Tag: بلقیس بانو کیس

  • بلقیس بانو کیس: مجرمان کی بریت پر بھارتی سپریم کورٹ برہم

    بلقیس بانو کیس: مجرمان کی بریت پر بھارتی سپریم کورٹ برہم

    نئی دہلی: بھارتی سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کیس میں ملزمان کو رہا کرنے پر گجرات حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں بلقیس بانو کیس میں مجرموں کی سزا سے استثنیٰ کی درخواست پر آج سماعت کی، دوران سماعت جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگرتنا پر مشتمل بینچ نے سوال اٹھایا کہ کیا جرم کی سنگینی پر ریاست غور کر سکتی تھی؟

    ججز نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایک حاملہ خاتون کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی اور کئی لوگوں کو قتل کر دیا گیا، آپ متاثرہ کے کیس کا سیکشن 302 (قتل) کے تحت عام کیس سے موازنہ نہیں کر سکتے۔ جس طرح سیب کا موازنہ سنترے سے نہیں کیا جا سکتا اسی طرح قتل عام کا موازنہ قتل سے نہیں کیا جا سکتا۔

    ججز کا کہنا تھا کہ جرائم عام طور پر معاشرے اور برادری کے خلاف کیے جاتے ہیں، غیر مساوی افراد کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا جاسکتا۔

    بینچ نے سوال اٹھایا کہ کیا حکومت نے اپنا ذہن استعمال کیا؟ کس مواد کی بنیاد پر مجرمان کو معافی دینے کا فیصلہ کیا، ججز کے ریمارکس میں کہنا تھا کہ آج بلقیس ہے کل کوئی اور بھی ہوسکتا ہے، میں یہ آپ کا کوئی اور بھی ہوسکتا ہے، اگر آپ معافی دینے کی ٹھوس وجوہات نہیں بتاسکتے تو ہم اپنے نتائج اخذ کریںگے۔

    بعد ازاں عدالت نے بلقیس بانو کیس میں مجرموں کی سزا میں معافی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو حتمی طور پر نمٹانے کے لیے دو مئی کی تاریخ مقررکی۔

    عدالت نے ان تمام مجرموں سے کہا کہ وہ اپنا جواب داخل کریں، جنہیں نوٹس جاری نہیں کیا گیا ساتھ ہی بھارتی سپریم کورٹ نے مرکز اور ریاست سے کہا کہ وہ نظرثانی درخواست داخل کرنے کے سلسلے میں اپنا موقف واضح کریں۔

    یاد رہے کہ سال دو ہزار دو میں گجرات کے گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس کے ایک ڈبے کو آگ لگانے کے واقعے کے بعد پھوٹنے والے فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی اور اس کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔

  • بلقیس بانو کیس:  مجرموں کے بارے میں ایک اور دل دہلا دینے والا انکشاف

    بلقیس بانو کیس:  مجرموں کے بارے میں ایک اور دل دہلا دینے والا انکشاف

    گجرات: بھارت میں 2002 میں ہونے والے گجرات فسادات میں اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والی بلقیس بانو کیس میں ایک اور اہم انکشاف ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بلقیس بانو کیس میں سزا پانے والوں کی جانب سے گواہوں کو دھمکیاں دینے کا انکشاف ہوا ہے، سزا پانے والے گیارہ میں سے چار ملزمان کے خلاف مختلف تھانوں میں مقدمات درج ہوئے ہیں۔

    یاد رہے کہ بلقیس کیس میں سزا پانے والے 11 ملزمان کو انہیں اچھے رویے کی بنیاد پر رہا کردیا گیا تھا، ان کی جانب سے اس دوران کوئی غلط کام کرنے کے شواہد نہیں ملے تھے۔

    بھارتی میڈیا نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس ایف آئی آر کی کاپی موجود ہے، جس میں 2017 سے 2021 کے دوران بلقیس کیس کے چار گواہوں نے 4 ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔

    جب کہ ایک ایف آئی آر چھ جولائی 2020 کو درج کرائی گئی جو رادھیشیم اور مٹشبھائے بھٹ کے خلاف تھی۔

    یہ ایف آئی آر بلقیس کیس کے گواہان سیبرابن پٹیل اور پنٹو بھائی کی جانب سے درج کرائی گئی تھی جس میں 354، 504، 506 ٹو اور 114 کے دفعات شامل ہے۔

    ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ بلقیس کیس کے سزا یافتہ دو افراد نے ان کی بیٹی اور بھائی کو دھمکیاں دی تھی۔

    اسی طرح یکم جنوری 2021 کو ایک اور گواہ عبدالرازق عبدالماجد نے دہود پولیس کو سالیش چمن لالا کے خلاف شکایت کی تھی کہ پیرول پر رہائی کے بعد اس کی جانب سے انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

    اسی طرح شکایت کے ساتھ سلیش بھٹ کی ایک ایسی تصویر بھی لگائی گئی تھی جس میں بی جے پی کے دو رہنما اسٹیج پر موجود تھے، جس کی بنیاد پر ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی تھی۔

    خیال رہے کہ 2002 میں گجرات میں ہونے والے فسادات کے دوران 11 افراد نے بلقیس بانو نامی مسلمان خاتون کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔

    بلقیس بانو کیس کے تمام ملزمان کو بھارت کے یومِ آزادی پر رہا کردیا تھا، بھارتی ریاست گجرات کی رہائشی بلقیس بانو نے ملزمان کی رہائی پر اپنے وکیل کے ذریعے جاری بیان میں کہا ہے کہ ملزمان کی رہائی کے معاملے پر ان کو آگاہ نہیں کیا گیا۔

  • بلقیس بانو کیس: مجرموں کی جلد رہائی پر بھارت میں ہزاروں آوازیں اٹھ گئیں

    بلقیس بانو کیس: مجرموں کی جلد رہائی پر بھارت میں ہزاروں آوازیں اٹھ گئیں

    گجرات: بھارت میں بلقیس بانو کیس میں مجرموں کی جلد رہائی کے خلاف ہزاروں آوازیں اٹھ گئی ہیں، نامور شخصیات سمیت ہزاروں افراد نے سپریم کورٹ سے مجرموں کی رہائی کی منسوخی کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بلقیس بانو کیس میں 6000 کارکنان، مؤرخین و دیگر نے سپریم کورٹ سے مجرموں کی رہائی منسوخ کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    انسانی حقوق کے کارکنوں، تاریخ دانوں اور بیوروکریٹس سمیت دیگر نامور شخصیات نے ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں سپریم کورٹ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بلقیس بانو کیس کے مجرموں کی جلد رہائی کو منسوخ کرے۔

    انھوں نے جلد معافی کو ’انصاف کا سنگین اسقاط‘ قرار دیا، پٹیشن پر دستخط کرنے والے 6000 سے زائد افراد میں عام شہری، نچلی سطح کے کارکن، انسانی حقوق کے کارکن، نامور مصنفین، تاریخ دان، اسکالرز، فلم ساز، صحافی اور سابق بیوروکریٹس شامل ہیں۔

    بلقیس بانو کون ہے اور 2002 میں اس پر کیا قیامت گزری؟ لرزہ خیز داستان

    نامور گروپس بشمول سہیلی ویمن ریسورس سینٹر، گمنا مہیلا سموہ، بیباک کلیکٹو، آل انڈیا پروگریسو ویمنز ایسوسی ایشن بھی دستخط کنندگان کا حصہ ہیں۔

    ایک بیان میں انھوں نے کہا: ’’یہ ہمیں شرمسار کرتا ہے کہ جس دن ہمیں اپنی آزادی کا جشن منانا چاہیے، بھارت کی خواتین نے اس کی بجائے گینگ ریپ کرنے والوں اور اجتماعی قاتلوں کو ریاستی کارروائی کے طور پر آزاد ہوتے دیکھا۔‘‘

    بھارت: بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کیس کے سبھی مجرم جیل سے رہا

    یاد رہے کہ گودھرا بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کیس میں 2002 میں عمر قید کی سزا پانے والے تمام 11 مجرم 15 اگست کو گودھرا سب جیل سے رہا کیے گئے ہیں، یہ رہائی اس وقت عمل میں آئی جب گجرات حکومت نے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت ان کی رہائی کی اجازت دی۔