Tag: بلوچ قبائل

  • چار ہنر مند اور قاضی کا فیصلہ

    چار ہنر مند اور قاضی کا فیصلہ

    یہ کہانی صدیوں پرانی اور لوک ادب کا حصّہ ہے۔ کہتے ہیں یہ بلوچستان اور اس خطّے کی کہانی ہے جو عورت کے مقام و مرتبے اور عزّت و ناموس کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔

    چار لوگ سفر پہ نکلے۔ ان میں سے ایک بڑھئی تھا۔ دوسرا درزی، تیسرا سنار اور چوتھا درویش۔ راستے میں انھیں رات پڑ گئی۔

    لٹیروں کا خدشہ تھا۔ اس لیے طے یہ پایا کہ رات کے ایک ایک پہر تک ایک شخص پہرہ دے گا اور تین سوئیں گے۔ اس طرح سب آرام بھی کر لیں گے اور محفوظ بھی رہیں گے۔

    اوّلین پہر بڑھئی کی باری آئی۔ بڑھی نے سوچا کہ رات کٹتی نہیں، کوئی کام کرنا چاہیے۔ اس نے اپنے اوزار لیے اور ایک درخت کی لکڑی سے عورت کا بُت بنانا شروع کیا۔ بہت خوب صورت طریقے سے اس نے درخت کے تنے کو بُت میں بدل دیا اور یوں اس کے پہرے کا وقت پورا ہو گیا۔

    اس کے بعد درزی کی باری آئی۔ درزی نے باہر آ کر دیکھا کہ کسی عورت کا بُت بنا ہوا ہے۔ اس نے سوچا کیوں نہ اس کے لیے کپڑے سیے جائیں۔ یوں وقت بھی کٹ جائے گا۔ اس نے بُت کا ناپ لے کر کپڑے سینا شروع کیے اور اپنا کام مکمل کر کے ہٹا تو اس کی چوکی داری کا وقت ختم ہو گیا تھا۔ اب سنار کی باری تھی۔

    سنار نے جو یہ بُت دیکھا تو اسے خیال آیا کیوں نہ اس کے لیے زیور بنائے جائیں۔ اس نے زیور بنائے اور بُت کو پہنا دیے۔ اس کے بعد درویش کی باری آئی۔ اس نے جو ایک خوب صورت عورت کا بت دیکھا تو دل میں‌ خیال کیا کہ کاش اس میں جان ہوتی۔ یہ سوچ کر اس نے عبادت شروع کر دی اور مناجات میں‌ گم ہوگیا۔ وہ دعا کرنے لگاکہ اے اللہ، میری ساری عمر کی عبادت کے بدلے اس بُت میں جان ڈال دے۔ کیا وقت تھاکہ خدا نے اس دریش کی سن لی۔ ادھر اس کی دعا پوری ہوئی، اور ادھر بُت میں جان پڑگئی۔

    اتنے میں دور آسمان پر سورج نے خود کو چمکان شروع کردیا۔ صبح ہو گئی تھی۔ درویش تو نیند پوری کرنے کے بعد اب جاگ ہی رہا تھا کہ اپنی باری پوری کرکے سو جانے والے تینوں ہنر مند بھی بیدار ہوگئے۔ چاروں نے جب جیتی جاگتی عورت اپنے درمیان دیکھی تو آپس میں لڑنے لگے۔ ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ یہ عورت میری ہے۔ جھگڑا بڑھ گیا تو انھوں نے طے کیا کہ علاقے کے قاضی کے پاس جاتے ہیں اور اس سے انصاف طلب کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنا مقدمہ قاضی کے پاس لائے اور اس سے درخواست کی وہ فیصلہ کرے یہ عورت کس کی ہے۔

    قاضی نے تمام قصّہ سننے کے بعد اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔ یہ عورت درویش کی تو نہیں ہو سکتی کیوں کہ درویش نے خیر اور نیکی کی غرض سے اس کے حق میں دعا کی تھی۔ اسے یوں سمجھو جیسے کوئی بھی بیمار ہو جائے، تو اسے کسی پیر بزرگ کے پاس لے جاتے ہیں تاکہ وہ اس کی تن درستی کے لیے دعا کرے۔ اب اس کا دعویٰ‌ ایسا ہے کہ ایک مریض کو طبیب کے پاس لے جایا گیا اور وہ اس کے علاج سے تن درست ہو گیا تو طبیب اس پر حق ہی جمانے لگا اور اس پر اپنا تصرف چاہتا ہو۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہو سکتا۔

    ترکھان نے اپنی ہنر مندی دکھائی اور تعریف کی صورت میں اس کا صلہ پایا۔ فن کار کے فن کا صلہ داد ہی ہے، تو ہم اس کے فن کی داد دیتے ہیں۔ سنار نے تو محض اس کے حسن کی تراش کے لیے زیور پہنائے، وہ چاہے تو اپنے زیور واپس لے سکتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ حسن زیور کا محتاج نہیں۔ رہ گیا درزی، جس نے کپڑے پہنائے، وہ انصاف کی بات ہے کہ سب پر بازی لے گیا۔ درزی ہی اس عورت کا دولھا ہو گا، کیونکہ اس نے ایک بہت اچھا کام کیا ہے اور اس کا تن ڈھانپا ہے، ستر پوشی کی ہے۔ عورت کے ساتھ اس سے اچھا سلوک اور خیر خواہی کیا ہوسکتی ہے۔ فیصلہ کچھ یوں‌ ہوا کہ یہ عورت اب اس کی ہے، جس نے اسے کپڑے پہنائے۔

  • کیا یہ ساز  بیماری سے نجات دلا سکتا ہے؟

    کیا یہ ساز بیماری سے نجات دلا سکتا ہے؟

    بلوچستان کی لوک موسیقی سروز کے بغیر ادھوری اور پھیکی معلوم ہوگی۔ یہ وہ ساز ہے جو کسی ماہر کے ہاتھ لگے تو کئی دھنیں بجانے کے لیے کافی ہوتا ہے اور اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔

    مخصوص ڈیزائن کے ساتھ لکڑی، چند تاروں اور ایک چھوٹی سی پوست پر مشتمل اس ساز کے ساتھ اگر طنبورہ یا کوئی اور ساز ملا لیا جائے تو موسیقی کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔

    سروز بنانے کے طریقے مختلف ہیں اور اس میں‌ مختلف لکڑیاں استعمال ہوتی ہیں۔
    اس ساز میں تاروں کی تعداد بارہ سے سترہ ہو سکتی ہے۔ سروز کو بجانے والا اسی ساز کی نسبت سروزی کہلاتا ہے۔

    یہ قدیم بلوچی ساز ہے جسے اب سازندے میسر نہیں اور جو اس کے وجود سے سُر اور لَے چھیڑنا جانتے ہیں، وہ فکرِ معاش میں ایسے غرق ہوئے کہ اُس خوشی اور مسرت سے دور ہوگئے جو سروز کے تاروں میں پوشیدہ ہے۔

    نئی نسل جدید آلاتِ موسیقی اور طرزِ گائیکی کا شوق رکھتی ہے اور دوسرے سازوں کی طرح اس کا مستقبل بھی محفوظ نظر نہیں آتا۔

    کب اور کس نے سروز ایجاد کیا، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، مگر یہ صدیوں سے خوشی کے گیت گانے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سروز لفظ سُر سے نکلا ہے جس کے معنی مٹھاس کے ہیں اور سال ہا سال سے یہ ساز خوشی کی تقاریب میں شادمانی کے اظہار کا ذریعہ رہا ہے۔

    دل چسپ اور عجیب بات یہ ہے کہ اس ساز کو گوات نیمون نامی ایک بیماری کے علاج میں مددگار تصور کیا جاتا ہے۔

  • پاکستان کی مغربی سرحدوں کا تحفظ ہم خود کریں گے،قبائلی رہنما

    پاکستان کی مغربی سرحدوں کا تحفظ ہم خود کریں گے،قبائلی رہنما

    چمن: بلوچستان کے قبائلی رہنماؤں نے بھارت کے خلاف پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی مغربی سرحدوں کا تحفظ ہم خود کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق چمن پریس کلب کے سامنے قبائلی عمائدین کی قیادت میں بھارت مخالف مظاہرہ کیا گیا جس میں پاک فوج کی حمایت اور بھارت کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔

    قبائلی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ بھارت کسی خوش فہمی میں نہ رہے،اگر بھارت نے کوئی غلط قدم اٹھانے کی کوشش کی تو بلوچستان کے عوام پاک فوج کے ساتھ مل کر مشرقی اور مغربی سرحدوں کی حفاظت کریں گے۔

    بلوچ عمائدین کا کہنا تھا کہ اگر بھارت کی جانب سے جنگ کا اعلان بھی ہوا تو قبائلی عوام اپنی مجاہد فورس بنا کر پاک فوج کے جوانوں کے ہمراہ مل کر ملکی سرحدوں کی حفاظت پر بھیج دیں گے۔

    بھارت مخالف ریلی میں شریک مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز بھی اٹھارکھے تھے جن پر ’’دشمن ہمیں کمزور نہ سمجھے اور بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا‘‘ کے نعرے درج تھے۔