Tag: بلوچستان رنگ

  • بلوچستان رنگ: سرتو لے آئے ہو لیکن کان کہاں ہے؟

    بلوچستان رنگ: سرتو لے آئے ہو لیکن کان کہاں ہے؟

    شام ہونے کو تھی سورج دائیں طرف کی پہاڑی میں ڈوب رہا تھا۔ بکریوں کے بچے دودھ پینے کے بعد اپنے ماؤں کے گرد کھیل کھود کر رہی تھیں جبکہ شیر خان دیسی قالین پر رکھے تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھا ہوا تھا۔ سورج کی سرخ مائل کرنیں پہاڑی کی آخری چوٹیوں کو رخصت کرنے کو تھیں۔ بکریوں کے گھنٹی بجنے سے ایک خوبصورت ساز چاروں طرف بکھر جاتی تھی۔ تھوڑا سا اندھیرا چھا گیا تو اچانک بکریوں میں ہلچل سی ہوئی بکریاں یہاں وہاں بھاگنے لگیں۔ یا اللہ رحم آج دوبارہ بھوت خان ایک بکرے کو لے کر جائیں گے اور اپنے لئے سجی بنائیں گے۔شیر خان سر پہ ہاتھ رکھ کر دہائی رہے تھے ،بھوت خان آیا اور بھوت کی طرح بکری لے کر گم ہوگیا۔

    شیر خان ننگے پاؤں بھوت کی جانب دوڑنے لگا۔چند قدم جانے کے بعد واپس مڑا اور وہاں سے آواز دی جیجو میرا تلوار نکال کے دو۔ بھوت خان سفید بکرے کو لے کر کھیر تھر پہاڑی پر بجلی کی مانند دوڑے جارہا تھا اس کے گھوڑے کی رفتار بجلی کی طرح تیز تھی شیر خان  او شیر خان بھیڑیوں کا پیچھا کرنا چھوڑ دو بکریوں کو سنبھالو شیر خان کی بیوی چیخ کر کہ رہی تھی۔

    تاریکی چاروں طرف پھیل گئی ہے یہ سہمے بکری ہاتھ نہیں آئیں گے اور بھوت ان پر دوبارہ حملہ آوور نہ ہو ۔ شیر خان  بیٹے کے ہمراہ  دوسری پہاڑی کی طرف دوڑ پڑے ایک گھاٹی پار کرنے کے بعد دیکھا تو ایک بکری کا کچھ خون پڑا ملا تھا۔ بھوت خان اپنا شکار کرکے چلئےگئےتھے کچھ دیر یہاں وہاں دیکھنے کے بعد شیر خان نے کہا چلو بیٹا واپس چلتے ہیں۔ شیر خان کے بیٹے نے اپنے باپ سے کہا اب ہمیں پہاڑوں سے نیچے کی جانب نقل مکانی کرنا ہوگا۔ یہاں رہنا ٹھیک نہیں۔ یہ بھوت خان نے ایک ہفتے میں دوسرا حملہ ہمارے ریوڑ پہ حملہ کیا ہے۔ پچھلی بار وہ کالا دبنہ لے جانے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے مگر اب کی بار وہ سفید بکرا لے کر گئے ہیں باپ بیٹے کھیر تھر کی پہاڑی سے اترے اور دوبارہ اپنے گھر کی جانب روا ں دواں ہوئے۔

    بھوت خان کی تیز رفتاری کا اندازہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ بھوت خان کے بڑے لمبے بال تھے وہ عظیم شہ سوار تھا اس کی شہ سواری اور گھوڑے کی تیز رفتاری پورے علاقے میں بہت مشہور تھا وہ آتا بھی بھوت کی طرح تھا اور اپنا شکار کرکے بھوت کی طرح سیکنڈوں میں غائب ہو جاتا تھا وہ کھانے پینے کا بہت شوقین تھا۔ وہ گوشت خور کا تھا۔

    بلوچستان کے لوگ کھانوں کے بہت پرانے شوقین ہیں۔ان کھانوں میں ایک ایسی روٹی پکائی جاتی ہے جو پاکستان میں کہیں بھی نہیں ملتی، جس کا نام ’’کاک روٹی‘‘ ہے۔ کاک روٹی  تیز آگ کی حدت پر براہِ راست پکائی جاتی ہے۔ کاک روٹی گرم گول پتھروں پر آٹا لپیٹ کر انگاروں پر پکائی جاتی ہیں۔ بھوت خان کی بیوی کاک روٹی پکانے میں مہارت رکھتی تھی۔ وہ پہلے ایک سائز کے گول پتھروں کو انگاروں پر خوب گرم کرتی تھی ۔۔۔۔۔ پھر ان پر آٹا لپیٹ کر ہلکی انگاروں پر رکھ دیتی تھی۔ پھر ہلکی آنچ سے یہ گولہ اندر تک اچھی طرح پک جاتی تھی ۔کاک روٹی کے پیڑے کے اندر ایک پتھر ہوتا تھا جسے بعد میں نکال کر کھایا جاتا تھا اور جب یہ روٹی آگ کے قریب رکھی جاتی تھی تو اس کے اندر موجود پتھر بھی گرم ہوجاتی تھی جس کی وجہ سے یہ روٹی اندر سے بھی پک کر تیار ہوجاتی تھی۔

     اپنے ذائقے میں کاک روٹی بے حد لذیذ ہوتی ہے۔ یہ روٹی کئی کئی روز تک بھوت خان سفر میں بھی کھاتا تھا شاید یہ روٹی جنگوں کے دوران بہت کھائی جاتی رہی ہے اس روٹی کا ذائقہ کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔

    تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ قوم نے جتنے درد جنگوں میں  دیکھے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔کاک روٹی کا رواج روایتی طور پر بلوچستان میں ہوتا ہے۔ کاک روٹی بلوچستان میں اکثر سجی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے بھوت خان ہمیشہ کاک روٹی سجی کے ساتھ کھاتا تھا اور سفر پر بھی کاک روٹی لیکر جاتا تھا۔ بھوت خان پینے کے پانی کے لیے خود (کھلی) مشکیزہ بنانا تھا اور بکری کی کھال خود اتارتا تھا اور خود چھوٹی بکری اور بکرا کو ذبح کرنے کے بعد اس کی کھال آرام سے اتارتا تھا پھر اس کو دس ہفتوں تک کھال کو خشک کرتا تھا۔ اور پھر گرم پانی میں ابالتا تھا اور پھر ریشم کے دھاگے سے سی دیتا تھا۔ پھر اپنے ہاتھ کے بنے مشکیزےکا پانی سفر میں پیتا تھا۔

    شیر خان بلوچستان کے غیور چہرہ تھا وہ مختلف کھیلوں میں مہارت رکھتا تھا۔ جن میں کوڈی کوڈی  یا کبڈی کبڈی بہت مشہور تھا۔ شیر خان اکھاڑے میں مخالف کھلاڑیوں کو زور کا جھٹکا زوروں سے لگاتا تھا تو ان کی کمر تک توڑ دیتے تھے ۔  وہ سندھ اور بلوچستان میں کبڈی کے میدان میں  کسی بھی پہلوان کو دھول چٹانے میں مہارت رکھتا تھا۔بلوچستان اور سندھ کے سب حکمران کبڈی میں شیر خان کا مقابلہ دیکھنے آتے تھے تو مقابلہ دیکھ کر دانت چبانے پہ مجبور ہو جاتے تھے۔ شیر خان انتہائی سخی آدمی تھا ۔۔۔۔۔۔وہ اپنے کھیتوں میں ہمیشہ گندم کی فصل خود کرتا تھا اور جب فصل تیار ہوجاتا تو وہ سب علاقے کے غریبوں میں تقسیم کرتا تھا۔ اس کے تقسیم کا طریقہ بہت الگ تھا وہ گندم کے اناج ٹیلے کے اوپر بیٹھ جاتا تھا اور پورے علاقے کو لوگوں کوکہتا تھا کہ آؤ اپنا نصیب لے جاؤ ۔ پھر سب غریب لوگ فجر کی اذان سے لیکر مغرب کی اذان تک گندم اٹھا اٹھا کے تھک جاتے تھے اور شیر خان کو دعائیں دینے لگتے ۔ اگر شیر خان کسی کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور تھا وہ تھا بھوت خان۔۔۔۔۔۔۔ اس کے سامنے سب تدبیریں ناکام تھی۔

    شیر خان رومانوی داستان سننے کا بہت شوقین تھا شیر خان کے گھر میں ایک لالٹین مٹی کے تیل سے جلتی تھی اس کے بیچ میں ایک ایسا دھاگہ ہوتا ہے جو مٹی کے تیل کو اوپر کھینچتا تھا جسے لوگ دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے پرانے زمانے  لالٹین ہی روشنی کا ذریعہ ہوتا تھا۔ اسی لالٹین کی روشنی پہ شیر خان مختلف رومانوی  کہانیاں روتوں کو سنتے۔ رات سے صبح تک ایک روپے تک مٹی کا تیل بمشکل جلتا تھا۔حتٰی کہ بلوچ قبائل کی جنگ کے دوران لالٹین تک پہنچنا لازمی تھا۔جب کسی علاقے کے سردار کے محل پر اگر کوئی قبیلہ حملہ آور ہوتا تھا تو جب تک اس کا ہاتھ اسی روشن لالٹین تک نہیں پہنچ پاتا اس وقت تک فتح کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا اور یہی اس لالٹین کی مقبولت کا اصل وجہ تھی یعنی لالٹین  ایک جیت کا نشان تصور کیا جاتاتھا۔شیر خان کے گھر میں جلتی لالٹین کو بجھانے ہمیشہ بھوت خان آ تا تھا اور اپنا شکار کرکے واپس چلا جاتا تھا۔

    بلوچستان کی مزید حیرت انگیز داستانیں


       آب پاشی کے لیے3 ہزار سال قدیم طریقہ ہی موثر

     تاریخی چوکنڈی مقبرے

     کھمبی ایک لذیذ غذا


    شیر خان اس روز بھوت کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر اس وقت کے بلوچ سردار شہداد خان ٹالپر  کے پاس فریاد لیکر پہنچتا ہے ٹالپر سردار شہداد خان نے شیر خان کو ایک چاندی کے کٹورے میں پانی لے کر دیتا ہے اور اس میں ایک تنکا ڈالا تھا تو شیر خان حیران ہوا یہ تنکا کیوں ڈالا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پانی احتیاط سے پی رہا تھا تاکہ تنکے کو نگل نہ سکیں۔۔۔۔۔۔ شیر خان کو تنکا ڈالنا سمجھ نہیں آ رہا تھا اور سوچنے لگ گیا، بعد میں ٹالپر سردار شہداد خان نے شیر خان کو بتایا کہ تھکا ہوا خالی پیٹ جلدی پانی سے  نقصان ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ شیر خان ٹالپر سردار شہداد خان کی اس دانائی سے بہت متاثر ہوا اور فیصلہ کیا کہ وہ بھوت خان کے قتل کرنے میں ضرور مدد کروائے گا۔

    شہداد خان  ٹالپر سردار نے چار لوگوں کا انتخاب کرکے شیر خان کو دیا تھا جس میں ایک شخص  کے لمبے لمبے بال تھے وہ بھی کمر سے نیچے تک تھے جبکہ ایک شخص قد کا لمبا تھا جبکہ ایک شخص قد کا چھوٹا تھا جبکہ چوتھا شخص انتہائی چالاک تھا جو پیروں کے نشانات دیکھ کر منزل تک شکار کو پہنچا دیتا تھا شیر خان کے سامنے ان چاروں کی خوب تعریفیں شہداد خان ٹالپر نے کی اور کہا کہ جو شخص بھوت خان کا سر قلم کر لائےگا اس کا انعامات سے نوازا جائے گا جو آج تک کسی کو نہیں دیئے گئے ہیں۔ شیر خان خود بھی دنیا کے چالاک ترین لوگوں میں سے ایک تھا مگر بھوت خان تک نہیں پہنچ پا رہا تھا۔

    شیر خان کا مقبرہ

    بھوت خان پورے کھیر تھر کے پہاڑوں پہ حکمرانی کرتا تھا وہ پہاڑوں کا بادشاہ تھا اس وقت بھوت خان کو شکست دینا ناممکن لگ رہا تھا اس وقت کے سب جنگجو بھوت خان سے خوفزدہ تھے کوئی اس کا مقابلہ کرنے کو تیار نہیں تھا مگر شیر خان بھوت خان سے مقابلہ کرنے کو تیار تھا وہ کسی بھی قیمت پہ بھوت خان سر قلم کرنا چاہتا تھا۔

    شیر خان نے شہداد خان ٹالپر کو الوداع کیا اور واپسی کا راستہ اپنایا دو دن کی مسافت کے بعد شیر خان گھر پہنچا رات کو ایک بڑے سفید بکرے کی سجی بنائی گئی اور لائٹیں کی روشنی میں مہمانوں کو  رومانوی کہانی سنائی گئی تھی مسلسل دو دن آرام تک مہمانوں کو آرام دیا گیا تاکہ ساری تھکن دور ہو جائے دو دن کی تھک اتارنے کے بعد یہ لوگ بھوت خان کی تلاش میں کھیر تھر کے پہاڑوں کی جانب نکل پڑے۔

    شیر خان اور اس کے دوست دن رات بھوت خان کو ڈھونڈھنے لگ گئے مگر ان کو بھوت خان کا نام و نشان بھی نہ ملا۔ اسی طرح پورے ایک ہفتے تک کھیر تھر پہاڑوں کی ایک ٹکری(پہاڑی) سے دوسری ٹکری تک بھوت خان کو تلاش کرتے رہے مگر بھوت خان تو بھوت کی طرح غائب ہو گیا تھا۔

    وہ جمعرات کی رات تھی جب یہ پانچوں لوگ بھوت خان کے ٹھکانے پر پہنچ گئے۔بھوت خان اپنی بیوی کے ساتھ سویا ہوا تھا ۔ شیر خان نے جب ان کو دیکھا تو تمام لوگوں کو واپس چلنے کاحکم دیا۔ سب لوگ بھوت خان کو دیکھ کر حیران رہ گئے ، اتنا لمبا قد اتنا لمبا خونخوار تلوار اور نیند میں ایسے خراٹے لے رہے تھا جیسے وہ ابھی بھی جاگ رہا ہو۔شہداد ٹالپر کے چاروں  لوگ بھوت خان کی طرف دیکھ کر کانپنے لگ گئے اور شیر خان کو کہا۔۔۔۔۔ موقع اچھا ہے۔۔۔۔۔ بھوت کو قتل کر دو۔۔۔۔۔۔لیکن شیر خان کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔آپ میں کسی میں ہمت ہیں تو ہاتھ لگا کے دیکھائے بھوت خان کو ۔۔۔۔۔ویسے بھی بلوچوں میں ایک رواج ہے کہ ہم عورتوں کے ساتھ سوئے ہوئے مرد کو کبھی نہیں مارتے ہیں۔سب لوگ واپس ہوئے۔۔۔۔۔کھیر تھر کے پہاڑوں کو الوداع کیا۔

    شیر خان  نے چاروں دوستوں کی طرف دیکھا اور کہا بلوچ قوم میں نیند ہمارے لئے مقدس ہوتی ہے ہم نیند کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں کسی کی نیند  اس کی عزت ہوتی ہیں اس لیے ہم اپنے چوٹ (جوتوں)کے ساتھ واپس ہوئے ہیں۔ دوستو! نیند  وہ چیز ہیں جن کی تقدس و حفاظت کیلئے ہم بلوچ اپنی جان تک قربان کردیتے ہیں اور اسی طرح دوسروں کے نیند کو بھی عزت و تکریم دینا ہم بلوچوں کا شیوہ اور فرض ہوتا ہے یہ ہماری بلوچ قوم کی روایت اور غیرت کیخلاف ہے کہ ہم کسی کو نیند میں قتل کر دیں۔ ایک سفید ریش لمبے قد والے شخص نے شیر خان جانب دیکھا اور ہاتھ بڑھایا واہ کیا باتیں بتائی ہیں۔ شیر خان سب کو نصیحت کرتے جا رہے تھے۔ چاروں دوستوں نے ہنس کر کہا شیر خان یہ باتیں کہاں سے سیکھیں ہیں ۔شیر خان نے کہاں ۔ہم نے یہ سب باتیں اپنے بزرگوں سے سیکھیں ہیں اور اپنی  آنیوالی نسلوں کو سینہ بہ سینہ منتقل کرتے آ رہے ہیں۔

    شیر خان رومانوی داستان سنتے ہوئے

    شیر خان تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھا ہوا تھا جبکہ مہمان تکیوں کے اوپر بیٹھ گئے۔شیر خان نے اپنے بیٹے کو آواز دی ( کلی اور کٹورہ)چھوٹا مشکیزہ اور کٹورہ لاؤ اور مہمانوں کو پانی پلاؤ۔شیر خان کے بیٹے نے گدان کی جانب بڑے بڑے گام کے ساتھ جاکر اماں جیجا کو آواز دی آئی کہ اماں جیجا چھوٹا مشکیزہ اور کٹورہ کہاں ہے ۔ اماں نے کہا کہ بیٹا چھوٹے  مشکیزہ کا پانی اتنا ٹھنڈا نہیں ہوگا۔ آپ اپنے بابا کے کلی کو لے جاؤ جو کہ گندان کے گندار میں باندھا ہوا ہے اور نیا کٹورہ بھی وہاں رکھا ہوا ہے لیکر جاؤاور مہمانوں کو پانی پلاؤاور کلی کا منہ  (بابیرہ) کھول کر پانی کٹورے میں ڈال کر مہمانوں کا ہاتھ بھی دھلا دو اور مہمانوں کو پانی پلا کر کلی پہاڑی میں ایک جاڑی کے ساتھ لٹکا دو اور پھر مہمانوں کا کھانا لے جاؤ۔ سب مہمانوں کو شیر خان نے کھانا کھلایا اور کہا آج رات دوبارہ بھوت کو ڈھونڈھنے نکلیں گے  کاک روٹیاں بھی بن رہی ہیں جو ہمارے ایک ہفتے تک کیلئے کافی ہیں۔

    رات کا اندھیرا چھا رہا تھا۔۔۔۔۔سب لوگوں نے اپنے اپنے تلواروں کو تیز کیا اور پہاڑی کا رخ کیا۔۔۔۔۔۔بھوت خان کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی وہ ہر روز اپنا ٹھکانہ بدلتا رہتا تھا۔کھیر تھر کے لمبے لمبے پہاڑ جو بہت دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ ان پہاڑوں پر بھوت خان کی حکمرانی چلتی تھی اور اسے پہاڑوں پہ ڈھونڈنا انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام تھا۔ مسلسل ایک ہفتے تک بھوت خان کو ڈھونڈھتے رہے وہ جمعرات کا دن تھا جب ایک بکرے کے خون کے نشانات شیر خان کو مل گئے۔ شیر خان نے سب کو بلا کر کہا بھوت خان سے آج رات کسی بھی وقت ہمارا مقابلہ ہوگا۔مسلسل پوری رات شیر خان کو ڈھونڈھنے کے بعد ایک پہاڑ کی ٹکری پہ شیر خان نے بھوت خان کو دیکھا جو تنہا بیٹھا ہوا تھا اور تلوار تیز کر رہا تھا۔

    شیر خان نے بلند آواز دی۔بھوت خان آج آپ سے شیر خان کا مقابلہ ہے۔بھوت خان نے ہنسے ہوئے کہ شیر ہمیشہ اپنا شکار اکیلا کرتا ہے ۔ بھوت خان کی تیز آواز سن کر ٹالپر کے چاروں آدمیوں نے اپنی اپنی تلواروں کو نیچے پھینک دیا۔بھوت خان سمجھ گیا یہ لوگ میرا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں اس لیے انہوں نے اپنے ہتھیار پھینک دیئے ہیں۔ شیر خان نے بلند آواز میں کہا کہ بھوت خان ابھی ہم زندہ ہیں آپ کا مقابلہ تو مجھ سے ہے۔دونوں طرف سے تلواریں نکلیں شیر خان اور بھوت خان کی تلوار تیز تیز چل رہی تھی۔ کبھی شیر خان ان کی زد سے بچ جاتا کبھی بھوت خان ان تلواروں کی زد سے بچ جاتا تھا۔ مسلسل تلوار ایک دوسرے پر برس رہے تھے۔رات کی تاریکی ڈوب رہی تھی اور سورج کی کرنیں نکل رہی تھی۔رات کا اندھیرا ختم ہوچکا تھا لیکن اب تک نہ شیر خان بھوت خان کو نشانہ بنا پا رہا تھا اور نہ ہی بھوت خان شیر خان کو نشانہ بنا رہا تھا۔چاروں تماشائی دور سے مقابلہ دیکھ رہے تھے ۔

    اسی طرح صبح سے دوپہر کا وقت آگیا۔ دونوں کا پیاس کے مارے برا حال تھا۔سامنے پانی کی کلی (مشکیزہ) رکھی ہوئی تھی مگر پانی کوئی پی نہیں رہا تھا۔اسی وقت بھوت خان نے با آواز بلند کہا کہ پانی وہی پیے گا جو زندہ بچے گا۔شیر خان نے جواب میں کہا کہ یہ پانی کا مشکیزہ بھی میرا ہے اور پانی بھی میں پیو ں گا۔اسی دوران شیر خان کی تلوار ایسے تیزی سے چلی کہ بھوت خان کے ایک کان کا ٹکڑا کٹ کر زمیں پہ گر گیا۔بھوت خان ہنسا کہ کان کٹ گیا ہے مگر گردن باقی ہے۔

    بھوت خان کو درد ہو رہا تھا۔تلوار بھی ٹھیک سے چلا نہیں پا رہا تھا۔پھر بھی بھوت خان کے حوصلے پست نہیں ہو رہے تھے ۔ اچانک تیز تلوار بھوت خان کے گردن سے ایسے گزری کہ اس کا سر دھڑ سے الگ ہوگیا۔شیر خان نے جلدی سے کان کا ٹکڑا اٹھایا اور جیب میں ڈال دیا اور اس وقت شیر خان نے  بلند آواز میں کہا۔آجاؤ دوستو! اور  اب اٹھاؤ گردن بھوت خان کا اور پیش کرو سردار شہداد خان ٹالپر کو۔اور ان سے کہنا کہ شیر خان اپنا شکار کبھی نہیں چھوڑتا ہے۔اسی دوران یہ چاروں افراد آپس میں کچھ کھسر پھسر کر رہے تھے اور شیر خان سمجھ گیا کہ یہ لوگ اب مجھے مارنا چاہتے ہیں۔ شیر خان انتہائی چالاک تھا اس نے ان چاروں کو کہا یہ گردن اٹھاؤ اور سردار کو پیش کرو اور اپنا انعام جا کر لو۔ میں یہاں کا باسی ہو مجھے انعام کی کوئی ضرورت نہیں ہیں۔ میرا کام تھا بھوت خان سے علاقےکے لوگوں کو نجات دلانا جو میں انہیں دلا چکا ہوں۔

    ان چاروں نے شیر خان کی گردن اٹھائی اور سردار شہداد خان ٹالپر  کو جا کر پیش کی اور کہا کہ ہم تینوں نے بھوت خان کو مار دیا ہے۔ سردار نے کہا شیر خان کہا ں گیا تھا۔ جواب میں کہا گیا کہ وہ تو بھوت خان کو دیکھ کر بھاگ گیا تھا۔ ہم چاروں  نے اس کو بہت مشکل سے مارا ہے بڑا دلیر شخص تھا ۔یہ رہی بھوت خان کا سر۔ سردار اس کا سر دیکھ کر حیران رہ گیااور کہا آپ کو انعام ضرور  دوں گا مگر ایک ہفتے کے بعد۔۔۔۔۔سردار شہداد ٹالپر سمجھ گیا تھا کہ اتنا بڑا دلیر شیر خان آخر کیوں بھاگا ، کچھ تو راز ہوگا۔ ایک ہفتے تک سب  پتہ چل جائے گا۔

    اس روز فجر کی اذان ہو رہی تھی سردار شہداد خان ٹالپر وضو کرکے نماز پڑھنے لگ گیا ۔وہ پچھلی صف میں کھڑا تھا ۔نماز کے بعد جیسے سردار نے دوسری جانب سلام پھیرا تو نماز میں شیر خان کو بیٹھا ہوا پایا تھا۔ارے شیر خان آپ!۔شیر خان کیسے ہو ؟بھوت خان کو مارنے کے بجائے تم اسے دیکھ کر بھاگ گئے۔شیر خان نے جواب میں کہا کہ یہ جو تمھارے ساتھ بیٹھے چار لوگ تھے سب دھوکے باز ہیں۔ میں نے جب بھوت خان کو مار کر سر تن سے الگ کیاتو انہوں نے مجھے مارنے کا منصوبہ بنایا تھااور مجھے مار کر یہ آپ سے انعام لینا چاہتے تھے۔ اس لیے میں نے لڑائی کے دوران بھوت خان کی جو کان کٹ گئی تھی۔ وہ اپنے پاس رکھی دی تھی تاکہ آپ کو دکھا سکو ں کہ یہ لوگ جنگجو کم دھوکے باز زیادہ ہے۔۔۔۔۔شیر خان نے سرخ رومال کھولا اور کان کا ٹکڑا شہداد خان ٹالپر کو تھماتے ہوئے کہا۔ان سے پوچھا جائےبھوت خان کاسر تو لائے ہیں مگر کان کہاں ہ۔سردار نے شیر خان کو دیکھا اور کہاں مجھے پتا تھا دال میں کچھ کالا ہے۔اس لیے میں نے انہیں اس وقت انعام دینے کے بجائے ایک ہفتے بعد انعام دینے کا فیصلہ کیا تھا مجھے اندازہ  تھا آپ  ایک ہفتے کے اندر میرے پاس آ جاؤ گے اور اپنا انعام لے جاؤ گے۔

    شیر خان اپنی روداد سناتے ہوئے

    شہداد خان ٹالپر سردار نے صبح سب کو دربار میں بلایا اور بلند  آواز دیکر کہا۔دوستوں احوال بیان کرو ۔شیر خان  نے کہا سردار آ پ کو شرف نصیب ہو ، سب سن رہے تھے۔سب کی آنکھیں دو سے چار ہو رہی تھی۔جب شیر خان نے کان کا ٹکڑا سب کو دکھایا تو چاروں نے سر خم کیا اور کہ ہم انعام کے لالچ میں آ گئے تھے اور شیر خان کو مارنا چاہتے تھے۔۔۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔ شیر خان انتہائی چالاک نکلا۔شہداد خان تالپر سردار نے کہا حیرت کی انتہاء ہوگئی ۔

    شہداد خان ٹالپر  کے یہ اسلحہ بند بہادر جوان جو دو گھنٹے قبل سب کو آنکھیں دیکھا رہے تھے۔ اشاروں میں معزز لوگوں کو سردار سے دور کررہے تھے۔۔۔۔۔ اب وہ خود دورکھڑے بے بسی کی مثال بنے تھے ۔۔۔۔۔دنیا اور تاریخ کے اوراق کو جب پلٹنا شروع کر دو گے تو ایسے بہت سے شخص ملیں گے جنہوں نے انا شہرت ذات ذاتی رشتوں ضد ڈر وخوف آسائش و سہولیات اور دشمن کے مختلف حربوں کو نظر انداز کر کے صرف اور صرف  اپنی مقصد کو حا صل کرنے کیلئے جھوٹ بولا ہے وہ ہمیشہ نقصانات میں گئے ہیں۔

    میر شہداد خاں تالپور کا شمار سندھ کے عظیم جرنیلوں میں کیا جاتا ہے۔تالپور خاندان جن کا تعلق بلوچستان سے تھا جو بعد میں سندھ میں آباد ہوگئے تھے۔ میر شہداد خان تالپور کئی سالوں تک بلوچ لشکر کا سربراہ بنا ہوا تھا ۔ وہ بلوچ علاقوں میں امن امان بحال کرنے میں کام یاب ہوگیا تھا۔ میر شہداد خان ٹالپر نے شیر خان کی جرأت اور بہادری سے بہت متاثر تھے اس لیے  انہیں بلوچستان والی زمین جاگیر کے طور پر عنایت کردی تھی۔

    شیر خان کا مقبرہ جو اب آدھا ڈھ چکا ہے

    شیر خان نے تاریخ کے اوراق میں امن امان کیلئے لازوال قربانیاں دی تھی اور اپنی قوم کو ظلم وجبر  غلامی اور  سماج کے مختلف خوف و خطروں سے نکال دینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ شیر خان کا مقبرہ نصیرآباد میں موجود ہے آج کل ان کا مقبرہ گرنے پر ہے اور  جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس عظیم سپہ سالار کو لوگ آج بھی عزت کی نگاہ سے یاد کرتے ہیں۔


    تحریر وتصاویر: ببرک کارمل جمالی

  • بلوچستان رنگ : تاریخی چوکنڈی مقبرے

    بلوچستان رنگ : تاریخی چوکنڈی مقبرے

    بلوچستان کی سرزمین جہاں سنگلاخ پہاڑوں ریگستانوں اور ثقافتوں میں پوری دنیا میں شہرت رکھتا ہے وہی صدیوں پرانی قدیم چوکنڈی قبرستان پوری آب و تاب سے دنیا کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ ان سیکڑوں سال پرانی چوکنڈی قبرستانوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور سے بھی آبادی تھی۔ 

    آج کل سینکڑوں سال پرانے چوکنڈی مقبرے اور عطیم شان مزار منہدم ہورہے ہیں ان مزاروں اور چوکنڈی قبرستانوں کو اونٹنی کے دودھ سے بنائے جانے کے انکشافات آج تک ہوتے آ رہے ہیں۔ یہ نایاب مزار ، چوکنڈی مقبرے آج کل بلوچستان میں ناپید ہوتے جا رہے ہیں ان مزاروں اور چوکنڈی مقبروں میں بلوچستان کی عظیم ہستیاں دفن ہیں جنہوں نے زندگی میں کوئی نہ کوئی بڑا کارنامہ سر انجام دیئے ہیں  جس کی وجہ سے عظیم شان مزار اور چوکنڈی قبرستان بنائے گئے تھے۔

    چوکنڈی قبرستان کا مطلب چار کونے والا چار کونے رکھنے والا قبرستان قبر کہا جاتا ہے یہ قبرستان بلوچی لباس کی طرح اس پہ بھی ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔ تالپور (بلوچ) قبائل کسی زمانے میں سندھ میں حکمران ہوا کرتے تھے وہ لوگ بلوچ عظیم شخصیات کا مزار اور چوکنڈی قبرستان بناتے تھے جو آج تک بلوچستان کی سر زمیں پہ موجود ہیں ۔بلوچستان کے مزارات اور چوکنڈی قبرستان مکلی کے قبرستان سے بہت مشاہبیت رکھتے ہیں۔ یہ  قبرستان پندرھویں سے اٹھارویں صدی عیسوی کی قبریں موجود ہیں۔ ان مزاروں، چوکنڈی قبروں کی تعمیر میں روف اینٹ کا استعمال کیا گیا ہیں ان اینٹوں سے  خوبصورت مزار اور چوکنڈی مقبرے تعمیر کیئے گئے ہیں یہ مزار  کثیر منزلہ انداز میں تعمیر کیئے گئے ہیں ان مزاروں کو انتہائی خوبصورت نقش نگاری کے ساتھ تعمیر کیا گیا ہے جن کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔

    بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کو قدیم تہذیب ہونے کا اعزاز تو حاصل ہے مگر حکمرانوں کی عدم توجہ افسوسناک عمل ہے ۔ جعفرآباد  کے قدیم چوکنڈی قبروں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہاں کے لوگ دراز قد ہوتے تھے اور ساتھ میں فن تعمیر میں مہارت رکھتے تھے اسلیئے ان کے عظیم شان مزار اور چوکنڈی قبرستان بنائے گئے تھے۔بلوچ قبائل زرعی انقلاب میں اپنا لوہا منوا چکے تھے۔ فصلوں میں اپنی انا کو بھی بو آتے اور فصل کٹتی تو سروں کی پگڑیاں بھی کاٹ دی جاتی تھی۔ ہمیشہ باہمی چپقلش میں بلوچ  قبائل بھی دست و گریباں رہے اور قبروں میں جا بسے۔جو طبقاتی فرق دنیا میں رہا وہی ان منقش قبروں پر بھی آویزاں ہے۔ ان قبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک قبر پر کئی کئی ماہر کاریگروں نے کئی کئی ماہ تک کام کیا ہے۔

     آج کل بلوچستان کے تمام تاریخی چوکنڈی مقبرے عدم تحفظ کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم ہیں کہ خاموش ہیں اور تماشا دیکھ رہے ہیں حتیٰ کہ بلوچستان میں  کئی مزار اور چوکنڈی  مقبرے بلوچی رومانوی کرداروں سے بھی وابسطہ ہیں جعفرآباد میں بلوچوں کے تاریخی مقامات کو آہستہ آہستہ صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازش ہو رہی ہے۔اس وقت جو سردار ہوتے تھے اُن کے مقبرے زمین سے اونچے ایک چوکنڈی یا گول چھتری نما شکل میں بنائے گئے ہیں۔ ان کے محرابوں پر شاید اُن کے لہو کے چھینٹے موجود ہیں۔

    جعفرآباد میں کئی حاکم وقت آئے اور گزرگئے تھے اور کئی حاکم وقت نے بادشاہی کرنے کی کوشش بھی کی تھی ۔ جس کے نشانات آج بھی موجود ہیں جن میں ایک مقام عظیم سپوت لھڑاں خان جمالی سہریانی کا عظیم شان مزار اور چوکنڈی مقبرہ بھی ہے جو یونین کونسل سمیجی اور تحصیل اوستہ محمد میں واقع ہے اس قدیم مزار، چوکنڈی مقبرہ کی عمارت آج خستہ حالت حال ہے اور زمین بوس ہو رہا ہے۔ گزشتہ چند سال پہلے سیلاب کی وجہ سے شہیدا کے مقام پر سخی صوبدار خان اور بھائی خان کا مزار بھی شہیداء کے مقام پر زمین بوس ہو کر گر گیا ہے جبکہ عظیم بلوچ سپوت شیر خان کا مزار بھی نصیرآباد کے مقام پہ ختم ہونے کے قریب ہے۔ یوں بلوچستان کے کئی تاریخی مقامات بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان مزاروں کے نقش و نگار  مکلی  ٹھٹھہ کے گورنر کا مقبرہ سے مشابہت رکھتے ہیں ان کی فن تعمیر بھی ایک جیسی ہی لگتی ہے۔

    مکلی کے مقبروں کی دیکھ بھال سندھ سرکاری اور یونیسکو کرتی آ رہی ہیں۔ اس لیے وہ آج تک بہترحالت میں موجود ہیں۔ مگر بلوچستان کی سرکار سمیت عالمی ادارے ان قبرستانوں پہ عدم توجہ دیئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے یہ مقبرے منہدم ہو رہے ہیں جو ایک افسوسناک عمل ہے۔

    بلوچستان کے مشہورتاریخی قبرستانوں پہ آج تک کوئی بھی عملی کام نہیں کیا گیا ہے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان مقبروں کو مٹانے کی سازش ہو رہی ہے۔ بلوچستان میں کئی چوکنڈی قبرستانوں اور آثارِ قدیمہ کے نشانات مٹ چکے ہیں یا تو مٹنے کے قریب ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومتی ادارے محض فنڈز لینے کے لیے قائم کئے گئے ہیں۔

    اس عمل پہ سیکٹری ثقافت بلوچستان  ظفرعلی بلیدی کو چاہیئے کہ وہ ان چوکنڈی قبرستانوں پہ کام کریں تاکہ بلوچستان کی سیکڑوں سال پرانی ثقافت زندہ رہ سکیں۔ آج بھی بلوچستان کے مزاروں اور چوکنڈی قبرستان کی حفاظت اور بحالی کے لئے اقدامات کی اشد ضرورت ہے جس میں پولیس چوکیوں کا قیام اور حفاظتی دیوار کی مرمت و تعمیر کا کام چوکیداروں کی ڈیوٹی سر انجام دینے میں شفٹ مقرر کرنا شامل ہے۔

    اب تو صورتحال یہ ہے کہ حکومت سندھ اور اس کے محکمہ آثار قدیمہ کے لوگ ان چوکنڈی قبرستانوں کی  بحالی اور حفاظت کیلئے خاطرخواہ اقدامات کر رہی ہے کیوں کہ یہ صرف سندھ کا نہیں پورے پاکستان کا اثاثہ ہے کاش بلوچستان کے ان عظیم اثاثہ جات کو بلوچستان کا اثاثہ جات سمجھ کر کام کیا جائے توایک بہترین عمل ہوگا۔تاکہ دنیا کے کسی فرد کو یہ احساس ہو کہ ایک قدیم اور نایاب ورثہ یہاں بلوچستان میں بھی موجود ہے۔ مگر یہ بلوچستان کی بدقسمتی ہے کہ کئی پرانے مقامات اور ثقافت کو ختم کر دیا جا رہا ہیں لیکن افسوس کہ حکمران طبقہ خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہا ہیں۔ ان کی خاموشی سے ثابت کرتی ہے کہ وہ اس جرم میں برابر شامل ہیں۔

    بلوچ قوم دوست جو ہرسال پگڑی، اجرک ڈے اورکلچرل ڈے تو مناتے ہیں ان سے یہ سوال ہے کہ ایک دن منانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ زمین ہوگی تو ثقافت اور کلچر زندہ ہوگا۔ اگر زمین پاؤں کے نیچے سے نکل گئی تو نہ زبان ہوگی اورنہ کلچر ہوگا نہ ثقافت ہوگا۔ اس لیے دوستوں سے عرض ہے کہ آگے بڑھیں، اپنے تاریخی مقامات کی حفاظت کریں۔ ہر فورم پر اس مسئلے کو اٹھائیں۔

    دنیا کو جگائیں لیکن سب سے پہلے ہمیں خود جاگنا پڑے گا۔ حکومت بلوچستان سے پرزور اپیل ہے کہ جعفرآباد  کے علاقے (سمیجی) میں ایک قدیم اور تاریخی مقبرہ جوکہ روز بروز اس کی حالات خراب سے خراب  تر ہوتا جا رہا ہے لہٰذا حکومت بلوچستان اس پر توجہ دے تاکہ تاریخی مقامات صفحہ ہستی سے مٹ نہ جائے۔

    پرانے مزاروں اور چوکنڈی قبریں بلوچستان کی قدیم دور کے فن و تعمیرات کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ حتی ٰ کہ بلوچستان کی کتابوں میں بھی چوکنڈی قبرستان کا ذکر نہیں ملتا ہمارے نوجوان اور آنے والی نسلیں اس قدیم تاریخی ورثہ سے مکمل طور پر بے خبر رہ جائیں گے۔ گورنر بلوچستان وزیر اعلی بلوچستان اور سیکرٹری ثقافت کو چاہیے کہ ان مقامات پر توجہ دیں تاکہ ان نامور ہستیوں کو رہتی دنیا تک دیکھا جا سکیں۔

    ان مزاروں و چوکنڈی مقبروں پہ تھوڑا سا  کام کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ تاریخی مقامات منہدم نہ ہو سکیں اور سیکٹری ظفر علی بلیدی کو چاہیئے کہ وہ ان نامور ہستیوں پہ فل فور سروے کرکے  کام کریں تاکہ بلوچستان کی سیکڑوں سال پرانی ثقافت زندہ کچھ سالوں تک مزید  زندہ رہ سکیں۔ لیکن یہ بلوچستان صوبے  کی یہ بدقسمتی ہےکہ یہاں کے قدیم جگہوں کو محفوظ کرنے کیلئے آج تک بلوچستان میں کوئی عملی اقدامات نہیں کیا گیا ہیں اور نہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو انتہائی افسوسناک عمل ہے۔


    تحریرو تصاویر: ببرک کارمل جمالی