Tag: بلڈ گروپ

  • خون کے مخصوص گروپ اور کرونا وائرس میں حیران کن تعلق کا انکشاف

    خون کے مخصوص گروپ اور کرونا وائرس میں حیران کن تعلق کا انکشاف

    کوپن ہیگن: ڈنمارک میں طبی ماہرین نے خون کے مخصوص گروپس اور کرونا وائرس انفیکشن کے درمیان تعلق کے بارے میں نیا پریشان کن انکشاف کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق خون کے مخصوص گروپس اور کو وِڈ 19 کے خطرے میں تعلق دریافت ہو گیا ہے، طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ O بلڈ گروپ والے افراد میں کرونا انفیکشن کا خطرہ دیگر گروپس سے کم ہوتا ہے، ان میں شکار ہونے کے بعد پیچیدگیوں کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔

    طبی جریدے بلڈ ایڈوانسز میں شائع ہونے والی دو تحقیقی رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ او بلڈ گروپ والے افراد کرونا انفیکشن کی شدت سے محفوظ رہتے ہیں، تاہم اس سلسلے میں ابھی مزید تحقیق کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔

    اس ریسرچ کے لیے ڈنمارک کی ہیلتھ رجسٹری کے تحت 4 لاکھ 73 ہزار سے زائد افراد کے کو وِڈ 19 کے ٹیسٹوں کے ڈیٹا کا موازنہ عام آبادی کے 22 لاکھ افراد سے کیا گیا۔ کرونا سے متاثرہ افراد میں یہ بات سامنے آئی کہ ان او بلڈ گروپ کے افراد کی تعداد بہت کم ہے جب کہ اے، بی اور اے بی بلڈ گروپس والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یعنی بلڈ گروپ اے، بی یا اے بی والے افراد میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا امکان او بلڈ گروپ والے افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    اس سلسلے میں ایک تحقیق اوڈینسے یونی ورسٹی ہاسپٹل اور سدرن ڈنمارک یونی ورسٹی کے تحت کی گئی، جب کہ دوسری تحقیق کینیڈا میں ہوئی جس میں دریافت کیا گیا کہ اے اور اے بی بلڈ گروپس والے افراد میں کو وڈ 19 کی سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    محققین نے دریافت کیا کہ اے یا اے بی بلڈ گروپ والے مریضوں میں وینٹی لیٹر کی ضرورت زیادہ ہو سکتی ہے، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ان میں کرونا وائرس پھیپھڑوں کو زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اے اور اے بی بلڈ گروپ والے مریضوں کو گردوں کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے ڈائیلاسز کی بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ دونوں تحقیقی رپورٹس کے نتائج سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں بلڈ گروپس والے مریضوں میں اعضا کے افعال رک جانے یا اعضا ناکارہ ہونے کا خطرہ او یا بی بلڈ گروپ والے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    اے اور اے بی بلڈ گروپ والے افراد کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ انھیں اوسطاً آئی سی یو میں زیادہ وقت گزارنا پڑتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا کرونا انفیکشن کتنا سنگین ہوت سکتا ہے۔ کینیڈا کی تحقیق میں شامل ماہرین کا بھی کہنا تھا کہ انھوں نے خون کے گروپس کے تناظر میں مریضوں میں پھیپھروں اور گردوں کے نقصان کا مشاہدہ کیا۔

    اس طرح دیگر تحقیقات بھی سامنے آ چکی ہیں، ستمبر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ بلڈ گروپ اے کے حامل افراد میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، اس تحقیق میں بھی او بلڈ گروپ والوں میں کرونا کے خطرے کو کم دیکھا گیا۔

    جولائی میں امریکی ریاست میساچوسٹس میں ایک تحقیق میں یہ سامنے آیا تھا کہ او بلڈ گروپ کرونا وائرس ٹیسٹ کے مثبت آنے کا امکان کم کرتا ہے جب کہ بی اور اے بی ٹائپ میں سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ مارچ میں چین میں ہونے والی ایک تحقیق میں بھی کہا گیا تھا کہ اے بلڈ گروپ والے افراد میں کو وِڈ 19 کا شکار ہونے کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے جب کہ او بلڈ گروپ کے مالک افراد میں یہ خطرہ نمایاں حد تک کم ہوتا ہے۔

    جرمنی کے مالیکیولر میڈیسین کے پروفیسر آندرے فرینک نے اس حوالے سے ایک جرمن تحقیق میں کہا تھا کہ یہ ضروری نہیں کہ بلڈ گروپ کسی فرد کے زیادہ بیمار ہونے کا تعین کرے، تاہم ہم نے بلڈ گروپس کا تجزیہ کرنے کے بعد اندازہ لگایا کہ او گروپ والے افراد کو 50 فی صد زیادہ تحفظ اور اے گروپ والوں کے لیے 50 فی صد زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

  • یہ نایاب ترین بلڈ گروپ رکھنے والے کیا کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں؟

    یہ نایاب ترین بلڈ گروپ رکھنے والے کیا کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں؟

    اپنی زندگی میں بھانت بھانت کے لوگوں سے ملتے ہوئے، ہر طرح کے رویوں کا سامنا کرتے ہوئے کیا آپ کو کبھی یہ خیال گزرا ہے کہ آپ کی زندگی میں آنے والا کوئی شخص اس زمین کے لوگوں سے منفرد، کوئی خلائی مخلوق بھی ہوسکتا ہے؟

    کسی شخص کے بارے میں اگر کہا جائے کہ یہ اس زمین سے تعلق نہیں رکھتا، اور سیارہ مریخ یا سیارہ زہرہ سے آیا ہے تو بظاہر یہ بات ناقابل یقین لگتی ہے، لیکن ماہرین چند افراد کے بارے میں ایسا گمان رکھتے ہیں۔

    دراصل یہ افراد دنیا کے وہ 15 فیصد افراد ہیں جن میں اب تک معلوم شدہ خون کے نمونوں میں سے دنیا کا نایاب ترین نمونہ یا بلڈ گروپ پایا جاتا ہے، یہ بلڈ گروپ آر ایچ نیگیٹو ہے اور یہ اس قدر نایاب ہے کہ بعض اوقات یہ زمین سے الگ کسی اور سیارے کا پیدا کردہ لگتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس نایاب ترین بلڈ گروپ کے حامل افراد دیگر افراد سے ممتاز تو ضرور ہوتے ہیں تاہم ان میں قبل از وقت موت کے خطرات بہت زیادہ ہوتے ہیں، کیونکہ اگر یہ کسی حادثے کا شکار ہوجائیں تو پھر ان کے لیے بچنا ناممکن ہوتا ہے کیونکہ ان کا بلڈ گروپ آسانی سے نہیں مل سکتا۔

    ایسے افراد کسی دوسرے شخص کو اپنا خون دے تو سکتے ہیں تاہم ان کا جسم کسی دوسرے قسم کا خون قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے۔

    آر ایچ نیگیٹو بلڈ گروپ رکھنے والے افراد حیران کن طور پر نمایاں جسمانی خصوصیات رکھتے ہیں۔ ان کی آنکھیں سبز یا نیلی ہوتی ہیں، بال نارنجی مائل ہوتے ہیں جبکہ ان کے جسم کا درجہ حرارت قدرتی طور پر سرد ہوتا ہے اور یہ گرم درجہ حرارت برداشت نہیں کرسکتے۔

    یہ افراد جسمانی، دماغی اور جذباتی طور پر بھی دیگر عام افراد سے مختلف ہوتے ہیں۔

    آر ایچ نیگیٹو بلڈ گروپ رکھنے والی خواتین جب بچے کو جنم دیتی ہیں اور اگر ان کے بچے کا بلڈ گروپ بھی یہی ہو تو انہیں سخت پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ایسے خون کی حامل ماں کا جسم خود ہی بچے کو قتل کرنے کی کوششوں میں ہوتا ہے۔

    دنیا کا یہ نایاب ترین بلڈ گروپ رکھنے والے یہ افراد زیادہ تر شمالی یورپ میں موجود ہیں۔