Tag: بلوچستان میں سیلاب

  • بلوچستان میں سیکورٹی فورسز کا سیلاب زدہ علاقوں میں ریلیف آپریشن

    بلوچستان میں سیکورٹی فورسز کا سیلاب زدہ علاقوں میں ریلیف آپریشن

    کوئٹہ: پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ سیکورٹی فورسز کی جانب سے بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں ریلیف آپریشن جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بلوچستان میں بارشوں نے تباہی مچا دی ہے، مختلف حادثات میں اب تک 23 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، سیلاب زدہ علاقوں میں سیکورٹی فورسز ریلیف آپریشن میں مصروف ہیں۔

    [bs-quote quote=”آرمی ہیلی کاپٹرز سے نوشکی میں پھنسے افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔” style=”style-8″ align=”left”][/bs-quote]

    آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ سول انتظامیہ کے ساتھ تعاون کے لیے سیکورٹی فورسز کی جانب سے امدادی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔

    ریلیف آپریشن کے دوران آرمی ہیلی کاپٹرز سے نوشکی میں پھنسے افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، مند اور تربت کے متاثرین کو 1300 کلو گرام امدادی سامان پہنچا دیا گیا ہے۔

    آئی ایس پی آر اعلامیے کے مطابق ضلع پشین کے 100 سے زائد خاندانوں میں کھانا تقسیم کیا گیا، جب کہ حب میں سیلاب میں پھنسی بس کے 35 مسافر محفوظ مقام پر منتقل کیے گئے۔

    یہ بھی پڑھیں:  بلوچستان میں بارشوں نے تباہی مچا دی، 9 افراد جاں بحق، پاک فوج کا ریسکیو آپریشن

    واضح رہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا کہنا ہے کہ حالیہ بارشوں کے باعث 23 افراد جاں بحق ہوئے جب کہ 26 سو مکانات اور دکانیں زمین بوس ہوئیں۔

    طوفانی بارشوں کے باعث میرانی ڈیم میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو چکی ہے، جب کہ پشین میں خدائے دادزئی ڈیم منہدم ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، قلعہ عبداللہ بھی متاثر ہوگیا ہے۔

  • بلوچستان، خشک سالی سے سیلاب تک

    بلوچستان، خشک سالی سے سیلاب تک

    پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ بلوچستان ان دنوں طوفانی بارشوں کے سبب سیلاب کی زد میں ہیں،  اس رپورٹ میں ہم آپ کو بتارہے ہیں کہ آخرخشک سالی کے بعد ایک دم سیلاب کیوں آیا ہے؟۔

    بنیادی طور پر صوبۂ بلوچستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جسے ’’ڈراٹ پرون‘‘ یا کثرت سے خشک سال کا سا مناکرنے والے علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ جہاں اس سے پہلے بھی کئی طویل خشک سالی کے دور آچکے ہیں جن میں سب سے زیادہ تباہ کن 1999 سے 2005 کا دور تھا، جب صوبے کو غذائی اجناس کی شدید کمی اور قحط کا بھی سامنا رہا اور یہاں کے مقامی باشندوں کی اکثریت دوسرے علاقوں کی جانب ہجرت پر مجبور ہوگئی۔

    گذشتہ دو سال سے پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان کو بھی بارشوں کی شدید کمی کا سامنا رہا اور اس باعث یہاں موجود ڈیم، جھیلیں ، دریا اورتالاب تقریبا خشک ہو چکے تھے اور مقامی افراد کھیتی باڑی و گلا بانی کے علاوہ دیگر ذریعۂ معاش کی تلاش میں سرگرداں ہیں ۔ واضح رہے کہ رقبے میں پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور معدنیاتی وسائل سے مالا مال ہونے کے با وجود یہاں کے مقامی باشندے تعلیم، صحت ، اور ہائش جیسی بنیادی ضروریات ِ زندگی سے محروم ہیں اور دیہاتی علاقوں میں زیادہ تر افراد کا ذریعۂ روزگار ذراعت یا گلا بانی ہے۔

    یہ قدرت کا قانون ہے کہ خشک سالی عارضی ہو یا طویل بہر حال ایک نہ ایک دن ختم کو ہی جاتی ہے اور پھر کچھ عرصے تک بارشیں کھل کر برستی ہیں۔ ایسا ہی کچھ صورتحال کا سامنا اس وقت بلوچستان سمیت ملک کے دیگر علاقوں کو بھی ہے اور تقریبا ایک سال تک بارشیں بند رہنے کے بعد 2019 کے آغاز کے ساتھ ہی بارشوں و برف باری کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ ہفتے بھی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں میں 4، 5 روز تک شدید بارش اور برف باری ہوئی جس کے باعث فی الوقت کئی علاقوں کو شدید سیلابی صورتحال کا سامنا ہے اور لسبیلہ و ارد گرد کے علاقوں کو آفت ذدہ قرار دیا جا چکا ہے۔

    یہ سیلابی صورتحال مقامی افراد کے نا عاقبت اندیشی اور صوبائی حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے رونما ہوئی۔ دو سال کے خشک سالی کے دور میں پانی کے ذخائر جن میں تالاب، ندی نالےاور ڈیم قابل ذکر ہیں ، مٹی سے بھر چکے تھے اور بارشوں کے بارے میں پہلے سے مطلع کیے جانے کے باوجود ان کی صفائی کی طرف توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی پلاننگ کی گئی کے مستقبل میں جب بارشیں برسیں تو ان کے پانی کو زیادہ سے زیا دہ ذخیرہ کیا جائے تاکہ آئندہ خشک سالی کی صورت میں بر ترین حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مگر ماضی کی طرح اس دفعہ بھی شاید یہ بارشیں ہمارے کسی کام نہیں آ سکیں گی اور گرمیوں کا آغاز ہوتے ہی بلوچستان سمیت ملک کے دیگر علاقوں کو ایک دفعہ پھر پانی کی شدید کمی، لوڈ شیڈنگ اور دیگر مسائل کا سامنا رہے گا۔

    واضح رہے کہ عالمی تنظیم برائے ماحولیات نے 2018 میں ہی یہ وارننگ جاری کردی تھی کہ 2019 کا موسم ِ گرما شدید ترین ہوگا اور ایل نینو( بحرا لکاہل کے پانیوں میں پیدا ہونے ولا بگاڑ) کی وجہ سے ہر علاقے کے موسم میں غیر معمولی تغیرات متوقع ہیں۔ یعنی بہت سے علاقوں میں بارشیں حد سے زیادہ برس کر شدید سیلابی صورتحال کا باعث بنیں گی تو ایشیاء سمیت ایک بڑے علاقے کو بارشوں کی کمی اور خشک سال کا سامنا رہے گا۔

    مگر ان تمام وارننگز کے باوجود ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں کوئی قبل از وقت منصوبہ بندی کرنے سے قاصر رہیں اور فی الحال پورا ہفتہ موسلا دھار بارشوں کی بدولت بلوچستان کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں کو بھی سیلاب کا سامنا ہے۔ جبکہ شمالی علاقہ جات میں بھی غیر معمولی برف باری ریکارڈ کی گئی ہے جو مارچ سے درجۂ حرارت بڑھتے ہی پگھلنا شروع ہوجائے گی مگر پنجاب و سندھ کے متعدد دریا ؤں کی دو سال سے صفائی نہیں کی گئی اور برف کے پگھلتے ہی جب پانی دریاؤں کا رخ کریگا تو یہ دریا اس پانی کو مستقبل کے لیے ذخیرہ کرنے سے قاصر ہونگے اور ساریاپانی سیلاب کی صورت میں ضائع ہوجائیگا۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری حکومتوں کی نا اہلی اور ناعاقبت اندیشی کی سزا کب تک عوام کو ملتی رہے گی اور ہمیں کب شعور آئے گا۔ اگر حکومت ایک کے بعد دوسر ی قدرتی آفت سے نمٹنے سے قاصر ہے تو کیا عوام کو خود کو حالات پر چھوڑ دینا چاہیئے۔ یقینا اس وقت بلوچستان کے با شعور اور پڑھے لکھے طبقے کو آگے آکر اپنے طور پر کچھ کرنا ہوگا۔ کچھی کینال کا منصوبہ پانچ سال سے زیادہ عرصے سے نامکمل پڑا ہے اور عوام کو پانی کے ذخائر کے حوالے سے کوئی سہولت دینے سے قاصر ہے۔

    اگر مقامی افراد اپنے طور پر زیادہ سے زیادہ پانی کے ذخائر کا انتظام کریں اور خشک سالی کے دور میں پانی کی کفایت شعاری کے ساتھ بارشوں سے پہلے ذخائر کی صفائی کا بندوبست کریں تو کوئی شک نہیں کہ نہ صرف سیلابی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا بلکہ باشیں نہ ہونے کی صورت میں خشک سالی کا دورانیہ بھی زیادہ تباہ کن نہیں ہوگا۔