درخواست الیکشن کمیشن میں ہے جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے اور پیر کے روز سنایا جائے گا۔ اب تک اس فیصلے کو نہ سنائے جانے کے باعث بھی ابہام پیدا ہو رہا ہے۔

    کراچی جو کہنے کو تو ملک کا سب سے بڑا شہر معاشی حب ہے جو پاکستان کو 65 فیصد سے زائد ریونیو فراہم کرتا ہے لیکن ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اس شہر کو ہر دور میں نظر انداز کرتے ہوئے اس کا جائز حق نہیں دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روشنیوں کا شہر کراچی آج ان گنت مسائل سے دوچار ہے اور ان تمام مسائل کا تعلق بلدیاتی اداروں سے ہی جڑا ہے۔

    گزشتہ بلدیاتی دور ایم کیو ایم کے میئر وسیم اختر کا دور تھا لیکن بدقسمتی سے وہ دور شہر کراچی کی فلاح و بہبود کے لیے موثر اور عملی اقدامات کے بجائے صرف اقتدار اور اختیار نہ ہونے کا رونا روتے ہوئے گزار دیا گیا اور کوئی میگا پراجیکٹ اس شہر کو نہیں دیا گیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جس جماعت پر شہر کراچی کے حقوق غصب اور بلدیاتی اداروں کو بے اختیار کرنے کا الزام عائد کیا گیا ایم کیو ایم نے گزشتہ سال اسی سیاسی جماعت سے پانچویں بار اتحاد کیا۔

    بلدیاتی نمائندوں کی مدت 2020 میں ختم ہوگئی تھی جس کے بعد سے ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حب کراچی کو بغیر منتخب نمائندوں کے عارضی بنیادوں ایڈمنسٹریٹرز تعینات کر کے چلایا جا رہا تھا۔ اب جب کہ عدالتی حکم پر الیکشن کے انعقاد میں 7 دن باقی رہ گئے ہیں لیکن لگ ہی نہیں رہا ہے کہ کراچی میں آئندہ ہفتے کوئی بڑا انتخابی معرکہ ہونے جا رہا ہے۔ ایسا غالباً پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں بلدیاتی الیکشن ہونے جا رہے ہوں اور ان میں سات دن سے بھی کم کا وقت ہو لیکن روایتی انتخابی گہما گہمی کہیں نظر نہیں آ رہی ہو۔ اگر کسی حد تک کوئی انتخابی سرگرمیاں نظر آرہی ہیں تو وہ صرف جماعت اسلامی کی ہیں جب کہ شہر کی سب سے بڑی جماعت ہونے کی دعوے دار ایم کیو ایم کی سرگرمیاں صرف الیکشن کے التوا کے لیے کمیشن میں درخواست تک ہیں۔

    بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے دوران ہی دو ماہ قبل ایم کیو ایم کے نامزد گورنر سندھ کا عہدہ سنبھالنے والے کامران ٹیسوری سیاسی طور پر بہت سرگرم ہیں اور ان کی تمام کوششیں ایم کیو ایم کے منقسم دھڑوں کو متحد کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ یہ سلسلہ گزشتہ سال کے آخر میں شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ نیا سال شروع ہوتے ہی کراچی کے عوام اس حوالے سے خوشخبری سنیں گے لیکن اب تک رابطوں، ملاقاتوں اور رسمی بیانات کے علاوہ کوئی بڑی پیش رفت نظر نہیں آئی۔

    ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران گورنر سندھ ایم کیو ایم پاکستان سمیت پی ایس پی، ڈاکٹر فاروق ستار، آفاق احمد سے ملاقاتیں کر چکے ہیں اور گزشتہ کئی سال سے ایک دوسرے کے خلاف ان جماعتوں کے رہنما بھی ایک دوسرے سے ملاقاتیں کر رہے ہیں لیکن جس اتحاد کی بازگشت گزشتہ ماہ سنائی دی تھی اور خوشبری سال شروع ہوتے ہی ملنے کی نوید دی گئی تھی وہ خوشخبری اب تک سنائی نہیں دی ہے۔

    شہری سیاست کے واقفان حال کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے کچھ رہنما اس ادغام کے خلاف ہیں جو کھل کر سامنے نہیں آ رہے لیکن انہیں ایک بھی نہیں ہونے دے رہے جس کے باعث اب تک کوئی حتمی منظر نامہ سامنے نہیں آیا ہے۔ ادھر مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ شہری مسائل اور حلقہ بندیوں پر ایم کیو ایم کے ساتھ ہیں لیکن وہ متحدہ قومی موومنٹ کا حصہ نہیں بن رہے ہیں۔ یعنی اتحاد کی بیل ابھی منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔

    پیپلز پارٹی جو کچھ عرصہ پہلے تک بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے کترا رہی تھی اور اس حوالے سے سندھ اسمبلی سے قانون سازی سمیت کئی اقدامات بھی کیے اور الیکشن کے التوا کے لیے کمیشن کو خطوط بھی لکھے لیکن اب نہ جانے چند دن میں کیا کایا پلٹ ہوئی کہ وہ مقررہ تاریخ پر الیکشن کرانے کی سب سے بڑی داعی بن کر سامنے آئی ہے اور اس معاملے پر پی پی پی اور ایم کیو ایم میں تلخیاں مزید بڑھتی جا رہی ہیں۔

    ایم کیو ایم جس کا کہنا ہے کہ وہ انتخابات سے نہیں بھاگ رہی اور نہ ہی کسی کے لیے میدان خالی چھوڑے گی بلکہ وہ حلقہ بندیوں پر معترض ہے کیونکہ حلقہ بندیاں پی پی کی سندھ حکومت نے اپنے ذاتی سیاسی مفادات کو مدنظر رکھ کر کی ہیں تاکہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔ ایم کیو ایم کے اس الزام کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ بلاول بھٹو سمیت کئی یی پی سیاسی رہنما ببانگ دہل یہ اعلان کرچکے ہیں کہ اس بار کراچی کا میئر جیالا ہوگا اگر ایسا ہوا تو یہ کراچی کی تاریخ میں پہلی بار ہوگا۔

    نئی حلقہ بندیوں تک بلدیاتی الیکشن کے التوا پر ایم کیو ایم کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے جب کہ ایم کیو ایم نے 11 جنوری کو اس حوالے سے احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے جس میں اس نے شرکت کے لیے پی ایس پی، مہاجر قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی کو بھی دعوت دی تاہم پی ایس پی اور مہاجر قومی موومنٹ نے تو شرکت کی یقین دہائی کرائی تاہم جماعت اسلامی نے اس معاملے پر ایم کیو ایم کو ہرا جھنڈا دکھانے کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں متحدہ رہنماؤں کو آئینہ بھی دکھا دیا۔

    بلدیاتی انتخابات کے حوالے اب تک جماعت اسلامی ہی متحرک نظر آنے والی ہی واحد سیاسی جماعت نظر آ رہی ہے باقی سب جماعتیں زبانی کلامی باتیں کرتی سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔ جماعت اسلامی کے شہر بھر میں بلدیاتی الیکشن کے لیے سیاسی دفتر کھلے ہوئے ہیں۔ انتخابی مہم بھی جاری ہے۔ اس کے نمائندے عوام سے رابطے بھی کر رہے ہیں جب کہ یہ بلاگ لکھے جانے تک جماعت اسلامی نے شہر قائد کے لیے اعلان کراچی کے نام سے ایجنڈا جاری کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

    اس کے برخلاف گزشتہ عام انتخابات میں کراچی سے ایم کیو ایم کو بڑا نقصان پہنچانے والی پاکستان تحریک انصاف بھی بلدیاتی انتخابات کے لیے اس طرح سرگرم نظر نہیں آتی جس طرح کہ یہ بلدیاتی انتخابات تقاضہ کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے عدالت ضرور گئی لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان انتخابات کے لیے اس کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہے اور اس کی توجہ صرف اعلیٰ ایوانوں کی سیاست پر مرکوز ہے۔

    پیپلز پارٹی کے پاس بھی صرف سیاسی دعوے اور بیانات ہیں یا پھر سندھ کی حکومت باقی زمینی حقائق کے مطابق پی پی پی بھی باضابطہ سیاسی طور پر انتخابی سرگرمی شروع نہیں کرسکی ہے۔

    ایم کیو ایم جو خود کو شہر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کہتی رہی ہے اور ماضی کے انتخابی نتائج اٹھا کر دیکھا جائے تو یہ بات 100 فیصد درست بھی ہے لیکن ایم کیو ایم کا حال اب ماضی جیسا قطعی نہیں اور اس کا بھرپور اندازہ اور مشاہدہ خود ایم کیو ایم کو بھی ہے۔ ایم کیو ایم رہنماؤں کی جانب سے کسی بھی امیدوار کے لیے میدان کھلا نہ چھوڑنے کے اعلانات کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ کا انتخابی مہم چلانے کے حوالے سے جو خاصہ رہا ہے وہ اس بار کہیں نظر نہیں آ رہا ہے اور اس کا اولین خواہش تو الیکشن کا التوا ہے۔

    تحریک لبیک پاکستان جو کراچی کی سیاست میں چند سال سے فعال نظر آ رہی ہے اور سندھ اسمبلی میں بھی اس کے نمائندے موجود ہیں۔ گزشتہ سال قومی اسمبلی کے ایک ضمنی الیکشن میں بھی اس نے ایم کیو ایم کو کافی ٹف ٹائم دیا تھا لیکن اس کیمپ میں بھی ہنوز خاموشی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ باقی دیگر جماعتیں جس میں پی ایس پی، مہاجر قومی موومنٹ، ڈاکٹر فاروق ستار ودیگر شامل ہیں تو گزشتہ انتخابات میں ان کی کارکردگی دیکھ کر ان کا سرگرم ہونا نہ ہونا برابر محسوس ہوتا ہے۔

    دوسری جانب صرف سیاسی جماعتیں ہی نہیں اس بار کراچی کے شہری بھی گم سم لگتے ہیں اور ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ شہر قائد کے باسی الیکشن کے بارے میں اس قدر لاعلم ہیں کہ انہیں اپنے حلقوں سے کھڑے ہونے والے بلدیاتی نمائندوں کے بارے میں بھی علم نہیں ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ بلدیاتی انتخابات کے کئی بار التوا نے ان کی دلچسپی ختم کر دی لیکن اکثریت کی رائے ہے کہ ہر روز بڑھتی مہنگائی، بیروزگاری نے عوام کو ان معاملات سے دور کر دیا ہے اور جس طرح سے خاص طور پر گزشتہ 8 ماہ میں ملک کے سیاسی معاملات چلائے گئے ہیں اس سے عوام کی اکثریت سیاست اور سیاستدانوں سے بدظن نظر آتی ہے۔

    سیانے کہتے ہیں خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ انتخابی میدان میں اس طرح کی خاموشی کیا رنگ لائے گی اس کا نتیجہ تو آئندہ ہفتے 15 جنوری کی شام کو ظاہر ہو گا۔ تاہم شہر قائد کے باسی اب نعروں کے بجائے اپنی اور شہر کی حالت کی بہتری کے لیے عملی اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام اپنے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے کس قیادت کا انتخاب کرتے ہیں؟

  • بلدیاتی انتخابات پر پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی میں رابطہ

    کراچی: بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی میں رابطہ ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی بدلتی سیاسی صورت حال کے منظرنامے میں پاکستان تحریک انصاف نے جماعت اسلامی سے رابطہ کیا ہے، پی ٹی آئی کے پارلیمانی رہنما خرم شیر زمان نے حافظ نعیم الرحمٰن کو فون کر کے مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا۔

    خرم شیرزمان نے فون پر کہا کہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ہمیں مل کر حکمت عملی بنانی چاہیے۔

    حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے کسی کو بھاگنے نہیں دیں گے، جماعت اسلامی نے گراؤنڈ پہ رہ کر کراچی کے مسائل کے حوالے سے جدوجہد کی، اور ہم بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کسی ابہام کا شکار نہیں ہیں۔

    خرم شیر زمان نے کہا کہ پی ٹی آئی سندھ کی قیادت حافظ نعیم الرحمٰن سے ملاقات پر غور کر رہی ہے، بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

    ذرائع جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ دونوں طرف کی قیادت آپس کے مشورے کے بعد مشترکہ حکمت عملی کی طرف جا سکتی ہیں، تاہم تحریک انصاف کو بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ابہام سے نکلنا ہوگا۔