Tag: بلدیہ

  • ذاتی دشمنی؟ گلشن غازی اور بلدیہ میں دو افراد فائرنگ سے جاں بحق

    ذاتی دشمنی؟ گلشن غازی اور بلدیہ میں دو افراد فائرنگ سے جاں بحق

    کراچی: شہر قائد کے دو مختلف علاقوں میں گزشتہ رات دو افراد کو فائرنگ کر کے جانوں سے محروم کر دیا گیا، پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں واقعات ذاتی دشمنی کا شاخسانہ معلوم ہوتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے اتحاد ٹاؤن، گلشن غازی میں فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق اور ایک زخمی ہو گیا ہے، مقتول کی شناخت 35 سالہ حبیب رحیم کے نام سے ہوئی ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ فائرنگ کا واقعہ ذاتی دشمنی کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے، لاش اور زخمی کو قریبی اسپتال منتقل کیا گیا، ملزمان فائرنگ کے بعد فرار ہو گئے تھے، جائے وقوعہ سے گولیوں کے خول اور شواہد جمع کیے گئے ہیں۔

    پولیس کے مطابق عینی شاہدین کے بیان قلم بند کیے گئے ہیں، جب کہ قتل کی واردات کے بعد فرار ہونے والے ملزمان کی تلاش شروع کر دی گئی ہے۔


    اگلے 36 گھنٹوں کے دوران شہر کو 100 ملین گیلن پانی کی کمی ہوگی، ترجمان واٹر کارپوریشن


    دوسرا واقعہ کراچی کے علاقے بلدیہ سیکٹر 14 سی میں پیش آیا، جس میں فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق ہوا، جس کی شناخت 50 سالہ محمد ندیم کے نام سے ہوئی ہے، لاش اسپتال منتقل کر دی گئی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول سے کسی قسم کی لوٹ مار نہیں کی گئی، واقعہ ذاتی دشمنی کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے، جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھےکر لیے ہیں، اور واقعے کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات کی جا رہی ہے۔

  • ٹک ٹاکر کا قتل، ڈیڑھ ماہ بعد بھی ملزمان گرفتار نہ ہوسکے

    ٹک ٹاکر کا قتل، ڈیڑھ ماہ بعد بھی ملزمان گرفتار نہ ہوسکے

    کراچی: بلدیہ ٹاؤن میں قتل ہونے والے ٹک ٹاکر کو مارنے والوں کا سراغ نہ لگایا جاسکا، ڈیڑھ ماہ بعد بھی ملزمان گرفتارنہ ہوسکے۔

    تفصیلات کے مطابق ٹک ٹاکر انس کو گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا جس کے بعد اب تک ملزمان کو پکڑنے کے حوالے سے کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوسکی ہے، ملزمان کی عدم گرفتاری پر مقتول ٹک ٹاکر کے اہلخانہ نے پولیس کے اعلیٰ افسران سے ملاقات کی۔

    اہلخانہ نے بتایا کہ پولیس نے ملزمان کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان واردات کے بعد شہر چھوڑ کر فرار ہوگئے۔

    پولیس نے مزید کہا کہ ملزمان کی گرفتاری کےلیے محکمہ داخلہ سندھ سے رابطہ کیا ہے، اجازت ملنے کے بعد گرفتاری کےلیے ٹیمیں تشکیل دی جائیں گی۔

    کچھ ہفتوں قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک جنونی نوجوان نے ٹک ٹاکر ثنا یوسف کو گولیاں مارکر قتل کردیا تھا، واقعہ تھانہ سنبل کی حدود میں پیش آیا تھا جہاں 22 سالہ عمر نے گھر میں گھس کر ثنا یوسف کو گولیاں ماری تھیں۔

    ٹک ٹاکر ثناء یوسف کا تعلق چترال سے تھا، پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم کی کچھ دیر خاتون سے بات ہوئی اور وہ گھر کے باہر کھڑا رہا جس کے بعد فائرنگ ہوئی۔ ملزم نے مقتولہ کو دو گولیاں ماری اور فرار ہو گیا تھا۔

    https://urdu.arynews.tv/mother-of-tiktoker-sana-yousaf-reveals-harrowing-details-of-her-daughters-murder/

  • ویڈیو رپورٹ: باکسر رابعہ کی متاثر کن کہانی

    ویڈیو رپورٹ: باکسر رابعہ کی متاثر کن کہانی

    ملیے کراچی کی رابعہ سے جو میٹرک کی طالبہ ہیں، لیکن اپنے ہنر سے تمام معاشرتی قدغنوں کو توڑ کر دنیا میں اپنا نام بنا رہی ہیں۔ رابعہ اپنے خاندان کی پہلی لڑکی ہے، جنھوں نے باکسنگ کی دنیا میں قدم رکھا، اس ویڈیو میں جانتے ہیں رابعہ کی کہانی!

    رابعہ نے کم وسائل، محدود مواقع اور معاشرتی رکاوٹوں کو توڑا، 16 سالہ رابعہ جو کہ باکسنگ کی دنیا میں خود کی پہچان بنا رہی ہیں۔

    رابعہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ باکسنگ پریکٹس بھی جاری رکھے ہوئے ہے، وہ کہتی ہیں ’’میرا خواب ہے دنیا میں قومی پرچم کی اہمیت اُجاگر کرنا۔‘‘ کراچی کے پس ماندہ علاقے بلدیہ سے تعلق رکھنے والی یہ بہادر لڑکی باکسنگ کی دنیا میں بلندیوں کو چھونے کے لیے اسپانسرشپ کی منتظر ہیں۔


    بننے سنورنے کے لیے عید پر اب لڑکے بھی بیوٹی سیلونز کا رخ کرتے ہیں: ویڈیو رپورٹ


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • تین بھنگی!

    تین بھنگی!

    یہ خواجہ احمد عباس جیسے بڑے قلم کار کا مشہور افسانہ ہے۔

    خواجہ صاحب فکشن نگار، صحافی اور فلمی ہدایت کار و مکالمہ نویس تھے جنھیں‌ بھارتی حکومت اور فلمی و ادبی تنظیموں‌ نے اعزازات سے نوازا۔ یہ دل چسپ کہانی ہندوستان کے اُس سرکاری اعلان کے گرد گھومتی ہے جس میں چھوت اور ذات پات کو ختم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے اونچی ذات کے لوگوں کو زیادہ معاوضہ پر بلدیہ میں‌ صفائی کا کام کرنے کی نوکری کا اشتہار دیا گیا ہے۔ اس کے لیے دفتر میں‌ دو ہندو اور ایک مسلمان چلے آتے ہیں۔ کہانی پڑھیے۔

    مدھیہ پردیش کی سرکار نے اعلان کیا ہے کہ جو بھی اونچی ذات والا کسی میونسپلٹی میں بھنگی کا کام کرنا منظور کرے گا اسے تنخواہ کے علاوہ نوے روپے ماہوار اسپیشل الاؤنس بھی دیا جائے گا۔ یہ فیصلہ چھوت چھات دور کرنے کی غرض سے کیا گیا ہے۔ (بھوپال کی خبر)

    ابھی سورج نہیں نکلا تھا کہ میونسپلٹی کے وارڈ نمبر تیرہ کے تینوں نئے بھنگی اپنی اپنی جھاڑوئیں، ٹوکریاں لیے ڈیوٹی پر آ گئے۔

    سینیٹری انسپکٹر نے اپنے رجسٹر پر نظر ڈالتے ہوئے بھنگیوں کے جمعدار سے پوچھا، ’’کیوں تمہارے تینوں بھنگی حاضر ہیں؟‘‘

    ’’جی ہاں حاضر ہیں۔‘‘ بھنگیوں کے جمعدار نے جواب دیا اور ثبوت کے لیے اسی وقت حاضر لے ڈالی۔

    ’’پنڈت کرپا رام حاضر؟‘‘

    ’’حاضر۔‘‘

    ’’بابو کالی چرن حاضر؟‘‘

    ’’حاضر۔‘‘

    ’’شیخ رحیم الدین حاضر؟‘‘

    ’’حاضر۔‘‘

    سینیٹری انسپکٹر سائیکل پر بیٹھ کر دوسرے علاقوں کا معائنہ کرنے چلا گیا اور جاتے جاتے جمعدار سے کہہ گیا، ’’ان رنگروٹوں کو کام سکھانا تمہارے ذمے ہے۔‘‘ جمعدار کے باپ دادا سات پیڑھیوں سے اسی قصبے میں بھنگی کا کام کرتے آئے تھے اور وہ خود میونسپلٹی میں بیس برس نوکری کرنے کے بعد جمعدار کے عہدے تک پہنچا تھا۔

    سیکڑوں بھنگیوں نے اس کی ماتحتی میں کام کیا تھا۔ لیکن کئی برس سے نہ جانے اس کی جات برادری والوں کو کیا ہوگیا تھا کہ وہ اپنے باپ دادا کے پیشے سے کترانے لگے تھے۔ نوجوان تو اسکول میں چار جماعتیں پڑھ کر جھاڑو ہاتھ میں لینا پاپ سمجھتے تھے۔ کتنے ہی پاس کے شہر میں شکر کے کارخانے میں نوکر ہو گئے تھے۔ ایک نے ناجائز شراب بنانے کا دھندا چالو کر دیا تھا۔ چار لڑکے گھر سے بھاگ کر بمبئی چلے گئے تھے۔ ان میں سے تین تو پھر لاپتا ہوگئے۔ ایک کے بارے میں سنا گیا کہ وہ ایک فلم کمپنی میں اکسٹرا کا کام کرتا ہے اور تاج محل ہوٹل کے پاس والے فٹ پاتھ پر سوتا ہے۔

    ’’بےوقوف۔‘‘ جمعدار نے اس چھوکرے کے بارے میں سوچتے ہوئے فیصلہ کیا۔ ’’پڑھا لکھا بھنگی تو چار پانچ برس میں ہی جمعدار ہو جاتا ہے۔‘‘

    پھر اس نے ان تینوں نئے رنگروٹوں پر نظر ڈالی جو اس کے سامنے کھڑے اس کے حکم کا انتظار کر رہے تھے۔

    پنڈت کرپا رام جو دبلا پتلا تھا اور اس کا سر گنجا تھا اور اس کی آنکھوں پر لوہے کی کمانیوں کا چشمہ لگا ہوا تھا وہ میونسپلٹی کے ہی ایک اسکول میں ماسٹر ہوا کرتا تھا۔ جمعدار اسے اچھی طرح جانتا تھا۔ چار برس ہوئے وہ اپنے بیٹے کو اسکول میں داخل کرنے گیا تھا تو پنڈت کرپا رام نے اسے کلاس کے سب لڑکوں سے الگ بیٹھنے کو کہا تھا۔ اس نے کہا تھا، ’’جمعدار بھئی برا نہ ماننا۔ میں خود تو ذات پات، چھوت چھات کو نہیں مانتا مگر اسکول میں جو بچے پڑھتے ہیں ان کے ماں باپ کے جذبات کا خیال بھی رکھنا ہی پڑتا ہے۔‘‘

    سو اب جمعدار نے پوچھا، ’’کیوں پنڈت۔ یہ آج تمہارے ہاتھ میں جھاڑ ٹوکری کیسے آ گئی؟‘‘

    پنڈت کرپا رام نے اپنے چشمے سے جمعدار کو گھورتے ہوئے جواب دیا، ’’یہ سب کل یگ کی مایا ہے جمعدار۔ پچیس برس سے چھوکرے پڑھا رہا ہوں۔ پھر بھی تنخواہ ستر روپلی ملتی تھی۔ دو دو جوان چھوکریاں گھر میں بن بیاہی بیٹھی ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا۔‘‘

    ’’لو پنڈت جی برا نہ ماننا۔‘‘ جمعدار نے پنڈت کے الفاظ چبا کر دہراتے ہوئے کہا، ’’سامنے والی گلی کی نالیوں کو جھاڑو سے رگڑ کر صاف کر ڈالو۔ مگر جلدی سے پھر چوک والے بم پولیس کی صفائی بھی کرنی ہے۔‘‘

    چوک والے بم پولیس کا نام سنتے ہی پنڈت کرپا رام کو بے اختیار ابکائی آ گئی۔ پاخانے کے ڈھیر میں کلبلاتے ہوئے کیڑے اس کی آنکھوں کے سامنے ناچنے لگے۔ اور خیال ہی سے اس کی ناک میں بدبو کے بھبکے آنے لگے۔ اس نے چپکے سے جھاڑو اٹھائی اور نالی صاف کرنے لگا۔ لیکن جھاڑو اتنی چھوٹی تھی کہ اسے جھک کر دہرا ہونا پڑا اور اس کی کمر کی بوڑھی اور گھٹیا کی ماری ہڈیاں چرچرانے لگیں۔

    اور اب جمعدار شیخ رحیم الدین کی طرف مخاطب ہوا، ’’کیوں شیخ جی تم کیسے آ گئے اور اس دھندے میں؟‘‘

    رحیم الدین سر جھکائے مسمی صورت بنائے کھڑا تھا۔ اس لیے کہ اس کے خاندان میں آج تک کسی نے نوکری نہیں کی تھی۔ ہمیشہ زمینداری پر گزر کیا تھا۔ اس کے دادا کی آدھی جائداد ایک گانے والی کی نذر ہوگئی تھی۔ اس کے باپ کسی مہنگی عیاشی کا بار نہیں اٹھا سکتے تھے۔ صرف حقہ پیتے تھے اور اپنی بیٹھک میں دوسرے ’’اشراف‘‘ دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر چوسر کھیل لیتے تھے۔ اپنے بیٹے کو انھوں نے گھر میں تھوڑی سی عربی فارسی پڑھوائی تھی اور تین چار برس کے لیے ایک مقامی مسلم اسکول میں انگریزی پڑھنے بھی بھیجا تھا۔ مگر تین سال متواتر فیل ہونے کے بعد نام کٹوالیا تھا اور پھر زمینداری کاخاتمہ ہو گیا تھا اور یہ تاریخی جھٹکا وہ برداشت نہ کرپائے تھے۔ باپ کے انتقال کے بعد زمین کے بدلے جو ’’بونڈ‘‘ ملے تھے انھیں بیچ کر رحیم الدین نے تین مہینے اور کلکتے کے ایک سفر میں ہی خرچ کر ڈالا تھا۔ اب اس کے پاس ایک ٹوٹا پھوٹا گھر تھا۔ ایک دادا کے وقت کی زربفت کی شیروانی تھی اور ایک باپ مرحوم کی یاد گار حقہ تھا جس کے تانبے کے پیندے پر کھدا ہوا تھا۔ ’’شیخ کریم الدین رئیس اعظم کُرسی نشین ضلع دربار۔‘‘

    ’’جمعدار صاحب‘‘ اس نے خوشامدانہ لہجے میں کہا کہ شاید وہ اسے کوئی ہلکا سا کام دے دے۔ ’’یہ سب انقلابات ہیں زمانے کے۔ مگر آپ جانتے ہیں ہم مسلمانوں میں تو کوئی چھوت چھات نہیں۔ ہاتھ سے کام کرنا کوئی عیب نہیں۔‘‘

    مگر جمعدار کو یاد آ گیا کہ جب اس شیخ رحیم الدین کا بیاہ ہوا تھا تو اس کے مرحوم باپ نے کس طرح مہمانوں کے آگے سے بٹورا ہوا جھوٹا کھانا بھنگیوں کو دیا تھا اور جب جمعدار کے بڑے بیٹے نے کہا تھا، ’’شیخ جی۔ پورے دو دن تمہارے گھر کی صفائی کی ہے۔ مزدوری میں پیسے دو جھوٹا کھانا کیوں دیتے ہو؟‘‘ تو بڈھے زمیندار نے اسے مار کے گھر سے نکال دیا تھا اور چلاّیا تھا، ’’دیکھتے ہو ان کمینے مردار خوروں کی اب یہ ہمت ہو گئی۔ چاہتے ہیں کہ اشراف انھیں برابر میں بٹھاکر پلاؤ قورمہ کھلائیں۔‘‘

    اور سو اب جمعدار نے کہا، ’’شیخ جی۔ وہ کوڑے کا ڈھیر جو پڑا ہے اسے ٹوکریوں میں بھر بھر کے میونسپلٹی کی گاڑی میں بھر دو۔ پھر تمھیں بھی چوک کا بم پولیس صاف کرنے میں پنڈت جی کا ہاتھ بٹانا ہے۔‘‘

    رحیم الدین نے کوڑے کو ٹوکریوں میں بھرنا شروع کیا تو دیکھا اس میں محلے بھر کا جھوٹا کھانا پڑا ہے۔ سڑی ہوئی ترکاری۔ باسی روٹیوں کے ٹکرے انڈوں کے چھلکے۔ گوشت کے چھیچھڑے۔ چچوڑی ہوئی ہڈیاں اور ساتھ ہی میں ایک مردہ چھچھوندر۔ گائے بیلوں کا گوبر۔ بکریوں کی مینگنیاں۔ گلی میں بچوں کا کیا ہوا پاخانہ اور جیسے جیسے کوڑے کا ڈھیر چھوٹا ہوتا جا رہا تھا اس کی بدبو کے بھپکے اور تیز ہوتے جا رہے تھے۔ یہاں تک کہ بھپکے کے ساتھ رحیم الدین کو اپنی کی ہوئی قے کو بھی زمین پر سے صاف کرنا پڑا۔

    اب صرف ایک بھنگی رہ گیا تھا۔ کالی چرن۔ مگر اسے جمعدار نہیں پہچانتا تھا۔

    ’’بابو کالی چرن۔ کہاں سے آئے ہو؟ میں نے تمھیں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘

    ’’جمعدار صاحب۔ میں اس قصبے کا نہیں ہوں۔ بکرم پور سے آیا ہوں۔‘‘

    جمعدار نے دیکھا کہ سورج کافی اونچا اٹھ آیا ہے۔ اب ادھر ادھر کی باتیں کرنے کا وقت نہیں۔ سو اس نے کہا، ’’بابو کالی چرن۔ جاؤ پہلے رحیم الدین کا ہاتھ بٹاؤ۔ پھر پنڈت کے ساتھ مل کر نالیوں کو اچھی طرح دھو کر صاف کرواؤ۔‘‘

    ’’بابو کالی چرن۔‘‘ جمعدار نے دل ہی دل میں تیسرے بھنگی کا نام دہرایا اور سوچا، ’’کوئی کائستھ وائستھ معلوم ہوتا ہے۔ چنگی میں منشی ہوگا یا ہو سکتا ہے کسی چھوٹے موٹے اسکول میں ماسٹر ہی ہو۔ بھائی کی بابوگیری ابھی نکل جائے گی۔ بڑا آیا بابو کالی چرن کہیں کا۔ لیکن اسی لمحے اس نے دیکھا کہ کالی چرن بڑی پھرتی سے کام کر رہا ہے۔ تین ہی پھیروں میں کوڑے کا سارا ڈھیر اس نے گاڑی میں بھر دیا ہے اور اب زمین پر چپکے ہوئے کوڑے کو ٹین کے ایک ٹکڑے سے کھرچ کر صاف کر رہا ہے اور پھر اس نے میونسپلٹی کے ایک نل سے ٹین کا کنستر بھرا اور پانی کو نالی میں بہا کر جھاڑو سے رگڑنا شروع کیا بالکل جیسے کسی تجربہ کار پرانے بھنگی کو کرنا چاہیے۔ جمعدار کو یاد آ گیا کہ جب وہ جمعدار نہیں ہوا تھا تو وہ خود بھی اسی طرح پھرتی اور صفائی سے کام کیا کرتا تھا۔ اور یہ سوچ کر وہ کالی چرن کے بارے میں شبہ میں پڑگیا۔

    ’’اے بابو ادھر آؤ۔‘‘ اس نے آواز دی اور کالی چرن کو گلی کے ایک کونے میں لے گیا۔

    ’’کیا ہوا جمعدار۔ میرے کام سے خوش نہیں ہو کیا؟‘‘

    ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

    ’’کالی چرن۔‘‘

    ’’ذات۔‘‘

    ’’کائستھ۔‘‘

    ’’کون سے کائستھ ہو؟‘‘

    ’’جی۔۔۔ وہ سکسینہ ہیں ہم لوگ۔‘‘

    ’’پہلے کیا کام کرتے تھے؟‘‘

    ’’جی وہ۔ بکرم پور میونسپلٹی میں کام کرتا تھا۔‘‘

    ’’کون سے محکمے میں؟‘‘

    ’’جی۔۔۔ وہ یوں سمجھیے کہ صفائی کے محکمے میں تھا۔‘‘

    ’’ہاں تو ذات کیا کہی تھی تم نے؟‘‘

    ’’جی۔۔۔ کائستھ۔‘‘

    ’’تم جھوٹ بولتے ہو۔‘‘

    ’’جی؟‘‘

    ’’تم بھنگی ہو۔ جیسے میں بھنگی ہوں۔‘‘

    ’’آہستہ بولو۔ جمعدار۔‘‘ کالی چرن ہاتھ جوڑ کر بولا، ’’کوئی سن لے گا۔‘‘

    ’’شرم کی بات ہے۔ نوّے روپے کی خاطر تم نے اتنا بڑا جھوٹ بولا۔ اپنی برادری کو ٹھکرا دیا۔‘‘

    ’’کیا کروں جمعدار۔ بیٹے کو پڑھا رہا ہوں۔ چالیس روپے مہینے میں اس کا خرچہ کہاں سے دوں۔ تمہاری کرپا رہی تو وہ کالج تک پڑھ جائےگا۔‘‘

    ’’اچھا۔‘‘ جمعدار کچھ سوچ کر بولا دھیرے سے، ’’مگر ایک شرط ہے۔‘‘

    ’’جو تم کہو جمعدار۔ تم مالک ہو۔‘‘

    ’’آئندہ پھر کبھی ایسی پھرتی اور صفائی سے کام نہ کرنا نہیں تو پکڑے جاؤگے؟‘‘ اور پھر وہ چلاکر بولا، ’’کالی چرن۔ تم بابو ہوگے تو اپنے گھر کے ہوگے۔ بھنگی کا کام کرنے آئے ہو تو بھنگی کی طرح کرنا پڑےگا۔ نوے روپے اسپیشل الاؤنس لیتے ہو۔۔۔‘‘

    اب وہ تینوں بھنگی گلی میں جھاڑو دے رہے تھے اور جمعدار اپنی مونچھوں پر تاؤ دے رہا تھا۔

  • جشن آزادی کے موقع پر کراچی میں افسوس ناک حادثے سے متعلق بچوں کے والد کا بیان

    جشن آزادی کے موقع پر کراچی میں افسوس ناک حادثے سے متعلق بچوں کے والد کا بیان

    کراچی: گزشتہ روز جشن آزادی کے موقع پر کراچی کے علاقے آئی سی آئی پل کے قریب افسوس ناک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہونے والے بچوں کے والد کا بیان سامنے آ گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق گزشتہ روز آئی سی آئی پل کے قریب حادثے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والے بلدیہ 7 نمبر کے رہائشی بچوں کے والد نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ بچے گھر والوں کی اجازت کے بغیر موٹر سائیکل نکال کر گھومنے نکلے تھے۔

    معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ روز کا ٹریفک حادثہ موٹر سائیکل بے قابو ہونے کے باعث پیش آیا تھا، والد کا یہ بھی کہنا ہے کہ بڑے بیٹے نے چھپ کر جیب سے چابی نکلوائی تھی اور دوسرے بچوں کو جشن آزادی منانے کے لیے باہر لے گیا تھا۔

    ٹریفک حادثہ، جشن آزادی منانے نکلنے والے 2 بچے جاں بحق، 3 زخمی

    بچوں کے غم زدہ والد نے بتایا کہ بچے ڈھائی بجے کے آس پاس گھر سے کھانا کھا کر نکلے تھے، والد کا کہنا ہے کہ انھوں نے بچوں کو اپنے ہاتھ سے سالن نکال کر دیا تھا، چھوٹے بچے کی فرمائش پر کولڈ ڈرنک بھی پلایا، پھر میں قمیص اتار کر لیٹ گیا تو اس دوران چھوٹے بیٹے عبدالہادی نے موٹر سائیکل کی چابی چھپکے سے نکال لی۔

    ان کا کہنا تھا کہ انھیں شک بھی ہوا اس لیے قمیص کی تلاشی لی تو پتا چلا کہ بچے چابی نکال کر لے گئے ہیں، تب تک وہ گھر سے نکل چکے تھے، پھر ایک گھنٹے کے بعد کال آئی کہ ٹراما سینٹر پہنچیں۔

    بچوں کے والد نے بتایا کہ میرے پوچھنے پر کہا گیا کہ دو بچوں کی حالت خراب ہے، باقی تین ٹھیک ہیں، لیکن جب میں ٹراما سینٹر پہنچا تو سب سے پہلے چھوٹے کو دیکھا، مجھے بتایا گیا کہ ابھی دس منٹ پہلے یہ انتقال کر گیا ہے، جب کہ بڑا بیٹا موقع پر ہی جاں بحق ہو چکا تھا۔

    واضح رہے کہ جاں بحق دونوں بچوں کی تدفین مقامی قبرستان میں کر دی گئی ہے، گزشتہ روز کے حادثے میں 2 بچے 14 سال کا عمر اور 3 سال کا اویس جاں بحق ہو گئے تھے، جب کہ 4 سال کی افشاں، 6 سال کی منیبہ اور 7 سال کا عبدالہادی زخمی ہو گئے تھے۔

  • سعودی عرب: بلدیاتی حکام نے بلیوں کے کھانے کا بہترین انتظام کردیا

    سعودی عرب: بلدیاتی حکام نے بلیوں کے کھانے کا بہترین انتظام کردیا

    ریاض: کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے تفریحی مقامات لوگوں سے خالی ہے اور مختلف جانوروں جیسے بلیوں اور جانوروں کو کھانے پینے کی اشیا تلاش کرنے میں کافی دشواری کا سامنا ہے، ایسے میں بلدیاتی حکام نے بلیوں کے کھانے کا نہایت بہترین انتظام کردیا۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق الخبر کی بلدیہ نے ساحل پر رہنے والی بلیوں کی خوراک کے لیے خصوصی طور پر ’فیڈنگ پائپس‘ کا بندوبست کر دیا ہے جس میں بلیوں کے لیے خشک خوراک اور ایک بوتل میں پانی رکھا جاتا ہے۔ ساحل کے مختلف مقامات پر 60 عدد فیڈنگ پائپس نصب کیے گئے ہیں۔

    اس سے قبل حرم مکی کے باہر کبوتروں کے لیے دانے کا بندوبست بھی حرمین کے سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے کیا گیا تھا۔

    حرمین کے باہر موجود کبوتروں کو وہاں آنے والے لوگ دانہ ڈالتے تھے مگر جب سے کرونا وائرس کی وبا پھیلی اور مکہ میں احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے کرفیو لگایا گیا کبوتروں کے لیے دانے کا انتظام سکیورٹی اہلکاروں نے کرنا شروع کردیا۔

    دوسری جانب الخبر کے ساحل پر بلیوں کے لیے فیڈنگ پائپس کے انتظام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جیسے ہی بلدیہ کے کارکنوں نے بلیوں کے لیے نصب کیے گئے مخصوص پائپوں میں خشک خوراک ڈالی فوراً بڑی تعداد میں بلیاں وہاں پہنچ گئیں اور کھانا کھانے لگیں۔

    بلدیہ کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ ہماری ڈیوٹی نہیں مگر بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے کہ جانوروں کی خوراک کا بھی خیال رکھیں، خاص کر ان حالات میں جب لوگ کرفیو کی وجہ سے تفریحی مقامات پر نہیں آتے اور جانوروں کو بھوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    بلدیہ کی جانب سے خصوصی طور پر پی وی سی کے پائپس تیار کیے گئے ہیں جن میں بلیوں کےلیے خشک خوراک ڈالی جاتی ہے، پائپ کے اوپری سرے کو مخصوص طریقے سے بند کر دیا جاتا تاکہ پانی یا کوئی اور چیز خوراک میں شامل نہ ہو اور بلیوں کو بھی کھانا آسانی سے میسر ہو سکے۔

    فیڈنگ پائپس کے ساتھ ہی پانی کا بڑا کین رکھا گیا ہے جس میں مخصوص انداز میں ڈرین کرنے کے لیے نیچے پلیٹ لگائی گئی ہے جس میں ضرورت کے مطابق پانی نیچے آجاتا ہے اور بلیاں سیراب ہو کر اپنی پیاس بجھا لیتی ہیں۔