Tag: بلٹ ٹرین

  • 13 منٹ میں 13 اسٹیشن عبور، میٹرو بلٹ ٹرین کیسے بن گئی؟

    13 منٹ میں 13 اسٹیشن عبور، میٹرو بلٹ ٹرین کیسے بن گئی؟

    میٹرو ٹرین نے 13 کلومیٹر کا فاصلہ صرف 13 منٹ میں طے کرتے ہوئے اپنی برق رفتاری کے دوران 13 اسٹیشنوں کو عبور کیا۔

    بھارتی شہر حیدرآباد میں ایک شخص کی جانب بچانے کے لیے میٹرو ٹرین کو اس کی عمومی رفتار سے کہیں تیزی سے بھگایا گیا، حیدرآباد میں میٹرو ٹرین نے عطیہ کرنے والے شخص کو جلد سے جلد دل کے اسپتال پہنچانے کے لیے گرین کوریڈور بنایا اور میٹرو کو بلٹ ٹرین بنادیا۔

    عام سی میٹرو ٹرین نے 17 جنوری کو 13 کلومیٹر کا فاصلہ صرف 13 منٹ میں طے کیا اور رات کے اوقات میں 13 اسٹیشنوں کو بنا رکے عبور کیا۔

    حیدرآباد میٹرو ٹرین نے جاری بیان میں بتایا کہ 17 جنوری کو رات 9:30 بجے ٹرین کے روٹ پر گرین کوریڈور بنایا گیا تھا تاکہ عطیہ دہندہ کے دل کو ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال پہنچایا جاسکے۔

    بھارتی حکام کے مطابق ایل بی نگر کے کامینی اسپتال سے عطیہ دہندہ کو گلینیگلس گلوبل اسپتال تک پہنچایا گیا، اس سے بروقت ایک شخص کی جان بچانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔

    بیان میں کہا گیا کہ یہ مشن گرین کوریڈور بننے کی وجہ سے بروقت مکمل ہوا، حیدرآباد میٹرو ٹرین، ڈاکٹرز اور اسپتال کے حکام کے درمیان اس کی پوری منصوبہ بندی کی گئی، یہ سب کچھ ڈاکٹروں کی نگرانی میں کیا گیا۔

    خیال رہے کہ اعضاء کی پیوند کاری کے دوران اکثر کسی کی جان بچانے کے لیے گرین کوریڈور بنایا جاتا ہے، اس کے تحت سڑک پر گاڑیوں کی آمدورفت روک دی جاتی ہے اور ایمبولینس کو تیزی سے گزرنے دیا جاتا ہے اس بار یہی عمل میٹرو ٹرین کے ساتھ حیدرآباد میں انجام دیا گیا۔

  • انڈونیشیا کی پہلی "بلٹ ٹرین” کا افتتاح

    انڈونیشیا کی پہلی "بلٹ ٹرین” کا افتتاح

    جکارتہ : انڈونیشیا میں پہلی جدید تیز رفتار بلٹ "وُوش ٹرین” کا افتتاح کردیا گیا، مذکورہ منصوبہ چین کے تعاون سے مکمل کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ اور بندونگ شہر کے درمیان پہلی جنوب مشرقی ایشیا بُلٹ ریلوے لائن کھول دی گئی ہے۔

    انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو نے ٹرین کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ٹرین کی پیدا کردہ آواز کی مناسبت سے اس کا نام "وُوش ٹرین” رکھا گیا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ 7.3بلین ڈالر کی مالیت سے تیار کی جانے والی ووش ٹرین کی رفتار 350 کلومیٹر فی گھنٹہ (217 میل فی گھنٹہ) تک پہنچ سکتی ہے، یہ منصوبہ ماحول دوست اربن ٹرانسپورٹ کی جدید شکل ہے۔

    منصوبے کی نگرانی کرنے والے سینئر وزیر لوہت پنڈجیتن نے کہا کہ بلٹ ٹرین کی مفت آزمائشی سواری ستمبر کے دوسرے ہفتے سے جاری ہے اس میں مزید توسیع کی جائے گی اور اکتوبر کے وسط میں ٹکٹوں کی فروخت پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ جنوب مشرقی ایشیاء کی اس پہلی بُلٹ ریلوے لائن کی تعمیر2015 میں شروع ہوئی اور منصوبے کی تکمیل کے لئے فنانسنگ کا 75 فیصد چین ترقیاتی بینک سے حاصل کردہ قرضے سے پورا کیا گیا ہے۔

  • بڑا کارنامہ، چین نے ’دنیا کی چھت‘ پر بلٹ ٹرین چلا دی

    بڑا کارنامہ، چین نے ’دنیا کی چھت‘ پر بلٹ ٹرین چلا دی

    بیجنگ: چین نے ’دنیا کی چھت‘ پر تیز ترین ریلوے سروس فراہم کر دی ہے، یہ اپنی نوعیت کا ایک اور بڑا چینی کارنامہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا کی چھت کہلائے جانے والے علاقے تبت میں چین نے بلٹ ٹرین سروس شروع کر دی ہے، تبت کے رہائشی اس خطے کے دل کش پہاڑی علاقوں کا نظارہ اب تیز ترین سفر کے ساتھ کر سکیں گے۔

    ڈھائی سو میل (435 کلو میٹر) طویل ریلوے لائن تبت کے دارالحکومت لہاسا کو اس خطے کے ایک شہر نینگچی سے منسلک کرتی ہے، 25 جون کو اس سروس کے آغاز کے ساتھ ہی اب چین کے زیر تحت 31 علاقوں میں تیز ترین ٹرین کا سفر ممکن ہوگیا ہے۔

    تبت میں تیز رفتار ریلوے لائن کی تعمیر کوئی آسان کام نہیں تھا، کیوں کہ اس کا 90 فی صد روٹ سطح سمندر سے 3 ہزار فٹ سے زیادہ بلندی پر واقع ہے، یہی وجہ ہے کہ اس ریلوے لائن کی تعمیر میں 6 سال کا عرصہ لگا، اس دوران 47 سرنگیں اور 121 پلوں کی تعمیر ہوئی، جو مجموعی روٹ کے 75 فی صد حصے پر پھیلے ہوئے ہیں، اس میں 525 میٹر طویل زانگمو ریلوے برج بھی شامل ہے، جو دنیا میں اس طرز کا سب سے بڑا اور بلند ترین برج ہے۔

    اس منصوبے پر 5 ارب 60 کروڑ ڈالرز خرچ کیے گئے اور اس کی تعمیر سرکاری ادارے چائنا اسٹیٹ ریلوے گروپ نے کی، یہ ہائی اسپیڈ ٹرینیں خود کار آکسیجن سپلائی سسٹمز سے بھی لیس ہیں، جو ٹرینوں میں آکسیجن کی سطح کو مسلسل 23.6 فی صد پر رکھتے ہیں، کیوں کہ سطح سمندر سے زیادہ بلندی پر تیز سفر کے دوران آکسیجن کی کمی کا خطرہ ہے، اس کے علاوہ ٹرینوں کی کھڑکیوں میں شیشوں کی ایک خاص تہ موجود ہے، جو زیادہ الٹرا وائلٹ شعاعوں کی سطح کو مدِ نظر رکھ کر ڈیزائن کی گئی ہے۔

    یہ تبت کی پہلی برقی ٹرین سروس ہے، یہ ٹرینیں زیادہ سے زیادہ لگ بھگ سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتی ہیں، جو چین کے دیگر خطوں کی ٹرین سروس سے سست سمجھی جا سکتی ہے، جن کی زیادہ سے زیادہ رفتار 217 میل فی گھنٹہ ہے۔

  • ننھے سے پرندے نے جاپانیوں کو کیا سکھایا؟

    ننھے سے پرندے نے جاپانیوں کو کیا سکھایا؟

    یوں تو انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے اور اسے دیگر تمام مخلوقات سے ذہین اور عقلمند سمجھا جاتا ہے، تاہم بعض مواقع ایسے بھی آئے جب انسانوں نے جانوروں اور پرندوں سے کچھ نیا سیکھا۔

    دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوم جاپان، جو پوری دنیا کے لیے ترقی اور محنت کی ایک مثال ہے، اس نے بھی ایک نہایت اہم سبق ایک ننھے سے پرندے سے سیکھا۔

    30 سال قبل جاپان کی بلٹ ٹرین دنیا بھر میں مقبول تھی جو گولی کی رفتار سے سفر کیا کرتی تھی، تاہم یہ ٹرین ایک مقام پر نہایت پریشانی کا باعث بن رہی تھی۔

    جب بھی یہ ٹرین کسی سرنگ میں داخل ہوتی تو ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا، سرنگ سے گزرتے ہوئے یہ ٹرین بہت روز دار آواز پیدا کرتی تھی۔ اس شور سے وہاں کی جنگلی حیات، ٹرین کے مسافر، اور آس پاس کے رہائشی بہت زیادہ پریشان ہوتے۔

    دراصل ہوتا یوں تھا کہ جب ٹرین سرنگ میں داخل ہوتی تو سرنگ میں موجود ہوا پر دباؤ پڑتا، دباؤ سے ایک صوتی لہر پیدا ہوتی، یہ ہوا آگے جاتی اور سرنگ سے باہر نکلتے ہوئے اس سے ایسی آواز پیدا ہوتی جیسے زوردار فائرنگ کی گئی ہو۔ ہوا کے اس دباؤ کی وجہ سے ٹرین کی رفتار بھی ہلکی ہوجاتی۔

    اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک ننھے سے پرندے کنگ فشر نے جاپانی ماہرین کو انوکھا راستہ دکھایا۔

    پانی سے مچھلیوں کا شکار کرنے والے اسے پرندے کی چونچ نہایت نوکدار تھی۔ ماہرین نے مشاہدہ کیا کہ اس کی چونچ سر کی طرف سے چوڑی تھی اور آگے جا کر نوکدار ہوجاتی۔

    اس کی وجہ سے پرندہ نہایت آسانی اور تیزی سے اپنی چونچ پانی میں داخل کردیتا۔

    جاپانی ماہرین نے بلٹ ٹرین کے لیے بھی یہی تکنیک اپنائی اور ایسی ٹرین بنائی جس کا اگلا حصہ نوکدار تھا۔ یہ ٹرین سرنگ میں ہوا پر دباؤ ڈالے بغیر ہوا کو چیرتی ہوئی آگے نکلتی اور بغیر کوئی آواز پیدا کیے تیزی سے اپنی منزل کی جانب بڑھتی رہتی۔

    کامیاب تجربے کے بعد جاپان میں بلٹ ٹرین کے لیے یہی ماڈل اپنا لیا گیا اور اس کا نام کنگ فشر ٹرین رکھا گیا۔ یہ ٹرین کم آواز میں نہایت تیز رفتاری سے سفر کرتی ہے۔ یہ ماڈل بعد میں نہ صرف جاپان بلکہ دنیا بھر میں اپنا لیا گیا۔