Tag: بلڈ ٹیسٹ

  • ایسا بلڈ ٹیسٹ جو 8 سال بعد ہونے والی بیماری کا بتا دے گا

    ایسا بلڈ ٹیسٹ جو 8 سال بعد ہونے والی بیماری کا بتا دے گا

    لندن : برطانیہ کے محققین نے تحقیق کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا، ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایسا بلڈ ٹیسٹ تیار کیا ہے جو 8 سال بعد ہونے والے مرض کی تشخیص کرسکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی ڈیوک یونیورسٹی کے محققین نے گھٹنے میں اوسٹیو ارتھرائٹس کی تشخیص سے متعلق ایک مطالعہ کیا، انہوں نے خون میں ایسے کیمیکل پائے ہیں جو اس حالت کی نشوونما کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

    ماہرین صحت کا دعویٰ ہے کہ جدید اور منفرد بلڈ ٹیسٹ سے جوڑوں اور خصوصی طور پر گھٹنوں کے دائمی مرض یعنی آسٹیوآرتھرائٹس کی 8 سال قبل ہی تشخیص ہوجائے گی۔

    osteoarthritis

    اوسٹیو ارتھرائٹس ایک عام حالت ہے اور خاص طور پر اس مرض کی تشخیص ایکسرے کرانے پر اس وقت ہوتی ہے جب کسی کو جوڑوں میں درد محسوس ہوتا ہو۔ محققین نے بتایا کہ بائیو مارکر ٹیسٹ آٹھ سال پہلے تک اوسٹیو ارتھرائٹس کی پیش گوئی کر سکتا ہے۔

    آسٹیوآرتھرائٹس جوڑوں اور خصوصی طور پر گھٹنوں کے شدید اور دائمی درد کو کہا جاتا ہے جو کہ عام طور پر بڑھتی ہوئی عمر میں ہوتا ہے، تاہم بعض وجوہات کی بنا پر یہ نوجوانوں پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔

    طبی جریدے کی رپورٹ کے مطابق ماہرین صحت نے درجنوں رضا کاروں پر تحقیق کی جس کا دورانیہ 10 سال تھا، ان رضاکاروں کی عمریں 45 سے 65 سال کے درمیان تھیں جن میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی، اس دوران رضاکاروں کے ایکسرے اور باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) ٹیسٹ بھی کیے گئے۔

    Blood test

    تحقیق کے ابتدائی ایام کے پہلے دو سال بعد اور بعد ازاں 6 سال بعد دوبارہ ٹیسٹ لیے گئے جس کے بعد ایک بار پھر ان افراد کی بیماری کا جائزہ لیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق بلڈ سیرم کے ذریعے آسٹیوآرتھرائٹس کے ممکنہ شکار ہونے والے افراد میں (cartilage) کے ساتھ ساتھ (synovium) اور (peptides) کیمیکلز کی زیادہ مقدار پائی گئی۔

    ماہرین نے تینوں کیمیکل کے بلڈ ٹیسٹ کا موازنہ 8 سال بعد ایکسریز اور بی ایم آئی ٹیسٹس سے کیا اور دیکھا کہ جن میں بلڈ ٹیسٹ میں مسئلہ تھا، ان رضاکاروں میں آسٹیوآرتھرائٹس کی تشخیص ہوئی۔

     

  • ڈپریشن کی تشخیص اب بلڈ ٹیسٹ سے ہوسکے گی

    ڈپریشن کی تشخیص اب بلڈ ٹیسٹ سے ہوسکے گی

    ذہنی امراض کی ایک عام قسم بائی پولر ڈس آرڈر کی تشخیص اب بلڈ ٹیسٹ سے ہوسکے گی، ماہرین نے اس سلسلے میں اہم تحقیق کی ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق فرانس، سوئٹزر لینڈ اور امریکی ماہرین کی ٹیم نے برسوں کی محنت کے بعد ایک بلڈ ٹیسٹ وضع کیا ہے جو پائی پولر ڈس آرڈر کی کیفیت شناخت کرسکتا ہے، اس سے دنیا بھر کے کروڑوں مریضوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

    پیرس کی یونیورسٹی آف مونٹ پیلیئر، سوئٹزر لینڈ میں واقع لیس ٹوائسس سائیکائٹری مرکز، اور امریکا میں یونیورسٹی آف پٹسبرگ سمیت فرانس کی ایک بائیو ٹیکنالوجی کمپنی نے انکشاف کیا ہے کہ انسانی خون میں 6 بائیو مارکر یا اجزا ایسے ہیں جو بائی پولر ڈس آرڈر کو ظاہر کر سکتے ہیں۔

    انہوں نے اسی بنا پر ایک آسان بلڈ ٹیسٹ وضع کیا ہے، توقع ہے کہ اس طرح نہ صرف کروڑوں افراد مستفید ہوں گے بلکہ ان میں بائی پولر اور یونی پولر ڈس آرڈر اور ڈپریشن کی شناخت بھی آسان ہوجائے گی۔

    بائی پولر ڈس آرڈر میں موڈ اور مزاج تیزی سے تبدیل ہوتا رہتا ہے، کبھی بے پناہ خوشی، کبھی غیر معمولی اداسی اور کبھی ڈپریشن یا گہری سنجیدگی کا راج ہوتا ہے۔

    یہ رویہ اس شخص کے اطراف رہنے والے لوگوں اور اہلخانہ کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ ان کی شخصیت اور مزاج کی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔

    ماہرین کے مطابق بائی پولر ڈس آرڈر کو کونسلنگ کے ذریعے شناخت کرنے میں ناکامی کا سامنا ہوسکتا ہے، بعض مریضوں میں تو اس کی شناخت 5 یا 7 برس تک نہیں ہو پاتی اور یوں معاملہ تیزی سے بگڑتا جاتا ہے۔

    توقع ہے کہ خون میں 6 بائیو مارکرز سے اس کیفیت کی شناخت اور علاج میں مدد ملے گی۔

  • بلڈ ٹیسٹ کی وہ رپورٹ جس کے بعد آپ کو ہوشیار ہوجانا چاہیئے

    بلڈ ٹیسٹ کی وہ رپورٹ جس کے بعد آپ کو ہوشیار ہوجانا چاہیئے

    جس طرح جسم میں خون کی کمی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اسی طرح خون کی زیادتی بھی نقصان دہ ہوسکتی ہے۔

    بعض افراد کے خون میں سرخ خلیوں کی مقدار زیادہ ہوسکتی ہے، جیسے طرح مردوں میں ہیمو گلوبن (خون کی مقدار) 14 سے 15 ہونی چاہیئے اور خواتین میں 13 سے 14 کے درمیان ہونی چاہیئے۔

    اگر جسم میں خون کی مقدار اس سے زیادہ ہوگی تو اس کا مطلب ہے کہ خون گاڑھا ہو رہا ہے، مردوں میں خون گاڑھے ہونے کی وجہ سگریٹ نوشی یا پھر پھیپھڑوں کی کوئی بیماری جیسے دمہ وغیرہ ہوسکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر آپ کو سانس لینے میں مسئلہ ہو رہا ہے یا روٹین سے ہٹ کر زیادہ گرمی لگ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی بون میرو ایکٹو ہوگئی ہے اور وہاں سے آپ کی خون کی مقدار بڑھ رہی ہے۔

    ایسے میں فوراً علاج کی ضرورت ہے کیونکہ یہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے، خون گاڑھا ہو کر جمنا شروع ہوسکتا ہے جس سے دل کے دورے یا فالج کا خدشہ ہے۔

    اگر بلڈ ٹیسٹ میں خون کے خلیوں کی مقدار زیادہ ہے تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

  • ماہرین نے کینسر کی جلد تشخیص کے لیے نیا سستا طریقہ دریافت کر لیا

    ماہرین نے کینسر کی جلد تشخیص کے لیے نیا سستا طریقہ دریافت کر لیا

    آکسفورڈ: طبی ماہرین نے کینسر کی جلد تشخیص کے لیے نیا سستا طریقہ دریافت کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کینسر کے محققین نے ایک نیا خون کا ٹیسٹ تیار کیا ہے جو مریضوں کے لیے تشخیص اور علاج کو بہتر بنا سکتا ہے۔

    یہ پہلا ٹیسٹ ہے جس سے نہ صرف کینسر کی موجودگی کا بلکہ جسم کے اندر بیماری کے پھیلاؤ کا بھی پتا لگایا جا سکتا ہے، یعنی یہ کہ بیماری کس اسٹیج پر پہنچ چکی ہے۔

    فی الوقت، جن مریضوں میں کینسر کی تشخیص ہوتی ہے ان کو امیجنگ اور ٹیسٹنگ سے گزرنا پڑتا ہے، اس کے بعد ڈاکٹر یہ بتا سکتے ہیں کہ آیا یہ جسم کے کسی دوسرے حصے میں پھیل چکا ہے یا نہیں، وہ کینسر جو پھیل چکا ہے اسے میٹاسٹیٹک کینسر کہا جاتا ہے، یہ جاننے کے بعد علاج شروع ہوتا ہے، ایک ہی جگہ میں ٹیومر والے مریضوں کو لوکل ٹریٹمنٹ دی جاتی ہے، جیسا کہ سرجری، جب کہ کینسر پھیلنے کی صورت میں انھیں کیموتھراپی یا ہارمون تھراپی جیسے پورے جسم کے علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اب خون کے اس نئے ٹیسٹ نے، 300 مریضوں میں سے 94 فی صد میں میٹاسٹیٹک کینسر کی کامیابی سے شناخت کی ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین کے تیار کردہ اس ٹیسٹ میں NMR میٹابولومکس نامی ایک نئی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے، جو خون میں بائیو مارکر کی موجودگی کی نشان دہی کرتی ہے، جسے میٹابولائٹس کہتے ہیں۔ یہ چھوٹے کیمیکلز ہیں جو ہمارا جسم قدرتی طور پر پیدا کرتا ہے۔

    اس ریسرچ پر کام کرنے والے آنکولوجسٹ ڈاکٹر جیمز لارکن نے وضاحت کی کہ میٹابولائٹس خون میں موجود کوئی بھی چھوٹے مالیکیولز، جیسا کہ گلوکوز، لیکٹک ایسڈ، یا امینو ایسڈز ہیں۔ آپ کے خون میں موجود میٹابولائٹس کے پیٹرن مختلف ہوتے ہیں، اور ان کا انحصار اس امر پر ہوتا ہے کہ آپ کے جسم میں کیا ہو رہا ہے، یعنی کوئی ایسی چیز جو کینسر جیسی بیماریوں سے متاثر ہو رہی ہو۔

    یہ ٹیسٹ یہ بتا سکتا ہے کہ آیا کسی شخص کا کینسر پھیل گیا ہے، اس صورت میں مریض کا ایک مخصوص میٹابولومک پروفائل ہوگا، جو کہ اس شخص کے کینسر سے مختلف ہوگا جو نہیں پھیلا، یا جسے کینسر ہی نہ ہو۔

    یہ ٹیسٹ خون میں میٹابولائٹس کی پیمائش کے لیے مقناطیسی فیلڈز اور ریڈیو لہروں کا استعمال کرتا ہے اور انسانی جسم میں کینسر کی موجودگی اور اس کے پھیلاؤ کا تعین ہوتا ہے۔

    محققین نے وضاحت کی کہ یہ ٹیسٹ کینسر کی متعدد اقسام کا پتا لگا سکتا ہے اور غیر مخصوص علامات والے مریضوں میں بھی کینسر کی موجودگی کی نشان دہی میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چوں کہ یہ ٹیسٹ جلد ہو جاتا ہے اور سستا ہے، لہٰذا اس سے کینسر کی جلد تشخیص میں حائل رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔

  • خون کے ایک سادہ ٹیسٹ سے شوگر کا پتا 19 سال قبل لگانا ممکن ہو گیا

    خون کے ایک سادہ ٹیسٹ سے شوگر کا پتا 19 سال قبل لگانا ممکن ہو گیا

    طبی سائنس دانوں نے کہا ہے کہ خون کے ایک سادہ ٹیسٹ سے شوگر (ذیابیطس) کا پتا 19 سال قبل لگانا ممکن ہو گیا ہے۔

    نیچر کمیونی کیشنز نامی جریدے میں شائع شدہ تحقیقی مقالے میں کہا گیا ہے کہ خون میں پائے جانے والے ایک خاص قسم کے پروٹین ’فولسٹیٹن‘ (follistatin) کی مقدار سے ٹائپ 2 ذیابیطس کا سراغ 19 سال قبل ہی لگایا جانا ممکن ہے، اگرچہ اس وقت بیماری کا معمولی خطرہ بھی نہ ہو۔

    اس ریسرچ کے نتائج سویڈن میں برسوں سے جاری ایک تحقیقی مطالعے سے حاصل ہوئے ہیں، ’مالمو ڈائٹ اینڈ کینسر کارڈیو ویسکیولر کوہورٹ‘ میں شریک 5000 افراد کے خون میں فولسٹیٹن پروٹین کی مقدار کا مطالعہ کیا گیا، جس سے یہ معلوم ہوا کہ جن افراد کے خون میں فولسٹیٹن کی مقدار اوسط سے زیادہ رہی، وہ کئی سال بعد ٹائپ 2 ذیابیطس کا شکار ہوئے۔

    تحقیقی مطالعے کے دوران ایسے لوگوں میں ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونے کا زیادہ سے زیادہ وقفہ 19 سال نوٹ کیا گیا، یعنی ذیابیطس میں مبتلا ہونے سے 19 سال پہلے ہی ان کے خون میں فولسٹیٹن کی مقدار معمول سے بڑھ چکی تھی۔

    محققین کے مطابق ریسرچ کے دوران ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا مکمل دارومدار مذکورہ افراد کے خون میں فولسٹیٹن کی اضافی مقدار پر تھا، اگرچہ وہ جسمانی لحاظ سے مکمل صحت مند بھی تھے۔

    خون کا ٹیسٹ

    تحقیق میں شامل ماہرین کا ماننا ہے کہ خون میں فولسٹیٹن کی مقدار معلوم کرنے کے لیے ایک سادہ بلڈ ٹیسٹ ترتیب دیا جا سکتا ہے، جس سے معلوم ہو سکے گا کہ کوئی شخص آنے والے برسوں میں شوگر کی بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔

    ’فولسٹیٹن‘ پروٹین

    یہ پروٹین 1980 کے عشرے میں دریافت کیا گیا تھا، یہ تقریباً تمام جسمانی بافتوں (Tissues) سے خارج ہوتا ہے لیکن اس کی زیادہ مقدار جگر سے خارج ہوتی ہے، ذیابیطس میں مبتلا افراد کے خون میں بھی اس پروٹین کی زیادہ مقدار دیکھی جا چکی ہے۔

    اس حوالے سے جانوروں پر بھی تحقیق کی جا چکی ہے، جن سے معلوم ہوا کہ انسولین کی کارکردگی متاثر کرنے میں بھی یہی پروٹین اہم کردار ادا کرتا ہے، انسولین وہ ہارمون ہے جو گلوکوز سے توانائی حاصل کرنے میں خلیوں کے کام آتا ہے۔

    انسولین کی کارکردگی متاثر ہونے کی وجہ سے ٹائپ 2 ذیابیطس لاحق ہو جاتی ہے، جس سے مرتے دم تک چھٹکارا ممکن نہیں ہوتا۔

  • خون کا ٹیسٹ کرونا وائرس کی شدت کے بارے میں بتا سکتا ہے

    خون کا ٹیسٹ کرونا وائرس کی شدت کے بارے میں بتا سکتا ہے

    کرونا وائرس کا شکار ہوجانے والے افراد میں قبل از وقت اس کی شدت کی پیشگوئی کرنا مشکل ہے اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پیماری کیا رخ اختیار کرے گی۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق خون کے ٹیسٹوں کے ذریعے کرونا وائرس کی شدت کے بارے میں جاننا ممکن ہوسکتا ہے۔

    ییل یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ خون کے ٹیسٹوں سے ایسے بائیو میکرز کی شناخت کی جاسکتی ہے جو خون کے خلیات کے متحرک ہونے اور موٹاپے سے منسلک ہوتے ہیں، جن سے کووڈ 19 کے مریضوں میں بیماری کی شدت کی پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔

    طبی جریدے بلڈ ایڈوانسز میں شائع تحقیق میں شامل محقق ڈاکٹر ہیونگ چون نے بتایا کہ ان افراد میں یہ حیاتیاتی سگنلز کی سطح زیادہ ہوتی ہے، ان کا آئی سی یو میں داخلے، وینٹی لیٹر کی ضرورت یا موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    اس سے قبل بھی تحقیقی رپورٹس میں کووڈ 19 کی ممکنہ سنگین بیماری کی شناخت کے لیے ڈی ڈیمیر اور مدافعتی پروٹینز کی نشاندہی کی گئی تھی، تاہم اب تک ایسا کوئی ٹیسٹ تشکیل نہیں دیا جا سکا تھا جو کووڈ کے مریضوں میں بیماری کی شدت کی پیشگوئی کر سکے۔

    اس تحقیق کے لیے محقین نے کووڈ کے 100 مریضوں کے خون میں متعدد پروٹینز کی اسکریننگ کرکے دیکھا کہ ان میں بیماری کی شدت کیا ہوسکتی ہے۔

    تمام مریضوں کے خون کے نمونے اسپتال میں داخلے کے پہلے روز لیے گئے، جبکہ ییل نیو ہیون ہاسپٹل سسٹم میں زیر علاج 3 ہزار سے زائد مریضوں کے کلینیکل ڈیٹا کا تجزیہ بھی کیا گیا۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ 5 پروٹینز ریزیزٹن، لپوکالن 2، ایچ جی ایف، آئی ایل 8 اور جی سی ایس ایف خون کے سفید خلیات کی ایک قسم نیوتھرو فلز سے منسلک ہوتے ہیں، جن کی سطح کووڈ 19 سے سنگین حد تک بیمار ہونے والے افراد میں بڑھ جاتی ہے۔

    ان میں سے بیشتر پروٹینز کو ماضی میں موٹاپے سے بھی جوڑا جاتا رہا ہے مگر کووڈ یا کسی وائرل بیماری سے تعلق پہلی بار سامنے آیا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ بائیو میکرز ایسے مریضوں میں بڑھ جاتے ہیں جن میں علامات بھی ظاہر نہ ہوں مگر بعد میں بیماری کی شدت سنگین ہوگئی، اسی طرح ان بائیو میکرز کی شرح ان افراد میں کم ہوتی ہے جن میں بیماری کی شدت معتدل رہتی ہے اور ان میں سے کسی کی موت بھی واقع نہیں ہوئی۔

    محققین کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار ہے جب دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے خون میں موجود پروٹینز کی سطح سے بیماری کی شدت کی پیشگوئی کافی پہلے کی جاسکتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس طرح کی پیشگوئی جلد کرنا مریض کے علاج میں زیادہ مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

  • موت کی پیشگوئی کرنے والا بلڈ ٹیسٹ

    موت کی پیشگوئی کرنے والا بلڈ ٹیسٹ

    برلن : جرمن سائنسدانوں نے بلڈ ٹیسٹ سے موت کی پیشگوئی کا دعویٰ کردیا ، فی الحال یہ بلڈ ٹیسٹ عام استعمال کے لیے متعارف نہیں کرایا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق جرمن سائنسدانوں نے ایک ایسا بلڈ ٹیسٹ تیار کیا ہے جو اگلے 10 برسوں میں کسی فرد کی موت کے امکانات کی پیشگوئی کرسکے گا۔

    سائنسدانوں نے 44 ہزار افراد کا تجزیہ کرنے کے بعد خون کے 14 ایسے بائیومیکر دریافت کیے ہیں جو موت کے خطرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔یہ بائیومیکر قوت مدافعت سے لے کر گلوکوز کنٹرول، چربی کی گردش اور ورم وغیرہ پر مشتمل ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ان بائیو میکر پر کیے جانے والے تجربات کے دوران 2 سے 16 برسوں کے دوران کسی کی موت کے بارے میں 83 فیصد درستگی پر مبنی پیشگوئیاں کی گئیں۔

    یہ بلڈ ٹیسٹ فی الحال عام استعمال کے لیے متعارف نہیں کرایا گیا مگر سائنسدانوں کو توقع ہے کہ تحقیق کے نتائج سے مستقبل میں کسی مریض کے علاج کے لیے اسے استعمال کرنے میں مدد مل سکے گی۔

    ماہرین نے اسے پیشرفت قرار دیتے ہوئے زور دیا ہے کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے جس کے بعد ہی اسے حقیقی زندگی میں استعمال کے لیے پیش کیا جائے۔

    میکس پلانک انسٹیٹوٹ آف بائیولوجی آف ایجنگ کی اس تحقیق میں 18 سے 109 سال کی عمر کے ہزاروں افراد کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا اور اس کے نتائج طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئے۔

    اس سے قبل گزشتہ سال امریکا کی یالے یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک تحقیق میں دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے بلڈ ٹیسٹ کا ایسا طریقہ کار تیار کیا ہے، جس کے ذریعے پیشگوئی کی جاسکتی ہے کہ کسی فرد کی کتنی زندگی باقی ہے۔

    تحقیق میں محققین کا اصرار تھا کہ کسی فرد کی عمر کے حوالے سے پیشگوئی کرنے والا یہ بلڈ ٹیسٹ سے انتہائی مستند، عملی اور آسان ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ مستقبل قریب میں اسے عملی طور پر آزمایا جاسکے گا تاہم جینیاتی ٹیسٹ کی بجائے یہ نتائج پتھر پر لکیر کی طرح نہیں ہوں گے، اب وہ ان عناصر کا تعین کرنا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے خلیات کی عمر بڑھتی ہے، تاکہ لمبی عمر کے لیے لوگوں کی مدد کی جاسکے، نوجوان یا درمیانی عمر کے افراد، سب کو لگتا ہے کہ وہ صحت مند ہیں مگر ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اس ٹیسٹ سے لوگوں کو حقیقی خطرے سے آگاہ کرنے میں مدد مل سکے گی اور ایسے عناصر کو مانیٹر کیا جاسکے گا جو مستقبل میں خطرہ بن سکتے ہیں۔

    محققین کا کہنا تھا کہ یہ ٹیسٹ کسی فرد کی عمر کی بہتر پیشگوئی میں مددگار ہے کیونکہ یہ انسانی جسم کے اندر عمر بڑھنے کے اثرات کا جائزہ لیتا ہے۔