Tag: بلوچ طلبا بازیابی کیس

  • جبری گمشدگی کے معاملے پر پوری ریاست کو ملزم بنانا درست نہیں، نگران وزیراعظم

    جبری گمشدگی کے معاملے پر پوری ریاست کو ملزم بنانا درست نہیں، نگران وزیراعظم

    اسلام آباد : بلوچ طلبا بازیابی کیس میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے جسٹس محسن اختر کیانی سے مکالمے میں کہا کہ ہم آئین کے اندر رہ کر کام کررہے ہیں، ہمیں بلوچستان میں مسلح جدوجہدکاسامناہے، جبری گمشدگی کے معاملے پر پوری ریاست کو ملزم بنانا درست نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ بلوچ طلبا کی بازیابی درخواست پر سماعت کی۔ عدالتی حکم پر نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ عدالت میں پیش ہوئے۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے مکالمے میں کہا ہم نے 2 سال میں کئی سماعتیں کیں،بلوچ طلبا اٹھائے گئے، کچھ لوگ دہشتگرد ہیں،کچھ نے ٹی ٹی پی کو جوائن کیا۔ کچھ لوگ گھروں کو پہنچ گئے ہیں، جس پر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہم بلوچستان میں مسلح جدوجہد کا سامنا کررہے ہیں، پیراملٹری فورسز،کاؤنٹر ٹیرارزم کے اداروں پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔

    انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ خودکش حملہ آور نیک نامی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ لاپتہ افراد کا ایشو خود حل نہیں کرنا چاہتے، ان سے لاپتہ افراد کا پوچھو تو5 ہزار نام دے دیتے ہیں، یو این کا بھی ایک طریقہ ہے وہ پوچھتے ہیں کون لاپتہ ہوا؟ وہ پوچھتے ہیں آپ جسٹس محسن اختر کیانی ہیں آپ لاپتہ ہو گئے ہیں؟

    جس پر جسٹس کیانی نے کہا آپ مجھے بتا رہے ہیں کہ میں نے جبری لاپتہ ہو جانا ہے؟ تو نگران وزیراعظم نے بتایا میں مثال دے رہا ہوں، میں انوار کا نام لے لیتا ہوں۔

    نگران وزیرعظم نے مزید کہا کہ ایک سابق چیف جسٹس بلوچستان میں نماز ادائیگی کے دوران شہید ہوئے، کوسٹل ہائی وے پر بس میں افراد کو زندہ جلادیا گیا، جبری گمشدگی کے معاملے پر پوری ریاست کو ملزم بنانا درست نہیں، روڈ کنارےلوگوں کو مارا گیا مگر مجال ہے کسی کو انسانی حقوق یاد آئے ، یہ بسوں سے اتارکرنام پوچھتے اورچوہدری یا گجرکو قتل کردیتے ہیں، پھر لوگ کہتے ہیں کہ اسٹوڈنٹس کی لسانی بنیادوں پر پروفائلنگ نہ کریں۔

    انوار الحق کاکڑ نے مزید کہا کہ انسانی حقوق کے ساتھ لوگوں کے جینے کا بھی حق ہے۔ آئین پاکستان شہریوں سے ریاست کیساتھ غیر مشروط وفاداری کا تقاضہ کرتا ہے۔ دہشتگردی سے 90 ہزار شہادتیں ہوئیں، 90 لوگوں کو سزا نہیں ہوئی۔

    جسٹس محسن اختر کیانی کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ ریاستی اداروں کی ناکامی ہے کہ وہ انہیں پراسیکیوٹ نہیں کرسکے، اگر قانون میں سقم ہے اور ثبوت نہیں ہیں تواس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ قانون ایک ہی ہے،اس کے مطابق ہی چلنا ہے، اگر کسی کوگرفتارکریں تواس متعلق پتہ ہونا چاہیے۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید کہا کہ عدالتوں نے بہت بڑے دہشت گردوں کو بھی سزائیں دی ہیں۔کوئی عدالت نان اسٹیٹ ایکٹرز کو تحفظ دینے کا نہیں کہہ رہی۔ بلاشبہ یہ ایک جنگ ہے ، جو ہماری فوج اور ادارے لڑرہے ہیں۔ آپ نے بہت اچھی باتیں کیں لیکن بلوچستان جانے کی ضرورت نہیں،اسلام آباد میں ہم بہت کچھ دیکھ رہے ہیں۔ یہ مطیع اللہ جان کھڑے ہیں،انہیں دن دیہاڑے اٹھایا گیا تھا۔

    جس پر نگران وزیراعظم نے کہا ایسا اقدام جس کسی نے اٹھایا ان کےخلاف کاروائی ہونی چاہیے، دوران سماعت ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہا جب بات لاپتہ افراد کی ہوتو دہشتگردوں کی طرف چلی جاتی ہے، لاپتہ افراد کے اہلخانہ کیلئے یہ بات بہت تکلیف دہ ہوتی ہے، یہ تاثردرست نہیں کہ ہم ریاست کےخلاف کوئی پروپیگنڈا کررہے ہیں، ہم بھی اسی ریاست کا حصہ ہیں، ہم کبھی بھی دہشتگردی کو سپورٹ نہیں کرتے۔ کمیشن کی رپورٹس موجود ہیں کہ جبری گمشدگیوں میں ادارے ملوث ہیں۔

    جس پر انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ زندہ رہنے کا حق سر فہرست ہے، مجھے بلوچستان سے ہونےکی وجہ سے حالات کا زیادہ علم ہے،بلوچستان میں مسلح مزاحمت ہو رہی ہے، میں ایمان مزاری کے دلائل سے اختلاف کرتا ہوں۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ عدالت اور آپ کی اولین کوشش تھی لاپتہ لوگ گھروں کو پہنچ جائیں، درخواست پر کارروائی آگئے نہ بڑھتی تو لوگ بازیاب نہ ہوتے، کوشش رہی رہا ہونے والے بھی عدالت میں آکر اپنا موقف دیں۔

    اٹارنی جنرل کی آئندہ سماعت کے لیے وقت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ چاہتے ہیں نئی حکومت آجائے اور اس تھوڑا وقت مل جائے تو جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ بلکل آئندہ سماعت کے لیے تھوڑا وقت دیں گے، عدالت نے جو کمیٹی تشکیل دی اسکی رپورٹ جمع کروا دی، بعد ازاں کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔

  • بلوچ طلبا بازیابی کیس: نگراں وزیر اعظم 28 فروری کو پھر ذاتی حیثیت میں طلب

    بلوچ طلبا بازیابی کیس: نگراں وزیر اعظم 28 فروری کو پھر ذاتی حیثیت میں طلب

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ طلبا بازیابی کیس میں نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو پھر ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ طلباء کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی۔

    بلوچ طلبا عدم بازیابی کیس میں وزیراعظم پیش نہ ہوئے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے اٹھائیس فروری کو سماعت پر پھر ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا اور وزیرداخلہ اور وزیر دفاع کو بھی پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

    جسٹس محسن اخترکیانی نے ریمارکس دیے نگراں وزیراعظم کوبتادیں آئندہ سماعت پرکراچی نہ جائیں اور آئی ایس آئی، ایم آئی اور ایف آئی اے کے ڈی جیز پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی، تین رکنی کمیٹی آئندہ سماعت پراسلام آباد ہائی کورٹ میں رپورٹ پیش کرے گی۔

    دوران سماعت جسٹس محسن اخترکیانی نے ریمارکس دیے ہر ماہ کی تاریخ ملا کرچوبیس تاریخیں ہوچکیں، جوشہری بازیاب ہوئے ان کے خلاف کوئی کیس ریکارڈ پر نہیں، اسلام آبادایف سکس سے بغیر ایف آئی آر شہری کو اٹھالے گئے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ سیکرٹری دفاع، سیکرٹری داخلہ ، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی سرکاری ملازم ہیں، یہ سب افسران جواب دہ ہیں، کوئی قانون سے بالاترنہیں۔

    نگراں وزیراعظم کواس لیے بلایا تھا کیونکہ وہ جوابدہ ہیں، اپنے ملک کےشہریوں کوریکورکرنے میں دو سال لگے، تین حکومتیں ابھی تک لاپتا بلوچ اسٹوڈنٹس کا بازیابی کا کچھ نہیں کرسکیں، حکومت جوبھی آئے وہ مسنگ پرسنزکا مسئلہ حل نہیں کرسکتی۔

    ایمان مزاری نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ چند ماہ ہے دوران مزید طلبا کوبھی جبری طورپرگمشدہ کیا گیا ہے، حکومت بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا، یہ ریاستی پالیسی ہے۔