Tag: بلیک ہول

  • اگر کوئی شخص بلیک ہول میں گرے گا تو کیا ہوگا؟ ناسا نے ناقابل یقین ویڈیو بنا لی

    اگر کوئی شخص بلیک ہول میں گرے گا تو کیا ہوگا؟ ناسا نے ناقابل یقین ویڈیو بنا لی

    امریکی خلائی ادارے ناسا نے ایک ایسی ناقابل یقین ویڈیو بنائی ہے، جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص بلیک ہول میں گرے گا تو کیا ہوگا؟

    انسان جب اپنی زندگی اور کائنات کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے تو ایک خیال اسے ضرور پریشان کرتا ہے کہ اگر بدقسمتی وہ کسی بلیک ہول میں گرنے والا ہو تو اس وقت کیا ہوگا۔ ناسا نے آخرکار اپنے سپر کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہوئے ایک شان دار نقل (سیمولیشن) تیار کر کے اس سوال کا جواب دے دیا ہے۔

    ایونٹ ہورائزن کیا ہے؟

    بلیک ہول کی سطح کو ایونٹ ہورائزن (event horizon) کہا جاتا ہے، اس میں وہ تمام مادے شامل ہوتے ہیں جن سے بلیک ہول بنتا ہے اور اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اس میں سے روشنی بھی گزر نہیں پاتی۔ اس ایونٹ ہورائزن میں اگر کوئی ٹھوس چیز گرے گی تو کیا ہوگا، یہ دکھانے کے لیے ناسا نے ایک نئے اور عمیق تمثال (visualization) پر مبنی ایک ویڈیو بنائی ہے، ناظرین جس میں دیکھ سکتے ہیں کہ گرتے وقت ناقابل واپسی نقطے (پوائنٹ آف نو ریٹرن) پر کیا دکھائی دیتا ہے۔

    امریکی ریاست میری لینڈ میں ناسا کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے سائنس دانوں نے یہ سیمولیشن اپنے ایک انتہائی طاقت ور سپر کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہوئے تیار کی ہے۔

    اس پروجیکٹ نے تقریباً 10 ٹیرا بائٹس ڈیٹا تیار کیا اور اسے کمپیوٹر کے 1 لاکھ 29 ہزار پروسیسرز کے صرف 0.3 فی صد حصے پر چلنے میں تقریباً 5 دن لگے، ایک عام لیپ ٹاپ پر اسے چلنے میں دس سال سے زیادہ وقت لگے گا۔

    یہ تمثیل (visualization) کیا ہے؟

    ناسا نے جو یہ تمثیل تخلیق کی ہے، اس میں ایک عظم الجثّہ (supermassive) بلیک ہول کی جانب ایک پرواز دکھائی گئی ہے، اس سفر کے دوران راستے میں ایسی دل چسپ شبیہیں پیدا ہوتی ہیں جو (آئن اسٹائن کے) عمومی نظریہ اضافیت (general relativity) کے اثرات کا نتیجہ ہیں۔

    اس میں آپ کو ایک کیمرہ نظر آئے گا جو چلتے چلتے ایک مختصر چکر لگاتا ہے، اور پھر ہماری کہکشاں کے مرکز میں موجود بلیک ہول (سورج سے تقریباً 43 لاکھ گنا بڑا) جتنے بڑے عفریت نما بلیک ہول کے ایونٹ ہورائزن (ناقابل واپسی نقطہ) کو پار کر لیتا ہے۔

    اس نقل (simulation) میں جو صورت حال دکھائی گئی ہے، اس کا تصور کرنا بھی انسان کے لیے مشکل ہے، لیکن دستیاب علم اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ناسا نے اسے کافی حد تک ممکن بنایا، چناں چہ ناسا کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے ماہر فلکیات جیریمی شنٹمین کے مطابق انھیں اس سیمولیشن کے ذریعے اس حوالے سے مدد ملی ہے کہ نظریۂ اضافیت کی ریاضی کو حقیقی کائنات کے حقیقی نتائج سے کیسے جوڑا جائے۔

    انھوں نے بتایا ’’میں نے دو مختلف خاکوں کی نقلیں تیار کیں، ایک خاکے میں کیمرا (کسی بہادر خلاباز کی طرح) ایونٹ ہورائزن یعنی بلیک ہول کی سطح سے بال بال بچ کر کششِ ثقل کے دھکے سے واپس آ جاتا ہے، اور دوسرے میں یہ کیمرا اپنے مقدر پر مہر لگاتے ہوئے باؤنڈری کو عبور کر لیتا ہے۔‘‘

    ناسا کے مطابق سیمولیشن میں دکھائے گئے بلیک ہول کی سطح یعنی ایونٹ ہورائزن کی پیمائش تقریبا ڈھائی کروڑ کلومیٹر (1.6 کروڑ میل) ہے، اس کے گرد گیس کی ایک گرم اور چمک دار ڈسک (اضافی تہہ) بنی ہوئی ہے، ان چمک دار ساختوں کو فوٹون رِنگ کہا جاتا ہے، یہ اُس روشنی سے بنتے ہیں جو بلیک ہول کے گرد ایک بار زیادہ بار چکر لگاتی ہے۔

    جیسے جیسے کیمرہ بلیک ہول کے قریب پہنچتا ہے، ویسے ویسے کیمرے کی رفتار روشنی کی رفتار جتنی ہوتی جاتی ہے، سیمولیشن میں دکھائی جانے والی اس مووی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب کیمرہ بلیک ہول سے 640 ملین کلو میٹر دور ہے، قریب آتے آتے بلیک ہول کے گرد موجود چمک دار ڈسک، نارنجی اور پیلے رنگ کے فوٹون رِنگز، اور رات کے آسمان کی شکل تیزی سے بگڑتی ہے، اور حتیٰ کہ ان کی روشنی جب تیزی سے ٹیڑھے میڑے ہوتے زمان و مکان (space-time) میں داخل ہوتی ہے تو گوناں گوں عکس تشکیل پاتے ہیں۔

    زمان و مکان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

    یہ سیمولیشن تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کیمرے کو بلیک ہول کی سطح میں گرنے کے لیے 3 گھنٹے لگے، راستے بھر اس نے 30 منٹ کے تقریباً دو مکمل محوری چکر لگائے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ دور سے اگر کوئی اسے دیکھے تو وہ یہی سمجھے گا کہ کیمرہ کبھی وہاں پہنچ ہی نہیں سکا۔ کیوں کہ بلیک ہول کی سطح سے قریب ہوتے ہوتے زمان و مکان زیادہ فولڈ (یا ٹیڑھا میڑا) ہو جاتا ہے، اس لیے کیمرے کا عکس سست ہو جائے گا اور پھر بالکل ہی منجمد ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین فلکیات بلیک ہولز کو ’منجمد ستارے‘ کہا کرتے ہیں۔

    بلیک ہول کی سطح پر خود زمان و مکان بھی روشنی کی رفتار (یعنی کائناتی رفتار کی حد) سے اندر کی طرف بہنے لگتا ہے، جیسے ہی وہ اس کے اندر داخل ہوتے ہیں، کیمرا اور زمان و مکان دونوں بلیک ہول کے مرکز کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں۔ یہ مرکز ’ون ڈائمنشنل پوائنٹ‘ (یک جہتی نقطہ) ہے جسے سنگولیریٹی (singularity) کہا جاتا ہے، اور اس میں فزکس کے قوانین (ہمارے علم کے مطابق) کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

    اسپگیٹیفیکیشن کیا ہے؟

    ڈاکٹر شنٹمین کے مطابق ایک بار جب کیمرہ بلیک ہول کی سطح کو عبور کر لیتا ہے تو اسے تباہ ہونے میں محض 12.8 سیکنڈ کا وقت لگتا ہے، اور یہ عمل spaghettification کہلاتا ہے۔ ایک ایسا عمل جس میں جسم سوئیوں کی طرح لمبا ہوتے ہوتے پتلا ہو جاتا ہے۔ اس موقع پر یہ مرکز سے 79 ہزار 500 میل دور ہوتا ہے، اور اس سفر کا یہ آخری لمحہ محض پلک جھپکتے پورا ہو جاتا ہے۔

    سوئیوں جیسا یہ عمل اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ کسی بھی جسم کا وہ سرا جو بلیک کے قریب ہوتا ہے، اس کا کشش ثقل اُس دوسرے سرے سے جو بلیک ہول دور ہوتا ہے، میں بہت فرق ہوتا ہے، چناں چہ دونوں طرف کا کشش ثقل اس جسم کو اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور یوں وہ سوئیوں کی طرح لمبا ہوتا چلا جاتا ہے۔


  • سورج سے کئی گنا زیادہ روشن ’بلیک ہول‘ دریافت

    سورج سے کئی گنا زیادہ روشن ’بلیک ہول‘ دریافت

    ماہرین فلکیات کائنات میں ایک ملین کے قریب تیزی سے بڑھتے ہوئے سپر میسیو بلیک ہولز کو تلاش کرچکے ہیں جو کہکشاؤں کے مراکز میں پائے جاتے ہیں۔

    سائنسی جریدے نیچر آسٹرونومی میں شائع ہونے والے ایک نئے مضمون میں اب تک دریافت ہونے والی گیس اور دھول کی سب سے بڑی اور روشن ترین ڈسک سے گھرے ہوئے بلیک ہول کے وجود کو بیان کیا گیا ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق امریکی سائنسدانوں نے سورج سے 500 ٹریلین گنا زیادہ روشن ’کواسر‘ دریافت کرلیا ہے، خیال کیا جارہا ہے کہ یہ کائنات میں سب سے زیادہ روشن اور سب سے زیادہ طاقتور جگہ ہوسکتی ہے۔

    غیر معمولی طاقت کے حامل اس بلیک ہول کو ’جے0529-4351‘ کا نام دیا گیا ہے، یہ بلیک ہول بنیادی طور پر ’کواسر‘ یعنی کہکشاں کا مرکزی حصہ ہے، فلکیات کی اصطلاح میں اسے اے جی این یعنی ’ایکٹیو گیلیکٹک نیوکلیس‘ کہا جاتا ہے۔

    یہ غیر معمولی طور پر بڑی مقدار میں توانائی خارج کرتا ہے، ان میں وسیع پیمانے پربلیک ہولز ہوتے ہیں، جو سورج سے لاکھوں یا اربوں گنا زیادہ بڑے ہوتے ہیں اور مادے کی بڑی مقدار کو نگل رہے ہیں۔

    دی گارڈین کے مطابق آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ابتدائی طور پر آسٹریلیا کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے قریب واقع قصبے میں کواسر کی اطلاع دی تھی، جس کی تصدیق بعد میں یورپی سدرن آبزرویٹری نے کی تھی۔

    نیچر آسٹرونومی نامی جریدے کے مصنف کرسچن وولف نے یورپی سدرن آبزرویٹری کو بتایا کہ ہم نے اب تک کا سب سے روشن بلیک ہول دریافت کیا ہے جو سورج کی کمیت سے 17 سے 19 ارب گنا کے درمیان ہے جو روزانہ ایک دن میں سورج کے برابر مادہ نگل رہا ہے کیونکہ یہ گیس کی بڑی مقدار کو کھینچتا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان بلیک ہولز سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ اس روشنی کو ہم تک پہنچنے میں 12 بلین سال سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کا پھیلاؤ بہت پہلے رک چکا ہوگا۔

  • بلیک ہول سے نکلنے والی شے نے سائنس دانوں کو حیران کر دیا

    بلیک ہول سے نکلنے والی شے نے سائنس دانوں کو حیران کر دیا

    سائنس دانوں نے کہا ہے کہ بلیک ہول ایک ایسا مادہ خار ج کررہا ہے جسے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔

    بلیک ہول کی عجیب واقعات کا سلسلہ 2018 میں اس وقت شروع ہوا جب سائنس دانوں نے دیکھا کہ زمین سے تقریباً ساڑھے 66 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر موجود ایک چھوٹے ستارے کو بلیک ہول نے ریزہ ریزہ کر دیا۔

    سائنس دانوں کے لیے یہ معمول کی بات ہے کہ بلیک ہولز اپنے اردگرد فلکی اجسام کو تباہ کر دیتے ہیں، لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے ہیں کہ تین سال کے بعد بلیک ہول نے ایک مادہ خارج کرنا شروع کر دیا۔

    بلیک ہول پر ایک نئی تحقیق کرنے والی مصنفہ ایویٹ سینڈیز نے کہا کہ ’بلیک ہولز سے نکلنے والے اس مادہ نے ہمیں مکمل طور پر حیران کر دیا ہے، اس سے قبل کسی نے ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی تھی۔‘

    سائنس دانوں نے اس پر اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلیک ہول سے باہر آنے والا یہ مادہ تاخیر کا شکار تھا، ہمیں ابھی نہیں معلوم کہ اس مادے کو باہر آنے میں تاخیر کیوں ہوئی لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ اس پر مزید تحقیق سے ہمیں اسے بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملےگی۔

    محققین نے 2021 میں پہلی بار نیو میکسیکو میں قائم وی ایل اے کا استعمال کرتے ہوئے بلیک ہول کے اس مادے کا مشاہدہ کیا تھا۔ بلیک ہول کی اس غیر معمولی ریڈنگ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ دوبارہ حرکت میں آگیا ہے۔

    اس مادے کے خارج ہونے کے بعد بین الاقوامی ماہرین فلکیات کی ایک ٹیم یہ جاننے کے لیے میکسیکو پہنچی کہ حقیقت میں بلیک ہول میں کیا ہو رہا ہے، اور اس غیر متوقع حرکت کے پیچھے اصل ماجرا کیا ہے۔

    ماہرین فلکیات کی ٹیم نے اس سے متعلق تحقیق کی تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ ریڈیو سگنیچر ڈرامائی حد تک عجیب تھے۔ بلیک ہول تین سال تک خاموش رہا جس کے بعد اب اس سے ریڈیو انرجی خارج ہونا شروع ہو گئی اور انرجی بھی ایسی جو انتہائی طاقت ور تھی۔

    سائنس دانوں کے مطابق بلیک ہول سے نکلنے والا مادہ بہت زیادہ تیزی سے نکل رہا ہے۔ اس کی رفتار روشنی کی رفتار کے نصف فیصد کے برابر ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں اس طرح کے زیادہ تر واقعات میں یہ رفتار روشنی کی رفتار کا 10 فیصد ہوتی ہے۔

    سائنس دان اب اس بلیک ہول اور اس کے رویے کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں اور ساتھ ہی یہ جاننے کی بھی کوشش کررہے ہیں کہ ۔کیا  بلیک ہول اس طرح کا مادہ ماضی میں بھی خارج کرتا رہا ہے جسے وہ کبھی دیکھ نہیں پائے ہیں

  • نظر کا دھوکا یا سچ میں یہ بلیک ہول پھیل رہا ہے؟

    نظر کا دھوکا یا سچ میں یہ بلیک ہول پھیل رہا ہے؟

    بصری وہم میں مبتلا کرنے والی یہ ایک حیرت انگیز تصویر ہے، اسے جیسے ہی آپ دیکھنا شروع کرتے ہیں، یہ پھیلتا ہوا محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

    لیکن یہ اہم سوال ہے کہ کیا یہ نظر کا دھوکا ہے یا سچ میں یہ بلیک ہول پھیل رہا ہے؟ یہ سوال آپ کو، جب آپ اس تصویر کو بہ غور دیکھنا شروع کریں گے، ضرور پریشان کرے گا۔

    یہ ایک نہایت دل چسپ وائرل آپٹیکل الیوژن ہے کیوں کہ اس میں آپ جتنا زیادہ بلیک ہول کو گھوریں گے، یہ اتنا ہی زیادہ آپ کے ذہن کو دھوکا دے گا۔

    ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ اس کینوس پر موجود یہ بلیک ہول بالکل بھی حرکت نہیں کرتا، ظاہر ہے کہ یہ محض ایک غیر متحرک تصویر ہے، اس لیے حرکت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن آپ اسے گھورنے لگتے ہیں اور پھر یہ بڑا ہو جاتا ہے۔

    آپ یقین نہیں کریں گے کہ جب ناروے کی یونیورسٹی آف اوسلو اور جاپان کی رِتسومیکان یونیورسٹی کے ماہرین نفسیات نے اس حوالے سے کچھ لوگوں پر یہ ٹیسٹ کیا تو، 86 فی صد افراد نے جواب دیا کہ ہاں بلیک ہول بڑا ہو جاتا ہے۔

    ماہرین نفسیات نے دعویٰ کیا کہ دیکھنے والوں کا خیال ہے کہ پھیلتا ہوا بلیک ہول انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ وہ مستقبل دیکھ رہا ہے، ماہرین نے مزید کہا کہ یہ ان کے ‘مستقبل’ کے صرف 100 ملی سیکنڈز کو ظاہر کرتا ہے، یہ انسانی آنکھ سے دماغ کے اونچے حصوں تک معلومات کی پروسیسنگ میں ایک نہایت معمولی پل کی وجہ سے ہوتا ہے۔

  • کیا بلیک ہول کے اس پار دوسری دنیا ہے؟

    کیا بلیک ہول کے اس پار دوسری دنیا ہے؟

    ہماری کائنات میں واقع بلیک ہول اپنے اندر بے پناہ اسرار رکھتے ہیں کیونکہ ان کے اندر کیا ہے، یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا، یہ بھی ممکن ہے ان کے دوسری طرف ایک اور کائنات ہو۔

    بلیک ہولز بیرونی خلا میں دریافت ہونے والی سب سے دلچسپ چیزوں میں سے ایک ہیں، یہ روشنی سمیت ہر چیز کو اپنے اندر کھینچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نظروں سے پوشیدہ ہیں۔

    ناسا کے مطابق بلیک ہول کی مضبوط کشش ثقل مادے کو ایک انتہائی چھوٹی سی جگہ میں دبانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور یہ کمپریشن ستارے کی زندگی کے اختتام پر وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ اگرچہ بلیک ہولز بذات خود آنکھوں سے نہیں دیکھے جا سکتے، لیکن خصوصی دوربینیں ایسے مواد اور ستاروں کے رویے کا مشاہدہ کر سکتی ہیں جو بلیک ہولز کے بہت قریب ہیں۔

    کچھ بلیک ہولز ایک ایٹم جتنے چھوٹے ہو سکتے ہیں لیکن ان کی کمیت ایک پہاڑ جتنی ہوسکتی ہے، جبکہ دوسرے ہمارے نظام شمسی کے سائز کے ہو سکتے ہیں لیکن ان کی کمیت 1 ملین سورج سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

    سیگیٹیریئس اے ہماری کہکشاں میں موجود ملکی وے کے مرکز میں واقع بلیک ہول ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں تقریباً 4 ملین سورجوں کی کمیت ہے۔

    ناسا کے سائنس دانوں کو نہیں لگتا کہ زمین کو کسی بھی وقت جلد ہی بلیک ہول میں کھینچ لیا جائے گا۔

    لیکن فرضی طور پر، اگر زمین کو بلیک ہول میں کھینچ لیا جائے تو کیا ہوگا؟ کیا ہم کشش ثقل کے ذریعے ختم ہو جائیں گے، یا یہ ہمیں کسی متوازی کائنات میں لے جائے گا؟

    بلیک ہول میں کیا ہوتا ہے اس کے بارے میں اصل میں زیادہ کچھ معلوم نہیں ہے سوائے اس کے کہ تمام مادہ ایک لامحدود چھوٹے نقطے پر سکڑ جاتا ہے اور جگہ اور وقت کے تمام تصورات ٹوٹ جاتے ہیں۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ بلیک ہول دراصل سوراخ نہیں ہوتے، وہ درحقیقت اشیا ہیں، لیکن چونکہ کوئی روشنی ان سے بچ نہیں سکتی، وہ ہمیں ایک سوراخ کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔

    تاہم، چونکہ روشنی اس پر پڑ نہیں سکتی اس لیے بلیک ہولز میں درحقیقت بہت کچھ ہو سکتا ہے جسے ہم نہیں دیکھ سکتے۔

    سنہ 2018 میں اپنی موت سے پہلے، نظریاتی طبیعیات دان اسٹیفن ہاکنگ نے اس خیال سے اختلاف کیا کہ ہر وہ چیز جو بلیک ہول میں چلی جاتی ہے وہ ہمیشہ کے لیے تباہ ہو جاتی ہے۔

    سنہ 2015 کی اپنی ایک تقریر میں ہاکنگ نے کہا کہ بلیک ہولز وہ ابدی جیلیں نہیں ہیں جن کے بارے میں کبھی سوچا جاتا تھا، اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ بلیک ہول میں پھنسے ہوئے ہیں، تو ہمت نہ ہاریں۔ باہر نکلنے کا راستہ ہے۔

    وہ یہ تجویز کرتے رہے کہ بلیک ہولز درحقیقت کسی اور دنیا کے لیے گیٹ وے ہو سکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا تھا کہ بلیک ہول کو کافی بڑا ہونا چاہیئے اور اگر یہ گھوم رہا ہے تو اس کا راستہ کسی اور کائنات تک جا سکتا ہے۔ لیکن آپ ہماری کائنات میں واپس نہیں آسکتے۔

  • ویڈیو: بلیک ہول کی دل دہلا دینے والی آواز

    ویڈیو: بلیک ہول کی دل دہلا دینے والی آواز

    امریکی خلائی ادارے ناسا نے بلیک ہول کی آڈیو جاری کر دی، یہ بلیک ہول زمین سے 20 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع کہکہشاں میں ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی خلائی ادارے ناسا کے سائنس دانوں نے زمین سے 20 کروڑ نوری سال سے زائد کے فاصلے پر موجود پرسیس کہکشاں کے جتھے کے مرکز پر موجود بلیک ہول کی آڈیو جاری کر دی۔

    آواز کی یہ لہریں ناسا کی اسپیس ٹیلی اسکوپ چندرا ایکس رے آبزرویٹری نے فلکیاتی ڈیٹا کی شکل میں ریکارڈ کیں اور پھر اس کو آواز میں ڈھال دیا تاکہ انسان اس آواز کو سن سکیں۔

    عام سطح پر یہ بات مشہور ہے کہ خلا میں کوئی آواز نہیں ہوتی کیوں کہ آواز کی لہروں کے سفر کرنے لیے کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔

    جاری ہونے والی نئی آڈیو مشہور موسیقات ہینس زِمر کے اسکور سے ملتی جلتی ہے۔

    خلائی ایجنسی کے ماہرینِ فلکیات کو اس بات کا احساس ہوا کہ پرسیس، 1 کروڑ 10 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر موجود کہکشاؤں کا جتھہ، کے اطراف میں موجود گرم گیسز بھی آواز میں ڈھالی جاسکتی ہیں۔

    سینکڑوں بلکہ ہزاروں کہکشاؤں کے گرد موجود یہ گیس آواز کی لہروں کو سفر کرنے کے لیے ذریعہ فراہم کرتا ہے۔

    یہ سونی فکیشن آواز کی لہروں کی انسان کے سننے کی حد پر اس کی حقیقی پچ سے 57 یا 58 آکڑیو اوپر رکھ کر ری سنتھیسائز کی گئی۔

    ہالی وڈ کمپوزر ہینس زِمر، جنہوں نے آسکر ایوارڈ یافتہ سائنس فکشن فلم انٹراسٹیلر کے لیے ساؤنڈ ٹریکس لکھے، نے ناسا کی جانب سے جاری کی جانے والی اس آواز کے غیر معمولی حد تک مشابہت رکھنے والا میوزک بنایا ہے۔

  • زمین سے قریب بلیک ہول سسٹم، بلیک ہول ہے بھی یا نہیں؟

    زمین سے قریب بلیک ہول سسٹم، بلیک ہول ہے بھی یا نہیں؟

    سنہ 2020 میں دریافت ہونے والے بلیک ہول کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ کوئی بلیک ہول نہیں ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق زمین کے سب سے قریب ترین بلیک ہول سسٹم میں، جس کا فاصلہ زمین سے 1 ہزار نوری سال ہے، میں دراصل کوئی بلیک ہول نہیں ہے۔

    سنہ 2020 میں جب یہ دریافت ہوا تھا تو HR 6819 سسٹم کی غیر معمولی دریافت کے متعلق دو خیالات پیش کیے گئے تھے، ایک کے مطابق یہ سسٹم بلیک ہول کے ساتھ تھا اور دوسرے کے مطابق یہ سسٹم بلیک ہول کے بغیر تھا۔

    1 ہزار نوری سال کے فاصلے پر موجود بلیک ہول کے خیال کو پیش کیا گیا تو اس نے شہ سرخیوں میں خوب جگہ بنائی، جبکہ دوسرے خیال کو اتنی پذیرائی نہیں ملی۔

    تاہم، بیلجیئم کے محقیقن نے ایک نئی تحقیق میں سسٹم کی نئی پیمائشیں لیں تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ کس خیال کے سچ ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔

    انہوں نے یورپی سدرن آبزرویٹری ویری لارج ٹیلی اسکوپ اور وی ایل ٹی انٹرفیرومیٹر کا رخ اس اسٹار سسٹم کی جانب کیا۔ کیوں کہ اس آلے میں ایسی صلاحیت تھی کہ ایسا ڈیٹا فراہم کر سکے جو دونوں خیالات کے مابین فرق بتا دے۔

    تمام شواہد نے ایک ویمپائر اسٹار سسٹم کی جانب اشارہ کیا، جس میں 2 ستارے ایک بہت قریبی مدار میں دیکھے گئے ہیں اور ایک ستارہ دوسرے سے مٹیریل کھینچ رہا ہے۔

    سسٹم میں کسی فاصلے پر گردش ستارے کے شواہد نہیں تھے جو بلیک ہول تھیوری کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

  • دو بلیک ہولز کا خطرناک تصادم، زمین کا مستقبل کیا ہے؟

    دو بلیک ہولز کا خطرناک تصادم، زمین کا مستقبل کیا ہے؟

    کائنات میں اربوں نوری سال کے فاصلے پر دو بلیک ہولز کا خطرناک ٹکراؤ اور تصادم جاری ہے، ماہرین کے مطابق کچھ عرصے میں یہ دونوں بلیک ہولز مل کر ایک بڑا بلیک ہول بنا لیں گے۔

    تقریباً 10 ارب نوری سال کے فاصلے پر دو انتہائی بڑے بلیک ہولز ایک مدار میں اتنا کس کر پھنس گئے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے ٹکرانے کے بعد 10 ہزار سال کے مختصر عرصے میں ایک بڑا بلیک ہول بنا لیں گے۔

    ان کے درمیان مداری فاصلہ 0.03 نوری سال کا ہے جو سورج اور پلوٹو کے درمیان اوسط فاصلے سے تقریباً 50 گنا زیادہ ہے۔

    تاہم، دونوں اس رفتار سے حرکت کر رہے ہیں کہ ان کو بائنری مدار مکمل کرنے کے لیے دو سال لگتے ہیں اور پلوٹو کے حساب سے 248 سال۔

    بائنری سسٹم وہ نظام ہوتا ہے جس میں دو سیارے ایک مرکز کے گرد گھوم رہے ہوتے ہیں، سپر میسِو بلیک ہول بائنریز کا ماہرین فلکیات کی توجہ کا مرکز ہونے کی متعدد وجوہات ہیں۔

    سپر میسو بلیک ہولز اکثر کہکشاؤں کے مرکز میں پائے جاتے ہیں، وہ مرکز جس کے گرد ہر چیز گھومتی ہے۔ جب دو بلیک ہول ایک ساتھ دیکھے جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ دو کہکشائیں قریب آ چکی ہیں۔

    ہم جانتے ہیں کہ یہ عمل ہوتا ہے لہٰذا سپر میسو بلیک ہول بائنری کی تلاش ہمیں بتا سکتی ہے کہ حتمی مراحل میں یہ کیسا لگتا ہے۔ سپر میسو بلیک ہول بائنریز ہمیں یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ کیسے یہ دیو ہیکل اشیا اتنی بڑی ہو سکتی ہیں۔

  • زمین سے 4 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع بلیک ہول دریافت

    زمین سے 4 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع بلیک ہول دریافت

    خلائی ماہرین نے حال ہی میں ایک بہت بڑا بلیک ہول دریافت کیا ہے جو زمین سے 4 کروڑ 70 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق زمین سے 4 کروڑ 70 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر ایک کہکشاں کے مرکز میں ایک بہت بڑا بلیک ہول دریافت کیا گیا ہے جو خلائی غبار کے بادل کے اندر چھپا ہوا تھا۔

    غبار کے بادل کی تفصیلی تصاویر چلی میں نصب یورپین سدرن مشاہدہ گاہ کی ٹیلی اسکوپ سے لی گئیں۔

    ماہرین نے مشاہدہ گاہ کا رخ کہکشاں میسر 77 کی جانب کیا جو زمین سے 4 کروڑ 70 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے، اس کہکشاں کے مرکز میں ماہرین کو ایک خلائی غبار کا موٹا چھلا ملا جس نے ایک بہت بڑے بلیک ہول کو چھپایا ہوا تھا۔

    غبار کے بادل میں اس جگہ پر موجود یہ بلیک ہول دہائیوں سے ایک راز ہے، لیکن ماہرین کی ٹیم نے ٹیلی اسکوپ سے ملنے والی تفصیلی تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے اس بادل میں مختلف مقامات پر درجہ حرارت کی پیمائش کی اور نقشہ بنایا۔

    ایکٹو گلیکٹک نیولائی کے نام سے جانے جانا والا بلیک ہول تیز روشنی کا سبب بنتا ہے جو کہکشاں میں موجود ستاروں کی روشنی کو ماند کردیتا ہے۔ یہ کائنات کی سب سے روشن اور سب سے زیادہ پر اسرار اشیا ہیں جو کہکشاؤں کے بیچوں بیچ موجود ہیں۔

  • سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ وزنی بلیک ہول دریافت

    سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ وزنی بلیک ہول دریافت

    ملکی وے یعنی ہماری کہکشاں کے برابر موجود کہکشاں میں ایک نایاب بلیک ہول دریافت ہوا ہے جس کا وزن ہمارے سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہے۔

    ماہرین فلکیات نے ملکی وے کہکشاں کی پڑوس میں موجود بڑی کہکشاں میں ایک نایاب بلیک ہول دریافت کیا ہے، اس بلیک ہول کا وزن متوسط درجے کا ہے اور یہ تیسری قسم کا نایاب بلیک ہول ہے جو حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے۔

    یہ بلیک ہول اینڈرومیڈا کہکشاں میں B023-G078 نامی ستاروں کے جھرمٹ میں پایا گیا۔

    میسیئر 31 یا ایم 31 کے نام سے بھی جانی جانے والی اینڈرومیڈا کہکشاں ہماری ملکی وے کہکشاں کے سب سے قریب اسپائرل کہکشاں ہے۔

    نئے دریافت ہونے والے بلیک ہول کا وزن ہمارے سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہے، یہ کہکشاؤں کے درمیان میں پائے جانے والے بلیک ہولز (سپر میسِو بلیک ہولز) سے چھوٹا لیکن ستاروں کے پھٹنے پر بننے والے بلیک ہولز (اسٹیلر بلیک ہولز) سے بڑا ہے۔

    اس حوالے سے ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ انٹرمیڈیٹ یعنی متوسط بلیک ہولز وہ سبب ہوتے ہیں جن سے سپر میسو بلیک ہولز بڑھتے ہیں۔

    آسٹروفزیکل جرنل میں شائع ہونے والی یہ نئی تحقیق ہوائی میں قائم جمنائی نارتھ ٹیلی اسکوپ میں نیئر انفرا ریڈ انٹیگرل فیلڈ اسپیکٹروگراف کے فراہم کردہ ڈیٹا پر مبنی تھی۔

    ماہرینِ فلکیات نے بلیک ہول کے وزن کی پیمائش اس کے گرد گھومنے والی گیس اور گرد کی حرکت سے کی۔